FITRANA K AHKAM


صدقہ الفطر (فطرانہ) کے احکام و مسائل

 

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
  صدقةالفطر کی شرعئی حیثیت :
فطرانے کی فرضیت پر اجماع ہے۔
(الاجماع لابن المنذر :
٤٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں پر فطرانہ فرض قرار دیا ہے، وہ غلام ہو ، آزاد ہو، مرد ہو ،عورت ہو،چھوٹا ہو یا بڑا ہو، فطرانے کی مقدار ایک صاع ''کھجور ''یا ''جو''ہے۔''
(صحیح البخاری :
١٥٠٣، صحیح مسلم : ٩٨٤)
- تنبیہ :
فطرانہ مسلمان غلام پر فرض ہے ، کافر پر نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیس فی العبد صدقۃ الّا صدقۃ الفطر ۔
''غلام پر سوائے صدقہ فطر کے زکوۃ واجب نہیں۔''(صحیح مسلم :
٩٨٢)
یہ حدیث عام ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے کہ عبد سے مراد مسلمان غلام ہے۔
- فائدہ :
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم بصدقۃ الفطر قبل أن تنزل
الزّکاۃ ، فلمّا نزلت الزّکاۃ لم یأمرنا ولم ینھنا ، ونحن نفعلہ ۔
''زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ منع فرمایا ، البتہ ہم اسے ادا کرتے رہے۔''
(مسند الامام احمد :
٦/٦، سنن النسائی : ٢٥٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/١٥٩٩، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (
٢٣٩٤) اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤١٠٠) نے ''صحیح'' کہا ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا لا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العبادۃ لا یوجب
نسخ الأصل المزید علیہ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأموال ومحلّ زکاۃ الفطر الرّقاب ۔
''اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقہ فطر واجب نہیں رہا،
کیونکہ عبادت میں کسی اضافے سے اصل منسوخ نہیں ہوتی۔یہ فرق
بھی ملحوظ رہے کہ زکوۃ مال پر اور صدقہ فطر جان پر فرض ہے۔''
(معالم السنن :
٢/٢١٤)
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار
كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.
شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
صدقہ فطر کا وقت
بہتر ہے آخری عشرہ میں ادا کیا جائے اگر عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو فطرانہ نہیں ہو گا۔
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
«فَرَضَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ زَکٰوةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِّلصِّيَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِّلْمَسَاکِيْنِ مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِیَ زَکٰوةٌ مَّقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلٰوةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِّنَ الصَّدَقَاتِ»صحيح ابوداؤد كتاب الزكاة-باب زكوة الفطر
نبی کریم ﷺ نے تو روزہ دار کو بیہودگی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء ومساکین کو خوراک مہیا کرنے کے لیے صدقہ فطر فرض کیا ہے جو شخص عید کی نماز سے قبل یہ صدقہ ادا کرے تو اس کا صدقہ مقبول ہے اور جو شخص نماز کے بعد صدقہ ادا کرے تو یہ نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے‘‘
احکام و مسائل/زکٰوۃ کے مسائل/ جلد :1/صفحہ : 275
صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے ادا کیا جائے:
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔
🌟 ملحوظ:
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔
یتیم اور دیوانے کا صدقہ
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘
غرباء بھی صدقۃ الفطر ادا کریں:
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،
چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو
لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اسکے
گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)
۔|
فتاویٰ علمائے حدیث
/جلد 7 صفحہ 59۔64
کیافطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزے آسمان و زمين كے مابين معلق رہتے ہيں
تو عرض ہے کہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں
اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں "
* سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے،
* مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہےيہ
صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے"
* اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 )
ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے
" پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى
ادائيگى تک رمضان المبارك كےروزوں كى قبوليت موقوف رہیگى، توجو شخص فطرانہ
ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى
بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا.
