ZAKAT

زکوٰۃ

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
_____________ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اور جدید مسائل ______________
نصابِ زکوٰۃ کے حوالے سے شریعت دو پہلوؤں سے گفتگو کرتی ہے :ایک تو یہ کہ کون کون سا مال موجب ِزکوٰۃ ہے اور دوسرا یہ کہ اس مال کی کتنی مقدار پرکس قدر زکوٰۃ اداکرنا ہوگی۔ آئندہ سطور میں ان دونوں پہلوؤں پر بالتفصیل روشنی ڈالی جائے گی۔
موجب ِزکوٰۃ اموال :
شریعت نے جن اَموال پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے وہ یہ ہیں :
- حیوانات
- سونا، چاندی (اور نقدی، کرنسی)
- زمینی پیداوار(ان کی زکوٰۃ کو فقہی اصطلاح میں 'عشر 'سے موسوم کیا جاتا ہے )
- تجارتی اموال
ان کی مزید تفصیل حسب ِذیل ہے :
(()) حیوانات کی زکوٰۃ :
حیوانات کی زکوٰۃ سے متعلقہ چند اہم شروط درج ذیل ہیں:
1.ایک سال کا دورانیہ: حیوانات پرزکاۃ کے لئے ضروری ہے کہ ان پرایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو، اس شرط کی تفصیل گذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔
2. حیوانات سائمہ (چرنے والے) ہوں: حیوانات کے حوالے سے دوسری شرط یہ ہے کہ متعلقہ حیوانات پورا سال یا سال کا اکثر و بیشتر حصہ باہرجنگلوں میں چرتے ہوں یا دوسرے لفظوں میں انہیں چارہ ڈالنے کا کوئی خرچہ نہ آتا ہو(ایسے جانوروں کو احادیث میں 'سائمہ' سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ لیکن اگر پورے سال یا سال کے اکثر حصے کا چارہ قیمتاً حاصل کیا جاتا ہو تو پھر ان جانوروں پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
🔸''في کل خمس من الإبل السائمة شاة''
(حاکم:
۱؍۳۹۶)
''ہر پانچ سائمہ (باہرجنگل میں چرنے والے) اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''
🔸( ''في کل سائمة إبل في أربعین بنت لبون'' (ابوداؤد:۱۵۷۵،احمد: ۵؍۲،۴،نسائی:۲۴۴۹)
''ہر چالیس سائمہ (باہر چرنے والے) اونٹوں پر ایک بنت ِلبون (وہ اونٹنی جس کا تیسرا سال شروع ہو) زکوٰۃ پڑتی ہے۔''
( ''في صدقة الغنم في سائمتھا إذا کانت أربعین إلی عشرین ومائة شاة'' (بخاری:۱۴۵۴،ابوداود:۱۵۶۷)
''چالیس سے
۱۲۰ تک سائمہ بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے۔''
واضح رہے کہ 'سائمہ' کے الفاظ اونٹوں اور بکریوں کے بارے میں ہیں تاہم جمہور فقہا نے اس پر قیاس کرتے ہوئے گائیوں کے بارے میں بھی یہی شرط بیان کی ہے اور وہ احادیث جن میں سائمہ یا غیرسائمہ (معلوفہ) کاکوئی فرق مذکور نہیں، ایسی (مطلق) احادیث کو انہوں نے ان مقید احادیث پر محمول کیا ہے جن میں سائمہ کا ذکر ہے۔ البتہ امام مالک غیر سائمہ پربھی زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں اور سائمہ کی شرط کو قید ِاتفاقی قرار دیتے ہیں۔(حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر:ج۱؍ص۴۳۲، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱؍۵۹۶) لیکن ان کا یہ مسلک أقرب إلی السنةمعلوم نہیں ہوتا۔
3. حیوانات 'غیر عاملہ' ہوں: غیر عاملہ کامعنی یہ ہے کہ وہ جانور افزائش نسل کے لئے ہوں، بار برداری، کھیتی باڑی اور ایسی ہی دیگر خدمات کیلئے نہ ہوں جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی ہے: ''لیس علی العوامل شيء'' (ابوداؤد:۱۵۷۲ ، دارقطنی ۲؍۱۰۳، نصب الرایۃ ۲؍۳۵۳)
''کام کرنے والے جانوروں پرکوئی زکوٰۃ نہیں۔''
اسی طرح حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ''حراثۃ (یعنی ہل چلانے والے) جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔'' (کتاب الاموال: ص۳۸۰ بحوالہ فقہ الزکوٰۃ:۱؍۲۳۲)
مالکیوں اور ایک قول کے مطابق شافعی فقہا کے علاوہ دیگر تمام فقہا کا مذکورہ بالا شرط پر اتفاق ہے۔(الموسوعة الفقهیة الکویتیة بذیل مادّة 'زکوٰة' نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ، ایضاً) اور راجح موقف بھی یہی ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے فقہا نے ہر طرح کے آلاتِ پیداوار کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔اس کی مزید تفصیل 'آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ' کے تحت آئے گی۔
4. حیوانات نصاب کو پہنچ چکے ہوں: جانوروں کی زکوٰۃ کے حوالے سے چوتھی اہم شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کردہ نصاب پر پورے اُتر چکے ہوں اور وہ نصاب درج ذیل ہے:
🌟 اونٹوں کی زکوٰۃ :
اونٹوں کی تعداد.... زکوٰۃ
۱تا ۴ کوئی زکوٰۃ نہیں
۵تا ۹ ایک بکری زکوٰۃ میں دی جائے گی
۱۰ تا۱۴ دو بکریاں
۱۵تا۱۹ تین بکریاں
۲۰ تا۲۴ چاربکریاں
۲۵ تا۳۵ بنت ِمخاض یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ چکی ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر ایک مذکر ابن لبون اونٹ (جو دو سال پورے کرچکا ہو)
۳۶ تا۴۵ ایک بنت ِلبون (دو سالہ اونٹنی)
۴۶تا۶۰ ایک حقہ (وہ اونٹنی جو تین سال پورے کرکے چوتھے میں داخل ہوچکی ہو)
۶۱ تا۷۵ ایک جذعہ (وہ اونٹنی جو چار سال پورے کرکے پانچویں میں لگ چکی ہو)
۷۶ تا ۹۰ دو بنت لبون اونٹنیاں
۹۱ تا۱۲۰ دو حقہ اونٹنیاں (دیکھئے :بخاری:۱۴۵۴)
واضح رہے کہ ۱۲۰ اونٹوں تک جو مقدار ِزکوٰۃ ہم نے ذکر کی ہے، اس پر فقہا کا اتفاق ہے البتہ اس سے آگے اختلاف ہے۔ تاہم ۱۲۰ کے بعد جو مسلک ہمیں راجح معلوم ہوتا ہے اور صحیح احادیث سے بھی جس کی تائید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ۱۲۰ کے بعد جس قدر بھی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے، اس کی زکوٰۃ کا فارمولا یہ ہوگا کہ ہر چالیس اونٹوں پر ایک بنت ِلبون اور ہر پچاس اونٹوں پر ایک حقہ دیا جائے گا یعنی اگر کسی کے پاس ۱۸۰؍ اونٹ ہوں تواسے دو حقے اور دو بنت ِلبون بطور زکوٰۃ دینا ہوں گی۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھئے: فتح الباری:ج۳ ؍ص۳۱۷ ،۳۱۸ اور فقہ الزکوٰۃ :ج۱؍ص۲۳۵ تا ۲۴۵
🌟 گائیوں کی زکوٰۃ :
گائیوں کی تعداد ...زکوٰۃ
۱تا ۲۹ کوئی زکوٰۃ نہیں
۳۰تا ۳۹ ایک تبیع (گائے کا وہ بچہ جو دوسرا سال شروع کرچکا ہو)
۴۰تا۵۹ ایک مُسنہّ (وہ گائے جو تیسرے سال میں لگ چکی ہو)
۶۰ اور اس سے آگے تعداد کے بارے میں زکوٰۃ کا فارمولا یہ ہے کہ ہر ۳۰ پر ایک تبیع اور ہر ۴۰ پر ایک مسنہّ دیا جائے گا مثلاً اگر ۶۰ گائیاں ہو تو دو تبیع اور ۷۰ گائیاں ہوں تو ایک تبیع اور ایک مسنہّ بطور زکوٰۃ دیاجائے گا۔ دیکھئے ابوداؤ د، حاکم :۱؍۳۹۸، سنن بیہقی:۴؍۸۹ اورمجمع الزوائد :۳؍۷۲
🌟 بکریوں کی زکوٰۃ :
بکریوں کی تعداد... زکوٰۃ
۱تا ۳۹ کوئی زکوٰۃ نہیں
۴۰تا ۱۲۰ ایک بکری
۱۲۱ تا ۲۰۰ دو بکریاں
۲۰۱ تا ۳۰۰ تین بکریاں
اسی طرح ہر سو پر ایک بکری بڑھتی جائے گی۔ (دیکھئے فتح الباری:۳؍۳۱۷)
🌟 دیگر 'سائمہ'جانوروں پر زکوٰۃ کامسئلہ :
واضح رہے کہ احادیث میں جن جانوروں کی زکوٰۃ کا تذکرہ موجود ہے وہ صرف تین قسم کے ہیں یعنی اونٹ، گائے اور بکری اس کے علاوہ دیگر جانوروں کے بارے میں شریعت خاموش ہے تاہم سواری کے گھوڑے کو خود نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے معاف قرار دیا ہے۔ چونکہ نزولِ وحی کے دور میں اہل عرب کے ہاں یہی تین قسم کے جانور پالے جاتے تھے، اس لئے بطورِ خاص ان کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے جبکہ ان کے علاوہ دیگر جانور مثلاً گدھے، خچر، پولٹری فارم کی مرغیوں اور مچھلی فارم کی مچھلیوں وغیرہ کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں۔ متقدمین میں سے ظواہر اور متاخرین میں سے امام شوکانی ؒ اور نواب صدیق حسنؒ کے علاوہ جمہور فقہائے اُمت نے اوّل الذکر نوع سے تعلق رکھنے والے جانوروں پرقیاس کرتے ہوئے ثانی الذکر نوع کے حیوانات پر بھی دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوٰۃ فرض قرار دی ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے اور عہد ِصحابہ ہی میں جو نیا مسئلہ سامنے آیا وہ گھوڑوں کی زکوٰۃ کا مسئلہ تھا۔نزولِ وحی کے دور میں چونکہ گھوڑا اہل عرب کے ہاں ایک کمیاب جنس تھی اور اس کااستعمال بھی یا تو ذاتی سواری کے لئے ہوتا تھا یاپھر جنگ و حرب کے لئے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے گھوڑے کی زکوٰۃ معاف فرما دی تاکہ اگر وہ ذاتی استعما ل کے لئے ہے تو پھر مالک (صاحب ِگھوڑا) کو مشقت نہ ہو اور اگر وہ جہاد کے لئے ہے تو اس کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
''لیس علی المسلم صدقة في عبده ولا في فرسه'' (بخاری:۱۴۶۴)
''مسلمان پراس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے''
لہٰذا دور حاضر میں بھی جن صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں جہاد یا ذاتی سواری کے لئے گھوڑا رکھا جاتاہے، ان کے مالکان پر اس کی زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی۔ اِلا یہ کہ وہ اسے تجارت کے لئے استعمال کرنے لگیں (جیسا کہ آئندہ سطور میں آرہا ہے)
جب ایران کی فتوحات شروع ہوئیں اور کثیر تعداد میں گھوڑے حاصل ہونے لگے تو رفتہ رفتہ لوگوں نے اسے تجارت کا ذریعہ بنالیا حتیٰ کہ بعض ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک گھوڑا سو سو اونٹوں کے بدلے فروخت کیا جانے لگا چنانچہ جب حضرت عمرؓ نے یہ دیکھا تو انہوں نے ان تجارتی گھوڑوں پربھی زکوٰۃ مقرر فرما دی۔ جبکہ کسی صحابی نے اس پر اختلاف نہ کیا بلکہ آپ کے بعد حضرت عثمانؓ وغیرہ بھی تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ وصول کرتے رہے۔ (فقہ الزکوٰۃ: ج۱ ؍ص۳۰۵)
گھوڑوں کی زکوٰۃ کے حوالہ سے یہ بات یاد رہے کہ اگر گھوڑے آلاتِ تجارت کے طور پراستعمال ہوں مثلاً ٹانگوں وغیرہ میں جوتے جائیں یا اُجرت پر بار برداری کے لئے استعمال ہوں تو ان گھوڑوں کی اصل مالیت پر زکوٰۃ نہیںہوگی بلکہ ان کی آمدن پر زکوٰۃ ہوگی اور اگر گھوڑے بذاتِ خود خرید و فروخت کے لئے رکھے ہوں تو ان کی کل مالیت پر زکوٰۃ ہوگی۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل 'تجارتی اَموال پر زکوٰۃ' کے ضمن میں آئے گی۔ لیکن اگر یہ افزائش نسل کے لئے ہوں اور جہاد یا ذاتی سواری کے استعمال کی بھی نیت نہ ہو تو ایسی صورت میں بعض فقہا نے انہیں اونٹوں پر قیاس کرتے ہوئے اونٹوں ہی کی شرح زکوٰۃ ان میں واجب قراردی ہے اورایسی صورت میں ہمیں بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ (دیکھئے ردّ المحتار: ج۲؍ ص۲۵،۲۶)
اسی طرح دیگر جانوروں مثلاً پولٹری فارم کی مرغیوں، مچھلی فارم کی مچھلیوں اور ڈیری فارم کی بھینسوں کو بھی گھوڑوں پر قیاس کیا جائے گا یعنی اگر یہ جانور تجارت کے لئے ہیں تو ان کی کل مالیت پر سال گزرنے کے بعد چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جبکہ بھینسیں اگر افزائش نسل کے لئے ہوں اور ان میں دیگر شروطِ زکوٰۃ بھی پائی جائیں تو انہیں گائیوں پر قیاس کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اسی طرح اگر ہرن افزائش نسل کے لئے ہوں تو انہیں بکریوں پر قیاس کیاجائے گا اور اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو پھر انہیں مالِ تجارت پر قیاس کیا جائے گا۔
(()) سونا ،چاندی اور نقدی پر زکوٰۃ :
عرصہ دراز سے سونا چاندی جیسی قیمتی دھاتیں مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں مثلاً ان سے زیورات، آلات، برتن وغیرہ بھی بنائے جاتے رہے ہیں اور انہیں بطورِ نقدی (کرنسی) بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عہد ِنبوی میں بھی ان کے یہ مختلف استعمالات موجود تھے۔ آپؐ نے سونے چاندی کے صرف دو مصرف جائز قرار دیتے ہوئے ان پر زکوٰۃ عائد فرمائی۔ ایک مصرف تو ان کا نقدی ہونا تھا اور دوسرا زیورات تھا۔ اگرچہ بعض شبہات کی بنا پر زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب اور عدمِ وجوب کے بارے میں فقہا نے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم نقدی ہونے کی حیثیت سے ان پر وجوبِ زکوٰۃ کے بارے میں اتفاقِ رائے موجود ہے اور اب چونکہ سونے، چاندی کی جگہ پیپر کرنسی نے لے لی ہے، اس لئے سونے چاندی پر قیاس کرتے ہوئے ان پربھی زکوٰۃفرض قرار دی جائے گی۔ باقی رہا سونا چاندی کا کسی اور محل میں استعمال مثلاً برتن اورآرائشی سامان، دیگر آلاتِ ضرورت وغیرہ تو ان سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔اور اگر کوئی شخص ان ممنوعہ چیزوں کو اپنے پاس رکھتا یا ان کی تجارت وغیرہ کرتا ہے تو اس کے ایک حرام کام کے ارتکاب کے باوجود ان چیزوں کی زکوٰۃ اس پر فرض ہے۔ البتہ اس میں سے بھی چند چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ ایک تو وہ جو ضرورت اور حاجت کی قبیل سے ہیں مثلاً ایک صحابی کی ناک کٹ گئی تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی جس میں بدبو پیدا ہوگئی تو آنحضرتﷺ کے فرمان کے مطابق انہوں نے سونے کی ناک لگوالی۔ (ابوداؤد؛۴۲۳۲، ترمذی؛۱۷۷۰) اسی طرح بعض صحابہ سے سونے کے دانت لگوانا اور داڑھوں کی بھروائی (Filling)کروانا بھی منقول ہے۔ (المغنی :۴؍۲۲۷)
اور دوسری استثنائی صورت آلاتِ حرب کی ہے کیونکہ احادیث ِنبویہؐ اور آثارِ صحابہ ؓسے یہ بات ثابت ہے کہ تلوار کا خول، قبضہ، دستہ وغیرہ میں سونے اور چاندی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی: ایضاً)
زیورات پر زکوٰۃ :
سونے چاندی کے زیورات پر زکوۃ کے حوالہ سے اہل علم میںشروع سے اختلاف چلا آرہا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فقہا کی ایک بڑی تعداد نے زیورات کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے دو طرح سے استشہاد کیاہے ایک تو بعض روایات سے استشہاد کیا ہے اور دوسرا اسے ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کیا ہے۔ جب کہ ان کے برعکس بعض فقہا جن میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں، زیورات پر زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہیں اور بعض صحیح احادیث بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں راقم کی تحقیق یہ ہے کہ زیورات پر عدم زکوٰۃ کے حوالہ سے جن روایات سے استشہاد کیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی بسند صحیح ثابت نہیں جب کہ اس کے مقابلہ میںبعض ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں زیورات پر وجوب زکوٰۃ کی صاف تائید ہوتی ہے اور ان صحیح احادیث کی موجودگی میں زیورات کو ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کر کے زکوٰۃ سے خارج قرار نہیں دیاجا سکتا۔ ٭اس سلسلہ میں جو صحیح احادیث ملتی ہیں، بغرضِ اختصار ان میں سے ایک درج کی جاتی ہے:
عمرو بن شعیب اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ ''ایک عورت اپنی بیٹی کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اوراس کی بیٹی کے ہاتھوں میںسونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آنحضرتﷺ نے اس سے پوچھا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں ! تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں روز قیامت ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنا دیں؟ تو اس نے وہ کنگن اتار کر آپؐ کی خدمت میں ڈال دیئے اور کہا کہ میں انہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے پیش کرتی ہوں۔''
(احمد؛ ۲؍۱۷۸،۲۰۴، ابوداود؛ ۱۵۶۳، نسائی؛ ۲۴۷۹،بیہقی؛۴؍۱۴۰)
واضح رہے کہ اس حدیث کی تائید کرنے والی کئی اوراحادیث بھی موجود ہیں جنہیں شارحِ ترمذی مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ نے تحفۃ الاحوذی میں نقل کرنے کے بعداسی رائے
٭ سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰۃسے متعلقہ احادیث کی صحت میں کلام ہونے کی بنا پر اس کا مناسب حل یہ بھی ہوسکتا ہیکہ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی مال کے حق کے طور پراگر نہ کی جائے تو کم ازکم اشخاص کے حق کے طور پر ضرور کردی جائے کیونکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اشخاص کا حق کتاب وسنت سے ثابت ہے جس میں عام لوگ اکثر کوتاہی کرتے ہیں۔جس کی و جہ سے غریب رشتہ دار اور متعلقہ خدام ومساکین بھی معاشرے میں بے اعتنائی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر زیورات کی زکوٰۃ نکال کر ایسے متعلقین پر اسے خرچ کر دیاجائے تو شرعی احتیاط پر عمل بھی ہو جائے گا اور کسمپرسی کے شکار مستحقین بھی مستفید ہو سکیں گے اور اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم صدقہ کی صورت میں موجود ہے۔ اِن شاء اللہ (محدث)
کو ترجیح دی ہے جو ہم نے اوپر بیان کر دی ہے جب کہ سعودی عرب کے جید علما کا بھی یہی فتوی ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ دی جائے گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ (دیکھئے: فتاویٰ ابن باز؛ج۱۴ص ۹۷،فتاوی اللجنۃالدائمۃ؛ ج۹ص ۲۶۵)
سونے چاندی کا نصاب:اگرپانچ اوقیہ(تقریباًدو سو درہم)چاندی یا ۲۰ مثقال (تقریباً۲۰ دینار) سونا سال بھر موجود رہے ہوں تو ان پر چالیسواں حصہ (یعنی چاندی کے پانچ درہم اور سونے کا آدھا دینار) بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :
(1) حضرت جابرؓ سے روایت کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
لیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقة (احمد:۳؍۲۹۶، مسلم:۹۸۰)
''پانچ اوقیہ (مساوی دو سو درہم) سے کم )ورق ؍چاندی) پر زکوٰۃ فرض نہیں۔''
(2) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:
''جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پرایک سال کا عرصہ گزر جائے تو ان میں سے پانچ درہم بطورِ زکوٰۃ دو اور اسی طرح اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا سال بھر رہا ہو تو اس میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، اگر ایسا (یعنی یہ دونوں شرائط یا ان میں سے کوئی ایک شرط پوری) نہ ہو تو پھر زکوٰۃ فرض نہیں۔'' (ابوداود:۱۵۷۳)
واضح رہے کہ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے تا ہم یہی مسئلہ اجماعِ امت سے بھی ثابت ہے ۔
(دیکھئے الاجماع لابن المنذر: ص ۴۴، موسوعۃ الاجماع:۱؍۴۸۳)
درہم و دینار کی مقداریں :جس طرح مختلف اَدوار میں درہم و دینار کے اوزان میں فرق پیدا ہوتا رہا ہے، اسی طرح ان سے حاصل مقداروں میں اہل علم کا اختلاف بھی رہا ہے۔ درہم جو چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا، اس کی مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی کے حساب سے اور دینار جو سونے کا سکہ تھا،اس کی مقدار ساڑھے سات تولہ سونا کے حساب سے معروف ہے، لیکن بعض اہل علم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے دونوں کا وزن اس سے کم نکالا ہے۔ جیسا کہ جماعۃ الدعوۃ کے نائب امیر مولانا عبد السلام صاحب اپنی کتاب'احکامِ زکوۃ وعشر' (ص۲۳،۲۴) میں رقمطراز ہیں :
''لیکن تحقیق کے مطابق بیس دینار سونے اوردو سو درہم چاندی کا وزن مندرجہ بالا مقداروں (یعنی ساڑھے سات تولہ سونے اور ساڑھے باون تولہ چاندی ۔۔۔۔۔۔۔ناقل)سے کم بنتا ہے ۔ چنانچہ شیخ ابو بکر الجزائری نے 'الجمل فی زکوٰۃ العمل' (ص ۲۷،۲۸) میں اور دکتور عبد اللہ بن محمد بن احمد العطار نے 'الزکوٰۃ' میں بیس دینار کو ستر گرام سونے کے برابر اور دو سو درہم کو ۴۶۰گرام چاندی کے برابر قرار دیا ہے ۔ان حضرات نے ایک دینار کا وزن ،ساڑھے تین گرام سونا اور ایک درہم کا وزن 2.3گرام چاندی قرار دیا ہے ۔مفتی عبد الرحمن الرحمانی نے بھی اپنے رسالہ'المیزان في الأوزان' میں اسی کو درست قرار دیا ہے۔یہ مقدار عام معروف مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے سے کافی کم ہے مگر تحقیق پر مبنی ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سونا یا چاندی اس نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ ادا کی جائے۔ ''
