تقلید
ِسْـــــــــــــــــــــــمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم
عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
۔ ─━══★◐★══━─
لفظی معنی:
تقلید کے معنی ہیں سوچے
سمجھے بغیر یا بلا دلیل کسی کی پیروی کیجائے۔ یہ لفظ قلادہ سے بنا ہےاور قلادہ اس
پٹے کو کہتے ہیں جو جانوروں کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہےاور اس میں رسی ڈال کر
جانوروں کو کھینچا جاتا ہے۔
اصطلاحی معنی:
اصطلاح میں تقلید کے
معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے قول پر، اسکی دلیل معلوم کیے بغیر عمل کرے
"المعجم الوسیط، الاحکام فی اصول الاحکام ص 835"
تقلید کیا ہے ؟ ائمہ کے
حوالوں سے :
◈ امام اندلس، حافظ ابن
عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
والتقليد أن تقول
بقوله، وأنت لا تعرف وجه القول، ولا معناه، وتأبى من سواه، او أن يتبين لك خطأه،
فتتبعه مهابة خلافه، وانت قد بان لك فساد قوله، وهذا محرم القول به فى دين الله
سبحانه وتعالى.
’’ تقلید یہ ہے کہ آپ اس
(معیّن شخص) کی بات کو تسلیم کر لیں، حالانکہ آپ کو نہ اس کی دلیل معلوم ہو، نہ اس
کا معنیٰ اور اس کے علاوہ آپ ہر بات کا انکار کریں۔ یا یوں سمجھیں کہ آپ پر اس
(معیّن شخص) کی غلطی واضح ہو جائے تو پھر بھی اس کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسی کی
پیروی کرتے رہیں۔ ایسا کرنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت میں حرام ہے۔ “ [ جامع
بيان العلم و فضله : 787/2 ]
◈ علامہ محمد بن احمد بن
اسحاق بن خواز، ابوعبداللہ مصری مالکی کہتے ہیں :
التقليد، معناه فى
الشرع الرجوع إلى قول لا حجة لقائله عليه، وهذا ممنوع فى الشريعة.
’’ تقلید کا اصطلاحی معنیٰ
یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کیا جائے جس کی قائل کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ شریعت
اسلامیہ میں یہ کام ممنوع ہے۔ “ [ جامع بيان العلم و فضله : 992/2 ]
↰ معلوم ہوا کہ تقلید
ممنوع اور خلاف شرع ہے۔ وحی اور دین کے مقابلے میں انسانوں کی آراء کو عقائد و
اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوا نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع
ہے کہ تقلید حرام و ممنوع ہے۔ قرآن و حدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و
جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔
اس مضمون میں اتباع اور
تقلید میں جوبنیادی فرق ہے وہ واضح کیا گیا ہے۔سردست اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے
کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ آخری امام محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت اور لوگوں کے اپنے
بنائے ہوئے اماموں کی تقلید میں کیا فرق ہے؟مضمون میں مختلف پہلو سے فرق کو واضح
کیا گیا ہے۔
تقلید اور اتباع میں
کیا فرق ہے جانیے :
◉پہلا
فرق: اطاعت رسول ﷺ کا حکم الہی :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’واطيعوا الله واطيعوا
الرسول واحذروا فان توليتم فاعلموا انما علي رسولنا البلغ المبين‘‘( المائدہ:92)اور تم اللہ کی اطاعت
کرتے رہو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو، اگر تم ان کی اطاعت سے)
روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ﷺ کی ذمہ داری تو بس صاف صاف پہنچادینا
ہے۔
◉ دوسرا فرق:اللہ تعالی
کی محبت اور مغفرت کی ضمانت:
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’قل ان كنتم تحبون الله
فاتبعوني يحببكم الله ويغفرلكم ذنوبكم والله غفوررحيم‘‘(آل عمران:31)
اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے
کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا
اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا،بےشک اللہ تعالی معاف کرنے والا اور بڑا رحم
کرنے والا ہے۔
کس قدر فضیلت ہے،اتباع
رسولﷺ کی کہ آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالی کی محبت کا دعوی قابل قبول نہیں ۔اس
دعویٰ کے صدق کےلیے جس دلیل کی ضرورت ہے وہ دلیل رسو ل اللہ ﷺ کی اتباع ہے۔
◉ تیسرا فرق: اطاعت رسول
ﷺ اللہ تعالی کی اطاعت ہے :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’من يطع الرسول فقد اطاع
الله‘‘(النساء:80)
جس نے رسول ﷺ کی اطاعت
کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یہ ایک عظیم فضیلت ہے
کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت وفرمانبرداری قرار دیا
ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں لوگوں کے مقرر کردہ امام کی
تقلید کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری نہیں کہا۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی
اطاعت کا بس صرف ایک ہی ذریعہ ہے ،ایک ہی راستہ ہے،ایک ہی طریقہ ہے کہ رسولﷺ کی
اطاعت کی جائے۔
◉ چوتھا فرق: قبولیت عمل
کی یقین دہانی :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
يايها اللذي امنوا
اطيعوا الله واطيعوا الرسول ولا تبطلوا عمالكم (محمد33)
اے ایمان والو! تم اللہ
کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔
جو عمل اللہ اور رسول ﷺ
کی اطاعت کے مطابق نہ ہو وہ عمل باطل ہے،اس کی کوئی فضیلت ہے نہ کوئی ثواب ،ام
المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:
’’من عمل عملاً ليس عليه
امرنا فهو رد‘‘ (صحیح مسلم)
جس کسی نے کوئی ایسا
عمل یا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ہے،یعنی نامقبول ہے اسے رد کر دیا
جائے گا۔
◉ پانچواں فرق: فیصلۂ
رسول اللہ ﷺ کا حتمی و ابدی ہونا :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’وما كان لمومن ولا
مومنة اذا قضي الله ورسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص اله ورسوله
فقدضل ضللا مبينا‘‘ (الاحزاب36)
کسی مومن مرد اور مومن
عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو
پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور
اس کےر سولﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ
کسی مومن کے پاس اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ’’فیصلے‘‘ کے آجانے کے بعد کوئی اختیار
باقی نہیں رہتا اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ اسے صدق دل سے تسلیم
کرلے،ورنہ وہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا۔یہ شان ہے اللہ کے مقررک ردہ ’’امام ‘‘
کی اور حق کی یہی شان ہوتی ہے۔اس کے برعکس ’’خود ساختہ امام‘‘ کے فیصلوں کی نہ تو
یہ شان ہے نہ ہی اہمیت۔اور خود ان کے مقلدین کو بھی اس کا اعتراف ہے۔
◉ چھٹا فرق: درد عذاب کی
وعید :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’فليحذر اللذين بخالفون
عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم‘‘ (النور،63)
پس (رسول اللہ ﷺ) کے
امر کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں
یا ان پردرد ناک عذاب نہ آجائے
اس آیت میں اللہ کے
مقرر کردہ امام محمدﷺ کے امر یعنی حکم یا فعل کی مخالفت کرنے والے یا اس سے پہلو
تہی کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔یہ شان صرف آپﷺ کے حکم یا فعل
کی ہے ،لوگوں کے مقرر کردہ امام کی تقلید کی یہ شان نہیں بلکہ وہاں بلاخوف وخطران
کے امرونواہی کی مخالفت نہ صرف کی جاسکتی ہے بلکہ اعلانیہ طور پر کی گئی ہے۔جس کی
بہت سی مثالیں آپ فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
◉ ساتواں فرق: ایمان کا
دارومدار :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’فلا وربک لایؤمنون حتی
یحکموک فیما شجر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘
(النساء:65)
(اے رسولﷺ) آپ کے رب کی
قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے (تمام) باہمی اختلافات میں آپ کو
فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو بھی فیصلہ آپ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی
تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسرتسلیم کرلیں
یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی
ہی خصوصیت ہے آپ کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کا انکار کفر نہیں
◉ آٹھواں فرق: شرعی حجت :
قرآن مجید میں اللہ
تعالی نے بار بار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع یعنی فرمانبرداری وپیروی کا حکم دیا
۔گزشتہ پوسٹس میں اس کی کئی دلیلیں گزری ہیں ،کوئی مسلم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔
◉ نواں فرق: حکم اطاعت
وفرمانبرداری :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’وان هذا صراطي مستقيما
فاتبعوه‘‘ (الانعام)
(اے نبی ﷺ) بےشک یہی
میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اس کی اتباع کرو
اس کے علاوہ قرآن مجید
میں بہت سے مقامات پر نبی کریم ﷺ سے فرمایا گیا کہ آپ لوگوں کو اپنی اطاعت واتباع
،فرمانبرداری و پیروی کا حکم دیں۔ اس سلسلے میں احادیث بھی کافی وارد ہوئی ہیں۔
◉ دسواں فرق: مکمل اطاعت :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’وما اتكم الرسول فخذوه
وما نهكم عنه فانتهوا واتقواالله ان الله شديد العقاب‘‘ (الحشر:7)
اور جو تمہیں رسول ﷺ
دیں اسے لے لو اور جس چیزز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو اور تم اللہ سے ڈرو بے شک
اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کا حکم
عام ہے کہ جو حکم بہی رسول اللہ ﷺ دیں اس پر عمل کرنا ہے اور جس چیز سے بھی منع
فرمائیں اس سے رک جانا ہے۔اس تسلسل میں تقوی کا حکم دینا ظاہر کرتا ہے کہ رسول
اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرنا اور آپ کی نافرمانی نہ کرنا تقوی کا لازمی تقاضا
ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنا ، آپ کے حکم کو قبول نہ کرنا اور آپ ﷺ کی
نہی اور ممنوعہ امور کی خلاف ورزی کرنا اللہ رب العزت کے عذاب کا موجب ہے
◉ گیارہواں فرق: ترک
اطاعت ہلاک و بربادی :
سیدنا عرباض بن ساریہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا
’’قد تركتكم علي البيضاء
ليلها كنهارها لايزيغ عنها بعدي الا هالك‘‘(سنن ابن ماجہ)
(لوگو) ! میں تمہیں ایسے
دین پر چھوڑے جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے میرے بعد اس سے صرف وہ
شخص گریز کرے گا جسے ہلاک ہونا ہے۔
یہ حدیث وضاحت کرتی ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے دین پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں
اس میں کہیں اندھیرا نہیں روشنی ہی روشنی ہے۔روشنی میں ہر چیز واضح نظر آتی ہے
کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ جس کا دیکھنا مشکل ہو اس طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو جس
دین پر چھوڑا اس دین کی ہر ہر بات انتہاہی روشن ہے واضح ہے، اس میں کہیں
پیچیدگیاں،موشگافیاں اور الجھنیں نہیں ہیں،نہہی یہ بہت زیادہ مشکل اور کانٹوں بھری
وادی ہے،جیساکہ بعض لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں
◉ بارہواں فرق:اللہ تعالی
کی خاص حفاظت
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’ولو تقول علينا بعض
الاقاويل لاخذنا منه ياليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منك من احد عنه حجزين‘‘
(الحاقۃ،44 تا 47)
اور اگر (ہمارے نبی ﷺ)
بعض باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتے ہیں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے پھر
ہم ان کی شہہ رگ کاٹ ڈالتے پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس (کام) سے روکنے والا نہ
ہوتا
آج کوئی کوتاہ فہم
نادان یہ ہر گز نہ سمجھے کہ یہ رب الکریم کی اپنے منتخب آخری رسول ﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ
ہے (نعوبالله من سوء الفهم) ہرگز نہیں۔یہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں یہ تو رب الکریم کی اپنےر
سولﷺ کو حق وصدق کی نازل کردہ ٹھوس ،واضح اور مضبوط برہان ودلیل ہے آپ کے مخالفین
کے الزام کا ایک دندان شکن جواب ہے ۔جو بدبخت آپ پر بہتان طرازی کرتے تھے کہ آپ ﷺ
یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لائےہیں،ان کی ناپاک زبانیں بند کرنے کےلیے ایک مسکت
ولاجواب دلیل ہے۔جس کے سامنے وہ بالکل عاجز وبےبس ہوچکےہیں۔ واللہ الحمد
◉ تیرہواں فرق:خطا پر
باقی رہنا :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
’’وما ينطق عن الهوي ان
هو الا وحي يوحي‘‘(النجم،:3 و4)
اور یہ (بنی ﷺ) اپنی
طرف سےنہیں بولتے وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ
نبیﷺ اپنی مرضی و خواہش سے نہیں بولتے بلکہ دین کے سلسلے میں آپ ﷺ نے صرف وہی
تعلیمات ارشاد فرمائیں جن کا اللہ سبحانہ وتعالی نے آپﷺ کو بذریعہ وحی حکم دیا اور
اگر زندگی میں چند ایک بار بتقاضائے بشریت ایسی کوئی بات سامنے آئی بھی تو اللہ رب
العالمین نے فوراً وضاحت کلےیے وحی نازل فرمائی ۔
◉ چودہواں فرق: ہر ہر بات
حق :
سیدنا عبداللہ بن عمرو
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جو بات سنا کرتا اسے ،یاد کرلینے کے
ارادے سے لکھ لیا کرتا تھا۔قریش کے بعض لوگوں نے مجھے اس عمل سے روکا اور کہا کہ
تم رسول اللہ ﷺ سےسنی ہوئی ہر بات نہ لکھا کرو جبکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں (بتقاضائے
بشریت) آپ کبھی خوشی میں ہوتے ہیں اور کبھی ناراضی یا غصے میں ۔عبداللہ بن عمرو
رضی اللہ فرماتے ہیں میں نے لکھنا چھوڑ دیا اوررسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ
ﷺ نے اپنی بابرکت انگلی سے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اكتب فواللذي نفسي بيده مايخرج منه الا حق‘‘ (سنن ابودادؤ)
لکھواس ذات کی قسم جسکے
ہاتھ میں میری جان ہے میرے منہ سےحق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ہے۔
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی تقلید کی
اقسام بیان کرتی ہے ، جس کے ہر قسم کا حکم وضاحت کے ساتھ درجِ ذیل ہے:
أ
- وہ شخص جس کے پاس اجتہاد کی اہلیت ہو، اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول
دلائل کی روشنی میں اس کے سامنے حق واضح ہوگیا ہو، تو اس شخص کے لئے باجماعِ علماء
کسی دوسرے ایسے شخص کی تقلید کرنا ناجائز ہے، جو کہ اس مسئلہ ميں اس کے مخالف رائے
رکھتا ہو۔
ب
- وہ شخص جس کے پاس اجتہاد کی صلاحیت موجود ہے، ایسے شخص کے لئے اپنی اجتہادی
صلاحیت کے ذریعے شرعی حکم تک پہنچنے سے پہلے پہلے بھی اپنے علاوہ کسی مجتہد کی
تقلید کرنا ناجائز ہے، جیساکہ امام شافعی اور احمد اور ائمہ کرام رحمهم الله کی
ایک بڑی جماعت کی رائے ہے، اور یہی رائے زیادہ راجح بھی ہے، اس لئے کہ اس شخص کے
اندر خود سے حکمِ شرعی تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے، تو ایسا شخص اجتہاد کا مکلف
ہے، تاکہ شریعت نے جن احکام کا اس کو مکلف کیا ہے، وہ خود سے ان احکام کوجان لے،
اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ
"
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ "
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ
ﺗﻚ ﺗﻢ
ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ
ﺍﹴ ﺳﮯ
ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻮ
۔