صدقةالفطر کی جنس :
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
اور اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں
۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
صدقةالفطر کی مقدار
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
صحیح مسلم صفحہ
۳۱۸ /جلد ۱
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة))(بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیح اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)
صاع نبوی کی تحقیق :
صاع نبوی یا صاع ابن ابی ذئب پانچ رطل اور ۳؍۱ رطل کا تھا جو انگیزی اوزان کے اعتبار سے ۲ سیر ۱۰ چھٹانک اور ۴ماشہ کے برابر ہے۔ اب انگریزی نظام کی جگہ اعشاری نظام وزن جڑ پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا اب حضرت مفتی مولانا محمد صدیق سرگودھوی رحمہ اللہ اور دوسرے اہل علم کے مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اس لئے اب غلہ کی ہر ایک جنس میں سے فی کس اڑھائی کلو گرام صدقہ فطر ادا کرنا فرض اور ضروری ہے۔
صاع کا وز ن :
صاع وزن کا پیما نہ نہیں بلکہ ما پ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وزن کے پیما نے مو جو د تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے لیے وزن کے بجا ئے ما پ کے پیما نہ کا انتخا ب کیا اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کا احیا کیا جائے ویسے صاع کا وزن مختلف اجنا س کے لحا ظ سے مختلف ہو تا ہے صاع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدا ر 33۔5رطل تھی (فتح الباری :1/305)
مختلف فقہا کی تصریح کے مطا بق ایک رطل نو ے مثقال کا ہو تا ہے اس حسا ب سے 33۔5رطل(صا ع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے 480 مثقا ل بنتے ہیں ایک مثقا ل ساڑھے چا ر ما شہ کا ہو تا ہے اس حسا ب سے 480 مثقا ل کے دوہزا ر ایک سو سا ٹھ (2160)ما شے ہو ئے چو نکہ ایک تو لہ میں با رہ ما شے ہو تے ہیں لہذا با رہ تقسیم کر نے سے ایک سوا سی (180) تولہ وز ن بنتا ہے جد ید اعشا ری نظا م کے مطا بق تین تو لہ کے 35 گرام ہو تے ہیں اس حسا ب سے 2100گرا م یعنی دو کلو سو گرا م ہے پرا نے حسا ب کے مطا بق 180 تو لہ کا وزن دو سیر چا ر چھٹا نک ہے ہمارے اس مو قف کی تا ئید اس پیما نہ صاع ا سے بھی ہو تی ہے جو مو لا نا احمد اللہ دہلو ی رحمۃ اللہ علیہ مد ینہ منو رہ سے لا ئے تھے جس کی مقدا ر دو سیر چا ر چھٹا نک بھی نیز وہ مد ینہ سے ایک مد بھی لا ئے تھے جس کی با قاعدہ سند تھی اس کی مقدار نو چھٹا نک تھی وا ضح رہے کہ ایک صا ع میں چا ر مد ہوتے ہیں اس کے علا وہ مو لا نا عبد الجبا ر رحمۃ اللہ علیہ کے پا س ایک صا حب مد کا پیما نہ لا ئے تھے جس کا و ز ن کیا گیا تو نو چھٹا نک کا تھا ۔(فتا وی اہلحدیث :2/72)
اگر چہ کچھ اہل حدیث حضرا ت صاع کا وز ن پو نے تین سیر مو جو د اعشاری نظا م کے مطا بق اڑھا ئی کلو بتا تے ہیں ہم نے اپنی تحقیق نقل کر دی ہے اگر اس سے کسی کا اتفا ق نہ ہو تو وہ اپنی تحقیق کے مطا بق فطرا نہ ادا کرتا رہے ضروری نہیں کہ وہ ہما ری پیش کر دہ تحقیق سے متفق ہو
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:225
رقم اور نقدی کی صورت میں:
اگر کوئی شخص گندم یا چاول کے بجائے رقم یا نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گندم یا چاول کی جو نوع (قسم) خود کھاتا ہے وہ اس کی قیمت فی کلو گرام کے حساب سے اڑھائی کلو گرام کی قیمت ادا کرے۔مثلاً: اگر آپ پانچ روپے فی کلو گرام والا آٹا کھاتے ہیں تو آپ کو ساڑھے بارہ روپےفی کس ادا کرنے ہوں گے۔ اور اگر آپ ایک وقت چاول اور ایک وقت روٹی کھانے کا معمول رکھتے ہیں۔ اور آپ آٹا پانچ روپے فی کلو گرام کھاتے ہیں۔ اور چاول انیس روپے کلو ہوں تو اس حساب سے آپ کو تیس روپے فی کس ازراہ احتیاط ادا کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایک وقت چاول کھانے کے باوجود (صرف گندم یا) گندم کے آتے کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کر دیں گے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی تفصیل مروی نہیں کہ دونوں وقتوں کی مختلف غذاؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
دیکھیے : فتاویٰ محمدیہ
/ جلد1/صفحہ 565
فطرانہ کی نقد ادائیگی :
رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود اور اسکے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار مبارکہ میں اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں۔ درہم و دینار تھے تو وہ بھی سونے اور چاندی کی جنس سے ہی بنے ہوئے۔ جس طرح آج پیپر کرنسی, یا چپ کرنسی, یا الیکٹرانک کرنسی کا دور ہے اسکا تصور بھی اس زمانہ میں موجود نہ تھا۔ وہ لوگ اجناس کا ہی تبادلہ کرتے تھے۔ کبھی غلہ واناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا کبھی اناج کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ۔ اور اسلام میں یہی اصل کرنسی ہے, جو ڈی ویلیو نہ ہوسکے۔ مروجہ پیپر کرنسی وغیرہ تو اصل زر نہیں ہیں بلکہ یہ مالیت کی رسیدیں ہیں, شرعی طور پہ انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت یہود کی سازشوں کی نتیجہ میں پوری دنیا اس بے قیمت کرنسی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ اور مجبورا تمام تر لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اسکے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی ۔ لیکن عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے , تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں , اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے , تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا اللہ عنہ
ہما ر ے ہا ں عا م طو ر پر غر با کی ضرورت کے پیش نظر صدقہ فطر میں نقدی دی جا تی ہے حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے قیمت ادا کرنا ثا بت نہیں ہے بلکہ عہد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور خلا فت را شد ہ میں میں فطرانہ اجنا س خو ردنی سے ادا کیا جا تا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرا نہ کا مقصد مسا کین کی خو را ک ٹھہرا یا ہے اس کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ فطرا نہ میں اشیا ئے خو ردنی ہی ادا کی جا ئیں امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل ( رحمۃ اللہ علیہ ) صرف جنس ہی ادا کر نے کے قائل ہیں محدثین کرا م میں سے کسی نے بھی اس با ت کی صرا حت نہیں کی کہ فطرا نہ میں قیمت دی جا سکتی ہے بلکہ محد ث ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان یو ں قا ئم کیا ہے ۔"اس با ب میں صدقہ فطر کے طور پر ہر قسم کی اشیا ئے خوردنی ادا کر نے کا بیا ن ہے نیز اس شخص کے خلا ف دلیل ہے صدقہ فطر میں پیسے اور نقدی ادا کر نے کو جا ئز خیا ل کر تا ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ )
اس کے بعد انہو ں نے حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا قو ل نقل کیا ہے کہ رمضان کا فطر انہ ایک صاع طعا م سے ادا کیا جا ئے جو گند م سے قبو ل کی جا ئے گی نیز جو کھجور منقی وغیرہ کو بھی قبو ل کیا جا ئے گا حتی کہ انہوں نے آٹے ستو کا بھی ذکر فر ما یا ہے لیکن اس میں قیمت کا کو ئی ذکر نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ لو گ فطرا نہ میں قیمت ادا کر نے سے با لکل نا آشنا تھے ۔(صحیح ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ )
علا مہ ابن حز م رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ فطرا نہ میں قیمت ادا کرنا بالکلنا جا ئز ہے کیو نکہ قیمت کا ادا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ہے نیز حقو ق العبا د میں فر یقین کی رضا مند ی سے قیمت ادا کی جا سکتی ہے جب زکو ۃ کے وقت کو ئی ما لک نہیں ہو تا جس کی اجا زت کا اعتبا ر کیا جا ئے ۔(محلیٰ ابن حز م :6/137)
محد ث العصر علا مہ عبید اللہ مبا رک پو ری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صدقہ فطر میں قیمت نہ دی جا ئے بلکہ جنس ادا کی جا ئے البتہ کسی عذر کے پیش نظر قیمت ادا کی جا سکتی ہے ۔(مرعا ۃ المفا تیح :4 /100)
عذر کی صورت یو ں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص روزا نہ با زا ر سے آٹا خرید کر استعما ل کر تا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ با زا ر سے غلہ خرید کر صدقہ فطر ادا کر ے بلکہ وہ بازا ر کے نر خ کے مطا بق اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے ۔
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 /صفحہ:225
فطرانہ کیلئے غذائی اجناس دینا واجب ہے، نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر فقراء غذائی اجناس قبول نہ کریں ، اور نقدی کا مطالبہ کریں تو اس وقت نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز ہوگا، اور انکا مطالبہ غذائی اجناس سے فطرانہ ادا نہ کرنے کا عذر بن سکتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص کو یہ علم ہو کہ فطرانہ غذائی اجناس سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن وہ نقدی کی صورت میں فطرانہ ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے لئے فطرانہ ادا کرنا آسان اور مشقت طلب نہیں ہے، تو یہ فطرانہ کفایت نہیں کریگا۔
لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اگر کوئی ایسا فقیر نہیں ملتا جو چاول، کھجور، گندم فطرانے میں قبول کرے، بلکہ سب نقدی کا مطالبہ کرتے ہیں ، تو اس وقت نقدی سے فطرانہ ادا کرینگے، چنانچہ مناسب غذائی جنس کے ایک صاع کی قیمت کے برابر رقم ادا کردی جائے گی"انتہی
۔|
"فتاوى نور على الدرب"
🔸 چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک بہت بڑے فقیہ و امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه المتوفی362) کہتے ہیں:
أداء القيمة أفضل؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه،
والتنصيص على الحنطة والشعير كان؛ لأن البياعات في ذلك الوقت بالمدينة يكون
بها فأما في ديارنا البياعات تجرى بالنقود، وهي أعز الأموال فالأداء منها أفضل
صدقۃ الفطر میں قیمت دینا ہی افضل ہے اس لئے کہ اس میں فقیرومحتاج کے لئے زیادہ فائدہ
ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ فوراجو چاہےخرید سکتاہے۔اور حدیث میں گیہوں،جو (وغیرہ)
کا ذکر اس لئے ہے کیونکہ اس وقت مدینہ میں خریدو فروخت انہیں چیزوں سے ہوتی تھی
(یعنی غلے اسوقت بطورکرنسی چلتےتھے) لیکن ہمارے علاقوں میں نقدی کےذریعہ خریدوفروخت
ہوتی ہے اور یہ اموال میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس لئے اسی سے صدقہ الفطر اداء کرنا افضل ہے۔
[المبسوط للسرخسي : 3/ 107]
🔸امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه کے بارے میں امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562) کہتے ہیں:
كان إماما فاضلا ۔۔۔ حدث بالحديث
یہ امام اورفاضل تھے ۔۔۔انہوں نے حدیث کی روایت کی
[الأنساب للسمعاني، ت المعلمي: 13/ 432]
🔸امام ذہبی(المتوفى748)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من براعته في الفقه يقال له أبو حنيفة الصغير توفي ببخارى وكان شيخ تلك الديار في زمانه
فقہ میں آپ کی مہارت کا یہ حال تھا کہ انہیں ابوحنیفہ الصغیر کہا جاتا تھا ،
یہ بخاری میں فوت ہوئے اور اپنے زمانے میں وہاں کے شیخ تھے
[العبر في خبر من غبر 2/ 334]
🔸 امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
من يضرب به المثل۔۔۔أخذ عنه أئمة
یہ ایسے تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی تھی۔۔۔ان سے ائمہ نے علم حاصل کیا ہے۔
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 131]
یہ حوالہ ہم اس لئے دے رہے ہیں کیوں کہ بعض حضرات نے بڑی عجلت اور انتہائی بے باکی سے یہ دعوی کردیا کہ گذشتہ چودہ سوسال کے اندر کسی نے بھی قیمت دینے کو افضل نہیں کیا ہے اورنہ کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ طعام بطور کرنسی دئے جاتے تھے ۔ہمارے پاس اوربھی حوالے ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، کیونکہ یہ حوالے اصل دلائل نہیں ہیں ۔
فطرانہ کی نقد ادائیگی شریعت کے منافی: سعودی مفتیِ اعظم
سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اور سینیر علماء کمیشن اور افتاء کونسل کے سربراہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ حاجت مندوں کو زکوٰۃ الفطر (صدقۂ فطر) کی نقدی کی شکل میں ادائی اسلامی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''زکوٰۃ فطر خوراک کی شکل میں غریبوں اور حاجت مندوں کو ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح عیدالفطر کی خوشیاں منا سکیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''زکوٰۃ الفطر نماز عید ادا کرنے سے پہلے ادا کر دی جانی چاہیے اور یہ زکوٰۃ انہی ممالک میں ادا کی جا سکتی ہے جہاں مسلمان موجود ہوں''۔
بہ الفاظ دیگر غیر مسلموں کو زکوٰۃ الفطر ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔
میں کویت میں مقیم ہوں جبکہ میرے اہل خانہ پاکستان میں ہیں۔ کیا وہ میری طرف سے صدقہ فطر ادا کرسکتے ہیں اگر ادا کرسکتے ہیں تو کس حساب سے دیں گے؟
صدقہ فطر کے دومقاصد ہیں:ایک تو روزوں کی تطہیر کا باعث ہے اور دوسرا مساکین کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔پہلے سبب کی وجہ سے صدقہ فطر روزے دار کے بدن کے تابع ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے وہ خود اپنی طرف سے صدقہ فطرا دا کرے۔ہمارے نزدیک قیمت کی بجائے جنس سے اس کی ادائیگی ہونی چاہیے،کیونکہ محدثین کرام کا یہی موقف ہے ۔اگر اس نے قیمت ادا کرنی ہے تو ظاہر ہے جس ملک میں وہ رہائش پذیر ہے اسی ملک کی کرنسی کے مطابق وہ اس کی ادائیگی کرنے کا پابند ہے۔ البتہ یہ جائز ہے کہ اس کی طر ف سے پاکستا ن میں رہنے والے اہل خانہ صدقہ فطر ادا کریں لیکن قیمت ادا کرتے وقت اس ملک کی کرنسی کا اعتبار کرنا ہوگا۔جہاں وہ خود رہائش پذیرہے۔نیز اگر رہائشی ملک میں صدقہ فطر لینے والے مساکین نہیں ہیں تو اس صورت میں کسی دوسرے ملک میں رہنے والے اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرسکتے ہیں تاکہ وہاں کے مساکین کو دیاجاسکے۔اسی طرح اگر کوئی دائمی بیمار یا بوڑھا اپنے روزوں کا فدیہ دینا چاہتا ہو تو اسے بھی چاہیےکہ اپنے ملک کے حساب سے اس کی ادائیگی کرے،مثلاً: پاکستان میں تقریباً۔/1500 روپے میں ایک ماہ تک دوٹائم کا کھانا کھایا جاسکتا ہے،جبکہ کویت میں رہنے والے حضرات کم از کم تقریباً ایک دینار روزانہ کے حساب سے فدیہ ادا کریں گے۔ اسی طرح انہیں پاکستانی کرنسی میں تقریباً چھ ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ بہرحال دوسرے ممالک کے رہنے والے اسکی طرف سے صدقہ فطر ادا کرسکتے ہیں اور انہیں فدیہ بھی دیا جاسکتا ہے۔لیکن اخراجا ت کےلئے اپنے اس ملک کی کرنسی کا اعتبار ہوگا جہاں وہ رہائش رکھے ہوئے ہے۔
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:2 /صفحہ:212
کیا فطرانہ اپنے ہی شہر کے فقراء میں تقسیم کیا جائے
سنت یہ ہے کہ صدقہ فطر اپنے ہی شہر کے فقراء میں تقسیم کیا جائے اور یہ نماز عید سے پہلے، عید کے دن کی صبح تقسیم کر دیا جائے۔ عید سے ایک یا دو دن پہلے تقسیم کرنا بھی جائز ہے یعنی رمضان المبارک کی اٹھائیں تاریخ سے تقسیم کرنا شروع کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص عید سے ایک یا دو دن پہلے سفر کرے تو وہ اسی اسلامی ملک میں تقسیم کرے جہاں سفر کر کے جا رہا ہو اور اگر وہ غیر اسلامی ملک ہو تو وہاں مسلمان فقراء کو تلاش کر کے ان میں تقسیم کر دے اور اگر سفر اس وقت شروع ہو جب صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہو تو پھر اپنے ہی شہر ہی میں تقسیم کر دے کیونکہ مقصود فقیروں کی ہمدردی و خیر خواہی، ان کے ساتھ نیکی اور انہیں عید کے دن لوگوں سے مانگنے سے روکنا ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : 2
کیا صدقے کی نیت سے زکوٰۃ فطر مقرر مقدار سے زیادہ دینا بھی جائز ہے؟
ہاں یہ جائز ہے کہ انسان فطرانہ زیادہ دے دے اور زیادہ کے بارے میں صدقے کی نیت کر لے جیسا کہ آج کل بعض لوگ ایسا کیا کرتے ہیں، مثلاً: اگر کسی کودس آدمیوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ہے، اس غرض سے وہ چاولوں کی ایک بوری خرید کر اپنے اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے صدقہ فطر کے طور پر دے دیتا ہے تو اس شخص کا یہ تعامل جائز ہے بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ یہ بوری اس کے ذمے واجب صدقے کے مطابق ہے یا اس سے زیادہ ہے کیونکہ صدقے کا وزن اسی لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ مقدار اس کے مطابق ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس بوری میں یہ مقدار پوری ہےاور پھر ہم یہ بوری فقیر کو دے دیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/زکوٰۃکےمسائل/صفحہ : 355
صدقةالفطرکی ادائیگی کا صحیح وقت :
فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کرنا واجب ہے؛ اسکی دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھلانے کے لئے فطرانہ مقرر فرمایا، لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے اس کا صدقہ مقبول ہوگا، اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا"
ابو داود (1609) اور ابن ماجہ (1827) نے اسے رویات کیا ہے، اورالبانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود وغيره میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
حدیث میں ظاہری طور پر فطرانے کیلئے وقت کی حد بندی نما ز عید کیساتھ ہے، چنانچہ جیسے ہی مقرر شدہ امام نماز سے فارغ ہوگا فطرانہ ادا کرنے کا وقت گزر جائے گا، یہاں منفرد کی نماز کا اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اگر ہم منفرد کی نماز کو معتبر سمجھتے ہیں تو اس سے وقت کی حد بندی مشکل ہوجائے گی، چنانچہ امام کی نماز کو معتبر سمجھا گیا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص گاؤں جیسی جگہ میں ہو جہاں نمازِ عید کا اہتمام نہیں ہوتا ، تو قریب ترین شہر کے وقت کے مطابق فطرانہ ادا کرینگے۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتےہیں:
"نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا افضل ہے، اور جہاں نماز عید کا اہتمام نہ ہو تو وہاں نماز عید پڑھنے کے وقت کا اندازہ لگا کر فطرانہ ادا کرنے کا وقت مقرر کیا جائے گا؛ کیونکہ ابن عمر کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگوں کے نماز کیلئے نکلنے سے پہلے فطرانہ ادا کیا جائے، اگرچہ ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ : افضل یہ ہے کہ نماز کیلئے عید گاہ جاتے ہوئے فطرانہ ادا کیا جائے"انتہی
"كشاف القناع" (2/252)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدقۃ الفطر رمضان کے پہلے عشرے میں ادا کرنا :
زکوٰۃ فطر کی اضافت فطر کی طرف ہے کیونکہ فطر ہی اس کا سبب ہے، اس لئے جب فطر رمضان ہی اس کفارے کا سبب ہے تو یہ اسی کے ساتھ مقید رہے گا، لہٰذا اس سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے لیکن اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لینے اور دینے والے دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اس سے زیادہ ایام قبل بطور پیشگی زکوۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا اس کے لیے دو وقت ہیں:
(۱) وقت جواز اور وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت ہے۔
(۲) وقت فضیلت اور وہ عید کے دن نماز سے پہلے کا وقت ہے۔ نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرنا حرام ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے:
«مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ» سنن ابی داود، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۲۷۔
’’جس نے اسے(صدقہ فطر)کو نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کا شمار صدقات میں سے ایک عام صدقہ میں ہوگا۔‘‘
اگر آدمی کو عید کے دن کا پتہ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا اس کا علم اسے تاخیر سے ہوپائے یہ یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں نماز عید کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/زکوٰۃ کے مسائل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدقةالفطر ادا كرنے كا وقت :
كيا فطرانہ كى ادائيگى كا وقت نماز عيد كے بعد سے اس دن رات تك ہے ؟
فطرانہ كا وقت نماز عيد كے بعد سے شروع نہيں ہوتا، بلكہ اس كا وقت رمضان كے آخرى دن كے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے جو كہ شوال كى پہلى رات ہوتى ہے ( اور اسے چاند رات كہا جاتا ہے ) اور يہ وقت نماز عيد كے وقت ختم ہو جاتا ہے.
اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد سے قبل فطرانہ ادا كرنے كا حكم ديا ہے.
اور اس ليے بھى كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" جس نے نماز عيد سے قبل فطرانہ ادا كيا تو يہ فطرانہ قبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہے "
سنن ابو داود ( 2 / 262 - 263 ) حديث نمبر ( 1609 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 585 ) حديث نمبر ( 1827 ) سنن دار قطنى ( 2 / 138 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 409 ).
اور فطرانہ عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كرنا بھى جائز ہے، كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان سے فطرانہ فرض كيا ..... "
اور اس كے آخر ميں كہا:
" اور صحابہ كرام ايك يا دو دن قبل ہى ادا كر ديا كرتے تھے "
چنانچہ جس نے بھى عمدا وقت كے بعد ادا كيا تو وہ گنہگار ہے، اسے اس تاخير ميں توبہ كرنى چاہيے اور وہ فقراء ميں تقسيم كرے"
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيے : فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء فتوى نمبر ( 2896 ).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا کیسا ہے ؟
اول:
فطرانہ كى ادائيگى كے وقت ميں اہل علم كے كئى ايك اقوال ہيں:
پہلا قول:
عيد سے دو روز قبل ادا كيا جائے، مالكيہ، حنابلہ كا مسلك يہى ہے انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" اور وہ عيد الفطر سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "(صحيح بخارى حديث نمبر ( 1511 ).
اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ: عيد سے تين روز قبل فطرانہ ادا كيا جائے.
امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مجھے نافع نے بتايا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فطرانہ دے كر فطرانہ جمع كرنے والے كے پاس عيد سے دو يا تين روز قبل بھيجا كرتے تھے "
ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 385 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 14 / 216 ).
دوسرا قول:
رمضان المبارك كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، احناف كے ہاں اسى كا فتوى ہے، اور شافعيہ كے ہاں بھى يہى صحيح ہے.
ديكھيں: كتاب الام ( 2 / 75 ) المجموع ( 6 / 87 ) بدائع الصنائع ( 2 / 74 ).
ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ فطرانہ كا سبب روزہ ركھنا اور روزے ختم ہونا ہے، اور جب دونوں سببوں ميں سے كوئى ايك پايا جائے تو اس ميں جلدى كرنى جائز ہے، جس طرح مال كى زكاۃ كى ادائيگى بھى پہلے كى جا سكتى ہے، كہ جب مال نصاب كو پہنچ جائے تو سال پورا ہونے سے قبل زكاۃ دينى جائز ہے.
تيسرا قول:
سال كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، يہ بعض احناف اور بعض شافعيہ كا قول ہے، ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ يہ بھى زكاۃ ہے، تو يہ مال كى زكاۃ كى مشابہ ہونے كى بنا پر مطلقا پہلے ادا كرنا جائز ہے.
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں لكھتے ہيں:
" فطرانہ كے فرض ہونے كا سبب روزے ختم ہونا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اس كى اضافت ہى اس ( يعنى روزے ) كى طرف كى گئى ہے، اور اس سے مقصود ايك مخصوص وقت ميں اس سے مستغنى ہونا ہے، اس ليے اس كى وقت سے پہلے ادائيگى جائز نہيں " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 2 / 676 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ پہنچنے سےپہلے رمضان کےآغازمیں فطرانہ اداکردیا !! کیا مکہ پہنچ کر فطرانہ دوبارہ اداکرےگا؟
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
" ميں نے مكہ آنے سے قبل مصر ميں ہى رمضان كے شروع ميں فطرانہ ادا كر ديا تھا، اور اب ميں مكہ مكرمہ ميں مقيم ہوں، تو كيا ميرے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جى ہاں آپ كے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے، كيونكہ آپ نے فطرانہ وقت سے قبل ادا كيا ہے، فطرانہ كى اضافت اس كے سبب كى جانب ہے، اور آپ چاہيں تو يہ بھى كہہ سكتے ہيں: اس كى اضافت اس كے وقت كى جانب ہے، اور ان دونوں صورتوں كى عربى لغت ميں وجوہات ہيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
" مكر الليل و النھار "
يہاں كسى چيز كى اس كے وقت كى طرف اضافت ہے، اور اہل علم كا كہتے ہيں: باب السجود السہو، يہ كسى چيز كى اس كے سبب كى جانب اضافت ہے.
تو يہاں فطرانہ كو فطر كى طرف مضاف كيا گيا ہے، كيونكہ يہ فطرانہ كا سبب ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ فطرانہ كى ادائيگى كا وقت ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ رمضان المبارك كے روزوں سے مكمل افطار، تو رمضان المبارك كے آخرى دن ہوتى ہے، اس ليے رمضان المبارك كے آخرى يوم كا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا كرنا جائز نہيں.
ليكن عيد الفطر سے صرف ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كرنے كى اجازت دى گئى ہے، وگرنہ فطرانہ كى ادائيگى كا حقيقى وقت تو رمضان المبارك كے آخرى روزے كا سورج غروب ہونے كے بعد ہى ہے؛ اس ليے كہ يہى وہ وقت ہے جس سے رمضان كا اختتام ہوتا اور عيد الفطر آتى ہے، اس ليے ہم كہينگے كہ:
افضل يہى ہے کہ اگر ممكن ہو سكے تو عيد الفطر كى صبح فطرانہ ادا كیا جائے .
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين زكاۃ الفطر سوال نمبر ( 180 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كاوکیل بنانا :
کسی كے ليے رمضان المبارك كے شروع ميں ہى كسى خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كا وكيل بنانا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وكيل عيد سے ايك يا دو دن قبل آپ كا فطرانہ تقسيم كرے، كيونكہ مشتحقين فقراء اور مساكين كو زكاۃ اور فطرانہ دينا ہى شرعى زكاۃ اور شريعت نے اس كى وقت كو مقيد كرتے ہوئے عيد سے ايك يا دو روز قبل مقرر كيا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدقۃ الفطر کی ادائیگی کس عشرہ میں ہو؟
صدقۃ الفطر کی فرضیت کا سبب فطر رمضان ہے۔اس بنا پر صدقہ ،فطر کے ساتھ مقید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے فطر رمضا ن سے پہلے نہیں ادا کرنا چاہیے تاہم اس کی ادائیگی کے دووقت ہیں:
(۱)وقت جواز ،یہ عید سے ایک یا دودن پہلے ہے یعنی اسے عید سےایک یا دودن پہلے ادا کیا جاسکتاہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے سرکاری طورپر صدقہ وصول کرنے والوں کے حوالے کردیتے تھے۔(صحیح بخاری،الزکوٰۃ:۱۵۱۱)
(۲)وقت فضیلت : یہ عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :‘‘جس نے صدقہ فطر نما زسے پہلے ادا کردیاتو یہ صدقہ قبول ہوگا اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔’’ (سنن ابی داؤد،الزکوٰۃ:۱۶۰۹)
اگر کوئی نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے اس سے صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ان تصریحات کے پیش نظر ہمارا رحجان یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے ۔اہل علم کے ہاں راجح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کو اس قدر قبل ازوقت ادا کرنا درست نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد 2 /صفحہ 212
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان كى ابتدا ميں خيراتى تنظيم كو فطرانہ كى قيمت ادا كر دي
كسى خيراتى تنظيم كارمضان كے ابتدا ميں فطرانہ كى رقم لينا :
جب علاقے اور ملك ميں فقراء و مساكين ناپيد ہو جائيں يا پھر جو لوگ زكاۃ اور فطرانہ ليتے تھے انہيں ضرورت نہ ہو يا وہ نہ كھاتے ہوں بلكہ وہ اسے نصف قيمت مين فروخت كرنا شروع كر ديں اور فطرانہ تقسيم كرنے كے ليے كھانے والے فقراء كى تلاش مشكل ہو جائے تو پھر اسے علاقے سے منتقل كرنا جائز ہے، اور رمضان كى ابتداء ميں ہى اس كى قيمت وكيل كو ادا كرنى جائز ہے تا كہ وہ خريد كر وقت كے مطابق مستحقين تك پہنچا سكے، يعنى عيد كى رات يا عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كر سكے" واللہ اعلم.
دیکھیے : الفتاوى الجبرينيۃ فى الاعمال الدعويۃ فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين ( 33 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سستی کی وجہ سے فطرانہ ادا نہیں کیا :
"فطرانے کو عید کے دن سے مؤخر کرنے کے بارے میں ابن رسلان کہتے ہیں کہ: یہ کام بالاتفاق حرام ہے؛ کیونکہ فطرانہ واجب ہے، اس لئے واجب کی تاخیر میں گناہ پایا جانا ضروری ہے، جیسے نماز کو اس کے وقت سے نکالنے پر گناہ ملتا ہے"انتہی
اس لئے جس شخص نے پہلے سے فطرانہ ادا نہیں کیا تو گذشتہ تمام سالوں کا فطرانہ ادا کرے، اور ساتھ توبہ استغفار بھی کرے، کیونکہ یہ فقراء اور مساکین کا حق ہے، اس لئے مساکین تک انکا حق پہنچنے سے ہی ادا ہوگا۔
اس موقف پر ائمہ اربعہ متفق ہیں۔
چنانچہ احناف میں سے عبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر فطرانہ عید کے دن سے بھی مؤخر کردیں تو فطرانہ ساقط نہیں ہوگا، انہیں ادا کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ چاہے [عدم ادائیگی کی مدت] کتنی ہی لمبی ہوجائے" انتہی
"الجوهرة النيرة" (1/135)
اسی طرح [مالکی فقہ کی کتاب] "مواهب الجليل شرح مختصر خليل" (2/376) میں ہے کہ:
"وقت گزرنے سے فطرانہ ساقط نہیں ہوتا، اور کتاب: "المدوّنہ" میں ہے کہ: اگر صاحب استطاعت فطرانہ کی ادئیگی مؤخر کردے تو اسے گذشتہ [عدم ادائیگی والے] سالوں کی بھی ادائیگی کرنی ہوگی"انتہی
اور [فقہ شافعی کی کتاب] "مغنی المحتاج" (2/112) میں ہے کہ:
"بلا عذر عید کے دن سے فطرانہ مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، [اور عذر یہ ہے کہ] مال فی الحال موجود نہ ہو، یا مستحقین افراد نہ ملیں، [مؤخر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تاخیر سے]فطرانے کی حکمت ہی فوت ہوجائے گی، اور وہ یہ ہے کہ خوشی کے دن فقراء کو گداگری و مانگنے کا موقع ہی نہ دیا جائے، چنانچہ اگر کوئی بنا عذر مؤخر کریگا ، گناہگار ہوگا، اور فطرانہ قضا بھی دینا ہوگا"انتہی
اور [حنبلی فقیہ] مرداوی "الإنصاف" (3/177) میں کہتے ہیں کہ:
" چاہے کوئی فوت بھی ہوجائے فطرانہ واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتا ، میرے علم میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے"انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو استطاعت کے باوجود فطرانہ ادا نہیں کرتا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
جس شخص نے فطرانہ ادا نہیں کیا اسے چاہئے کہ اللہ تعالی سے توبہ استغفار کرے؛ کیونکہ فطرانہ کی عدم ادائیگی سے وہ گناہگار ہوچکا ہے، اور اب مستحقین کو فطرانہ پہنچائے، اور فطرانہ عید کی نماز کے بعد عام صدقات کی طرح ایک صدقہ شمار کیا جائےگا"انتہی
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
فطرانہ کسی دوسرے ملک میں بھیجنا :
"ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ، اس طریقے سے فطرانہ ادا ہوجائے گا، لیکن جہاں اقامت پذیر ہوں وہیں پر فطرانہ ادا کرنا افضل ہے، چنانچہ جس جگہ مقیم ہوں وہیں پر کچھ فقراء کو دے دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، اور اگر اپنے اہل خانہ کو بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ وہیں پر فقراء میں تقیسم کردیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"انتہی
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
صدقہ فطر و زکوٰۃ وغیرہ حقیقی ہمشیرہ کو دینے کا حکم کس طرح ہے؟
الجواب :
صدقہ فطر و زکوٰۃ حقیقی ہمشیرہ وغیرہ کو باجازت امام دے سکتا ہے۔ (فتاویٰ ستاریہ ص
۹۹ جلد نمبر۱)
توضیح:… امام سے مراد امام نماز ہے، یا وہ امام جو حدود اللہ قائم کر سکے، اگر حدود اللہ قائم کنندہ امام مراد ہے، تو جس جگہ ایسا امام نہ ہو تو وہاں کے مسلمان کیا کریں، مفتی علیہ الرحمۃنے یہ عقدہ حل نہیں کیا، اور نہ ہی پس ماندہ کر سکتے ہیں۔ (الراقم علی محمد سعیدی جامعیہ سعیدیہ خانیوال)
فتاویٰ علمائے حدیث
کیا میرے لئے زکوۃ اور صدقۃ الفطر کا مال اپنے ان بہن بھائیوں کو دینا جائز ہے جو ابھی کماتے نہیں ہیں جن کی تربیت میری والدہ، میرے والد کی وفات کے بعد کرتی ہیں۔ اور کیا اپنے ان بہن بھائیوں کو زکوۃ دینا جائز ہے جو چھوٹے تو نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس مال کے محتاج ہیں اور غالبا ان کی ضرورت ان لوگوں سے زیادہ ہے، جن کو زکوۃ میں دیتا ہوں۔
الجواب :
اپنے عزیز و اقارب کو زکوۃ دینا افضل اور بہتر ہے۔ بجائے ان لوگوں کے جو آپ کے رشتہ دار نہیں ہیں۔ کیونکہ اپنے قریبی پر صدقہ کرنا (دوہرا اجر ہے) صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ لیکن اگر ایسے عزیز ہیں جن پر خرچ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے تو ان کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔ اور اگر تو ان کو اس وجہ سے زکوۃ دے کہ جو پہلے ان پر خرچ کر رہا ہے اس میں کمی ہو جائے گی تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
ہاں اگر یہ بہن بھائی جن کا آپ نے ذکر کیا ہے حاجت مند ہیں اور آپ کے مال میں اتنی گنجائش نہیں کہ آپ زکوۃ کے علاوہ ان کی مدد کر سکیں تو ان کو زکوۃ دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر ان پر قرض ہو تو آپ زکوۃ سے ان کا قرض ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ایک رشتہ دار اس بات کا پابند نہیں کہ وہ دوسرے رشتہ داروں کا قرض ادا کرے تو زکوۃ کے پیسے سے قرض ادا کر دینا جائز ہے۔ حتی کہ اگر آپ کے باپ یا بیٹے پر قرضہ ہو تو آپ کے لئے جائز ہے کہ آپ اپنی زکوۃ سے اس کی ادائیگی کر دیں بشرطیکہ یہ قرض انہوں نے اپنا وہ نان نفقہ پورا کرنے کے لئے نہ لیا ہو جو آپ پر واجب تھا۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ آپ کے لئے فرض نان نفقہ کی ادائیگی سے بچنے کا ایک حیلہ بن جائےے گا۔ واللہ اعلم
دیکھیے : فتاویٰ الصیام/صفحہ:84
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search