معروف اوزان کے مقابلہ میں اس 'نئی تحقیق' پر ہمیں اختلاف ہے اس لیے کہ اس سلسلہ میں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ایک درہم شرعی 7/10 دینار کے برابر ہوتاتھا اور درہم ودینار کا وزن معلوم کرنے کے لیے متقدمین کے ہاں جو یا چاولوں کے دانے استعمال ہوتے تھے۔ اس لیے چند حنفی اور ظاہری فقہا کے علاوہ باقی تمام اہل علم کا اس بات پربھی اتفاق رہا ہے کہ ایک دینار (مثقال) کا وزن جو کے ۷۲ دانوں کے برابرہے اور دینار کی مناسبت سے درہم کاوزن50.4جو کے دانوں کے برابر ہے۔(دیکھئے :مقدمہ ابن خلدون:ص۲۳۶)
لیکن جب ۷۲ یا 50.4جو کے دانوں کو جدید پیمانوں پر تولا جاتا ہے تو دانوں کے چھوٹے بڑے ہونے کی وجہ سے وزن میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے حتی کہ اگر بعض نے ۷۲ دانے جو کو ساڑھے تین گرام کے برابر قرار دیا ہے تو بعض نے ۶۶ دانوں کو 4.25گرام ثابت کر دکھایا۔ گویا جب تک جو کے دانوں کا اختلاف رہے گا تب تک مذکورہ اوزان میں بھی اختلاف رہے گا۔اس کا سب سے مناسب اور معقول طریقہ یہی ہے کہ جس درہم اور دینار کے وزن کو ۷۲ اور 50.4دانوں کے برابر قرار دیا گیااور اُمت کا اس پر اجماع ہو گیا تھا ،اس درہم اور دینار کو تلاش کر کے دانوں کے دیسی طریقہ سے ان کا وزن کرنے کی بجائے اب جدید پیمانوں پر ان کا وزن نکال لیا جائے اور فی الواقع بعض محققین نے ایسا کیا بھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے لندن، برلن،پیرس وغیرہ کی لائبریوںاور عجائب گھروں سے وہ سکے ڈھونڈ نکالے اور جس دینار کے وزن ۷۲ جو کے دانے کے برابر ہونے پر اُمت کا اجماع تھا، اسے جب سائنٹفک پیمانوں پر تولا گیا تو وہ 4.25گرام ثابت ہوا اور اس مناسبت سے درہم 2.975گرام کے برابر نکلا۔ اس حساب سے سونے کا وزن تقریباً ۸۵ گرام اور چاندی کا ۵۹۵ گرام بنتا ہے اور انہی اوزان کو اگر' تولوں' میں بدلا جائے تو یہ پاک وہند کے معروف وزن یعنی ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی ہی کے قریب نکلتے ہیں۔لہٰذاپاک وہند کے علما کی یہی معروف تحقیق صحیح ہے اور سائنٹفک اُصول بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ۔البتہ اتنی بات یاد رہے کہ موجودہ دور میں سنیاروں کے معیاری اوزان کی مناسبت سے ساڑھے سات تولہ سونا تقریباً ۸۷ گرام اور ساڑھے باون تولہ چاندی تقریبا ۶۱۲گرام بنتی ہے اور یہ کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ شائقین تحقیق اس سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے درج ذیل کتب کی طرف مراجعت فرما سکتے ہیں :
فقہ الزکوٰۃ از یوسف قرضاوی: ج۱؍ص۳۵۱ تا۳۶۲، المیزان فی الاوزان از مفتی عبد الرحمن رحمانی، فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ: ج ۹؍ ص ۲۵۲ تا ۲۵۷، مجموع فتاویٰ ابن باز: ج ۱۴؍ ص ۸۲،۸۳، فتاوی علمائے اہلحدیث: ج۷؍ص۸۶تا ۹۱، الزکوٰۃ واحکامہا از سلمان الغاوجی، احکام ومسائل از حافظ عبد المنان نور پوری: ج۱؍ ص ۲۸۰تا ۲۸۴، الموسوعۃ الفقہیۃ بذیل مادّہ'دینار' و'درہم' ، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ: ج۱؍ ص ۶۰۱، الخراج والنظم المالیۃ از دکتور محمد ضیاء الریس( ص ۳۵۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ
زکوٰۃ کے لیے سونے چاندی کو اکٹھا کرنا :
زکوٰۃ کے لیے سونے اور چاندی کو ملا کر زکوٰۃ کا نصاب بنانے میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔جمہور فقہا(امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد وغیرہ) انہیں ملانے کے قائل ہیں جب کہ امام شافعی اور داود ظاہری وغیرہ انہیں یکجا کرنے کے قائل نہیں۔ ابن رشد مالکی کے بقول اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ گائے ،بکری کی طرح سونا، چاندی دو الگ الگ چیزیں (عین) ہیں یا پھرراس المال اور کرنسی ہونے کی حیثیت سے یہ ایک ہی ذات کا حکم رکھتے ہیں؟جنہوں نے انہیں دو الگ ذاتیں قرار دیا وہ انہیں اکٹھا کرنے کے قائل نہیں اور جنہوں نے ایک ہی ذات کے حکم میں انہیںشمار کیا وہ انہیں کرنسی ہونے کی حیثیت سے اکٹھا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
بہرحال اس مسئلہ میں کوئی صریح دلیل نہیںملتی کہ انہیں باہم ملاکر نصاب بنایا جائے اور عہد ِصحابہ میں بھی ان کے مستعمل ہونے کے باوجود انہیں ملاکر نصاب بنانے کاکوئی واقعہ نہیں ملتا۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا تو یہی ہے کہ انہیں آپس میں ضم کر کے نصاب نہ بنایا جائے ۔واللہ اعلم!
اگر چاندی کے ساتھ روپے(کرنسی) یا سامانِ تجارت وغیرہ بھی ہو تو پھر بھی یہ اختلاف تو ہے کہ ان تینوں چیزوں کو اکٹھا کیا جائے یا نہیں، البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سامانِ تجارت کی قیمت اور دیگر نقدی کو سونے یا چاندی میں سے کسی ایک کے ساتھ ملاکر زکوٰۃ دی جائے بشرطیکہ نقدی ملانے سےمجموعی رقم حدنصاب کو پہنچ جائے۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: بدایۃ المجتہد:۳ ؍۸۵ تا ۸۷،المغنی: ۴؍ ۲۰۹ تا ۲۱۱، حاشیہ ابن عابدین: ۲؍۳۴ اور حاشیہ الدسوقی: ۱؍۴۵۵
موجودہ کرنسی اور نصابِ زکوٰۃ :
اب ایک عرصہ سے سونے، چاندی کے سکوں کی جگہ پیپر کرنسی نے لے رکھی ہے، اس لئے اب اسی نقدی پر زکوٰۃ ہوگی اور اس میں کوئی مؤثر اختلاف نہیں تاہم اس بات پر اختلاف ضرور ہے کہ موجودہ کرنسی کا نصاب سونے کے نصاب سے متعین کیا جائے یا چاندی کے نصاب سے؟ بعض فقہا کا خیال ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین سونے سے کیا جائے گا اور اس کی وہ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسا کہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں:
''جبکہ بعض دیگر علما کی رائے یہ ہے کہ آج کل نصابِ زکوٰۃ کا اندازہ سونے سے ہونا چاہئے اس لئے کہ چاندی کی قیمت میں عہد ِنبوت کے بعد سے بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ کیونکہ تمام اشیا کی طرح چاندی کی بھی قیمت بڑھتی رہی ہے جب کہ سونے کی قیمت کافی حد تک مستحکم رہی ہے اور زمانے کے اختلاف سے سونے کے سکوں کی قیمت میں فرق نہیں آیا اور سونا ہر زمانے میںایک ہی اندازے کا حامل رہا ہے۔ یہ رائے ہمارے اساتذہ ابوزہرہ[عبد الوہاب] خلاف اور[عبد الرحمن] حسن نے زکوٰۃ پراپنی تحقیق کے دوران اختیارکی ہے۔ مجھے بھی یہ قول بلحاظِ دلیل زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اس لئے اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیںمعلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں سے قریب سونا ہے،چاندی نہیں ہے۔ پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار یا گنی [جُنیہ(پائونڈ؍] مصری کرنسی) کے مساوی ہوگی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شارع کی نظر میں چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو لیکن جس کے پاس اتنی نقدی(یعنی چاندی کے حساب سے، ناقل) ہو جس سے وہ ایک بکری بھی نہ خرید سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو؟ اور کس طرح اس حقیر مالیت کو غنی تصور کیا جاسکتا ہے؟ شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :
پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟ بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟ بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟ یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے! اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں''۔
(فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۳۵۲ تا۳۵۴)
جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ رقم طراز ہیں کہ
''دورِ نبویؐ میں سونا چاندی دونوں زرِمبادلہ کے طور پراستعمال ہوتے تھے اور ان کی قیمتوں میں صرف ایک اور سات کی نسبت٭ تھی۔ یعنی ساڑھے سات تولے سونا ، ساڑھے باون تولے چاندی۔ دوسرے لفظوں میں سونے کا بھاؤ چاندی سے صرف سات گنا ہوتا تھا۔ بعد کے اَدوار میں سونے کی قیمت توچڑھتی گئی اور چاندی کی قیمت گرتی گئی اور اس کی غالباًدو وجوہ ہیں: اوّلاً تو چاندی کی بجائے صرف سونا ہی زرمبادلہ قرار پایا اور ، ثانیاً چاندی کے زیورات آہستہ آہستہ متروک ہوگئے۔ ۱۹۳۰ء کی جنگ ِعظیم سے پہلے چاندی اور سونے کی مالیت میں تقریباً ایک اور بیس کی نسبت ہوچکی تھی اور اب تو یہ نسبت اور بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور آئندہ بھی یہ تفاوت بڑھنے کا امکان ہے۔ سونے اور چاندی کا حد نصاب جو شارع علیہ السلام نے مقرر فرما دیا اس میں ردّوبدل کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں خواہ یہ باہمی تفاوت اور بھی زیادہ ہوجائے۔ مگر نقدی کے متعلق ہمیں ضرور کچھ فیصلہ کرنا ہوگا کہ نقدی کا حد نصاب طے کرنے کے لئے چاندی کو بنیاد قرار دیا جائے یا سونے کو؟ اکثر علما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں نوٹوں کے اجرا سے پہلے چونکہ چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد قرار دے کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے، یہ حد نصاب ہوگا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں آج کل بھی کاغذی زر (نوٹوں) کو ورقہ کہتے ہیں اور یہی لفظ چاندی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیز چاندی کوہی نقد روپیہ کے لئے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ کہیں اللہ کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میںہرممکن احتیاط لازم ہے۔'' (تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۳۱۸،۳۱۹)