اور اس لئے بھی کہ حضوراکرم صلى الله عليه وسلم سے یہ
ثابت ہے کہ:
جب میں تمہیں کوئی حکم بجا لانے کو کہوں تو تم اسے قدرِ
استطاعت بجا لاؤ
ج
- وہ شخص جو دلائل جانچنے اور اس سے احکام اخذ کرنے سے عاجز ہو، تو اس کے لئے کسی
صاحبِ اجتہاد عالم کی تقلید کرنا جائز ہے، اس لئے کہ الله تعالى کا فرمان ہے کہ
"
لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا "
ﺍللہ ﺗﻌﺎلی
ﻛﺴﯽ ﺟﺎﻥ
ﻛﻮ ﺍﺱ
ﻛﯽ ﻃﺎﻗﺖ
ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ
تکلیف ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﺘﺎ۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ
"
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لاَ
تَعْلَمُونَ "
ﭘﺲ ﺍﮔﺮ
ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﻮ
ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ
ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ
ﻛﺮﻟﻮ ۔
اور اس کے علاوہ بہت سی آیات و احادیث ہیں، جن سے معلوم
ہوتا ہے کہ حرج (وسعت و طاقت سے زائد) کو اٹھا ليا گيا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ مکلف
کو احکام میں اختلاط اور اللہ پر علم کے بغیر بہتان بازی سے بچایا جائے۔د- آباء و
اجداد، اشراف اور حکمراں وغیرہ کی شریعت کے مخالف امور ميں تقلید کرنا، عصبیت اور
نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ہے، اور یہ تقلید باتفاقِ علماء حرام ہے، اور یقیناً
اس جیسی تقلید کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سی دلائل موجود ہیں، چنانچہ الله
تعالى نے فرمايا ہے کہ
"
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْـزَلَ اللَّهُ
قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ
آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلاَ يَهْتَدُونَ
"
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﺳﮯ ﺟﺐ
ﻛﺒﮭﯽ ﻛﮩﺎ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻛﮧ ﺍﹴ
ﺗﻌﺎﻟﲐ
ﻛﯽ ﺍﺗﺎﺭﯼ
ﮨﻮﺋﯽ ﻛﺘﺎﺏ
ﻛﯽ ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭﯼ
ﻛﺮﻭ ﺗﻮﺟﻮﺍﺏ
ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻛﮧ ﮨﻢ
ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻃﺮﯾﻘﮯ ﻛﯽ
ﭘﯿﺮﻭﯼ ﻛﺮﯾﮟ
ﮔﮯ ﺟﺲ
ﭘﺮ ﮨﻢ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺩﻭﮞ
ﻛﻮﭘﺎﯾﺎ، ﮔﻮ
ﺍﻥ ﻛﮯ
ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺩﮮ
ﺑﮯﻋﻘﻞ ﺍﻭﺭ
ﮔﻢ ﻛﺮﺩﮦ
ﺭﺍﮦ ﮨﻮﮞ
۔
نیز الله تعالى کا فرمان ہے کہ
"
فَلا وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ
فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا
قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا "
ﺳﻮﻗﺴﻢ ﮨﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ
ﻛﯽ ! ﯾﮧ
ﻣﻮﻣﻦ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮ ﺳﻜﺘﮯ،
ﺟﺐ ﺗﻚ
ﻛﮧ ﺗﻤﺎﻡ
ﺁﭘﺲ ﻛﮯ
ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻣﯿﮟ
ﺁﭖ ﻛﻮ
ﺣﺎﻛﻢ ﻧﮧ
ﻣﺎﻥ ﻟﯿﮟ،
ﭘﮭﺮ ﺟﻮ
ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺁﭖ
ﺍﻥ ﻣﯿﮟﻛﺮ
ﺩﯾﮟ ﺍﻥ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟﺍﻭﺭﻛﺴﯽ
ﻃﺮﺡ ﻛﯽ
ﺗﻨﮕﯽ ﺍﻭﺭ
ﻧﺎﺧﻮﺷﯽ ﻧﮧ
ﭘﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﻛﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺒﻮﻝﻛﺮ
ﻟﯿﮟ .
اور الله تعالى نے فرمايا کہ
"وَمَا
كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ
يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
"
ﺍﻭﺭ ( ﺩﯾﻜﮭﻮ
) ﻛﺴﯽ ﻣﻮﻣﻦ
ﻣﺮﺩ ﻭ
ﻋﻮﺭﺕ ﻛﻮ
ﺍﹴ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﻛﮯ
ﺭﺳﻮﻝ ﰷ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻛﮯ
ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ
ﻛﺴﯽ ﺍﻣﺮ
ﰷ ﻛﻮﺋﯽ
ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﺎﻗﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ
اور الله تعالى نے فرمايا ہے کہ
"
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ
تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
"
ﺳﻨﻮ ﺟﻮ
ﻟﻮﮒ ﺣﻜﻢ
ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ
ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﻛﺮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ
ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﻛﮧ
ﻛﮩﯿﮟ ﺍﻥ
ﭘﺮﻛﻮﺋﯽ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ
ﺁﻓﺖ ﻧﮧ
ﺁ ﭘﮍﮮ
ﯾﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ
ﺩﺭﺩ ﻧﺎﻙ
ﻋﺬﺍﺏ ﻧﮧ
ﭘﮩﻨﭽﮯ ۔
نیز ارشادِ باری تعالی ہے کہ
"
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي
يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
"
ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ
! ﺍﮔﺮ ﺗﻢ
ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ
ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ
ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ
ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ،ﺧﻮﺩ
ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ
ﺗﻢ ﺳﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﮮ
ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﻨﺎﮦ
ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ
ﺩﮮ ﮔﺎ
۔
اور الله تعالى نے فرمايا کہ
"
إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ
سَعِيرًا (64) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لاَ يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا
(65) يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا
أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولا (66) وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا
أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلا (67) رَبَّنَا
آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ".
ﺍللہ ﺗﻌﺎلی
ﻧﮯ کاﻓﺮﻭﮞ
ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ
ﻛﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﻛﮯ ﻟﺌﮯ
ﺑﮭﮍﻛﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺁﮒ ﺗﯿﺎﺭ
ﻛﺮ ﺭﻛﮭﯽ
ﮨﮯ۔(64) ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﻭﮦ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ
ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﻭﮦ ﻛﻮﺋﯽ
ﺣﺎﻣﯽ ﻭﻣﺪﺩﮔﺎﺭ
ﻧﮧ ﭘﺎﺋﯿﮟ
ﮔﮯ۔(65) ﺍﺱ
ﺩﻥ ﺍﻥ
ﻛﮯ ﭼﮩﺮﮮ
ﺁﮒ ﻣﯿﮟ
ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ
ﻛﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﮔﮯ۔ ( ﺣﺴﺮﺕ
ﻭﺍﻓﺴﻮﺱ ﺳﮯ
) ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﻛﮧ کاﺵ
ﮨﻢ ﺍللہﺗﻌﺎلی
ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ
ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ
ﻛﺮﺗﮯ۔(66) ﺍﻭﺭ
ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺭﺏ ! ﮨﻢ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺳﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﻭﮞ
ﻛﯽ ﻣﺎﻧﯽ
ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺭﺍﮦ
ﺭﺍﺳﺖ ﺳﮯ
ﺑﮭﭩکا ﺩﯾﺎ(67)
ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺗﻮ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﮔﻨﺎ
ﻋﺬﺍﺏ ﺩﮮ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ
ﭘﺮ ﺑﮩﺖ
ﺑﮍﯼ ﻟﻌﻨﺖ
ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎ۔
الشیخ ابو محمد امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ تقلید کی
اقسام یوں بیان کرتے ہیں
(1)
۔تقلید مذموم
(2)
۔ تقلید ممدوح
1-
تقلید مذموم: ( یعنی ناجائز غیر مناسب تقلید) اس کو
کہتے ہیں کہ ایک شخص قرآن و حدیث کی مخالفت میں کسی عالم کی بات مانے یا صرف باپ
دادا اور اپنے بڑوں کے طور طریقے اپنا کر قرآن و حدیث سے یکسر اغماض برتے۔ قرآن
صرف تبرک کے لیے تو پڑھے لیکن عملاََ اس کو دستورِ حیات ماننے سے انکار کرتا ہو
اور اگر کوئی اس کو قرآن وحدیث کا حوالہ دے تو اس کا جواب یہ دے کہ کیا بڑے سمجھتے
نہیں تھے؟۔ کیا وہ نبی کی سیرتِ مبارکہ سے بیگانے تھے؟
نیز تقلید مذموم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کسی
ایسے نامعلوم شخص کو اپنا پیشوا سمجھے جس کے بارے میں وہ یہ تک جاننے سے قاصر ہو
کہ میرا پیشوا عالم ہے کہ نہیں۔ فتویٰ دینے کا اہل ہے کہ نہیں؟ اسی طرح مذموم
تقلید کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مسئلہ میں صحیح بیّن حدیث کے آنے کے بعد اس کو
اپنے مذہب کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دیا جائے یا اس میں تاویل کر کے اس کا صحیح مفہوم
ہی بدل دیا جائے یا یہ کہہ کر اس حدیث سے جان چھڑائی جائے کہ یہ ہمارے مذہب کے
خلاف اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کے موافق ہے۔ مذکورہ بالا تمام صورتیں
تقلید مذموم کے ضمن میں آتی ہیں جو کہ سراسر ناروا اور قابل مذمت ہیں۔ (اعلام
الموقعین ص:187)
میرے خیال میں آج دنیا میں بالعموم اور پاکستان ،
افغانستان اور ہندوستان میں بالخصوص جو تقلید مروّج ہے وہ یہی تقلید مذموم ہے۔
ان ممالک میں ایک مخصوص امام کی اجتہادی اور غیر
اجتہادی باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث پر نہ صرف ترجیح دی جاتی
ہے بلکہ احادیث صحیحہ کو ترک کرنے کےلیے مختلف غیر شرعی بہانے بھی بنائے جاتے ہیں،
مقلدین کی تمام کتابوں میں، خاص طور پر تنظیم الاشتات اور ہدایہ میں "کتاب
الطہارت" سے لیکر "کتاب الوصایا" تک کسی بھی مقام پر یہ نہیں کہا
گیا کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ضعیف ہے، امام شافعی رحمہ
اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب صحیح ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ تو درکنار۔
قارئین کرام!: آپ کو اللہ تعالی نے عقل و خرد کی نعمت
سے نوازا ہے اپنے مذہب کی خاطر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء اُمت کے
ساتھ کیے جانے والے روئیے کے بارے میں کبھی آپ نے غوروفکر کیا ہے؟۔
تقلید کے بے آب وگیاہ صحراء میں پھرنے والے مقلدین جہاں
اُمت کے تمام علماء کو قعرِ مذلت میں گرانے کا اہتمام کرتے ہیں وہاں اُمت کے ایک
بہت بڑے عالم اور بلند پایہ علمی شخصیت امام شافعی رحمہ اللہ کو طفل مکتب کے مساوی
علمی حیثیت کا حامل قرار دیکر ان کی مسلمہ فہم و فراست کو یکسر مفلوج ثابت کرنے کی
مذموم اور متعصبابہ کوشش کرتے ہیں اپنی اس متعصبانہ روش کے باوجود اُلٹا ہمیں
بزرگانِ دین اور علماء اُمت کا بے ادب کہتے نہیں تھکتے حالانکہ اس سے بڑی بے ادبی
اور کیا ہوسکتی ہے کہ نبی آخرالزمان کی محفوظ من اللہ زبان مبارک سے نکلی ہوئی
احادیثِ کاملہ کی تاویلیں کی جائیں اور اپنے امام کے اقوال کو ان پر ترجیح دی
جائے۔
اسی طرح مقلدین اُمت کے تمام علماء کو چھوڑ کر صرف ایک
عالم کو اپنا "امام فی الدیں" مانتے ہیں۔
قارئین محترم: مقلدین کے اس طرز فکروعمل پر سنجیدگی سے
سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ضد اور عناد کو ترک کر کے اپنے
دین و ایمان کی حفاظت کرے۔
2-
تقلید ممدوح:
ایک ایسا شخص جو دین کے کسی مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہو
اس کے حل کے لیے کسی عالم کے پاس جائے یا کسی کو قرآن و حدیث میں کسی مسئلے کا حل
نہ ملے اور وہ سمجھنے کےلیے کسی عالم کے پاس جائے اسی طرح کوئی ایسا حادثہ رونما
ہو جس کا حل قرآن و حدیث میں ایک عام آدمی کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ یقیناََ ایسے
مسائل کے حل کے لیے علماء سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ تحقیقِ حق یا تحصیل علم کی مندرجہ
بالا تمام صورتیں تقلید ممدوح کہلاتی ہیں۔
تقلید کی اس قسم کو کچھ لوگ یہ کہہ کر جائز قرار دیتے
ہیں کہ ہم تو قرآن وحدیث کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث کو ہم قابل قدر
نگاہوں سے دیکھتے ہیں محض مجبوری کی بناء پر کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن
تقلید کی یہ قسم بھی چند وجوہات کی بنا پر غلط ہے کیونکہ:
(1)-
تقلید بدعت ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں اس کا نام و
نشان تک نہیں تھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار(مشكوة ، ج1ص30(
دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر
گمراہی جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صحیح مرفوع حدیث کے
آنے کے باوجود تقلید کو ممدوح اور مذموم کےا عتبار سے منقسم کرنا تو ایسا ہے جیسے
بدعت کی دو قسمیں سیئہ اور حسنہ قرار دی جائیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
فرمان کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے علامہ شاطبی رحمہ
اللہ کی "االاعتصام،ج1ص191۔ اسی طرح: السنن والمبتدعات ص15 اور فتاوی الدین
الخالص ج1ص104 پر بھی اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
(2)۔ تقلید ممدوح کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے جواز سے
مقلدین تقلید جامد اور تقلید شخصی کو جائز قرار دیکر غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور اپنے مذہب کی خاطر قرآن و حدیث میں تاویلیں کرنے کی سعیِ لاحاصل کرتے
ہیں اگر کوئی اس رویے پر اعتراض کرے تو تقلید ممدوح کا حوالہ دیکر بڑے فخر سے اپنے
آپ کو متبعِ سنت گرداننا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں مقلدین غلط کام کو اچھے نام سے
موسوسم کر کے جائز ثابت کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔
(3)۔ مذکورہ تقلید کے غلط ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس کی بیان کی
جانے والی صورتیں ہی سراسر غلط ہیں۔ کیا ایک جاہل آدمی اپنے درپیش مسائل کے حل
کےلیے کسی زندہ عالم کا انتخاب کرے گا یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا؟( جو کہ وفات
پاچکے ہیں)اگر آپ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا انتخاب کرے گا تو وہ بحیثیث
"جاہل" امام صاحب کےمذہب سے ہی نا آشنا ہے وہ کیسے اس کو امام صاحب کا
مذہب سمجھ کر اس پر عمل کرے گا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں امام صاحب کی کسی
کتاب کا وجود نہیں ہے جسکی طرف رجوع کیا جائے۔ اور اگر کسی بقیدِ حیات عالم کے پاس
جائے گا تو پھر اس کو حنفی اور شافعی کہنے کا مطلب کیا ہوا؟ کیونکہ وہ جس عالم کے
پاس جائے گا اسی عالم کی طرف اس کی نسبت ہونی چاہیے نہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ عالم نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رہنمائی کرے گا یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی
طرف؟
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
تقلید
کی لغوی تعریف علماءکرام کی نظر میں
دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں
لکھا ہے:
1:-
قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن
کر کے کسی کے پیچھے چلنا (القاموس الوحید:1346)
2:-التقلید:بے
سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی (القاموس الوحید:1346)
3:-امام
شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اما
التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان
المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ۔
"یعنی
تقلیدلغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے
میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد
جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا
ہے۔"(ارشاد الفحول ص:۱۴۴)
4:-
اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی
گئی ہے:
”گردن
بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی
پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن“
یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام
لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی
معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔ (غیاث الغات ص:۳۰۱)
تقلید
کی اصطلاحی تعریف علماء کی نظر میں
1:-حنفیوں
کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:
”التقلید:
العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی
علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی
الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال
الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل
کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے
مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس
(تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا
گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن
عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور
اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم
الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
2:-امام
ابن ہمام حنفی (متوفی۱۶۸ھ)
نے لکھا ہے:
”مسالة:التقلید
العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة
والسلام واالاجماع منہ“
مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے
ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی
طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔ (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول جلد 3 ص453)
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب
التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص
۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ
تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام
اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)
3:-تقلید
کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے:
”ھو
عمل بقول الغیر من غیر حجة“
کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل
کرنا تقلید ہے۔ (ارشاد الفحول ص441، شرح القصیدة
الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی 2112)
4:-قاری
چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے:
”اور
تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا
یہی تقلید ہے“ (غیر مقلدین سے چند معروضات ص۱ عرض نمبر ۱)
5:-مفتی
سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:
کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا
نام ہے۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص۶۷)
6:-اشرف
علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے:
ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے
کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا
اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور
رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ (الافاضات
الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)
7:-مفتی
احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں:
”مسلم
الثبوت میں ہے ، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر
حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورعلیہ
الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے
(جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ
الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین
حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلداسی طرح عالم کی اطاعت جو عام
مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گاکیونکہ کوئی بھی ان علماءکی بات یا
ان کے کام کواپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ
مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔( جاءالحق ج۱ ص۶۱ طبع قدیم)
8:-غلام
رسول سعیدی نے لکھا ہے:
تقلید کے معنی ہیں(قرآن و حدیث کے) دلائل سے قطع نظر کر
کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول
کوکتاب و سنت کہ موافق پا کراور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کراس قول کو اختیار کر
لینا(شرح صحیح مسلم ج۵ص۳۶)
9:-سرفرازخان
صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے
اور تقلید اور چیز ہے (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص۵۳)
10:-مام
شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قبول قول لا یدری ما قال من این قال و زلک لا یکون علماً
دلیلہ قولہ تعالیٰ: فا علم انہ لا الہ الا اللہ، فامر با لمعرفة لا بظن والتقلید۔
تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور
ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے
”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا
ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔
(فقہ
اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص۰۱)
نوٹ:
بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علماءکی ان
تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:
1:-کسی
دوسرے شخص کی بات پر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔
2:-احادیث
پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
3:-اجما
ع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
4:-علماءکی
بات پر( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔
5:-اسی
طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔
6:-صرف
اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے
مطابق ہو گی باطل ہے کیونکہ اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس
آرائیوں کا (دیکھئے امام شافعی کی آخری تعریف)۔
تقلید
کے نقصانات :
1-تقلید
کی وجہ سے انسان قرآن وحدیث کے اسرار و رموز سے محروم ہوجاتا ہے مقلد صرف تقلید کی
وجہ سے قرآن وحدیث کے صحیح معنی و مفہوم سے نا واقف رہتا ہے اس بات کو تو وہی شخص
سمجھ سکتا ہے جس کو دینی معاملات میں خاصہ تجربہ ہو۔ مقلد صرف اپنے امام کی باتوں
پر اکتفاء کر کے اُمت کے بقیہ علماء کی علمیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتا
ہے۔
2-
تجربہ شاہد ہے کہ صرف تقلید کی وجہ سے انسان یا تو ضعیف
اور موضوع روایات کو صحیح ثابت کرنے کی اور صحیح کو ضعیف ثابت کرنے کی گھٹیا کوشش
کرتا ہے یا اس کو ایسے غلط معنی کے پیرہن میں ڈھالتا ہے جس کا دین کے کسی دوسرے
حکم سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ کو واپس
لینے سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے کی تشبیہ ایسے کتے سے دی ہے جو قے کرکے
دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
جبکہ بعض احناف اس حدیث کا یہ غلط معنی کرتے ہیں: اگر
کتے کے لیے قے دوبارہ چاٹنا جائز ہے تو ہمارے لیے ہبہ واپس لینا بھی جائز ہے۔
سوچیئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکمِ مقصد کو یہاں کیسے یکسر اُلٹ دیا گیا ہے۔
کما فی اللمعات بحوالہ حاشیہ مشکوۃ ،ج1ص260، واللہ المستعان۔
3-
تقلید آدمی کو نہ صرف بدعتی بنا دیتی ہے بلکہ اس کو
اپنے بدعتی ہونے کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔ تقلید بذات خود ایسی بدعتِ قبیحہ ہے
جو بحیثیث مجموعی اُمت مسلمہ کے کمزور وجود میں ناسور کی حیثیت رکھتی ہے تاریخ
شاہد ہے کہ تقلید جیسی لعنت سے ہمیشہ شریعت اسلامیہ کا مجلّٰی و مصفّٰی آئینہ گرد
آلود ہوتا رہا ہے۔
علامہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے " ایضاح الحق
الصریح" ص81 میں تقلید کو بدعتِ حقیقی قرار دیا ہے۔
4-
تقلید کی وجہ سے آدمی کو جھوٹ جیسی لعنت کی عادت پڑجاتی
ہے کیونکہ اکثر نام نہاد علماء تقلید کے اثبات میں اللہ تعالی، نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ کبھی کہتے
ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے تقلید کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ اللہ تعالی کی
ذات پر صریح جھوٹ ہے۔ کبھی احادیث رسول کی تاویلیں کر کے تقلید کے اثبات کے لیے
سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تقلید سے مبّرا ہے
اور کبھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو مقلد ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں حالانکہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان تقلید سے کہیں اعلٰی ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
فعل اور فرمان عالی کے مقابلے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ جیسے
بلند پایہ صحابہ کی باتوں کو رد کیا ہے جیسے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما کا یہ قول موجود ہے:
(يوشك
ان تنزل عليكم حجارة من السماء اقول: قال رسول الله ﷺ وتقولون: قال ابو بكر و عمر)
میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا
ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں
تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ آئے۔
جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما حج تمتع کو جائز سمجھتے تھے جبکہ ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ
عنہما حج تمتع کے قائل نہیں تھے۔
یہ صورتحال دیکھ کر کسی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ سے سوال کیا کہ یہ دونوں بزرگ صحابہ تو حج تمتع کے قائل نہیں ہیں اور آپ اس کے
قائل ہیں تو جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے لیے ابوبکر صدیق
اور عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل حجت نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول
حجت ہے۔ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و
عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو۔ اگر تمہارا یہی طرزِ عمل و فکر رہا تو مجھے
اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہو جائے۔
قارئین محترم!
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تقلید کے رد میں اس
بے مثال قول میں سوچنا چاہیئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
فرامین کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے انسان کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے
تھے، تو مقلدین کیسے ہوئے اور صحابہ کرام آج کے مقلدین کی طرح بے باک لوگ نہیں تھے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تقلید کی نحوستوں میں سے ایک
نحوست یہ ہے کہ آدمی جھوٹ کہنے میں مبتلا کر دیتی ہے۔
5-
تقلید کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمت کے
علماء کے مراتب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات ایک عالم کو
اتنا بڑھایا جاتا ہے کہ اس کی علمیت کی حدیں مقام نبوت سے تجاوز کرتی نظر آتی ہیں۔
یہ تقلید ہی کی تو ضلالت ہے جس کی وجہ سے انسان عالم کو نبی کا درجہ دیتا ہے اس کے
اقوال کو نبی کے اقوال کے مقابلے میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھتا ہے اور نبی
کےفرامین کو فراموش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اگر کسی نے ایک امام کی بات
کو دلیل کے بنا پر رد کیا تو وہ اس پر بہت غصہ میں آتا ہے اور اگر نبی کی بات رد
کیجاتی ہے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
اگر کسی نے کہا کہ امام صاحب سے اس مسئلے میں خطاء
ہوگئی ہے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور اگر کسی نے کہا کہ یہ فلاں حدیث خطاء ہے یا
منسوخ ہے یا ہمارے مذہب کیساتھ موافق نہیں تو وہ محقق جانتے ہیں۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کا کیسا بہترین نقشہ
کھینچا ہے:
والله لو خالفت نص رسوله۔۔نصا صريحاََ واضح التبيان
وتبعتَ قول شيوخھم او غيرھم۔۔كنت المحقق صاحب العرفان
حتي اذا خالفت آراء الرجال۔۔ لسنة المبعوث بالقرآن
نادوا عليك ببدعة وضلالة۔۔قالوا وفي تكفيره قولان
قالوا تنقصت الكبائر وسائر۔۔العلماء بل جاھرت بالبھتان
ترجمہ: اللہ کی قسم اگر آپ اللہ کے رسول کی صریح واضح
البیان نص کی مخالفت کریں گے اور مقلدین کے شیوخ اور علماء کی تابعداری کریں گے تو
یہ آپ کو محقق اور صاحب عرفان سمجھیں گے۔
اور جب آپ قرآن مجید میں نازل شدہ قانون کے مقابلے میں
ان کے امام کی رائے کی مخالفت کریں گے تو یہ نہ صرف آپ کو بدعتی اور گمراہ کہیں گے
بلکہ آپ کی تکفیر میں زبان درازی بھی کریں گے اور کہیں گے کہ نہ صرف آپ نے علماء
اور بڑوں کی تنقیصِ شان کی ہے بلکہ صریح بہتان بھی لگایا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ان اشعار میں مقلدین کی حالت
بیان کرتے ہیں کہ اگر آپ مقلدین کے اماموں کے مقابلے میں صحیح اور صریح احادیث کی
مخالفت کریں گے تب تو یہ آپ کو محقق سمجھیں گے لیکن اگر آپ احادیث کی وجہ سے ان کے
اماموں کی آراء کو چھوڑ دیں گے تو یہ کبھی تو آپ کو بدعتی کہیں گے اور کبھی گمراہ۔
بلکہ کبھی تو کافر بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں اور علماء کرام کی تنقیصِ شان کا
الزام بھی لگا دیتے ہیں۔
6-
تقلید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پاک سے تجاوز
کرنے کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ تقلید کے اثبات کی غرض غایت ہی یہ ہے کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت سے لوگوں کو متنفر کر کے کسی امام کے اجتہادی مسائل کا
پابند بنایا جائے۔ یہاں حق اور باطل میں امتیاز کا یہ اہم نقطہ ذہن میں رہنا چاہیے
کہ جس کی دعوت اللہ جل شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو تو سمجھ
لینا چاہیے کہ یہ حق پرست ہے اور جس کی دعوت اولیاء کرام یا علماء کرام کی طرف ہو
تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ باطل پرست ہے یا شرک کی بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ یہ
اللہ تعالٰی کے مقابلے میں اولیاء کی عظمت لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا چاہتا ہے
یا تقلید کی بیماری موجود ہے کیونکہ یہ علماء کرام کی ایسی صفات بیان کرتا ہے کہ
عام لوگ یہ سمجھیں کہ دین کے کسی مسئلے میں بھی یہ علماء غلطی نہیں کریں گے اور
بالکل معصوم عن الخطاء ہے۔
گذشتہ تمام بحث کا خلاصہ اور لبِ لباب یہ ہےکہ تقلید
ایک ایسی مضر بیماری ہے جو دین اور ایمان کو داؤ پر لگا دیتی ہے جو سراسر بدعت ہے
جس میں ممدوح ہونے کا احتمال ہی باطل ہے۔
جو حضرات لوگوں کو تقلید کی دعوت دیتے ہیں وہ یا تو
اسلام کے صحیح تصور سے نا آشنا ہیں یا تقلید کے تباہ کن نتائج سے بے خبر ہیں اور
یا اس کے انجامِ بد کو سمجھتے ہوئے بھی تعصب و عناد کے ہاتھوں ایسا کرنے پر مجبور
ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و حدیث کا پابند بنا دیں۔ آمی!
