السلام علیکم
حمل مانع ادویات اور خاس طور پر چھلے کا استعمال ناجائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
مانع حمل کی ایک صورت IUCD یا چھلا ہوتا ہے جو ایک سے پانچ سال تک بچے دانی میں رہ سکتا ہے ۔ یہ تربیت یافتہ فرد کی مدد سے بچہ دانی میں رکھا جاتا ہے ۔چھلہ ماہواری آنے کے شروع کے پانچ دنوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ حمل کا خدشہ نہ ہو۔ چھلہ پلاسٹک یا پلاسٹک کے علاوہ تانبے کے بنے ہوتے ہیں ۔ جب بچے کی خواہش ہو تو آسانی سے نکالا جاسکتا ہے ۔
البتہ اکثر علماء نے ضرر کے باعث مانع حمل کے لیے ادویات اور جدید ذرائع استعمال کرنے سے دور رہنے کی رغبت دلائی ہے اور مانع حمل کی ہر صورت میں عزل کی صورت اختیار کرنا زیادہ اقرب الی الاستحباب کہا ہے ، کیونکہ عزل شرعاً درست ہے ۔ واضح رہے عزل سے مراد وقتِ انزال مرد کا عورت سے علیحدہ ہوجانا ہے ۔
چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن بھی نازل ہو رہا تھا۔"
- صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:5208،5209
- صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:1440
- صحیح مسلم میں ہے کہ اسحاق بن ابراہیم نے اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں کہ اگر کسی چیز سے روکا جانا ہوتا تو قرآن ہمیں اس عمل سے ضرور روکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع فرمایا
تاہم سماحةالشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
امت اس امر کی بہت زیادہ محتاج ہے کہ اس کی تعداد کثرت میں ہو تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں، اور اللہ کی توفیق سے مسلمانوں کا ان کے دشمنوں سے دفاع کرنے والے ہوں۔
واجب یہ ہے کہ منع حمل وغیرہ کے حیلے بہانے وغیرہ چھوڑے جائیں اور انتہائی خاص اہم ضرورت کے علاوہ اس کے استعمال کی اجازت نہ دی جائے۔ اور جہاں فی الواقع ضرورت ہو مثلا عورت کے رحم میں کوئی بیماری اور خرابی ہو یا کوئی اور بیماری لاحق ہو جس میں حمل نقصان دہ ہو یا بچے بہت زیادہ ہو گئے ہوں کہ اب مزید کے لیے اس کی صحت متحمل نہ ہو سکتی ہو تو حسب ضرورت اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ بچے زیادہ ہوں تو وقفہ بڑھانے کے لیے گولیاں استعمال کی جا سکتی ہیں تاکہ سال دو سال کے لیے کچھ توقف ہو جائے اور عورت کو راحت مل جائے اور بچوں کی کماحقہ تربیت بھی کر سکے۔ لیکن اگر یہ گولیاں وغیرہ اس غرض سے استعمال کی جائیں کہ ملازمت اور نوکری کے لیے فراغت رہے، یا ویسے ہی رفاہیت (اور بے فکری) کی زندگی گزارے، یا اسی طرح کے دوسرے حیلے بہانے جو عام طور پر عورتیں بیان کرتی ہیں، تو یہ قطعا جائز نہیں ہیں۔
دیکھیے : احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا/صفحہ : 472
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment