بِ̳̳سْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳مِ̳̳ ا̳ل̳ل̳ہِ̳̳ ا̳ل̳رَّ̳̳̳حْ̳̳مٰ̳̳نِ̳̳ ا̳ل̳رَّ̳̳̳حِ̳̳یْ̳̳مِ̳̳
ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
✍ از قلم : مسزانصاری
اذان کے وقت خاموشی ایک مستحب عمل ہے کہ اذان کو بغور سن کر اس کا جواب دیا جائے ۔ درج ذیل احادیث توجہ طلب ہیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بیان کیا کہ ”جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“
صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح848
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : " أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے وسیلہ (مقام محمود) طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ “
صحيح مسلم ، كتاب الصلاة ح 849
تاہم دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اذان کے وقت ضرورتًا بات کرنا ، درس و تدریس کی مصروفیات یا دوسرے گھریلو یا کاروباری ضروری کام جائز ہیں ۔اسی طرح بات کرنا بھی بوجہ اذان منع نہیں ہے ، اسلام میں خاموشی کے مقام و محل واضح ہیں ، لیکن اذان پر خاموشی کسی شرعئی نص سے ثابت نہیں ہے ۔ اسی طرح
اتفاقا اگر دورانِ اذان کوئی ہنس دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔کوئی شخص دورانِ گفتگو بھی اذان کا جواب دے سکتا ہے
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اذان کے دوران اور اس کے بعد کلام کرنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مؤذن اور اس کا جواب دینے کے لئے سنت یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔
دراصل عوام الناس میں دورانِ اذان بات کرنے کی قباحت کی وجوہات میں منگھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں ۔جیسا کہ مشہور ہے :
① "اذان کے وقت بات کرنے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا"۔
② "اذان کے وقت بات کرنے والے پہ فرشتوں کی لعنت ہوتی ہے"۔
یہ بات بالکل بے اصل اور جھوٹی اور گھڑی ہوئی روایات ہیں ، اور اس طرح کی باتوں کی نسبت بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سراسر جہوٹ ہے۔ ویسے اذان کے دوران بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے، تاہم باتیں کرنا اگر مؤذن کی متابعت اور اذان کے جواب دینے سے مشغول کردے، تو خاموش ہوکر اذان کا جواب دینا جو مسنون ہے، یہ زیادہ بہتر ہے۔
اذان کے دوران بات کرنے کی دلیل میں درج ذیل 2 روایات:
➊ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: “”خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ، فَلَمَّا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ.”
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الکلام فی الأذان، ص: 218، ط: دارالمعرفة، بیروت)
عبداللہ بن حارث بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
➋ وتكلم سليمان بن صرد في أذانه. وقال الحسن لا بأس أن يضحك وهو يؤذن أو يقيم.
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
پہلی حدیث میں دوران اذان باقاعدہ کلام ثابت ہے، جبکہ دوسری حدیث میں دورانِ اذان ہنسنے کا بھی ذکر ہے ۔
لہٰذا لاشعوری طور پر اتفاقا اگر کوئی دورانِ اذان ہنس دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح امام مالکؒ نے حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے:
عن ابن شھاب عن ثعلبة بن ابی مالک القرظی انہ اخبرہ انھم کانوا فی زمن عمر بن الخطاب یصلون یوم الجمعة حتی یخرج عمر بن الخطاب فاذا خرج عمر وجلس علی المنبر واذّن المؤذّنون وقال ثعلبة جلسنا نتحدث فاذا سکت المؤذّنون وقام عمر یخطب انصتنا فلم یتکلم منا أحد.
ابن شھاب ثعلبہ بن مالک القرظی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کو خبر دی کہ “حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جمعہ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کے لیے باہر تشریف لانے سے پہلے ہم لوگ نوافل پڑھتے تھے، پھر جب حضرت عمرؓ ممبر پر تشریف فرماتے، اور مؤذن اذان دیتا تو ثعلبہ کہتے ہیں کہ: ہم بیٹھ کر باتیں کرتے، جب مؤذن اذان سے فارغ ہوجاتا اور خطبہ شروع ہوتا تو ہم خاموش ہوجاتے، پھر کوئی بات نہ کرتا۔
(مؤطا امام مالک، کتاب الجمعہ، باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعہ والامام یخطب، ص:88)
مذکورہ روایت سے ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین خیر القرون میں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اذان کے دوران باتیں کرتے تھے، جو اس دوران اذان بات کرنے کے جواز پر واضح دلیل ہے ۔
نیز مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى الْفِطْرَةِ» ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ» فَنَظَرُوا فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى.
(صحیح مسلم، حدیث: 847)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہﷺ ( دشمن پر ) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے ، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے ، ( ایسا ہوا کہ ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا : الله أكبر الله أكبر تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : فطرت ( اسلام ) پر ہے ۔ ‘ ‘ پھر اس نے کہا : أشهد أن لا إله إلا الله ، أشهد أن لا إله إلا الله تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تو آگ سے نکل گیا ۔ ‘ ‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا ۔
باقی رہی بات قرآن پڑھنا بند کر دینے کی تو اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
علامہ صالح المنجد فرماتے ہیں :
اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو افضل یہ ہے کہ تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
کیونکہ اسی میں پیغمبر اکرم ﷺ کی پیروی ہے ان کا حکم ہے کہ جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو تم بھی جواب میں وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ؛
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں : قراءت کرنے والا جب مؤذن کو اذان دیتا سنے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ، پھر تلاوت کرنا شروع کردے ، ہمارے علماء کے یہ بات متفق علیہ ہے
( التبیان فی اداب حملۃ القرآن )
اور علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ کا بھی یہی فتوی ہے :
س̳ل̳م̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ م̳ن̳ ك̳ل̳ ش̳ر̳ ج̳ز̳ا̳ك̳م̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ع̳ن̳ي̳ خ̳ي̳ر̳ ا̳ل̳ج̳ز̳ا̳ء̳ و̳ب̳ا̳ر̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ف̳ي̳ك̳م̳ و̳ن̳ف̳ع̳ ب̳ك̳م̳
وَ̳̳بِ̳̳ا̳ل̳لّٰ̳̳̳ہِ̳̳ ا̳ل̳تَّ̳̳̳وْ̳̳فِ̳̳یْ̳̳قُ̳̳
ھٰ̳̳ذ̳̳ٙا̳ م̳̳ٙا̳ عِ̳̳نْ̳̳دِ̳̳ی̳ و̳̳ٙا̳ل̳ل̳ہُ̳̳ ت̳̳ٙع̳̳ٙا̳ل̳یٰ̳̳ ا̳̳ٙعْ̳̳ل̳̳ٙمْ̳̳ بِ̳̳ا̳ل̳صّ̳̳̳ٙو̳̳ٙا̳ب̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
✍ از قلم : مسزانصاری
اذان کے وقت خاموشی ایک مستحب عمل ہے کہ اذان کو بغور سن کر اس کا جواب دیا جائے ۔ درج ذیل احادیث توجہ طلب ہیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بیان کیا کہ ”جب تم اذان سنو تو مؤذن کے الفاظ دہراتے رہو۔“
صحيح مسلم ،كتاب الصلاة ح848
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : " أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ، حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے وسیلہ (مقام محمود) طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ “
صحيح مسلم ، كتاب الصلاة ح 849
تاہم دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اذان کے وقت ضرورتًا بات کرنا ، درس و تدریس کی مصروفیات یا دوسرے گھریلو یا کاروباری ضروری کام جائز ہیں ۔اسی طرح بات کرنا بھی بوجہ اذان منع نہیں ہے ، اسلام میں خاموشی کے مقام و محل واضح ہیں ، لیکن اذان پر خاموشی کسی شرعئی نص سے ثابت نہیں ہے ۔ اسی طرح
اتفاقا اگر دورانِ اذان کوئی ہنس دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔کوئی شخص دورانِ گفتگو بھی اذان کا جواب دے سکتا ہے
شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اذان کے دوران اور اس کے بعد کلام کرنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مؤذن اور اس کا جواب دینے کے لئے سنت یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔
دراصل عوام الناس میں دورانِ اذان بات کرنے کی قباحت کی وجوہات میں منگھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں ۔جیسا کہ مشہور ہے :
① "اذان کے وقت بات کرنے موت کے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا"۔
② "اذان کے وقت بات کرنے والے پہ فرشتوں کی لعنت ہوتی ہے"۔
یہ بات بالکل بے اصل اور جھوٹی اور گھڑی ہوئی روایات ہیں ، اور اس طرح کی باتوں کی نسبت بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سراسر جہوٹ ہے۔ ویسے اذان کے دوران بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے، تاہم باتیں کرنا اگر مؤذن کی متابعت اور اذان کے جواب دینے سے مشغول کردے، تو خاموش ہوکر اذان کا جواب دینا جو مسنون ہے، یہ زیادہ بہتر ہے۔
اذان کے دوران بات کرنے کی دلیل میں درج ذیل 2 روایات:
➊ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: “”خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ، فَلَمَّا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ.”
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب الکلام فی الأذان، ص: 218، ط: دارالمعرفة، بیروت)
عبداللہ بن حارث بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
➋ وتكلم سليمان بن صرد في أذانه. وقال الحسن لا بأس أن يضحك وهو يؤذن أو يقيم.
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
پہلی حدیث میں دوران اذان باقاعدہ کلام ثابت ہے، جبکہ دوسری حدیث میں دورانِ اذان ہنسنے کا بھی ذکر ہے ۔
لہٰذا لاشعوری طور پر اتفاقا اگر کوئی دورانِ اذان ہنس دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح امام مالکؒ نے حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے:
عن ابن شھاب عن ثعلبة بن ابی مالک القرظی انہ اخبرہ انھم کانوا فی زمن عمر بن الخطاب یصلون یوم الجمعة حتی یخرج عمر بن الخطاب فاذا خرج عمر وجلس علی المنبر واذّن المؤذّنون وقال ثعلبة جلسنا نتحدث فاذا سکت المؤذّنون وقام عمر یخطب انصتنا فلم یتکلم منا أحد.
ابن شھاب ثعلبہ بن مالک القرظی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کو خبر دی کہ “حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جمعہ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کے لیے باہر تشریف لانے سے پہلے ہم لوگ نوافل پڑھتے تھے، پھر جب حضرت عمرؓ ممبر پر تشریف فرماتے، اور مؤذن اذان دیتا تو ثعلبہ کہتے ہیں کہ: ہم بیٹھ کر باتیں کرتے، جب مؤذن اذان سے فارغ ہوجاتا اور خطبہ شروع ہوتا تو ہم خاموش ہوجاتے، پھر کوئی بات نہ کرتا۔
(مؤطا امام مالک، کتاب الجمعہ، باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعہ والامام یخطب، ص:88)
مذکورہ روایت سے ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین خیر القرون میں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اذان کے دوران باتیں کرتے تھے، جو اس دوران اذان بات کرنے کے جواز پر واضح دلیل ہے ۔
نیز مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى الْفِطْرَةِ» ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ» فَنَظَرُوا فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى.
(صحیح مسلم، حدیث: 847)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : رسول اللہﷺ ( دشمن پر ) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے ، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے ، ( ایسا ہوا کہ ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا : الله أكبر الله أكبر تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : فطرت ( اسلام ) پر ہے ۔ ‘ ‘ پھر اس نے کہا : أشهد أن لا إله إلا الله ، أشهد أن لا إله إلا الله تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تو آگ سے نکل گیا ۔ ‘ ‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا ۔
باقی رہی بات قرآن پڑھنا بند کر دینے کی تو اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
علامہ صالح المنجد فرماتے ہیں :
اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو افضل یہ ہے کہ تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
کیونکہ اسی میں پیغمبر اکرم ﷺ کی پیروی ہے ان کا حکم ہے کہ جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو تم بھی جواب میں وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ؛
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں : قراءت کرنے والا جب مؤذن کو اذان دیتا سنے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ، پھر تلاوت کرنا شروع کردے ، ہمارے علماء کے یہ بات متفق علیہ ہے
( التبیان فی اداب حملۃ القرآن )
اور علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ کا بھی یہی فتوی ہے :
س̳ل̳م̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ م̳ن̳ ك̳ل̳ ش̳ر̳ ج̳ز̳ا̳ك̳م̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ع̳ن̳ي̳ خ̳ي̳ر̳ ا̳ل̳ج̳ز̳ا̳ء̳ و̳ب̳ا̳ر̳ك̳ ا̳ل̳ل̳ه̳ ف̳ي̳ك̳م̳ و̳ن̳ف̳ع̳ ب̳ك̳م̳
وَ̳̳بِ̳̳ا̳ل̳لّٰ̳̳̳ہِ̳̳ ا̳ل̳تَّ̳̳̳وْ̳̳فِ̳̳یْ̳̳قُ̳̳
ھٰ̳̳ذ̳̳ٙا̳ م̳̳ٙا̳ عِ̳̳نْ̳̳دِ̳̳ی̳ و̳̳ٙا̳ل̳ل̳ہُ̳̳ ت̳̳ٙع̳̳ٙا̳ل̳یٰ̳̳ ا̳̳ٙعْ̳̳ل̳̳ٙمْ̳̳ بِ̳̳ا̳ل̳صّ̳̳̳ٙو̳̳ٙا̳ب̳
وَ̳̳ا̳ل̳سَّ̳̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ل̳اَ̳̳م̳ عَ̳̳لَ̳̳ي̳ـ̳ـْ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳كُ̳̳م̳ وَ̳̳رَ̳̳حْ̳̳مَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ةُ̳̳ا̳ل̳ل̳هِ̳̳ وَ̳̳بَ̳̳رَ̳̳ك̳ـَ̳̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ـ̳ا̳تُ̳̳ه̳
Post a Comment