مذکورہ بالا دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے ثانی الذکرہمیں راجح معلوم ہوتا ہے، اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
. اوّل تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چاندی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے، تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔
. دوسرا یہ کہ فقراء و مساکین کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔
. تیسرا یہ کہ سونے اور چاندی کی نسبت میں جو بہت زیادہ تفاوت پیدا ہوچکا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ کافی حد تک کم ہوچکا ہے اور اب ان دونوں کی نسبت ایک اور تیس کی بجائے ایک اور بارہ کے قریب ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص سونے کو معیار نصاب بناتا ہے تو اس کے اس اجتہاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
ہیرے جواہرات وغیرہ پر زکوٰۃ کا مسئلہ: ہیرے جواہرات وغیرہ اگر تجارت کیلئے رکھے ہوں تو پھر بلا اختلاف اموال تجارت کی طرح ان پربھی زکوٰۃ فرض ہوگی لیکن اگر یہ ذاتی استعمال (مثلاً زیب و زینت کے لئے) یا کاروباری آلات کے لئے استعمال ہوں تو پھر بلا نزاع ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں، خواہ یہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ:
''لا زکوٰة فیما سوی الذھب والفضة من الجواھر کالیاقوت والفیروزج، واللؤلؤ والمرجان والزمرد والزبرجد والحدید والصفر وسائر النحاس والزجاج وإن حسنت صنعھا وکثرت قیمتھا ولازکوٰة أیضاً في المسك والعنبر وبه قال جماھیر العلماء من السلف وغیرهم''(المجموع شرح المذہب: ج۵ص۴۶۴)
اسی طرح ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ :
''فالزکوٰة في الحلی من الذھب والفضة دون الجوھر لأنھا لا زکوٰة فیھا عند أحد من أھل العلم فإن کان الحلی للتجارة قومه بما فیه من الجواھر لأن الجواھر لوکانت مفردة وھي للتجارة لقومت وزکیت'' (المغنی: ج۴؍ص۲۲۴ نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:ج ۱؍ ص ۵۹۵، موسوعۃ الاجماع: ۱؍۴۶۷)
مذکورہ بالا اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے قیمتی موتی اور جملہ عطریات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ یہ تجارت کے لئے نہ ہوں اور جمہور ائمہ سلف کا شروع سے یہی موقف رہا ہے۔ باقی رہا جواہرات کو سونے چاندی کے زیورات پر قیاس کرنے کا مسئلہ تو یہ قیاس درست نہیں، اس لئے کہ زیورات میں استعمال ہونے والا سونا چاندی نقدی اور نموکی حیثیت بھی رکھتا ہے جبکہ ہیرے جواہرات میں یہ خاصیت نہیں پائی جاتی۔ اسی لئے متقدمین میں سے جو اہل علم زیورات پر زکوٰۃ کے قائل رہے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی انہیں زیورات پر قیاس نہیں کیا۔ تقریباً یہی رائے ابن حجر کی بھی ہے، دیکھئے فتح الباری: ج۳؍ص۳۶۳ اور حنفیہ کا بھی یہی موقف ہے ، دیکھئے درّمختار: ج۲ ؍ص۲۷۳ اور فتاویٰ ہندیہ :۱؍۱۰۲
)) زمینی پیداوار پر زکوة ( زکوةِ عشر )
آنحضرتﷺ نے جس طرح سونے چاندی اور مویشی کا نصاب مقرر فرمایا ہے، اور ہر ایک میں بطور زکوٰہ کے جتنا اور جیسا نکالنا جائز ہے، اس کی بھی تعیین و تصریح فرما دی ہے، اور اس کو ہمارے اختیار میں نہیںدیا، کہ جتنا اور جیسا شاہیں نکالیں، یا اپنی مرضی سے اس میں کمی و بیشی کریں، اسی طرح زمین کی پیداوار سے شرعی حق نکالنے کے لیے بھی نصاب بتلا دیا ہے، کہ جب تک کسی کے ہاں اتنی مقدار میں غلہ کی پیداوار نہ ہو، تو نکالنا واجب نہیں ہو گا، ساتھ یہ بھی بتلا دیا ہے، کہ جب اتنا پیدا ہو تو کتنا نکالنا لازم ہو گا، اور جتنا نکالنا لازم اور فرض ہے، اتنا ہی نکالنا ہو گا، کمی و بیشی کا ہمیں حق نہیں ہے، شریعت نے زمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، بارانی اور چاہی، اگر پیداوار بارش کے پانی سے ہو تو اس میں سے عشر دسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا، اور اگر کنویں کے ذریعہ آب پاشی سے پیداوار ہو تو ا س میں سے نصف عشر بیسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا، اس کے علاوہ شریعت نے بیج گوڑنا، جوتنا، نرانا، آب پاشی کاٹنا، اور ماش کرنا وغیرہ کا اعتبار عشر یا نصف عشر مقرر کرنے میں نہیں کیا، اگر پانی کے علاوہ اور چیزوں کا اعتبار ہوتا تو فرما دیا جاتا، اسلامی حکومت میں جو زمین خراجی ہوتی ہے، اس کو اگر کوئی مسلمان خرید لے یا وہ کافر مسلمان ہو جائے، تو اس کو مقررہ خراج کے علاوہ بارانی میں عشر اور چاہی میں نصف عشر ادا کرنا واجب ہے، پیداوار میں سے خراج وضع کرنے کے بعد عشر یا نصف عشر نکالنے کی اجازت نہیں ہوتی، اورنہ ہی خراج دینے کی وجہ سے دسویں یا بیسویں کی بجائے تیسواں یا چالیسواں نکالنے کی اجازت ہے، ٹھیک اسی طرح غیر مسلم حکومت میں مسلمان کاشتکاروں سے جو پوت مال گذاری لگان لیا جاتا ہے، اس کا اثر آنحضرتﷺ کے مقرر کردہ عشر یا نصف پر نہیں پڑے گا، یعنی نہ تو کل پیداوار سے لگان مال گزاری اور پوت وضع کرنے کے بعد عشر یا نصف عشر نکالنے کی اجازت ہو گی، اور نہ مال گزاری اور لگان کی وجہ سے بارانی زمین کی پیداوار سے دسواں کی بجائے، بیسواں اور چاہی سے بیسواں کی بجائے تیسواں اور چالیسواں نکالنا جائز ہو گا، آنحضرتﷺ کو علم غیب نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا تھا، کہ مسلمانوں پر کبھی غیر مسلم حکمران ہوں گے، اور ان پر طرح طرح کے ٹیکس لگائیں گے پھر کیوں نہ اپنے نبی کے ذریعہ ہم کو یہ بتا دیا کہ پانی کے علاوہ ایسے ٹیکسوں کو بھی لحاظ و اعتبار کرنا ہو گا۔ ((وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِسَیْنَا)) (مریم)
پانی ٹپا کر غلہ پیدا کرنے کے مصارف ہر جگہ یکساں نہیں ہیں، کہیں کم ہیں کہیں زیادہ، آنحضرتﷺ نے اس کمی و بیشی کا کچھ اعتبار نہیں کیا، کیوں کہ ان کا انضباط مشکل تھا، اس لیے مطلقاً ہر حالت میں قاعدہ کلیہ طور بیسواں مقرر اور لازم کر دیا۔ جس میں اب ہم کو کمی و بیشی کرنے کا حق نہیں، اور بارانی زمین کی پیداوار سے ہر حال میں دسواں ہی نکالنا ہو گا، حضرت مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری نے اپنے مطبوعہ رسالہ میں، اور ان کے شاگرد رشید اور (میرے استاد و شیخ) حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری بھی اپنے قلمی غیر مطبوعہ رسالہ میں یہی تحریر فرمایا ہے، او ریہی حق ہے۔ (ترجمان دہلی جلد
۶ شمارہ ۷)
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد : 7 / صفحات : 119۔121
عشر کا نصاب مقرر ہے، جو آج کل کے حساب سے بیس (۲۰) من پختہ پڑتا ہے، یعنی جب اناج زمین سے بیس من گھر آئے تو اس پر عشر واجب ہے، چاہی زمین کا بیسواں حصہ اور بارانی زمین کا دسواں حصہ پڑتا ہے، نیز ہر فصل جو اناج کے حکم میں ہے، اور جسے عرف عام میں اناج سمجھا جاتا ہے، گندم، جو، چنے، مکی، مسور، وغیرہ دیگر فصل سبزی کماد، کپاس وغریہ کی قیمت پر زکوٰۃ جائز ہو گی۔ (اہل حدیث سوہدرہ جلد نمبر ۳ شمارہ نمبر ۲۷)
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/ جلد14
عشر صرف زمیندار اور مزارع پر ہے۔ (الاعتصام جلد ۱۹ شمارہ ۱۴، ۱۵۔ ۲۹ رجب ۱۳۸۷ھج)
توضیح الکلام:… {اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ } کا عموم چاہتا ہے کہ لوہار، ترکھان وغیرہ کے دانے نصاب کو پہنچ جائیں، تو ان پر بھی عشر فرض ہے، جیس کہ بٹائی پر زمین لے کر کام کاج کرنے والے پر عشر فرض ہے، اسی طرح ان کمیوں پر بھی فرض ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 14
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ کو اصطلاحی طور پر 'عشر' کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ زرعی پیداوار میں ہر فصل تیا رہونے کے بعد اس کا عشر (یعنی دسواں حصہ)بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے بشرطیکہ مجموعی پیداوار پانچ وسق یا ا س سے زیادہ ہو اور زمین کی سیرابی کے لئے مشقت کرکے پانی حاصل نہ کیا گیا ہو یعنی ٹیوب ویل لگانے یا کنویں کھودنے کی بجائے بارش یا نہروں کے ذریعے بغیرمشقت کے پانی حاصل ہوجائے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر از راہِ تخفیف بیسواں حصہ (یعنی نصف العشر) بطورِ زکوٰۃ نکالا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
''فیما سقت السماء والعیون أو کان عثریا العشر وما سقی بالنضح نصف العشر'' (بخاری:۱۴۸۳)
''جو زمین بارش یا چشموں سے سیراب ہوتی ہے یا پھر وہ بارانی ہو اس میں عشر ہے اور جو زمین رہٹ وغیرہ کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو تواس میں نصف العشر ہے۔''
زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار اگر پانچ وسق سے کم ہو تو پھر اس میں کسی قسم کی زکوٰۃ (عشر) فرض نہیں جیسا کہ حضرت ابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
''لیس فیما أقل من خمسة أوسق صدقة'' (بخاری:۱۴۸۴)
''پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں۔''
اور واضح رہے کہ پانچ وسق کا مجموعی وزن تقریباً۱۸ من یا دوسرے لفظوں میں ۷۲۰ کلوگرام بنتا ہے جبکہ بعض علما نے ۱۵ من بعض نے ۲۰ من اور بعض نے ۲۵ من کا اندازہ بھی نکالا ہے۔ واﷲ اعلم!
کون کون سی اجناس پر عشر ہوگا؟
اس سلسلہ میں چار اجناس تو وہ ہیں جن پر وجوبِ عشر کے حوالے سے اجماع ہوچکا ہے اور وہ یہ ہیں:
🔸1. گندم،
🔸2.جو،
🔸3.کھجور اور
🔸4.کشمش
(دیکھئے:الاجماع لابن منذر: ص
۴۳، موسوعۃ الاجماع: ۱؍۴۶۶)
جبکہ اس کے علاوہ دیگر اجناس کے بارے میں اہل علم کااختلا ف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور بعض تابعین اور امام احمد، موسیٰ بن طلحہ، حسن، ابن سیرین، شعبی، حسن بن صالح، ابن ابی لیلیٰ، ابن المبارک اور ابوعبیدرحمہم اللہ کا یہی موقف ہے کہ صرف ان چار چیزوں پر زکوٰۃ ہے۔(المحلّٰی: ج۵؍ ص۲۰۹) اور یہ اصحاب اپنی تائیدمیں وہ روایات پیش کرتے ہیں جن میں صرف انہی چار اجناس کی زکوٰۃ کا ذکر ہے مگر ان کی اسناد ضعف سے خالی نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (فقہ الزکوٰۃ :ج۱ ؍ص۴۶۴،۴۶۵) جبکہ دیگر اہل علم ان تمام روایات کو ضعیف قراردیتے ہوئے دیگر زرعی اجناس پر بھی وجوبِ عشر کے قائل ہیں اور اپنی تائید میں قرآن و حدیث کے دیگر عمومی دلائل پیش کرتے ہیں مثلاً
(1)﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ...١٤١﴾... سورة الانعام
''کٹائی کے دن ان (زرعی اجناس) کا حق ادا کرو۔''
(2) ﴿وَمِمّا أَخرَ‌جنا لَكُم مِنَ الأَر‌ضِ...٢٦٧﴾... سورة البقرة
''اور ان چیزوں میں سے (زکوٰۃ نکالو) جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہیں۔''
اس کے علاوہ اس گروہ کے پاس اوربھی کئی عمومی دلائل موجود ہیں، تاہم آگے چل کر ان میں بھی اختلاف ِرائے موجود ہے۔ مثلاً
''امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ہر اس اراضی پیداوار پرجس سے افزائش زمین مقصود ہو اور جس سے لوگ بالعموم فائدہ حاصل کرتے ہوں، زکوٰۃ فرض ہے۔جب کہ ان کے نزدیک لکڑی، گھاس پھونس، اور ایرانی بانس مستثنیٰ ہے۔ ا س لئے کہ ان اشیا کی لوگ بالعموم پیداوار نہیں کرتے بلکہ اس سے زمین کو صاف کردیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص (حصولِ منفعت کے لئے) لکڑی والے درخت یا بانس یا گھاس ہی زمین میں اُگالے تو اس پر عشر عائد ہوجائے گا...
امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے ان اشیا کے بارے میں جن کا پھل باقی نہ رہے (جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور کھیرے ککڑی وغیرہ) امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے مختلف ہے اور ان اشیا میں (بھی) ان کے نزدیک زکوٰۃ ہے۔'' (فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۴۷۰ تا۴۷۱)
داود ظاہری وغیرہ کا نکتہ نظر بھی یہی ہے کہ
''ہر اراضی پیداوار پر زکوٰۃ ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں اور یہی ابراہیم نخعی کا بھی ایک قول ہے اور یہی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ، مجاہدؒ، حمادبن ابی سلمان ؒ سے مروی ہے۔'' (ایضاً)
امام احمد بن حنبلؒ سے اس سلسلہ میں کئی طرح کے اقوال مروی ہیں تاہم ابن قدامہ نے المغنی میں ان کا جو مشہور قول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ
''وکل ما أخرج اﷲ عزوجل من الأرض مما ...'' (المغنی: ج۴؍ ص۱۵۵)
ان تمام اشیا پر زکوٰۃ (عشر) ہے جن میں یہ تین وصف ہوں:
🔸1. خشک ہونے کی خاصیت ہو
🔸2. محفوظ کی جاسکتی ہوں
🔸3. اور تولی جاسکتی ہوں۔''
شوافع کا نکتہ نظر یہ ہے کہ (دیکھئے شرح المنہاج: ج۲؍ ص۱۶)
ہر وہ زرعی جنس جو غذا اور ذخیرہ بن سکتی ہے اس پرعشر ہوگا اور جن میں یہ شرائط نہ ہوں،ان پر عشر نہیں۔ مثلاً بادام، اخروٹ، پستہ، سیب، انار، امرود وغیرہ پر ان کے نزدیک عشر نہیں
مالکیوں کی بھی یہی رائے ہے تاہم انہوں نے صرف ۲۰ متعین چیزوں پر عشر واجب قرار دیا ہے۔
(دیکھئے الشرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی :ج۱ ص۴۴۷)
مذکورہ بالا اختلاف میں داود ظاہری کا نکتہ نظر ہمیں اَقرب ا لی السنۃ معلوم ہوتا ہے ۔امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا فتویٰ بھی یہی ہے ۔متاخر علمائے اہلحدیث کی بڑی تعداد بھی اسی کی قائل ہے اور علامہ یوسف قرضاوی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے ۔ باقی رہی ترمذی کی وہ حدیث جس میں ہے کہ 'سبزیوں میں زکوٰۃ نہیں' تو اسے خود امام ترمذی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
(()) اَموالِ تجارت پر زکوٰۃ :
ابن منذر فرماتے ہیں کہ
''وأجمعوا علی أن في العروض التي تدار للتجارة الزکوٰة إذا حال علیھا الحول'' (الاجماع: ص۴۵) ''اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ جو مال تجارت کے لئے ( رأس المال) ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔''
مذکورہ بالا اجماع جن نصوص کی بنیاد پر ہوا ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
(1)﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم...٢٦٧﴾... سورة البقرة
''اے ایمان والو! جو پاکیزہ مال تم نے کمائے ہیں، ان سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔''
(2) حضرت سمرہؓ سے مروی ہے کہ
''کان النبي! یأمرنا أن نخرج الصدقة من الذي نعدّ للبیع'' (ابوداود:۱۵۶۲)
''نبی اکرمﷺہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم ان تمام چیزوں سے زکوٰۃ ادا کریں جو بغرضِ تجارت ہمارے پاس موجود ہوں۔''
(3) حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
''اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، بکریوں پر زکوٰۃ ہے، گائیوں پر زکوٰۃ ہے اور تجارت کے کپڑے پرزکوٰۃ ہے۔'' (المحلی: ج۵؍ص۲۲۴)
اگرچہ مذکورہ بالا روایتوں کی سندوں پر بعض محدثین نے تنقید کی ہے، تاہم اجماعِ اُمت اور عمل صحابہؓ سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ سامانِ تجارت پر زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ (دیکھئے کتاب الاموال لابی عبید: ص۴۲۵ اور السنن الکبری للبیہقی :۴؍۱۴۷،فقہ الزکوٰۃ:ایضاً،الاجماع ص ۴۵)
آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ نہیں ہے!
سامانِ تجارت اور آلاتِ تجارت میں واضح فرق ہے۔ جوچیزیں تجارت کیلئے (For Sale) ہوں، ان پرہر سال چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ نکالا جائے گا۔ اہل ظواہر، امام شوکانی، اور نواب صدیق حسن خاں کو چھوڑ کر باقی اُمت کا اس پر اتفاق رہا ہے اور اسی طرح اُمت کا اس بات پر بھی اجما ع رہا ہے کہ آلاتِ تجارت خواہ وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں، ان پر زکوٰۃ نہیں تاہم ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پراگر ایک سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ نصاب کے برابر ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ دی جائے گی۔(دیکھئے: الفقہ علی المذاھب الأربعۃ: ج۱؍ ص ۵۹۵) اس سلسلہ میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:
(1) حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''لیس علی العوامل شيء''
(ابوداود:
۱۵۷۲) ''پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔''
(2) حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''لیس في الإبل العوامل صدقة'' (السنن الکبریٰ للبیہقی:۴ ؍۱۱۶)
''کام کرنے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے''
(3) امام بیہقی فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت میں اونٹوں کے ساتھ بیل، گائیوں کا بھی اس طرح ذکر ہے کہ
'' اوربیل گائیاں کام کرنیوالے ہوں تو ان میں بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔'' (ایضاً)
(4) اسی طرح حضرت علی ؓ ، حضرت جابرؓ اور بعض دیگر صحابہ اور تابعین و تبع تابعین سے مروی ہے کہ ''ہل چلانے والے جانور (بیل ، گائے وغیرہ) پر زکوٰۃ نہیں۔'' (ایضاً)
(5) مذکورہ بالا احادیث و آثار کی بنیاد پر جمہور فقہاء و محدثین کا متفقہ طور پر یہ موقف رہا ہے کہ پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں اور اگر کسی نے شذوذ و تفرد کی راہ اختیار کرتے ہوئے پیداوار کاذریعہ بننے والے جانوروں پر بھی زکوٰۃ عائد کرنے کی کوشش کی تو دیگر فقہاء ومحدثین نے اس کی تردید کی۔ مثلاً امام خطابی ابوداود کی روایت (نمبر۱) ذکر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''وقوله لیس في العوامل شيء بیان فساد قول من أوجب فیھا الصدقة وقد ذکرنا فیما مضیٰ'' (معالم السنن:ج۲؍ ص۳۰)
''حدیث ِنبوی کے یہ الفاظ کہ '' پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔'' ہر اس شخص کے موقف کی خوب تردید کرتے ہیں جو ان جانوروں پر بھی زکوٰۃ فرض قرار دیتے ہیں۔ ا ور یہ مؤقف کن کا ہے، اس کی وضاحت ہم پیچھے کر آئے ہیں۔''
واضح رہے کہ احادیث میں آلاتِ پیداوار کی جگہ اونٹوں اور گائیوں کا ذکر آیاہے اس لئے کہ اس دور میں یہی جانور آلاتِ پیداوار کی حیثیت رکھتے تھے، تاہم دورِ حاضر میں ان کی جگہ تمام جدید آلات بھی ذرائع پیداوار کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے جیسا کہ مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ لیس في الإبل العوامل صدقةکے ضمن میں رقم طراز ہیں کہ
''اس ارشاد میں اگرچہ اونٹ کا نام آیا ہے تاہم یہ ایک عام اصول ہے مثلاً دکان کا باردانہ یا فرنیچر زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے، اسی طرح فیکٹریوں میں نصب شدہ مشینیں جو پیداوار کا ذریعہ بنتی ہیں خود بکاؤ مال نہیں ہوتیں، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گی۔'' (تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۲۹۳)
اسی طرح ہر وہ چیز آلاتِ تجارت اور ذرائع پیداوار متصور ہوگی جو کرائے کے لئے دی جاتی ہو۔ مثلاً کرائے کا مکان، دکان، فرنیچر، گاڑیاں، بسیں اور دیگر سامان وغیرہ۔ یہ چیزیں بھی چونکہ کمائی کا ذریعہ (آلاتِ تجارت؍ذرائع پیداوار) ہیں، اس لئے ان سے حاصل ہونے والی آمدنی اگر نصاب کے بقدر ہو اور اس پر ایک سال کا عرصہ بھی گذر چکا ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ ( دیکھئے المغنی: ج۳ ص۴۷) خواہ بذاتِ خود یہ چیزیں کتنی ہی قیمتی اور مہنگی کیوں نہ ہوں۔ جمہور فقہائِ اُمت کا گذشتہ چودہ صدیوں سے یہی موقف رہا ہے مگر ماضی قریب میں علامہ یوسف قرضاوی اور ان کے تین استادوں (ابوزہرہ، عبدالرحمن حسن اور عبدالوہاب خلاف) نے اس مسئلہ میںاختلاف کرتے ہوئے ایک نئی رائے پیش کی اوروہ یہ ہے کہ صرف ایسے آلاتِ تجارت ، زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں ۔چنانچہ موصوف رقمطراز ہیں:
''جو آلات آج بھی دست کار کے ذاتی استعمال کے ہوں اور وہ ان کو خود استعمال کرتا ہو مثلاً حجام کے آلاتِ حجامت وغیرہ اور وہ آلاتِ صنعت جو حصولِ منفعت میں رأس المال کی حیثیت رکھتے ہیں اور مالک کو نفع پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہوں جیسے کارخانے کا مالک جواس کارخانے کو چلانے کے لئے مزدوروں کو اُجرت پرلگاتا ہو تو اس کے یہ صنعتی آلات (مشینیں) اس کا رأس المال اور مالِ نامی متصور ہوں گے کیونکہ اسے ان مشینوں سے جو منفعت حاصل ہورہی ہے، اس کے لحاظ سے یہ مشینیں آہن گر یا بڑھئی کے ان اوزاروں کے مشابہ نہ ہوں گی جن سے وہ ہاتھ سے کام لیتا ہے۔ اس لئے ان آلاتِ صنعت اور مشینوں کے مالِ نامی ہونے کے باعث ان پر زکوٰۃ عائد ہوگی اور ان کا شمار ذاتی استعمال کی اشیا میں نہیں ہوگا۔''
(فقہ الزکوٰۃ: ج۲؍ ص۶۱۰،۶۱۱)
مذکورہ اقتباس میں موصوف نے دو باتیں ذکر کی ہیں:'' ایک تو یہ کہ جدید صنعتی آلات مالِ نامی ہیں اور مالِ نامی پر زکوٰۃ فرض ہے''۔ حالانکہ ہر مالِ نامی موجب زکوٰۃ نہیں ہوتا اور خود موصوف نے بھی اس پر بحث کی ہے کہ ''ہر مالِ نامی محل زکوٰۃ نہیں۔'' اس کی مزید تفصیل پچھلے صفحات میں 'ذاتی استعمال کی اشیا پر زکوٰۃ' کے ضمن میں گزر چکی ہے۔
موصوف نے دوسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ قدیم دور کے آلاتِ صنعت کو جدید آلاتِ صنعت کا محل ِقیاس نہیں بنایاجاسکتا اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ قدیم آلاتِ صنعت براہِ راست استعمال ہوتے تھے جبکہ جدید آلاتِ صنعت اکثر و بیشتر بالواسطہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں مماثلت نہیں۔ حالانکہ یہ اعتراض سرے سے غلط ہے اس لئے کہ اوّل تو قدیم آلاتِ تجارت دونوں طرح ہی استعمال ہوتے تھے۔ بلاواسطہ میں تو انہیں بھی شک نہیں جبکہ غلاموں کے ذریعے اور کرائے اور ٹھیکے کے ذریعے ہونے والے سبھی کام بالواسطہ ہی کی مثالیں ہیں۔ اور دورِ حاضر میں کرائے پراستعمال ہونے والے تجارتی کمپلیکس، بسیں، گاڑیاں اور جہاز وغیرہ کو قدیم دور میں کرائے پر چڑھنے والے مکانوں، باغوں وغیرہ پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ اسی طرح وہ جدید آلاتِ صنعت جنہیں بالواسطہ استعمال کیا جاتا ہے، انہیں قدیم دور کے ان آلات پر قیاس کرنا صحیح ہے جن کے ذریعے مالکوں کے غلام کام کیا کرتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے جب عوامل (یعنی ذرائع پیداوار اور آلاتِ تجارت) کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے بالواسطہ اور بلاواسطہ کی کوئی تفریق نہیں کی تو پھر ہمیں اس تفریق کی آخرکیا ضرورت ؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یوسف قرضاوی نے ہمارے موقف کے حامل متقدم فقہاکے دلائل ذکر کرتے ہوئے ان صریح احادیث کو پیش نہیں کیا جن میں ذرائع پیداوار کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔کچھ یہی صرفِ نظر پروفیسر احمد اقبال قاسمی صاحب نے اپنے مضمون 'زکوٰۃ کا نفاذ ، چند قابل غور پہلو' (شائع شدہ ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۳ء) میں کیاہے۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے سامانِ تجارت اور آلاتِ تجارت کو ایک ہی زاویہ سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور آخر میں یہ الفاظ رقم کردیے ہیں کہ
''احقر بھی حضرت مولانا محمد طاسین مرحوم اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر ابوزہرہ، پروفیسر عبدالوہاب خلاف کے نظریات کی پوری طرح تائید کرتا ہے۔'' (ماہنامہ 'ترجمان القرآن' اگست ۲۰۰۳ئ:ص۵۳)
حالانکہ یہ اصحاب اگرچہ آلاتِ تجارت کی بعض صورتوں پر وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں لیکن یہ آلاتِ تجارت اور سامانِ تجارت میں فرق ضرور کرتے ہیں۔ اس لئے مضمون نگار کو چاہئے تھا کہ وہ ان اصحاب کے نکتہ نظر کا بغور مطالعہ کرکے کوئی رائے دیتے۔ لیکن انہوں نے مذکورہ مضمون میں چونکہ ایک دو ثانوی مصادر سے سرسری استفادہ کے بعد اخذ و ترتیب سے کام لیا ہے، اس لئے نہ صرف یہ کہ پورا مضمون ہی خلط ِمبحث کا شکار دکھائی دیتا ہے بلکہ اس میں یہ بلند بانگ دعویٰ بھی ہے کہ: ''ان حضرات (یعنی آلاتِ تجارت پر عدمِ وجوب کے قائل... ناقل) کے پاس قرآن و سنت کی کوئی صریح دلیل نہیںہے۔ اس کا سارا انحصار فقہا کی درج ذیل عبارت پر ہے جو حاجاتِ اصلیہ پر زکوٰۃ نہ ہونے سے متعلق ہے...'' ( ایضاً:ص۵۲)
حالانکہ مضمون نگار اگر بنیادی مصادر ومراجع کی طرف رجوع کرلیتے تو یقینا اتنا بڑا دعویٰ نہ کرتے۔ کیونکہ قرآن و سنت میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سے آلاتِ تجارت پر عدمِ وجوبِ زکوٰۃ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میںچار احادیث و آثار تو ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں۔ باقی رہی قرآنی دلیل تو وہ بھی پیش خدمت ہے :
﴿أَمَّا السَّفينَةُ فَكانَت لِمَسـٰكينَ يَعمَلونَ فِى البَحرِ‌...٧٩﴾... سورة الكهف
''کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔''
اس آیت میں یہ بات موجود ہے کہ دریائی کشتی جو یقینا ایک قیمتی چیز تھی، کے مالک ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسکین قرار دیا ہے اور مسکین بذاتِ خود مستحق زکوٰۃ ہوتا ہے۔ گویا کشتی جو ان لوگوں کے لئے آلہ تجارت تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی کوئی بات نہیں کی لہٰذا اسی طرح ہر آلہ تجارت زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار پائے گا خواہ وہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ دریا اور سمندر میں کام کرنے کے قابل درمیانے درجہ کی کشتی بھی انتہائی قیمتی ہوتی ہے اور خود ہمارے ایک دوست نے ایسی ہی معمولی کشتی ۱۵ لاکھ میں خریدی حالانکہ وہ تھی بھی استعمال شدہ۔
مجلہ'ترجمان القرآن' کی مناسبت سے یہاں یہ بات واضح کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔترجمان سید مودودیؒ کی رائے بھی اس مسئلہ میں وہی تھی جو جمہور فقہائے امت کی گذشتہ چودہ صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ چنانچہ سید مودودیؒ نے بعض لوگوں کے اعتراضات کے باوجود یہی رائے دی کہ
'' کرایہ پر دی جانے والی اشیا کے بارے میں جو کچھ لکھا گیاتھا وہ مختصر تھا، اس لیے بات واضح نہ ہو سکی ۔میرا مدعا یہ ہے کہ جولوگ فرنیچر یاموٹریں یا ایسی ہی دوسری چیزیں کرائے پر چلانے کا کاروبار کرتے ہیں، ان کے کاروبار کی مالیت اس منافع کے لحاظ سے مشخص کرنی چاہیے جو اس کاروبار میں ان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فرنیچریا ان موٹروں کی قیمت پر زکوٰۃ محسوب کی جائے جسے وہ کرائے پر چلاتے ہیں۔ کیونکہ یہ تووہ آلات ہیں جن سے وہ کام کرتے ہیں اور آلات کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کاروبار جو منافع دے رہا ہو اس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جائے گی کہ اس قدر منافع دینے والے کاروبار کی مالیت کیا قرار پانی چاہیے ۔رہے کرایہ کے مکانات تو ان کے بارے میں مجھے بھی اس بنا پر تامل ہے کہ سلف سے ان پر زکوٰۃ لگائے جانے کاثبوت نہیں ملتا۔''
'الإبل العوامل'(کام کرنے والے اونٹوں) پر زکوٰۃ نہ لگنے کی وجہ وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہے کہ ایک آدمی جن آلات یا حیوانات کے ذریعے سے کام کرتا ہو، ان پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ مثلاً ہل چلانے والے بیل یا بار برداری کے جانور، ان پر زکوٰۃ ِمواشی عائد نہ ہوگی۔ اسی طرح ڈیری فارم کے جانوروں پر زکوٰۃ ِمویشی عائد نہ ہوگی، ان کی زکوٰۃ تو اس پیداوار پر زکوٰۃ لگنے کی صورت میں وصول ہوجاتی ہے جو ان کے ذریعہ سے حاصل کی گئی ہو۔ کرایہ پر چلانے جانے والے اونٹوں پر بھی عوامل کا اطلاق ہوتا ہے، اس لئے ان پر بھی زکوٰۃ مویشی عائد نہ ہونی چاہئے اور نہ ان کی مالیت پر زکوٰۃ لگنی چاہئے۔ بلکہ اس کرایہ کے کاروبار کی جو Good Willمشخص ہو، اس پر زکوٰۃ لگنی چاہئے۔''
(ترجمان القرآن:فروری ۱۹۶۲ء اور رسائل ومسائل حصہ سوم: ص ۳۳۰)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کرائے پرچلنے والے بڑے بڑے کمپلیکس، بسیں، جہازاور قیمتی مشینری وغیرہ کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرا ردے دیا جائے تو پھر بہت سے لوگ زکوٰۃ سے بری ہوجائیں گے اور غربا کی حق تلفی ہوگی۔ حالانکہ یہ محض مفروضہ ہے، اس لئے کہ جس شخص کے آلاتِ تجارت کروڑوں کی مالیت کے ہوں، اس کی آمدن بھی لاکھوں سے کم نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی آمدن پر جب ہزاروں، لاکھوں روپیہ بطورِ زکوٰۃ نکل رہا ہے تو پھر اسے کسی ایسی تنگی میں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت جو شریعت نے پیدا نہیں کی۔ بلکہ ایسے اصحابِ ثروت اگر آمدن ہی کی زکوٰۃ نیت و خلوص سے ادا کرتے رہیں تو معاشی و معاشرتی سطح پر بہت بڑی مثبت تبدیلی رونما ہوجائے گی۔٭ ان شاء اللہ
اموالِ تجارت پر زکوة / از : الشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ تعالیٰ
جمہور اہل علم جن میں ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، مالک، شافعی، اور احمد رحمہم اللہ بھی شامل ہیں سب کے سب سامانِ تجارت پر زکاۃ واجب ہونے کے قائل ہیں۔
انہوں نے اس بارے میں کتاب و سنت اور اقوال صحابہ سے متعدد دلائل دئیے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1- فرمانِ باری تعالی :
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنی تجارت اور جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔[البقرة:267]
مجاہد اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت تجارت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
2- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان چیزوں کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے جو ہم تجارت کیلئے تیار کرتے تھے)
ابو داود (1562) ابن عبد البر نے اسے حسن کہا ہے، جبکہ البانی نے اسے "ارواء الغلیل"(827) میں ضعیف قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "تلخیص الحبیر" (2/391) میں کہتے ہیں: اس کی سند میں مجہول راوی ہیں، نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/5) میں کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔
3- دارقطنی اور حاکم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ فرما رہے تھے: (اونٹوں میں زکاۃ ہے، بکریوں میں زکاۃ ہے، گائے میں زکاۃ ہے، اور کپڑے میں بھی زکاۃ ہے۔۔۔) الحدیث
حافظ ابن حجر "تلخیص الحبیر" (2/391) میں کہتے ہیں: "اس کی سند میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے" اور نووی رحمہ اللہ نے سے "المجموع"(6/4) میں صحیح کہا ہے۔
حدیث میں مذکور " اَلْبَزّ " کپڑے کو یا اس کی کسی خاص قسم کو کہتے ہیں، اس کو پڑھنے کیلئے "با" پر زبر اور آخر میں "زا"ہے، دار قطنی اور بیہقی نے اس کا اعراب یہی بتلایا ہے، اور اس حدیث کو حاکم نے صحیح کہا ہے جبکہ دیگر علماء نے اس کے بارے میں نکتہ چینی کی ہے، اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کچھ لوگوں نے "با" پر پیش اور آخر میں "را" پڑھا ہے، جو کہ غلط ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں سامانِ تجارت پر زکاۃ لاگو ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ عام کپڑوں میں اس وقت تک زکاۃ نہیں ہوتی جب تک وہ تجارت کیلئے نہ ہوں، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہی ہوگا کہ یہاں کپڑوں میں زکاۃ سے مراد تجارت کی غرض سے لئے جانے والے کپڑے ہیں۔
4- بخاری: (1468) مسلم: (983) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصولی کیلئے روانہ فرمایا تو ابن جمیل ، خالد بن ولید، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہم نے زکاۃ ادا نہ کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن جمیل اس لیے ادا نہیں کر رہا کہ پہلے فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی بنا دیا ہے! جبکہ خالد سے تم زیادتی کر رہے ہو، کیونکہ اس نے اپنی ذرہیں اور سامان سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیا ہے، جبکہ عباس کی زکاۃ میرے ذمہ ہے، بلکہ زکاۃ سے ایک گنا زیادہ میرے ذمہ ہے)
الماخذ : الاسلام سوال و جواب
___________ زکاۃ کے مصارف ____________
______وہ کون سے مصارف ہیں جن میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے_______
جن آٹھ مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین: ان لوگوں کو زکاۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔
فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ : فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے، چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا۔
لیکن یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ان کی اس ضرورت و حاجت کو کیسے تولا جائے؟
اس کے جواب میں علمائے کرام کہتے ہیں:
"انہیں ان کے خاندان کی ایک سالہ ضروریات کیلئے کافی کر دینے والی مقدار میں مال دیا جائے گا، کیونکہ ایک سال بعد دوبارہ ان کے لئے اصحاب ثروت کے مال میں زکاۃ واجب ہو جائے گی، چنانچہ زکاۃ کے مستحق فقراء اور مساکین کی ایک سالہ ضروریات و حاجات کا اندازہ لگایا جائے گا۔
یہ اچھا موقف ہے، کہ ہم فقراء و مساکین اور ان کے اہل خانہ کو مکمل ایک سال کی اشیائے ضرورت وغیرہ دیں، چاہے یہ راشن اور لباس کی صورت میں ہوں یا نقدی کی صورت میں کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں خرید لیں، یا کسی بھی فن میں ماہر زکاۃ کے مستحق فرد کو متعلقہ آلات و اوزار خرید کر دیں، مثلاً: درزی، بڑھئی، لوہار وغیرہ کو مطلوبہ چیزیں خرید کر دے دیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی مقدار میں زکاۃ دیں گے"
تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے، اسی لیے فرمایا: (وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ) اور زکاۃ جمع کرنے والے عاملین[التوبة:60] اللہ تعالی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: " وَالْعَامِلِينَ فِيْهَا " کیونکہ " وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا " میں یہ اشارہ ہے کہ انہیں اس کام کیلئے حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے، یعنی وہ لوگ جو مالدار طبقہ سے زکاۃ اکٹھی کر کے زکاۃ کے مستحق افراد میں اسے تقسیم کریں، زکاۃ کا حساب کتاب رکھیں، چنانچہ ان لوگوں کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کتنا دیا جائے گا
اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، چنانچہ جس کا حق زیادہ ہو اسے زیادہ اور جس کا حق کم ہو اسے کم دیا جائے، یعنی ہر ایک کی ملازمت کے اعتبار سے اس کی تنخواہ مقرر کی جائے، چاہے کام کرنے والے یہ لوگ امیر ہوں یا غریب، کیونکہ انہیں یہ تنخواہ ملازمت کی وجہ سے دی جا رہی ہے ان کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں دی جا رہی، اس لئے انہیں ان کی ملازمت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، تاہم اگر انہی زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں میں کچھ غریب لوگ بھی ہے کہ ان کی تنخواہ ضروریات سے کم ہے تو انہیں بھی غربت کی وجہ سے ضرورت کے مطابق ایک سال کا راشن وغیرہ دیا جائے گا، کیونکہ یہ لوگ عامل اور غریب دونوں کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے دونوں کے اعتبار سے انہیں زکاۃ دی جائے گی، تاہم انہیں دیتے ہوئے یہ خیال رکھیں گے کہ تنخواہ کے بعد جس قدر ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکاۃ کی ضرورت ہو اتنی ہی مقدار میں انہیں زکاۃ دینگے، اس کی مثال یوں سمجھیں: ہم یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں سالانہ 10000 ریال کی ضرورت ہے، اور انہیں غربت کی مد میں 10000 ریال ہی ملیں گے، لیکن زکاۃ جمع کرنے کے بدلے میں انہیں 2000 ملے ہیں تو باقی 8000 ریال ہم انہیں غربت کی وجہ سے دیں گے۔
چوتھا مصرف:
جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہو:
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے کچھ دیا جائے چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو، یا پھر کوئی کمزور ایمان والا مسلمان ہو جسے دیکر اسلام پر ثابت قدم رکھا جا سکے، یا پھر کوئی غیر مسلم شریر شخص ہو جسے پیسے دے کر مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ بنایا جا سکے، یا مسلمانوں کے بھلے کیلئے کوئی بھی مد ہو اس میں زکاۃ اس مصرف کے تحت خرچ کی جا سکتی ہے۔
یہاں کسی غیر مسلم یا مسلمان کو زکاۃ دیتے ہوئے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ جس شخص کی تالیف قلبی کیلئے کچھ دیا جائے تو وہ کنبے ، خاندان، یا علاقے میں با اثر شخصیت ہونی چاہیے ، تا کہ اسے زکاۃ دینے کا سب مسلمانوں کو فائدہ ہو۔
تاہم کیا انفرادی طور پر بھی کسی شخص کو اس مصرف کے تحت زکاۃ دی جا سکتی ہے؟ جیسے کہ ایک نو مسلم شخص کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کیلئے اور ایمان مضبوط بنانے کیلئے زکاۃ کا مال دیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، جبکہ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ:
ایسے شخص کو انفرادی طور پر بھی دیا جا سکتا ہے، چاہے یہ شخص اپنے علاقے کی بااثر شخصیت نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان: ( وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) عام ہے، ویسے بھی اگر کسی کمزور شخص کو مالی طور پر مضبوط کرنے کیلئے انفرادی حیثیت میں دینا جائز ہے تو کسی کمزور ایمان والے کو ایمانی مضبوطی کیلئے دینا بالاولی جائز ہوگا۔
مذکورہ چاروں مصارف کے ضمن میں آنے والے لوگوں کو زکاۃ کا مال ان کی ملکیت میں دے دیا جائے گا، چنانچہ انہیں ملنے والا زکاۃ کا مال پوری طرح سے ان کی ملکیت میں شامل ہوگا، لہذا اگر دورانِ سال ان کی مالی حالت اتنی اچھی ہو جاتی ہے کہ وہ زکاۃ کے مستحق نہیں رہتے تو بقیہ زکاۃ انہیں واپس نہیں کرنی پڑے گی، بلکہ سارا مال آزادی سے استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے "لام" حرف جر کے ذریعے ان کی ملکیت کو واضح کیا ہے، چنانچہ فرمایا: " إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ" اور حرف جر "لام" ذکر فرمایا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ : اگر کوئی فقیر زکاۃ لینے کے بعد سال کے اندر اندر امیر بن جائے تو اسے زکاۃ واپس نہیں کرنی پڑے گی، مثلاً: ہم نے کسی غریب کو 10000 ریال ایک سال کے خرچے کے طور پر دیے، اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ سال گزرنے سے پہلے تجارت، وراثت یا کسی ذریعے سے امیر ہو گیا، تو اسسے وصول کردہ زکاۃ واپس نہیں کرنی ہوگی، کیونکہ یہ زکاۃ کا مال اس کی ملکیت بن چکا ہے۔
پانچواں مصرف:
گردن آزاد کروانا:
فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَفِي الرِّقَابِ )، یہاں تین چیزیں علمائے کرام نے بیان کی ہیں:
1- مکاتب غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے مؤجل ادائیگی پر معاہدہ کر لیا ہے، تو ایسے غلام کو اتنی رقم دی جائے گی جس سے اس کی قیمت ادا ہو جائے۔
2- غلام کو زکاۃ کی رقم سے خرید کر آزاد کر دیا جائے۔
3- کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکاۃ سے رقم دیکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائے، اسی طرح اغوا برائے تاوان بھی اسی میں شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی کافر یا مسلم کسی مسلمان کو اغوا کر لے تو یہ تاوان زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں علت اور وجہ ایک ہی ہے، اور وہ ہے کہ کسی مسلمان کو قید سے آزادی مل جائے، لیکن اغوا برائے تاوان میں یہ شرط ہے کہ : ہم اغوا کاروں سے مسلمان کو بغیر تاوان دیے آزاد نہ کروا سکتے ہوں۔
چھٹا مصرف:
قرض اٹھانے والے لوگ: اہل علم نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
1- دو متحارب گروپوں میں صلح کروانے پر دونوں کو مال دیکر صلح پر آمادہ کرنا
2- اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھانا
پہلی قسم کی مثال یہ ہے کہ: دو متحارب گروپوں یا قبائل یا خاندانوں میں لڑائی ہو اور کوئی با اثر اور محترم شخصیت کا مالک شخص دونوں میں پیسے دیکر صلح کروا دے ، تو ہم صلح کروانے والے شخص کی نیکی اور احسان مندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو زکاۃ میں سے وہ رقم دیں گے جو اس نے صلح کیلئے اپنی ذمہ لی، کیونکہ اس نے مسلمانوں کے درمیان عداوت، اور بغض کا خاتمہ کیا اور قتل و غارت کا دروازہ بند کر دیا ہے، ایسے شخص کو بھی زکاۃ کا مال دیا جائے گیا چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کیونکہ ہم اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ نہیں دے رہے، بلکہ ہم اسے اس لیے دے ہیں کہ اس نے مفاد عامہ کا بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
اس کی دوسری قسم میں وہ شخص شامل ہے جس نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھایا ، یا کوئی ضرورت کی چیز خرید کر اپنے پاس رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ذمہ قرض لکھوا لیا تو اس کا قرض زکاۃ سے ادا کر دیا جائے گا، بشرطیکہ اس کے پاس قرضہ ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو۔