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
"ہر
بدعتی اپنی بدعت کے جواز کےلیے قرآن وحدیث سے جو دلیل پیش کرتا ہے اگر اس پر غور
کیا جائے تو اسی دلیل میں اس بدعت کا رد موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح مقلدین کی جانب سے
تقلید کے اثبات میں پیش کردہ شبہات کی بھی یہی حالت ہے کہ ان کا دوسرا پہلو مقلدین
کے مقصود کو باطل کرسکتا ہے۔"
مقلدین کے شبہات مع جوابات
❖ • ─┅━━━━━━━━━┅┄
• ❖
پہلا
شبہہ
(وَجَعَلْنَا
مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا
بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ)۔ سورۃ السجدۃ آیت:24
"اور
ہم نے ان میں سے ـ
چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا تھا ـ
اسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کا راستہ بتاتے تھے وہ ہماری
آیتوں پر یقین رکھتے تھے"۔
مقلدین کا خیال ہے کہ اس آیت سے تقلید ثابت ہوتی ہے
کیونکہ بنی اسرائیل میں بھی امام تھے اور اپنی قوم کی رہنمائی کرتے تھے اور اسی
رہنمائی کا نام تقلید ہے۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہی کی
حالت اس میں بیان کی گئی ہے جبکہ آپ اس سے چاروں اماموں کی تقلید ثابت کرنا چاہتے
ہیں؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ لفظ (يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا) خود
تقلید کے رد پر دلالت کرتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کی مخلوق کو اپنی رائے کی طرف
نہیں بلاتے تھے بلکہ "بامرنا" اللہ کےحکم سے ہدایت کا راستہ دکھاتے تھے
اس سے بالکل تقلید ثابت نہیں ہوتی کیونکہ لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی کی
تابعداری کرتے تھے جبکہ تقلید تو کسی خاص اُمتی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننے کا
نام ہے۔
قارئین محترم! قرآن مجید کی آیتوں کا غلط مفہوم بیان
کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
یہ ہر مسلمان کے ایمان و اسلام کے منافی حرکت ہے۔ جب ہم
تقلید کے رد میں قرآن مجید سے آیتیں پیش کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر مقلدین جھٹلا
دیتے ہیں کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن خود اپنے بعید از حقیقت
استدلال نظر نہیں آتے۔
تیسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی گمراہی کا سبب بھی
تو یہی تقلید بنی تھی، قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
(اتَّخَذُوا
أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ )۔ سورۃ التوبہ،
آیت:31
"بنی
اسرائیل نے اپنے پیروں اور مولویوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا"
بنی اسرائیل کے طرزِ عمل کو دلیل میں پیش کرنے کا مطلب
تو یہ ہوا کہ آج کے مقلدین مقہور و مغضوب بنی اسرائیل کی طرح ہیں
دوسرا
شبہہ
مقلدین قرآن مجید کی یہ آیت دلیل میں پیش کرتے ہیں:
(وَمَا
يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ )۔ سوۃ العنکبوت، آیت:43
"(قرآن
مجید کی مثالوں کو) صرف علماء حق ہی سمجھ سکتے ہیں"
جب علماءِ حق قرآن کو سمجھتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ عام
لوگ ان سے قرآن سمجھیں گے اور ان کی بتائی ہوئی تشریح کو قبول کریں گے اور یہی چیز
تقلید کہلاتی ہے۔
جواب:
تقلید سے انسان کی عقل بغض و عناد کی نذر ہوجاتی ہے۔ حقیقی فرزانگی کی دولت سے وہ
یکسر محروم ہو جاتا ہے اور یوں وہ عقل سے بے گانہ ہو کر اپنے مدعا کے لیے ایسے
دلائل پیش کرتا ہے جو اس کے دعوی کی نفی کے سبب بن جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت سے تقلید کا رد ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس
میں اللہ تعالی نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے (علماء کرام جانتے ہیں) جبکہ احناف
تو اس سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو دین کے تمام مسائل کے سمجھنے کا نایاب طرّہ
امتیاز دیتے ہیں۔ اُمت کے باقی علماء تو ان کی شرمندہ انصاف نگاہوں میں کوئی وقعت
نہیں رکھتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کسی عالم کو قرآن
فہمی کی نعمت سے نوازے تو کیا وہ عالم عوام کو اپنی رائے بتائے گا یا قرآن مجید کا
مطلب؟۔ اس آیت میں تو قیاس و آراء کا ذکر تک نہیں، آپ اس سے کیسے امام ابو حنیفہ
رحمہ اللہ کی رائے کا جواز ثابت کرتے ہیں؟۔
اگر غور کیا جائے، امام صاحب کی تقلید تو دور کی بات ہے
احناف نے تو مقلدین کی تقلید شروع کردی ہے جیسے شامی، صاحب ہدایہ اور علماءِ
دیوبند وغیرہم۔
تیسری بات یہ ہے کہ مقلدین کی تمام تر کوشش امام ابو
حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ثابت کرنے پر ہوتی ہے اور وہ ان کی فقاہت، زہد و تقویٰ
کو عوام الناس کے ذہنوں کی ہموار تختیوں پر مبالغہ آمیزی کی میخوں سے پیوست کرنے
میں ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔
جبکہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن فہمی کی نعمت
علماء کرام کو دی گئی ہے۔ انہی علماء سے متعلق، مقلدین سے ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا
ان علماء سے مراد وہ علماء ہیں جو زندہ ہیں یا وہ جو وفات پاچکے ہیں؟
اگر اس سے مراد زندہ علماء کرام ہیں تو امام ابو حنیفہ
رحمہ اللہ کی تقلید کے اثبات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور اگر وہ علماء مراد
ہیں جو وفات پاچکے ہیں تو تب بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ناممکن ہے
کیونکہ ان سات براعظموں پر محیط اس کرہ ارض پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کسی
بھی کتاب کا وجود نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے
احادیث کی تشریح اور قرآن کی تفسیر کی ہے۔ لیکن ان کا یہ خیال باطل ہے کیونکہ امام
صاحب کی نہ تو احادیث میں کوئی شرح ہے اور نہ کوئی تفسیر لکھی ہے تو یہ تشریح کہاں
پر موجود ہے؟۔ اگر احناف فقہ حنفی کو قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح قرار دیتے ہیں
تو ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ ان کی جذباتی اور بے حقیقت بات ہے کیونکہ فقہ کی کسی بھی
کتاب سے قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح محال ہے۔ لیکن اگر مقلدین کو اصرار ہے تو
پھر ہدایہ لیکر ہمیں صحیح بخاری کی شرح اور تفصیل کر کے دیں یا قرآن مجید کی کسی
سورۃ کا ہدایہ وغیرہ سے حل پیش کریں۔ یہ بات تو بالاتفاق تمام علماء جانتے ہیں کہ
فقہ کی تائید کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل لیے جاتے ہیں لیکن قرآن و حدیث اپنا
معنی و مقصود بتانے میں کسی فقہ کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اے
مسلمانو! ذرا غور و فکر کرو۔
تیسرا
شبہہ
مقلدین، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اقتدوا باللذین من
بعدی ابی بکر و عمر۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرے بعد ابوبکرو
عمر (رضی اللہ عنہما) کی اقتداء کرو۔
(ترمذی:ج2ص207،
مستدرک:ج2ص75، مشکوۃ:ج2ص560)
سرفراز صفدر اس حدیث کے بارے میں "الکلام
المفید" ص91 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے۔
جواب:
مولانا سرفراز صفدر نے اس حدیث سے جو استدلال کیا ہے اس قسم کے استدلالات کی توقع
صحیح العقل سے نہیں کی جاسکتی ۔اس حدیث سے تقلید بالکل ثابت نہیں ہوتی، مندرجہ ذیل
وجوہ سے:
1-پہلی
وجہ: یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خلافت کی اقتداء کا حکم دیا ہے نہ کہ
امور دین کی، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا۔
2-
دوسری بات یہ ہے کہ بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اختلاف کیا ہے جیسا کہ کتب
حدیث میں اسکی بہت سارے مثالیں ذکر ہیں، تو انہوں نے ابو بکر و عمر کی تقلید کیوں
نہیں کی؟۔ تو کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغاوت کا
فتوی لگا سکتے ہیں؟۔
3-
تیسری وجہ یہ ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت
میں مانعینِ زکوۃ سے جہاد کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلیفہ وقت ابو
بکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو اتھا، لیکن جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دلائل دیئے
تو وہ مان گئے اور جہاد شروع کیا۔تو کیا دلائل کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو
تقلید کہتے ہیں؟۔
4-چوتھی
بات یہ ہے کہ اگر حقیقتاََ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ آپ کا زعمِ
باطل ہے تو پھر دنیا میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب مذہب کیوں
نہیں؟۔ کیا کوئی اپنے آپ کو مذہباََِ صدیقی یا عمری کہلانا پسند کرتا ہے؟ اگر نہیں
تو کیوں نہیں؟۔
پھر احناف کا مذہب تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی
تقلید کو ناجائز سمجھتا ہے جیسا کہ مسلم الثبوت، ج2ص407 میں لکھا ہے۔
5-
پانچویں وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ابوبکر
و عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیے ہیں لیکن احناف ان کو نہیں مانتے، مثلا ابوبکر و
عمر رضی اللہ عنہما قربانی نہیں کرتے تھے جبکہ احناف اس کو واجب سمجھتے ہیں جیسا
کہ المحلی لابن حزم ،ج2ص9 میں لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ "مس المرأة
"یعنی عورت کو چھونے سے وضوء کے ٹوٹنے کے قائل تھے۔ (مشکوٰۃ: ج1ص41)۔
جبکہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ اسی طرح مصنف ابن ابی
شیبہ کی روایت کے مطابق عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے (جمعوا حیث کنتم) جمعہ
کی نماز ہر جگہ ادا کرو۔ جبکہ حنفی علماء کے نزدیک ہر جگہ جمعہ کی نماز نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ کتب احادیث میں اور بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں احناف کا
ابوبکر و عمر رضی ا للہ عنہما سے اختلاف ہے۔ تفصیل کے لیے ہماری مستقل کتاب (احناف
اور خلفاء راشدین) دیکھیں۔
بقول احناف اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر
رضی اللہ عنہما کی تقلید کا حکم دیا ہے تو پھر احناف کا متعدد مسائل میں ابوبکر و
عمر رضی اللہ عنہما سے اختلاف کیوں ہے؟۔
6-
چھٹی وجہ یہ کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کی اقتداء دلائل کی روشنی میں کی جائے گی یا دلائل کے بغیر؟ اگر دلائل
کے بغیر کی جائيگی تو پھر چار اماموں کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بس صحابہ کرام کی
اقتداء بغیر دلیل کے ہر شخص کرتا۔ لیکن اگر مقلدین کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام کی
اقتداء بھی دلائل کے مطابق کیجائے گی تو پھر اس اقتداء سے تقلید کا جواز ثابت نہیں
ہوتا۔
7-
ساتویں وجہ: اگر اس حدیث کی مخاطب پوری اُمت ہے تو کیا
چار امام اس حدیث پر عمل کریں گے یا وہ اس حدیث کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
اگر ائمہ اربعہ بھی اس پر عمل کریں گے تو پھر یہ مقلد
ہوئے اور آج کے مقلدین، مقلدین کے مقلد بنیں۔ جبکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ آج کے حنفی
مقلدین امام ابو حنیفہ تو درکنار، صاحب ہدایہ، قاضی خان، بلکہ ابن عابدین کی تقلید
کرتے ہیں۔
اگر چاروں اماموں نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا تو آپ نے
اس سے تقلید کے وجوب پر استدلال کیسے کیا؟ ممکن ہے یہ حدیث اُن کے نزدیک منسوخ،
ضعیف یا خاص ہو، اور اگر آپ کے خیال میں اس حدیث میں ائمہ اربعہ سے خطاب نہیں ہے
جیسا کہ سرفراز صفدر نے اس طرف اشارہ کیا ہے تو اس تخصیص اور استثناء کی دلیل کیا
ہے؟۔
8-
آٹھویں وجہ یہ ہے: کیا تمام صحابہ کرام ابوبکر و عمر
رضی اللہ عنہما کے مقلد تھے یا ان میں مجتہدین بھی تھے؟ اگر سارے مقلد تھے تو یہ
بات بالکل غلط ہے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ خود آپکے نزدیک مجتہد تھے
(اور یہ حقیقت بھی ہے) اور اگر ان میں مجتہدین بھی تھے تو وہ ابوبکر و عمر رضی
اللہ عنہما کے مقلد تو نہ ہوئے اور اس حدیث کی خلاف ورزی بھی اُن سے سرزد ہوئی!!۔
9-
نویں وجہ یہ ہے کہ کیا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے
بھی غلطی کا احتمال ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ معصوم عن الخطاءتھے تو یہ
بات آپ کے اپنے اصول کے خلاف ہے کیونکہ آپ کا بھی تو یہ قاعدہ ہے کہ "المجتھد
یخطی ویصیب"( ہر مجتہد کبھی حقیقت تک رسائی حاصل کرتا ہے اور کبھی اس میں
غلطی کر جاتا ہے) اگر آپ ان کی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کی غلط اور صحیح بات
کو پرکھنے کا معیار کیا ہوگا؟۔ اگر قرآن اور حدیث کی پہلی اور آخری کسوٹی پر اس کو
پرکھا جائے گا تو اس سےتقلید ثابت نہیں۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر رضی
اللہ عنہ کے اقوال کے رد میں دلائل پیش کیے اور جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنےقول
سے رجوع کیا۔ جس طرح کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، دیوانی عورت پر حد جاری کرتے تھے۔
لیکن جب علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث
پیش کرکے مخالفت کی، جس کے مقابلے میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر
لیا۔ (ابوداؤد رقم: 3499، ج2ص252)۔
اسی طرح جب جناب عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ مہر دینے سے
منع کیا تو ایک عورت نے قرآن کی یہ آیت پیش کی "وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ
قِنطَارًا" کہ شوہر اپنی بیوی کو مہر میں خزانہ بھی دے سکتا ہے۔ اور آپ زیادہ
مہر دینے سے منع کر رہے ہیں؟ اس آیت کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ : عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے
میں فرماتے ہیں: وکان وقافا عند کتاب اللہ۔
یعنی عمر رضی اللہ عنہ ، کتاب اللہ سے آگے بڑھنے کا
تصور بھی نہیں کرتے تھے۔
تو اس حدیث سے تقلید ثابت کرنا بے وقوفی کی علامت ہے،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا غلط مطلب بیان کرنا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا
کہ جھوٹی حدیث گھڑنے کا جرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"من
کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار " جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ
منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھ لے۔ (بخاری و مسلم)
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
چوتھا
شبہہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
(رَضِيتُ
لَكُم مَا رَضِيَ ابنُ اُمِٗ عَبدِِ) ۔ مستدرک :ج3ص319
جو چیز تمہارے لیے عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پسند
کرے اسی چیز پر میں تمہارے لیے راضی ہوں۔ مقلدین کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کی بنیاد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ ابن مسعود رضی اللہ کی
باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
باتوں پر اللہ تعالٰی خوش ہیں لہذا اللہ اور رسول دونوں فقہ حنفی پر راضی ہیں اور
اس سے خوش ہیں۔ (الکلام المفید،سرفراز صفدر:ص291)
جواب: قارئین محترم! حسب معمول مذکورہ استدلال میں بھی
تقلید جیسے بے ہودہ عمل کے اثبات کے لیے احادیث رسول میں تحریف اور تقول علی اللہ
والرسول سے کام لیا گیا ہے۔ اس تحریف کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
1-
کیا اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی فقہ
پر راضی ہوسکتے ہیں؟ جس میں لکھا ہو "اصغرھم عضواََ" (امام بننے کا
زیادہ حقدار وہ شخص ہے جس کا ذکر سب سے چھوٹا ہو یا سب سے بڑا ہو(مراقی الفلاح:ص70)
کیا اللہ تعالی اس فقہ سے خوش ہوسکتا ہے؟ جس میں کرائے
پر حاصل کی جانے والی عورت کے ساتھ زنا کی کوئی حد نہ ہو۔ (فتاوی عالمگیری وغیرہ)
کیا اللہ تعالی ایسی فقہ سے خوش ہو سکتا ہے جس میں شرعی
احکام کا مذاق اُڑایا گیا ہو؟
ایسی پُر از خرافات فقہ سے تو ایک ادنیٰ قسم کا مومن
بھی خوش نہیں ہوسکتا ؟ افسوس! آج مسلمانوں میں بھی اللہ کی غیرت کو للکارنے والے
پیدا ہوئے جن کے دل میں نہ خوفِ الہی رہا اور نہ شرمِ خلق۔۔
2-
کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کے لیے فقہ
حنفی اور تقلید کے انتخاب پر خوش ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کے انتخاب پر خوش ہیں؟۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں: ( لا
يقلدن احدكم دينه رجلا) تاکید پر تاکید لا کر بڑی سختی کے ساتھ عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ کوئی مسلمان دین کے معاملے میں کسی بھی آدمی کی تقلید
نہ کرے۔ (مجمع الزوائد:ج1ص180، اعلام الموقعین:ج2ص194) اسی طرح کتاب ہذا ص279
ملاحظہ کیجئے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کو تقلید سے بچنے
کا مشورہ دے رہے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: ( اُولٰئِكَ اَصحَابُ مُحَمدِِ
)مشکوہ:ج1ص302
تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کے لیے نہ تو
تقلید پر خوش ہیں اور نہ فقہ حنفی پر۔ اور حدیث کا جو مطلب سرفراز نے بیان کیا ہے
وہ سراسر غلط ہے۔
3-
تیسرا جواب یہ ہے کہ فقہ حنفی میں اکثر مقامات پر
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوے کے خلاف مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ جس طرح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کا بوسہ لے تو وہ
دوبارہ وضوء کرے گا ( موطا امام مالک:ج1ص31، مشکوۃ ج1ص49)
جبکہ فقہ حنفیہ کے نزدیک ایسا شخص دوبارہ وضوء کرنے کا
پابند نہیں ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک جنبی کےلیے تیمم
کا حکم نہیں ہے۔ (بخاری:ج1ص49)
جبکہ فقہ حنفی کے نزدیک جنبی تیمم کر سکتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عنہ کا فتوی ہے کہ نماز
میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ فقہ حنفی اس کو ممنوع قرار
دیتی ہے۔
(فتاوی
الدین الخالص:ج1ص227، ابن شیبہ ج2ص74، مجمع الزوائد: ج2ص82)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد کو
ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے جبکہ احناف کے نزدیک مسجد کو منتقل کرنا
مطلقا ناجائز ہے۔ (مسندالخلال، مجموعۃ الفتاوی)
اس طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تسبیح کو بدعت
سمجھتے ہیں۔
جبکہ احناف کے ہاں جائز ہے۔(کما فی کتاب البدع والنہی
عنہا، ص:10 و فتاوی الدین الخالص: ج1ص221)
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جن کو
یہاں بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ حنفیوں کے غلط استدلال کو رد کرنے کے لیے مذکورہ
مثالیں ہی کافی ہیں۔ بقول احناف کے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقہ حنفی سے صرف اس
لیے راضی ہیں کہ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پر مبنی ہے تو پھر
مندرجہ بالا مسائل میں فقہ حنفی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال کی تائید
کیوں نہیں کرتی؟۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقلد کو صرف اپنی خواہش سے غرض
ہوتی ہے اس کے نزدیک دلیل کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
4-
چوتھا جواب یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید کی ہے یا نہیں کی؟
اگر کی ہے تو پھر ہم آپ سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں
لیکن جناب آپ کو مایوسی ہوگی ایسی دلیل آپ سے بن نہ پائے گی کیونکہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم نعوذ باللہ بدعتی نہیں تھے جو تقلید کی لعنت میں پڑتے۔
لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید نہیں کی ہے تو پھر جس حدیث سے آپ عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں صحابہ کرام کا عمل تو اس حدیث
کے خلاف ہوا اور مقلد صاحب صرف آپ اس حدیث پر عمل کرنے والے رہ گئے۔
5-
پانچویں بات یہ ہے کہ کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ سے غلطی ہوسکتی تھی یا نہیں؟۔
اگر آپ کے خیال میں ان سے غلطی نہیں ہوسکتی تھی تو یہ
بات غلط ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے اور
"المجتھد یخطی ویصیب"کے تحت ان سے غلطی کا احتمال ہر وقت موجود ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ ان کی بعض موقوف باتیں خطاء قرار پائی ہیں۔
جیسا کہ جنبی کے لیے تیمم کا نہ ہونا۔ حالانکہ جنبی کے
لیے بھی تیمم ثابت ہے۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ ان سے غلطی کا احتمال موجود تھا تو
پھر ان کی خطاء اور صواب کو پرکھنے کا معیار کیا ہوگا؟۔
یقیناََ یہ معیار صرف قرآن و حدیث ہے۔ اس معیار پر پور
اُترنے کی صورت میں اس کے قول کو لیا جائے گا لیکن یہ قرآن وحدیث کی دلیل کی اتباع
کہلائے گی نہ کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد کی تقلید۔
6-
چھٹا جواب یہ ہے کہ (رَضِيتُ لَكُم مَا رَضِيَ ابنُ اُم
عَبدِِ)کیا اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی
آراء ماننے کا حکم دیا ہے یا کسی اور چیز کا؟ اگر اس حدیث میں مامور بہ سے مراد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی آراء ہیں تو اس سے نعوذ باللہ کسی اُمتی کی آراء ماننے
پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم لازم آتا ہے۔ حالانکہ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ کسی کی رائے ماننے کی ترغیب بالکل نہیں دے سکتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (ستفترق امتي على
بضع وسبعين فرقة اعظمھا فتنة على امتي قوم يقيسون الامور برايھم فيحرمون الحلال
ويحللون الحرام)
(مستدرك:ج4ص430۔
وقال صحيح على شرط الشيخين وقال الھيثمي في المجمع: ج1ص179، رجاله رجال الصحيح
وابن بطة الابانة: ج1ص274)، تعظيم السنة :16)۔
میری اُمت تقریباََ تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی ان فِرَق
ضالہ میں سے میری اُمت کےلیے سب سے زیادہ فتنے کا باعث وہ فرقہ ہوگا جو اپنی رائے
اور قیاس کے ذریعے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیگا۔
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصود
یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ میری اُمت کے لیے قرآن وحدیث کی اتباع کو پسند
کرتا ہے اور قرآن وحدیث کے مقابلے میں میری اُمت کےلوگوں کے دلوں میں بدعت و تقلید
کی نفرت اور اہل بدعت وتقلید سے بیزاری کو متمکن کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو نبی
صلی اللہ علیہ وسلم بھی پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی بھی اس سے خوش ہے ہم بھی اس
کو پسند کرتے ہیں اور یقینا ہر مومن اسکو دل سے پسند کرتا ہے۔
7-
ساتواں اور آخری جواب یہ ہے کہ یہ حدیث مستدرک میں
موجود ہے (ج3ص319) جبکہ تقلید کے اثبات کے لیے مولانا سرفراز صفدر اور دیگر حنفی
مقلدین نے اس کا ایک ٹکڑا لیا ہے باقی حدیث کو نظر انداز کردیا ہے۔ جس میں تقلید
کا رد موجود ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
(عن
عمرو بن حريث عن ابيه قال قال النبي لعبدالله بن مسعود:اقرا! قال: أأقرأ و عليك
اُنزل ؟قال:اني احب ان اسمعه من غيري۔ قال: فافتتح سورة النساء حتى بلغ: فيكف اذا
جئنا من كل امة برسول وجئنابك على ھولاء شھيدا۔ فاستعبر رسول الله وكف عبدالله
فقال له رسول الله تكلم فحمدالله في اول كلامه واثنى على الله وصلى على النبي وشھد
شھادة الحق وقال: رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا ورضيت لكم ما رضي الله ورسوله
فقال رسول الله: رضيت لكم ما رضي لكم ابن ام عبد)
اس حدیث میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ تعالی ہمارا رب ہے اور اسلام
ہمارا دین ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اُمت کے لیے وہ کچھ پسند کرتا ہوں جو اللہ اور اس
کے رسول کو پسند ہو۔
اس مکمل حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ابن مسعود رضی
اللہ عنہ اُمت کے لیے کیا پسند کرتے ہیں اور مقلدین اپنے باطل دعوے کی تائید کے
لیے حدیث کا کتنا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں واللہ المستعان۔
پانچوں
شبہہ
بعض مقلدین صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ
"ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تک تمہارے درمیان یہ عالم
یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ موجود ہے تم مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو بلکہ ابن
مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھو" اس حدیث کے بارے میں مقلدین کہتے ہیں کہ اس سے
تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ کو یمن روانہ کیا تھا جہاں وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات دیا کرتے تھے۔ (بخاری:
ج2ص997) مقلدین اس سے بھی تقلید شخصی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے مختلف علاقوں میں امیر بھی مقرر کئے تھے جو مقامی لوگوں کے مسائل حل
کیا کرتے تھے (بخاری:ج1ص1076)
اس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:"
لم نتجاوزھا"یعنی اگر کوئی معتمد علیہ شخص ہمیں علی رضی اللہ عنہ کا فتوی
سنائے تو ہم اس فتویٰ کو قبول کریں گے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے ایک عورت آئی، نبی علیہ السلام نے اس کو دوبارہ آنے کا
حکم دیا تو اُس عورت نے کہا کہ اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ نہ ہوں تو پھر کیا کروں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں نہ ہوں تو پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آؤ!
مقلدین اس حدیث سے بھی تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ تقلید کے اثبات کےلیے اس قسم کے اور بھی بہت سارے دلائل سرفراز صفدر کے
"الکلام المفید" میں موجود ہیں، ص(94،95)
الجواب: قارئین محترم! محکمات کو چھوڑ کر مقلدین کے یہ
بعید از حقیقت استدلالات ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی مانند ہیں۔ مقلدین صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کو ایک ایسے عمل کا مرتکب ٹھہراتے ہیں جس سے وہ نہ صرف بری ہیں بلکہ
خود اس کی تردید بھی کرچکے ہیں۔
اب مقلدین کے مذکورہ شبہات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
1-
پہلا یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کسی کے مقلد نہیں
تھے اس کے بارے کچھ احادیث صفحہ۔۔ موجود ہیں باقی یہاں پر ملاحظہ کیجئے۔
قال عمران بن حصین رضی اللہ عنه: نزلت آیة المتعة فی
کتاب اللہ ففعلنا ھا مع رسول اللہ ولم ینزل قرآن یحرمه ولم ینه عنھا حتی مات، قال
رجل برایه ماشاء قال محمد:یقال انه عمر ( بخاری:ج2ص648)۔
جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن
مجید میں حج تمتع کا حکم نازل ہوا اور ہم نے نبی علیہ السلام کے ساتھ حج تمتع کیا
نہ قرآن نے ہم کو منع کیا اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو روکا۔ یہاں تک
کہ آپ علیہ السلام فوت ہوگئے لیکن ایک آدمی نے اپنی رائے کے مطابق کچھ اور کہنا
چاہا۔ محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آدمی جناب عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
اس حدیث میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق
رضی اللہ عنہ پر رد کر رہے ہیں کہ وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے۔ عمران بن حصین
فرماتے ہیں: جب قرآن و حدیث میں کسی مسئلے کا حل موجود ہوتو پھر کسی بڑے سے بڑے
صحابی کا قول اگر اسکے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیا جائے چاہے وہ ابوبکر و عمر رضی
اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح بخاری میں آتا ہے:
"اِتھموا
الراي و في رواية اتھموا رايكم علی دينكم "۔ بخاری: ج2ص1087
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دین کے مقابلے
میں اپنی رائے کو کوئی اہمیت نہ دو بلکہ اس کو تہمت سمجھو۔ یعنی اکثر علماء کی عقل
اور رائے حديث كے خلاف ہوگی لیکن تم حدیث رسول علیہ السلام کی تابعداری کرو اگرچہ
وہ عقل اور قیاس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ دینی فہم سب سے اعلی ہے۔
اس طرح بخاری ج1ص219 کی حدیث میں آتا ہے کہ: ایک آدمی
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کے بوسے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ابن عمر رضی
اللہ عنہ جواب میں فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا
کہ آپ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔ آدمی نے پھر سوال کیا: (أرأيت إن زوحمت أرأيت إن
غلبت) بتائیں اگر میں ہجوم میں پھنس جاؤں یا مغلوب ہوجاؤں تو کیا کروں؟ ابن عمر
رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر غصہ میں فرمانے لگے: اجعل "أرأيتك" باليمن
رايت رسول الله يستلمه ويقبله ۔ اپنی رائے یمن پھینک آؤ میں نے اللہ کے رسول کو
حجر اسود کا بوسہ لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اس کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
یہ صحابہ کرام کی حالت تھی کہ وہ احادیث رسول کے مقابلے
پر کسی کی بات کو لینے کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے۔ جبکہ مقلدین احادیث کے ذخیرہ
کو ایک امام کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ ایک امام کی اطاعت اور مخالفت کو دوستی
اور دشمنی کا معیار بنا دیتے ہیں۔
2-
دوسرا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی آراء
کے مطابق تعلیم دیا کرتے تھے یا قرآن و حدیث کے احکام کے مطابق۔۔؟ تو کیا قرآن و
حدث کی تعلیم سے تقلید ثابت ہوتی ہے؟ کیا مقلدین کے دلوں میں خوفِ خدا اور شرمِ
خلق کی معمولی سی رمق بھی نہ رہی؟
3-
تیسرا جواب یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کسی
امیر، کسی خلفیہ یا کسی عالم کی بات مطلقا مانتے تھے یا قرآن و حدیث کی موافقت میں
ان کی بات مانتے تھے؟ اگر قرآن وحدیث کی مطابقت میں مانتے تھے تو یہی ہم کہتے ہیں
کہ امامانِ دین اور علماء کرام کی باتیں قرآن و سنت کی مطابقت میں مانا کرو۔ لیکن
اگر آپ کا خیال ہے کہ وہ مطلقاََ ہر کسی کی بات مانا کرتے تھے تو یہ اندحی تقلید
ہوئی اور صحابہ کرام کی طرف اس کی نسبت سراسر جھوٹ ہے کیونکہ انہوں نے قرآن وحدیچ
کے مقابلے پر ایک دوسرے کے اقوال کو رد کیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد
فرمایا:
فإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ
وَالرَّسُولِ یعنی اگر کسی مسئلے میں تم باہمی اختلاف کا
شکار ہوجاؤ تو اس کو قرآن وحدیث پر پیش کرو۔ اختلاف یا تو کسی خلفیہ اور امیر سے
ہوتا ہے یا کسی عالم اور مجتہد سے۔ اس کو ختم کرنے کا واحد حل قرآن وحدیث ہے۔
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
چھٹا شبہہ
بعض مقلدین اعتراض کرتے
ہیں کہ تم بھی تو علماء کی باتیں مانتے ہو، ان کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہو۔
جرح و تعدیل کے باب میں ان کی باتیں تسلیم کرتے ہو۔ اسی طرح مفسرین کی تفسیر اور
ترجمہ کو بغیر چوں چراں کےمان لیتے ہو۔ علماء دین سے مسائل بھی پوچھے جاتے رہے
ہیں۔ چاہے صحابہ کرام کے زمانے میں ہو یا کسی اور زمانے میں ہو۔ یہ تمام صورتیں
تقلید کے اثبات پر دلالت کرتی ہیں۔
جواب: یہ مقلدین کا بڑا
اہم شبہہ ہے جس کا انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور انتہائی
مزخرف طریقے سے تقلید کے اثبات پر اس سے استدلال کیا ہے۔
ایک عالم کی رائے ہوتی
ہے اور ایک اسکی روایت ہوتی ہے۔ عالم کی رائے کو بغیر دلیل کے ماننا تو ناجائز
تقلید ہے جبکہ اس کی روایت بالقرآن والحدیث کو ماننا تمام اُمت کے نزدیک بالاجماع
اتباع کہلاتا ہے۔ جس طرح کے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اسکو "القول المفيد في
ادلة الاجتھاد والتقليد" میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی عالم کسی راوی حدیث
پر جرح یا تعدیل کرتا ہے اور اُس کی اطلاع آگے اُمت کو دیتا ہے تو یہ اس کی رائے
نہیں ہوتی بلکہ اسکا مشاہدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اُس راوی کے کذب اور کمزوری کو
بالمشاہدہ محسوس کرتا ہے پھر اس کی اطلاع مسلمانوں کو دیتا ہے اور دین میں مسلمان
کا مشاہدہ قبول کرنا لازمی ہے۔ اگر مقلدین کو فقہ پڑھنے سے فرصت ملی ہو اور اصولِ
حدیث کا مطالعہ کیا ہو تو یقیناََ جرح و تعدیل کا یہ قاعدہ ان کو مل گیا ہوگا کہ
" کسی جارح کی جرح مبہمہ اس وقت تک ناقابل قبول ہو گی جب تک اس پر مشاہدہ کی
واضح دلیل پیش نہ کی جائے"۔ دونوں میں یہ نہ صرف واضح فرق ہے بلکہ تقلید پر
رد بھی ہے۔ اگر تقلید جائز ہوتی تو پھر تمام علماء کسی کی جرح مبہمہ کو بغیر دلیل
کے کیوں نہیں مانتے؟ یہ مقلدین پر واضح اور مضبوط رد ہے کہ ایک طرف تقلید کے قائل
ہیں اور دوسری طرف جرح مبہمہ ماننے سے انکار بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح تقلید اور کسی
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں بڑا واضح فرق ہےکیونکہ تقلید دین کے کسی معاملے میں کسی
مخصوص امام کی تمام باتوں کو بغیر دلیل کے ماننے کا نام ہے یا پھر کسی امام کے
مقلدین کی تمام باتوں کو بغیر دلیل کے ماننے کا۔ جس طرح کہ آج کے احناف شامی، قاضی
خان اور صاحب ہدایہ وغیرہ کے مقلدین ہیں۔
استفتاء یعنی کسی ایسے
عالم سے مسئلہ پوچھنا جو قرآن و حدیث کا فہم رکھتا ہو یہ صحیح اور جائز ہے۔ اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا فہم اور علم اس کے مقصودِ نظر ہوتا ہے نہ کہ یہ
عالم۔ کیونکہ یہ تو سنت تک رسائی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور جب سائل کو معلوم ہو
جائے کہ اس کو قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ نہیں دیا گیا تو دوسرے عالم کے پاس جاتا
ہے اور اس سے کتاب و سنت کے مطابق مسئلہ دریافت کرتا ہے۔ یہ ایک مخالف طرزِ عمل ہے
جو تقلید سے سرِے سے تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ مقلدین اپنے امام کی غلط باتوں کو
بھی صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ
زندہ عالم اور فوت شدہ عالم سے مسئلہ پوچھنے میں فرق ہے۔ زندہ عالم سے قرآن وحدیث
کے مطابق کسی مسئلہ کے حل کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر قرآن وحدیث میں اُس کو
مسئلہ نہ ملے تو دوسرے عالم کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی آنجہانی
عالم کی تقلید کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، کیونکہ اس سے دوبدو (بالمقابل) مسئلہ
پوچھا نہیں جاسکتا۔
اگر مقلدین یہ کہیں کہ
ان کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ تو کیا ان کی کتب کی موجودگی میں قرآن
وحدیث اس قابل نہیں کہ ان کی طرف رجوع کیا جائے جبکہ قرآن وحدیث مکمل دین ہے اور
پھر ایک اُمی آدمی کس طرح امام صاحب کا مقلد بن سکتا ہے کیونکہ وہ نہ تو اس سے
دوبدو مسئلہ پوچھ سکتا ہے اور نہ وہ کتابوں کو سمجھ سکتا ہے۔
نیز مفسرین کے ترجمے
اور تفسیر ماننا بھی تقلید نہیں ہےکیونکہ وہ تو ایک سند پیش کرتے ہیں ( جیسا کہ
بعض مفسرین کا طریقہ ہے) اگر وہ کسی آیت کی توجیہ اپنی طرف سے کرتے ہیں جو کہ قرآن
و حدیث کی موافق ہو تو ہم اس کو مان لیتے ہیں۔ لیکن اگر قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو
ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اندھے تو نہیں ہیں
کہ مفسر کی اچھی اور بری تفسیر دونوں کو بدون تمییز کے مان لیں۔ جب کوئی مفسر یا
محدث قرآن وحدیث کی موافق توجیہ بیان کرتا ہے جس میں حکمت کی کوئی بات ہو تو اس کو
ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ وہ توجیہ یا حکمت کا وہ نکتہ لغتِ عربی سے
معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث دونوں عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں لہذا اس کو
تقلید نہیں کہہ سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر
احناف مفسرین کی تفسیر کو تسلیم کرنا تقلید سے تعبیر کرتے ہیں تو پھر وہ خود اس
سعادت سے محروم کیوں ہیں؟ اور اپنے آپ کو ابن جریری یا ابن کثیری وغیرہ کیوں نہیں
کہلاتے؟ حالانکہ احناف کی حالت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ اُمت
میں کسی اور امام کو عالم ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ
احناف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تفسیر کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ اس سے تو یہ
معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی کوئی تفسیر ہی نہیں ہے یا اگر تھی بھی تو شائد
حوادثِ زمانہ کی نظر ہوچکی ہو۔ اور اگر احناف مفسرین کے مقلد ہیں تو امام ابوحنیفہ
کی تقلید کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں؟ یا تو احناف یہ کہہ دیں کہ مفسرین کے ترجمے کو
لینا اور ان کی تفسیر کو قبول کرنا تقلید نہیں ہے اور یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
کی تقلید سے دست بردار ہو کر مفسرین کی تقلید کریں۔
مقلدین کا یہ اعترض بھی
اپنی جگہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ " ہر دور میں علماء سے مسائل کا پوچھا
جانا" چاہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ہی کیوں نہ ہو اس بات کی دلیل
ہے کہ تقلید جائز ہے لیکن یہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ صحابہ کرام ایک دوسری کی
تقلید کرتے تھے اور ایک دوسرے کو صدیقی، عمری یا عباسی کہاتے تھے۔
"ہاں" آپس میں ایک
دوسرے سے قرآن وحدیث کے مسائل پوچھتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے حکم کے مقابلے پر ایک
دوسرے کی آراء کو مسترد کیا ہے اور قرآن وحدیث کو سینے لگایا ہے۔ آج ایسا ہی کرنے
کی ضرورت ہے۔
جس طرح کہ شاہ اسماعیل
شہید نے اپنی کتاب ایضاح الحق الصریح میں لکھتے ہیں: " اپنا طور طریقہ خالص محمدی رکھنا چاہیے اور قدیم سنت نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم پر گامزن رہنا چاہیے اور کسی مخصوص (فقہی) مذہب و مسالک پر چلنے یا کسی
مخصوص صوفیانہ طریقہ میں داخل ہونے کی ضروری نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان فقہی مذاہب
اور صوفی طریقوں کو عطار اور پنساری کی دکانوں کی طرح سمجھنا چاہیے کہ جب کسی چیز
کی ضرورت پڑی تو ان میں سے کسی بھی دکان سے جا کر لے لی جائے اور اپنے آپ کو صرف
محمدی فوج کا سپاہی سمجھنا چاہیے"۔۔۔الخ
ساتواں شبہہ
بعض مقلدین تقلید کی
تعریف یوں کرتے ہیں:
کسی امام کی بات پر
بغیر دلیل کے عمل کیا جائے۔ دلیل اس لیے نہ مانگی جائے کہ وہ امام قرآن وحدیث کی
بصیرت رکھتا ہے اور جو مسئلہ اس نے قرآن و حدیث سے اخذ کیا ہے قابل قبول ہے ۔ تو
ایسی تقلید کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ( جس طرح کہ مقلدین کے مقلد نے لکھا ہے)۔
جواب : مذکورہ تقلید
بھی چند وجوہات کی بنیاد پر قبیح اور غلط ہے:
1- پہلی وجہ یہ ہے کہ اس
امام سے دلیل کیوں نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ وہ نبی تو نہیں کہ اس کی بات بغیر
چوں چراں کے مان لی جائے؟ اس سے تو مسلمانوں کو منع کی گیا ہے۔ کیونکہ یہ یہودیوں
کی صفت تھی کہ وہ اپنے علماء اور پیروں سے دلیل نہیں طلب کرتے تھے۔ اللہ تعالی کا
فرمان ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ) سورہ توبہ ۔۔کہ انہوں
نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالی سورہ یوسف میں ارشاد
فرماتے ہیں: (قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو
إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا
وَمَنِ اتَّبَعَنِي )۔ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت
دیتا ہوں میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہیں۔
بصیرت دلائل کے ساتھ
بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔ بغیر دلیل کے کسی بات کو مان لینا جہالت کہلاتا
ہے کیونکہ تمام اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مقلد جاہل ہوتا ہے (تفسیر
قرطبی:ج2ص212)۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ
مقلد کو کیسے معلوم ہوگا کہ اس کا امام تمام علماء سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ تو اُس
وقت ممکن ہے جب مقلد قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ان کے دلائل سے اچھی طرح واقف
اور باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں راجح و مرجوح، صحیح اور ضعیف کو بھی جانتا ہو۔
ایسی صورت میں کسی عالم یا امام کے بارے یہ خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے
زیادہ جانتا ہے لیکن جب آدمی کے علم کی حالت یہ ہو تو اس کو تقلید کی ضرورت نہیں
رہتی کیونکہ مقلدین خود کہتے ہیں کہ تقلید جاہل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات
ہے کہ شرعی احکام میں اپنے آپ کو جاہل سمجھنے والے مقلدین علماء کی علمی قابلیت
جانچنے کے لیے تو بڑے ماہر بن جاتے ہیں اور احکام شریعت کی سمجھ اورفہم سے اپنے آپ
کو معذور سمجھتے ہیں۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ کیا
صاحب بصیرت عالم سے غلطی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ (ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انسانیت اور
بشریت کا تقاضہ ہے) تو امام ابوحنیفہ رحمہ کے بارے میں ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ممتاز
عالم ہونے کیساتھ ساتھ احناف یہ مانتے ہیں کہ اُن سے خطاء ہو سکتی ہے کہ نہیں،
احناف کی زبان سے جواب یہ کہ امام ابوحنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ حقیقت
بھی ہے کیونکہ احناف بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا قول چھوڑ کر صاحبین کے
قول پر فتوی دے چکے ہیں اگر فرصت ہو تو فقہ حنفی کا ذرا مطالعہ کیجئے تا کہ تم کو
معلوم ہوجائے کہ بہت سے مسائل میں لکھ چکے ہیں کہ "وَالفَتوی عَلی
قَولِھِما"۔ مثلا مزارعہ وغیرہ میں۔
اس کے علاوہ امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ خود ایک متکلم فیہ راوی ہے، علماء اُمت نے اس کو ضعیف راوی کہا