یہاں ایک مسئلہ ہے کہ: کیا اس مقروض کو پیسے دے دینا بہتر ہے یا براہِ راست قرض خواہ کو جا کر پیسے دے دیں اور مقروض کا قرض ختم کر وا دیں؟
اس بارے میں مختلف آراء ہیں، چنانچہ اگر مقروض اپنا قرض چکانے کیلئے پوری کوشش کر رہا ہو، اور قرضے سے جان چھڑانے کی پوری جد و جہد کرے ، نیز اگر اسے کہیں سے رقم ملے تو وہ سب سے پہلے قرض ہی چکائے گا تو ہم مقروض کو ہی یہ رقم تھما دیں گے، کیونکہ اس طرح اس پر پردہ بھی رہے گا، اور لوگوں کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑے گا کہ اس کا قرض اسی نے خود ادا کیا ہے، کسی نے زکاۃ سے ادا نہیں کیا۔
اور اگر مقروض شخص فضول خرچ ہے، اور رقم دینے وہ پر غیر ضروری اشیاء خرید لے گا، تو ہم ایسے مقروض کو رقم نہیں دینگے، بلکہ براہِ راست قرض خواہ کو رقم دیکر کہیں گے: "فلاں شخص کا کتنا قرض ہے؟" تو پھر اس قرض کی ادائیگی حسب توفیق کر دیں۔
ساتواں مصرف:
فی سبیل اللہ: اور یہاں "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، چنانچہ نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہی حقیقت میں ہوتا تو آیت :
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ) [التوبة:60] میں حصر اور تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا، اس لیے "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، لہذا جہاد فی سبیل اللہ میں لڑنے والے شخص کو زکاۃ میں سے دیا جائے گا، جن کی ظاہری حالت سے یہی محسوس ہو کہ یہ لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جہاد کر رہے ہیں، انہیں اپنی ضروریات اور اسلحہ وغیرہ کی خریداری کیلئے زکاۃ میں سے دیا جائے گا۔
اسی طرح انہیں قتال کیلئے اسلحہ خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہونا چاہیے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا: "ایک آدمی خاندانی تعصب کی وجہ سے لڑتا ہے، دوسرا داد شجاعت وصول کرنے کیلئے لڑتا ہے، اور تیسرا دکھاوے کیلئے لڑتا ہے، ان میں سے کون سا "جہاد فی سبیل اللہ" میں قتال کر رہا ہے؟ " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑے وہی فی سبیل اللہ ہے) لہذا اپنے وطن کے دفاع میں لڑنے والا اور دیگر وجوہات کی بنا پر قتال کرنے والا "جہاد فی سبیل اللہ" میں شامل نہیں ہے، چنانچہ اسے وہ حقوق حاصل نہیں ہونگے جو "جہاد فی سبیل اللہ" والے کو حاصل ہوتے ہیں، نہ دنیاوی اعتبار سے اس کی مالی معاونت کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی اخروی طور پر سرخرو ہو سکتا ہے۔
چنانچہ جو شخص داد شجاعت وصول کرنے کیلئے قتال میں شریک ہے اور ایسے لوگ عموماً ہر قسم کی لڑائی میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں، یہ بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، اسی طرح دکھاوے اور شہرت پانے کیلئے لڑنے والا بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، لہذا ہر وہ شخص جو "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ ) اس لیے صرف اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑنے والا ہی مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا۔
اہل علم کہتے ہیں: "سبیل اللہ" میں یہ بھی شامل ہے کہ جو شخص شرعی علم حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر وقت دے، تو اسے بھی جیب خرچی، کپڑے، کھانا ، پینا، رہائش، اور کتب وغیرہ لے کر دی جا سکتی ہیں؛ کیونکہ علم شرعی بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حصول علم کیلئے اگر نیت درست ہو تو اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے" چونکہ علم پوری شریعت کی بنیاد ہے، لہذا علم کے بغیر شریعت کا تصور بھی نہیں ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور شرعی احکام سیکھیں، اسی سے اپنا عقیدہ و قولی و عملی عبادات حاصل کریں، [اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب شرعی علم سیکھا اور سکھایا جائے گا] یہ بات درست ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اشرف اور معزز ترین عمل ہے، بلکہ اسلام کی کوہان کی چوٹی ہے، اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں، تاہم علم کا بھی اسلام میں بہت بڑا مقام ہے، اس لیے [حصول]علم کو جہاد فی سبیل اللہ میں شامل کرنا بالکل واضح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
آٹھواں مصرف:
ابن سبیل: اس سے مراد مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکاۃ سے امداد دی جائے گی، چاہے یہ شخص اپنے علاقے میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، کیونکہ اسے ابھی امداد کی ضرورت ہے، یہاں ہم اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی سے قرض اٹھا لو اور بعد میں اد اکر دینا، کیونکہ اس طرح ہم اسے مقروض کر دینگے، [جب کہ قرآن مجید اسے زکاۃ کی مد سے امداد لینے کی اجازت دیتا ہے]، تاہم اگر وہ شخص خود سے قرض اٹھانے پر تیار ہو تو یہ اس کی مرضی ہے، لہذا اگر ہمیں کوئی شخص مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ملے اور اس کے پیسے وغیرہ گم ہو گئے ہوں ، اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، لیکن اپنے شہر میں صاحب حیثیت ہو تو اسے صرف مدینہ پہنچنے کیلئے امداد دیں گے، کیونکہ اسے صرف اتنی ہی ضرورت ہے، لہذا زکاۃ کی مد سے زیادہ نہیں دے سکتے۔
جب ہمیں زکاۃ کے مصارف معلوم ہوگئے تو اس کے علاوہ دیگر مفاد عامہ یا خاصہ کیلئے زکاۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ مساجد کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر، دفاتر وغیرہ کیلئے زکاۃ صرف کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے زکاۃ کے مستحق مصارف کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ( فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) یعنی یہ زکاۃ کی تقسیم کے مصارف اللہ کی طرف سے فرض ہیں، اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال ہے کہ:
کیا ان آٹھ مصارف میں سے ہر ایک کو دینا لازمی ہے؟ کیونکہ "واو" حرف عطف کا استعمال کیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سب کو بیک وقت حکم میں شامل کیا جائے
اس کا جواب یہ ہے کہ:
ایسا کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: (انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ واجب کی ہے، جو تمہارے مخیر لوگوں سے لیکر غریب لوگوں میں تقسیم کی جائے گی) چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی صنف بیان کی، لہذا اس حدیث میں صرف مصرف بیان کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آیت میں زکاۃ کے مستحقین بیان فرمائے ہیں، نہ کہ یہ کہا ہے کہ سب کو زکاۃ بیک وقت دینا لازمی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ:
ان آٹھ مصارف میں سے کس کو زکاۃ دیتے ہوئے ترجیح دینی چاہیے
تو ہم کہیں گے: ترجیح اسی کو دی جائے گی جس کو تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی؛ کیونکہ ان تمام مصارف کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، اور ان میں سے ترجیح صرف اسی کو ملے گی جسے تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی، چنانچہ عام طور پر زیادہ ضرورت فقراء اور مساکین کو ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہی کا ذکر آیت کے شروع میں فرمایا:
"صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے"
[التوبة:60]
قرض کو زکوة میں بدلنا :
اہل علم نے یہ بات صراحت کیساتھ کہی ہے کہ : اگر کسی شخص کا کسی غریب شخص کے ذمہ قرض ہو تو قرض خواہ اپنا قرض معاف کر دے اور اسے زکاۃ میں شمار کرے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب غریب شخص کی ملکیت میں کوئی چیز آئے گی، لیکن اس صورت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے، چنانچہ اس بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"اگر آپ کا کسی مریض یا تنگ دست غریب کے ذمہ قرض ہو تو اسے زکاۃ شمار کرتے ہوئے معاف کر سکتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ تنگ دست مقروض شخص کو اتنی مہلت دینا واجب ہے کہ وہ آسانی سے قرضہ واپس کر سکے، ویسے بھی زکاۃ اسی وقت ہوگی جب اس میں ادائیگی ہو،
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ )
نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو
[البقرہ: 43]
لیکن تنگ دست مقروض شخص کو قرضہ معاف کرنے میں ادائیگی نہیں ہوگی، بلکہ یہ معافی ہے، ویسے بھی اس طرح کرنے کا مقصود اپنے مال کو تحفظ دینا ہے، غریب شخص کیساتھ ہمدردی کا پہلو بہت کم ہے۔
تاہم آپ اسے اس کی غربت اور ضروریات کو سامنے رکھ کر زکاۃ دے سکتے ہیں، چنانچہ اگر غریب آدمی زکاۃ وصول کر کے اس میں سے کچھ پیسے آپکو قرض کی واپسی کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ آپ اس عمل کیلئے اسے مجبور نہ کریں، بلکہ غریب آدمی اپنی خوشی سے ایسے کرے۔
اللہ تعالی سب لوگوں کو دین کی سمجھ اور دین پر استقامت سے نوازے۔" انتہی
"فتاوى الشیخ ابن باز" (280/14)
چنانچہ اگر خود زکاۃ دینے والے کیلئے مقروض شخص سے قرضہ معاف کر کے اسے زکاۃ میں شمار کرنا جائز نہیں ہے، تو صرف زکاۃ کی تقسیم کیلئے مقرر شخص کیلئے اپنے مقروض شخص سے قرضہ معاف کرنا کیسے جائز ہوگا؟!، اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ زکاۃ مستحقین میں تقسیم کر دے، چنانچہ اس کیلئے تو ایسا کرنا زیادہ سختی سے منع ہوگا، اور اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو یہ محض اپنے مفاد کیلئے کریگا۔
یہ بات عیاں ہے کہ اگر کوئی مقروض تنگ دست ہو تو قرض خواہ کو مزید مہلت دے دینی چاہیے
فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
ترجمہ: اور اگر [مقروض] تنگ دست ہو تو آسانی تک مہلت دے دو،
اور اگر تم صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو
[البقرة:280]
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی اگر مقروض شخص تنگ دست ہو اس کے پاس قرض ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو تو قرض خواہ کو آسانی تک مہلت دے دینی چاہیے، اور مقروض پر واجب ہے کہ کسی بھی جائز طریقے سے مال حاصل ہو تو فوری قرض ادا کر دے، لیکن اگر قرض خواہ مقروض سے مکمل یا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے" انتہی
تفسیر السعدی ( ص 959 )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search