ہے۔ آئندہ صفحات پر اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ کو اُمت کے بقیہ تمام علماء کے مقابلے میں سے زیادہ دینی بصیرت کا حامل قرار
دینے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ جب تفاسیر قرآن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
کی کوئی تفسیر نہیں ہے، کتب احادیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں ہے، شروحاتِ حدیث میں
ایسی کوئی شرح نہیں ہے جسے ان کی طرف منسوب کیا جائے اور جب دنیا کی لائبریریوں کے
ذخیرہ کتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جس کو امام ابوحنیفہ کا علمی کارنامہ کہا
جاسکے تو پھر تم کیسے برسرِ ممبر امام صاحب رحمہ اللہ کی دینی بصیرت کے لامنتہی
دعوے کرتے ہو؟ کتاب وسنت سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان جب تعصب کو بالائے طاق رکھ کر
دیگر مذاہب کے مقابلے میں حنفی مذہب کا تجزیہ کرے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے
بالکل ظاہر ہو جائے گی کہ حنفی مذہب کے اکثر احکام ضعیف روایات، موقوفات اور
مقطوعات پر مبنی ہیں اور صحیح حدیث پر عمل کرنا اس بدنصیب مسلک کی قسمت میں نہیں
ہے۔ نصب الرایہ، اعلاء السنن وغیرہ ملاحظہ کیجئے)۔
(احناف کی کتابوں میں یہ
اقرار موجود ہے: کہ احناف کے نزدیک موقوف حدیث بھی حجت ہے، مرسل بھی اور ضعیف بھی
حجت ہے دیکھیں (حدیث اور اہل حدیث) خود ہدایہ وغیرہ کے بارے میں مولانا عبدالحی
لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: "کہ ان معتبر کتابوں میں ساری حدیثیں موضوع
ہیں"ترجمہ مقدمہ عمدۃ الرعایہ مطبع یوسفی ص12۔ مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے
ہیں: اہل علم جانتے ہیں کہ ہدایہ میں بہت سی روایات بالمعنی ہیں اور بعض ایسی بھی
ہیں جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ماہنامہ بیّنات دسمبر:1981)
لیکن اس بات کو صرف وہی
متجّر عالم سمجھ سکتا ہے جو تعصب سے مبرا ہو۔ ہر طالب علم اور ناقص مولوی اس کو
نہیں سمجھ سکتا ہے۔
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
آٹھواں
شبہہ
عقل و دانش سے عاری کچھ مقلدین کہتے ہیں کہ دنیاوی
نظام، تعلیمی نظام اور گھریلو نظام تقلید ہی کی بدولت بتدریج رواں دواں ہیں۔ مثال
کے طور پر اگر امیرِ لشکر ماتحت سپاہیوں کو کسی لڑائی سے متعلق ہدایت دیتا ہے اور
سپاہی صف جنگاں میں صف دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو کر جاری لڑائی میں دلیل کا مطالبہ
کرے تو یقینا یہ رویہ قریب الحصول فتح کو بھی شکست میں بدل دے گا۔ اسی طرح اگر
بیوی شوہر کے حکم کی تعمیل کو دلیل سے مشروط کرے تو بیوی کا یہ اقدام گھریلو تسکین
و راحت کا خاتمہ کردیگا۔ کہتے ہیں: کہ اس سے تقلید ثابت ہوگئی۔
جواب: حقیقت میں تقلید جہالت کی اصل ہے، یہی وجہ ہے کہ
مقلدین ایسی بے بنیاد باتیں کرتے ہیں۔ معروفات میں امیر کی باتیں ماننا تقلید نہیں
بلکہ اتباع کہلاتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ۔ اور جو تمہارے امیر ہوں
اُن کی اتباع کرو۔
اور حدیث میں آتا ہے: من اطاع اميري فقد اطاعني جس نے
میرے امیر کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی۔ اس حدیث میں امیر کی اطاعت مذکور
ہے نہ کہ مجتہد کی۔ کیونکہ یہ کوئی جگہ نہیں کہ "من اطاع المجتھدين فقد
اطاعني" جس نے مجتہدین کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ امیر اگر امور حسیّہ میں سے کسی کام
کے کرنے کا حکم کرتا ہے تو اسکے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر وہ امورِ
دین میں سے کسی کام کا حکم کرتا ہے تو اسکی تعمیل کو قرآن وحدیث کی دلیل سے مشروط
کیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (انما الطاعة في المعروف)۔
(امیر
کی اطاعت اچھے کاموں میں کی جائے گی نہ کہ سیئات میں) اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے
: ( لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق) خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت حرام
ہے۔ ( ابن ابی شیبہ وغیرہ)
ایسی بے جا باتوں سے احتراز ہی ایک مومن کے حق میں بہتر
ہے۔
اسی طرح شوہر اگر اپنی بیوی کو شریعتِ محمدیہ کے موافق
کسی کام کا حکم کرتا ہے تو بیوی پر اس کی اطاعت فرض ہے لیکن شریعت کی خلاف ورزی
میں بیوی بھی شوہر کی نافرمانی کی مجاز ہے۔ جبکہ تقلید امام کی خطاء اور صواب کے
ہر بات کو ماننے کا نام ہے۔ اسی طرح اسلام نے بیوی کو شوہر کی اطاعت اور خدمت کا
مکلّف ٹھہرایا ہے۔
نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: (ولو امرھا ان تنقل الحجارة
من جبل اسود الي جبل ابيض ومن ابيض الي احمر لكانت لھا ان تفعله)۔ مشكوة :ج1ص283۔
"شوہر اگر اپنی بیوی کو حکم کرے کہ وہ پتھر کو ایک پہاڑ سے دوسرے اور دوسرے
سے تیسرے پر منتقل کرے تو اس پر عمل کرنا چاہیے" حالانکہ یہ عبث اور سعی
لاحاصل ہے۔ پھر بھی شریعت نے اس کو اطاعت کرنے کی تاکید کی ہے۔
ہم مقلدین سے صرف اتنی گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ
مجتہدین کی بیویاں بننے کی بجائے قرآن و حدیث کے غلام بن جائیں تا کہ سراسر عزت پر
فائز ہوجائیں۔
نواں شبہہ
بعض مقلدین کا خیال ہے کہ ترکِ تقلید کے بہت سارے
نقصانات ہیں۔ ان اعتراضات کو نمبر وار مع جوابات کے پیش کیا جاتا ہے۔
اعتراض نمبر1- سب سے پہلا نقصان تو یہ ہے کہ ترکِ تقلید
سے فروعی اور ضروری مسائل ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ترکِ تقلید فتنہ اور فساد کے برپا
ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔
جواب: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی مسائل کو باعتبارِ
فروعی و اصولی تقسیم کرنا بدعت ہےکیونکہ اس کے بارے میں کوئی قاعدہ منضبطہ نہیں
ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین میں غیر ضروری مسائل بھی نہیں ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے مسائل تو اللہ تعالی کے اسماء
وصفات اور توحید کو پہچاننا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقوں پرعمل کرنا
ہیں ۔ علماء کی باتوں کو شریعت محمدیہ کے ترازو میں تولنا، شرک اور تقلید و بدعت
سے اُمت کو بچانا ہے۔ اسی طرح ہم اللہ کو مستوی علی العرش مانتے ہیں جبکہ احناف اس
کے قائل نہیں ہیں۔ ہم قرآن کو اللہ تعالی کا کلام سمجھتے ہیں جبکہ احناف اس کے قائل
نہیں ہیں۔ ہم قرآن کو اللہ کا کلام سمجھتے ہیں جبکہ احناف قرآن کو اللہ تعالی کی
مخلوق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہم ہر جگہ اللہ سبحانہ وتعالی کے علم کی موجودگی کے
قائل ہیں جبکہ احناف ہر جگہ اللہ تعالی کی ذات کی موجودگی کے قائل ہیں۔ اب سوال یہ
ہے کہ کیا یہ غیر ضروری مسائل ہیں؟۔
قارئین محترم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان کو
حقیر نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک اپنے نبی کا ہر طریقہ
محبوب ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کے مسائل بیان کرنے سے فساد
پیدا نہیں ہوتا بلکہ حق کو نظر انداز کرنا فتنہ و فساد کا سبب بن جاتا ہے۔
اعتراض نمبر2- مقلدین ترکِ تقلید کا دوسرا نقصان یہ ذکر
کرتے ہیں کہ تقلید چھوڑنے کی وجہ سے اُمت میں تجدد اور اباحت پسندی پیدا ہوتی ہے
کیونکہ اس سے ہر آدمی اپنی عقل سے قرآن کی تفسیر اور حدیث ک شرح کرنا شروع کرے گا۔
اور یہ کام اسلام کے لیے نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔
جواب: تقلید چھوڑنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقوں سے محبت کرنا سیکھے اور تلاش حق کے لیے اتنا
حریص ہوجائے کہ اس کے حصول کے لیے کبھی ایک عالم کے پاس جائے اور کبھی دوسرے عالم
کے پاس جائے اور تلاش حق کی یہ جستجو زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھے۔ لیکن ایک
مقلد کو نبی علیہ السلام کے سنت طریقوں کے مقابلے میں اپنے امام کی آراء اور عقلی
دلائل کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اگر صحیح حدیث اُس کے مذہب کے خلاف آتی ہے تو
اُس کو مسترد کرنے کے لیے اگر ہزارہا جوابات وضع کرنے کی ضرورت پڑے تو بھی اس سے
گریز نہیں کرتا۔ جبکہ ہم وہ تجدد اور اباحت پسندی کرتے ہیں جس کی اجازت اللہ تعالی
اور نبی علیہ السلام نے دی ہے محض کسی رائے کی وجہ سے ہم حلال کو حرام نہیں
سمجھتے۔
اس کے برعکس مقلدین صرف اُس چیز کو جائز قرار دیتے ہیں
جس کی اجازت ان کے امام نے دی ہو۔ اور جو چیزان کے امام نے حرام قرار دی ہو اُس کو
حرام ہی سمجھتے ہیں لیکن دلیل مانگنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ یہ چیز حرام
کیوں ہے؟ یہ بعینہ وہی بیماری ہے جو یہود ونصاریٰ میں موجود تھی جس کی نشاندہی
اللہ تعالی نے اس آیت میں کی ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ
وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ) کہ
انہوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ ہم اپنی مرضی سے تجدّد اور
اباحت پسندی کے قائل نہیں ہیں۔
3-حقیقت
یہ ہے کہ اجماع کی خلاف ورزی سب سے پہلے خود حنفی مقلدین کرتے ہیں۔ کیونکہ امام
شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(اجمع
المسلمون على ان من استبانت له سنة رسول الله ﷺ لم يحل له ان يدعھا لقول احد) ۔
تعظيم السنة ص:۲۸،
اعلام الموقعين: ج۲ص۲۸۲۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ تمام مسلمانوں کا
اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی مسلمان کو نبی ﷺ کی صحیح حدیث معلوم ہو جائے تو اس
کے لیے یہ بات قطعاََ حرام ہے کہ وہ اس حدیث کی مخالفت میں کسی کی رائے کو قبول
کرے ۔ اس کے برعکس مقلدین بغیر کسی استثناء کے اپنے امام کی تقلید کی خاطر نبی ﷺ
کے سنت طریقوں سے اعراض کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مقلدین اجماع کی بھی
خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اجماع کس کو کہتے ہیں، اکثر مقلدین اجماع
کو ذکر تو کرتے ہیں لیکن ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اجماع کی کون سے قسم
حجت ہے اور کونسی حجت نہیں ہے؟
لیکن چونکہ یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے اور یہ مختصر
رسالہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا بطور "مشت از خروارے" دو چار باتیں
عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
اجماع کی دو قسمیں ہیں:
1-
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی مسئلہ پر اجماع ہو۔
یہ اجماع اس وقت حجت ہے جب یقینِ واثق کے ساتھ معلوم ہو
کہ تمام صحابہ کرام کا اس مسئلے میں باہم اتفاق ہے۔
بعض لوگ بلکہ تمام مقلدین جب کسی صحابی کا قول دیکھتے
ہیں اور اس کا مخالف ان کو معلوم نہ ہو تو اس کو اجماع کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ
یہ زیادتی ہے کیونکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک
میں پھیل گئے تھے کچھ شام گئے تو کسی نے عراق کا رُخ کیا اگر کوئی مصر اور خراسان
پہنچا تو کسی نے فلسطین کے لیے رختِ سفر باندھا۔ انہیں ممالک سے صحابہ کرام فتوی
تو دیا کرتے تھے لیکن دوسرے صحابہ کرام کے اقوال کے ادراک کا اہتمام نہیں کرتے
تھے۔
یہ ایک علمی بات ہے اور مقلدین کے بے جا دعوؤں سے بچنے
کے لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ مقلدین کے بے محل دعوے اکثر بے چارے نادان
لوگوں کی گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں۔
2-
یہ اجماع کی دوسری قسم ہے کہ اُمت کے تمام علماء کا کسی
مسئلے پر اتفاق ہو لیکن یہ اس وقت اُمت کے لیے حجت ہوگا جب تمام علماء کے بارے میں
علم ہو۔ اور یہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ کسی مسئلے پر تمام علماء کے اجماع کا علم
تو کجا۔۔۔آج اُمت یہ معلوم کرنے سے قاصرہے کہ تاریخ اسلام میں کتنے عالم گزرے ہیں
اور وہ کون کون سے ہیں۔
اسی طرح اجماع کی خبر کا متواتر ہونا بھی ضروری ہے
کیونکہ بیان کرنے والا اگر ایک عالم ہو تو یہ خبر واحد ہوئی ( جو کہ حنفیہ کے
نزدیک حجت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے) اس کے علاوہ اجماع کا ماخذ بھی ضروری ہے کیونکہ
اُمت کے علماء کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک ایسا مسئلہ وضع کریں جس کی اساس
قرآن و حدیث نہ ہو۔
ہم اجماع کا دعوی کرنے والوں کو یہ چیلنج کرتے ہیں کہ
وہ علماء کا وضع کیا ہوا ایک ایسا صحیح مسئلہ پیش کریں جو قرآن وحدیث میں نہ ہو
اور اجماع کی شرائط پر پورا اُترتا ہو لیکن ان کو مایوسی ہوگی کیونکہ اس قسم کا
مسئلہ دین میں نہیں ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ تقلید کی وجہ سے
جہالت و گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اس قعرِ مذلت سے نکال کر کتاب و
سنت کی شاہراہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ( اجماع سے متعلق بیس تحقیقی
ابحاث ارشاد الفحول للشوکائی ص 131 پر ملاحظہ کیجئے)۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ جو مسلمان تقلید سے اعراض کر کے قرآن
وحدیث کا تابعدار بن جاتا ہے اس سے کبھی اجماع کی خلاف ورزی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔
ہماری دعاء ہے کہ اپنی عاقبت کی خاطر ہر مسلمان اوہام
پرستی سے گریز کرے۔
اعتراض نمبر4- مقلدین ترکِ تقلید کا چوتھا نقصان یہ ذکر
کرتے ہیں کہ تقلید نہ کرنے کی وجہ سے مسلمان بے ادب بن جاتا ہے۔ علماء اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا اعتماد باقی نہیں رہتا۔
جواب: یہ رسول اللہ ﷺ کے متبعین پر بہت بڑا بہتان ہے
اور ہمیں ایسی بیماری میں مبتلا ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہے جو خود مقلدین کے رگ
رگ میں سرایت کر چکی ہے
اپنے چوتھے اعتراض میں مقلدین نے بے ادبی کو ترکِ تقلید
کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک امام کے سارے اجتہادی اور
غیر اجتہادی مسائل مان کر شریعتِ محمدیہ کے احکامات کو نظر انداز کرنے والے مقلدین
زیادہ بے ادب ہیں یا سنتِ نبویہ ﷺ کے پیروکار۔۔؟
حقیقت یہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال
حنفی مذہب کےخلاف آتے ہیں تو احناف کہتے ہیں کہ یہ تو صحابہ کی رائے ہے اس پر عمل
کرنا ضروری نہیں ہے۔ نہ ان کی تقلید جائز ہے۔ اس حوالے سے سینکڑوں مثالیں موجود
ہیں جو کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
احناف صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے علاوہ
باقی اُمت کے تمام علماء کی تقلید کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اطاعت کے اس طرز کو تقلید
شخصی نہیں تو اور کیا کہتے ہیں۔ اُمت کے تمام علماء کو نظر انداز کرنا، ان پر رد
کرنا اور ایک ہی عالم کو اپنا امام بنانا ہی تقلید شخصی ہے۔ جس طرح کہ صاحب ہدایہ
اور باقی تمام مقلد فقہاء نے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے
اقوال کو ہر جگہ پر رد کر دیا ہے۔ کسی بھی مقام پر اُن کو رجح نہیں کہا۔ تو کیا یہ
ائمہ کی بے ادبی نہیں ہے؟ محدثین کے اقوال کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایسے
راوی کے اقوال ہیں جو اجتہاد سے ناواقف تھے۔
یہ محدثین کی بے ادبی نہیں تو کیا ہے؟۔
جبکہ ہمارا یہ موقف ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
اور علماء کرام کے اقوال کتاب وسنت کے مواقف ہوں تو ہم ان کو دل و جان سے قبول
کریں گے اور اگر کتاب سنت کے خلاف ہوں تو ہم کسی صورت بھی ان کو قبول کرنے کے لیے
تیار نہیں ہیں۔ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرتے ہیں اور یہ عقیدہ
رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کو اجتہاد کا اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ سوائے بے جا وہم
کے ترکِ تقلید کے مذکورہ چوتھے نقصان کی بھی حقیقاََ کوئی وقعت نہیں ہے۔
مقلدین کا طریقہ ہے کہ وہ ایک مخصوص امام کی اچھی اور
بری تمام باتوں کو قبول کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی شاعر کا کہنا ہے: ترجمہ
میں تو غزیہ کا تابعدار ہوں اگر وہ گمراہ ہوئی تو میں
بھی گمراہ ہوجاؤں گا اور اگر وہ راہ راست پر چلی تو میں بھی ہدایت پالوں گا۔
یہ حقیقت ہے کہ تقلید حق سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اس کے
باوجود مقلدین اپنے آپ کو بڑے فخر سے باادب کہتے ہیں۔ حالانکہ جتنی محبت و مودت
اپنے امام کے لیے ان کے دلوں میں ہے اتنی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ان کے
دلوں میں نہیں ہے۔
امام بوحنیفہ رحمہ اللہ تقلید ومحبت میں احناف کس قدر
اندھے اور راہ راست سے ہٹ چکے ہیں اس کی معمولی سی جھلک مندرجہ ذیل شعر میں
دیکھیئے!
عَذلُ الظواھر حول قلبي التائه
وابو حنيفة منه في سودائه
(تنظیم
الاشتات)
"
کہ اہل ظواہر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید پر مجھے
جتنا بھی ملامت کرے مجھے اسکی کوئی پرواہ نہیں ہے یہ ملامت و تنقید میرے دل کے
اطراف اربعہ گھوم تو سکتی ہے لیکن۔۔۔دل میں موجود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی
تقلید اور محبت پر ضرب کاری نہیں کرسکتی"۔
مطلب یہ کہ اگر قرآن وحدیث کے پیروکارمجھےاس بات پرلاکھ
ملامت کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید پر سنت طریقہ کیوں قربان کرتے ہو؟
تو ان کی یہ ملامت میرے دل پر کبھی اثر انداز نہیں ہوسکتی۔کیونکہ امام صاحب کی
محبت میرے دل میں مکمل طور پر بھر چکی ہے اس میں اب کوئی ایسی جگہ خالی نہیں رہی
جس میں کسی غیر کی محبت کا شائبہ تک پیدا ہو سکے چاہے وہ کتاب وسنت اور نبی صلی
اللہ علیہ سلم کی محبت ہی کیوں نہ ہو۔
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
دسواں شبہہ
مقلدین کا دسواں اعتراض
ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور بانی فرقہ منکرینِ حدیث محمد عمر چکڑالوی غیر
مقلد تھے اور یہ تقلید چھوڑنے کا نتیجہ تھا۔
جواب: ابو بکر و عمر و
عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور خیرالقرون کے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اور مجتہدین بھی تو غیر مقلد تھے وہ تو کتاب و سنت کے تابع تھے اور تقلید
سے براءت کا اعلان کرتے تھے۔
غلام احمد قادیانی حنفی
المذہب تھے کیونکہ ان کا بیٹا شبیر احمد قادیانی "سیرت مہدی: ج2ص29 میں لکھتا
ہے کہ میرے والد صاحب نے کبھی اہل حدیث ہونے کا دعوی نہیں کیا"۔ اسی طرح
" تحریک احمدیت " کا مصنف محمد علی مرزا لکھتا ہے " کہ حضرت مرزا
صاحب ابتداء سے آخری زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب تھے"۔(
تحریک احمدیت: ج1ص11،
ضرب شدید:ص11۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر
ایک آدمی حق کو قبول کرتا ہے اور دوسرا نام میں یا کسی کام میں اس کے مشابہ ہو تو
اس سے حق والے کی حقانیت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ یعنی موحدین غیر اللہ کی عبادت نہیں
کرتے اور دہریہ بھی غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو کیا اس سے موحدین کی توحید میں
نقصان آتا ہے؟ نہیں۔
موحدین اپنی جگہ توحید
پرست ہیں اور دہریہ اپنی جگہ الحاد اور دہریت کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اور اس
طرح کی اور باتیں جو لغو اور عبث کے زمرے میں آتی ہیں مقلدین اپنی کتابوں میں لکھے
چلے جاتے ہیں۔
گیارھواں شبہہ
یہ اعتراض مقلدین نے
اکثر اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ ، امام شوکانی رحمہ اللہ،
صدیق حسن خان رحمہ اللہ، ثنا اللہ رحمہ اللہ اور وحید الزمان رحمہ اللہ تمہارے بڑے
علماء میں شمار ہوتے ہیں اور غیر مقلد بھی تھے۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں بہت سارے
غلط مسائل لکھے ہیں اور تم ان کی کتابوں سے بطور حجت حوالے بھی پیش کرتے ہوا س کا
مطلب یہ ہوا کہ تم ان کے مقلد ہو۔(الکلام المفید سرفراز صفدرص:172)
جواب: ہماری دعوت ہے کہ
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر قیامت تک کے ہر انسان کی بات اگر قرآن وحدیث
کے موافق ہو تو قبول کرنا چاہیئے اور اگر کسی صحابی یا کسی عالم کی بات کتاب وسنت
کے منافی ہو تو اس کو رد کردیا جائے۔ ان کا ذاتی احترام اور اکرام تو اپنی جگہ
مسلّم ہے لیکن ان کی باتوں کو قرآن وحدیث کے ترازو میں ضرور تولا جائے گا جبکہ
احناف کا طریقہ یہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ ، شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
اور دوسرے علماء کی باتوں کو نہ صرف بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں بلکہ قبیح الفاظ سے
ان کے کردار کو داغدار بھی کرتے ہیں۔ نہ ان کو علمائے دین مانتے ہیں اور نہ
مجتہدین۔ مقلدین نے یہ سوچے بغیر کہ بتقاضائے بشریت ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ان
کو اپنی تنقید کا تختہ مشق بنایا جبکہ علماء اہلحدیث کے خلاف بدزبانی حنفی مکتب
فکر کا پسندیدہ موضوع ہے۔
تو یہ ہے ان اعتراضات
کا معتبر جواب جو مقلدین اہلحدیث علماء کی کتابوں سے اخذ کرتے ہیں اور غلطی کر
جاتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مقلدین اکثر مسائل کو سمجھتے نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ
وہ ان مسائل کو رد کر دیتے ہیں۔
بقول شاعر:
وكم من عائبِِ قولا
صحيحاََ
وآفته من الفهم السقيم
قول صحیح میں عیب
نکالنا پراگندہ سوچ کی علامت ہے۔
اصل میں یہ اعتراض ہم
پر نہیں بلکہ حنفی مقلدین پر وارد ہوتا ہے جن کی فقہ کتاب وسنت کی مخالف سے پُر ہے
جس میں شرم و حیاء کی حدوں کو پھلانگا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ احناف ان غلط مسائل
کی تردید کریں اس کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ہر ذی شعور
آدمی سمجھ سکتا ہے کہ احناف قرآن وحدیث کی تابعداری کا علی الاعلان جو دعویٰ کرتے
ہیں اس پس منظر میں اس دعوے کا کیا مطلب اور کیا حقیقت ہے؟ زبانی دعووں اور عمل
میں تضاد منافقت کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟
بارھواں شبہہ
اکثر مقلدین اپنی
کتابوں میں قرآن وحدیث کی روشنی میں غیر مقلدین سے چند مسائل کا جواب طلب کرتے ہیں:
1- پہلا سوال یہ ہے کہ
نماز میں "سبحانك اللھم"کی جگہ"التحيات لله"کو پڑھ لیا جائے
تو نماز کو دہرایا جائے گا یا سجدہ سہو کیا جائے گا؟۔
جواب: مذکورہ سوالات
مندرجہ ذیل چند وجوہات کی بنا پر قطعاََ غلط ہیں:
1-پہلی وجہ یہ ہے کہ اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کتاب وسنت میں نہ تو تمام دینی مسائل کے حل کے قائل ہیں
اور نہ ہی شریعت محمدیہ کو مکمل ضابطہ حیات ماننے کے لیے تیار ہیں؟ ورنہ وہ ایسے
احمقانہ سوالات نہ کرتے۔ یہ عقیدہ سراسر قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی کا
فرمان ہے: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) کہ دین اسلام کو تکمیل واتمام
کے ہر مرحلے سے بڑی کامیابی کے ساتھ ردبصحت گزرا گیا ہے۔ لیکن احناف اس کے باوجود
اسلام کو ناقص تصور کرتے ہیں۔ ان کی بیمار سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بعض
مقلدین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ " نصوص سے (قرآن وحدیث کے دلائل سے) دین کا
دسواں حصہ بھی ثابت نہیں ہوتا" ممکن ہے قرآن وحدیث کے بارے میں یہ خیال احناف
کا بھی ہوکیونکہ ایک متعصب اور متشدد و مقلد کی حیثیت سے اُن سے ایسی باتیں ہونا
بعید بھی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے لیے کیا حکم
ہے؟ یہ سوال ہم احناف سے کرتے ہیں۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ جب
قرآن وحدیث میں یہ مسائل نہیں ہیں تو مقلدین نے یہ مسائل کہاں سے ڈھونڈ نکالے۔
اگر ان کے علماء نے
قرآن وحدث سے ہٹ کر اپنی طرف سے بنائے ہیں تو یہ بدعت ہوئی اور بدعت سے ہر مسلمان
بے زاری کا اعلان کرتا ہے۔ اور اگر یہ مسائل خودساختہ نہیں بلکہ کتاب و سنت سے
مستنبط ہیں تو ہمیں اُن پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ قرآن وحدیث ہمارا منشور ہے اور
ہم اس کے تابعدار ہیں۔
رزقنا الله ذلك۔ اللہ
تعالی نے ہی ہمیں کتاب وسنت کا مزہ چکھایا ہے۔
علاوہ : ازیں ہم کہتے
ہیں کہ مقلدین امام ابو حنیفہ سے یہ مسئلہ سند کے ساتھ ثابت کریں کہ اس نے کہا ہو
کہ تکبیر افتتاح کے بعد "سبحانك اللھم"کہنا فرض ہے یا واجب ہے یا سنت
ہے۔ ہم مقلدین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ امام ابوحنیفہ سے دو رکعت نماز تو ثابت
کریں۔ اگر وہ کہیں کہ فقہاء کی کتابوں میں ہے اور امام صاحب نے نہیں کہا۔ تو پھر
یہ تو متاخرین کا کمال ہوا اور دعویٰ امام ابوحنیفہ کی تقلید کا ہے۔ ان دونوں میں
کتنا فرق ہے۔ ذرا سوچا کرو!۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر
ان سوالات کے جوابات مقلدین کو نہیں آتے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کسی اور عالم
کو بھی معلوم نہ ہوں۔
"بفضل الله تعالي"
ہم ان مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں نکالنے کے اہل ہیں جن کے بارے میں لوگ
کہتے ہیں کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ "بتوفيق الله تعالى وعونه
لاحول ولا قوة الا بالله، سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العليم
الحكيم" کوئی ہماری نیت پر خودنمائی کا شک نہ کرے۔
یہ بات محض اس لیے کہہ
رہے ہیں کہ اگر ہم جیسا ادنیٰ طالب علم اس کو حل کرسکتا ہے تو بڑے علماء کرام تو
بدرجہ اولٰی اس کو حل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
دین میں ایسے مسائل بھی
ہیں جن کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس سے ہر مسلمان کو
دست بردار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بڑی گمراہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ
مسائل جن کے بارے میں عام طور پر تقلید کے حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ان
کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ ایسے چند مسائل کا حل کتاب وسنت سے پیشِ خدمت ہے۔
نماز میں "سبحانك
اللھم" پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور یہی اس کا حکم بھی ہے
کہ اس کو اپنی جگہ نماز میں پڑھا جائے۔ اس کی فرضیت اور وجوب کے بارے میں پوچھنا
بدعت ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کا یہ طریقہ نہیں تھا ( اور نہ اسلام نے ہمیں اس چیز کا مکلّف ٹھہرایا
ہے) بلکہ وہ نبی علیہ السلام کے عمل کے بارے میں صرف اتنا پوچھتے تھے کہ آپ علیہ
السلام نے یہ کام کیا ہے یا نہیں کیا ہے؟۔ اگر جواب ہاں میں ملتا تو عمل شروع کرتے
اور اگر نفی میں جواب ملتا تو اس کو نہ صرف اپنانے سے گریز کرتے بلکہ اگرا پنایا
ہوا ہوتا تو چھوڑ دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرض اور واجب کے چکر میں پڑ کر لوگ بے عمل
ہوگئے۔ جس طرح کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے "الانصاف:ص3" پر
اسکی طرف اشارہ کیا ہے:
ہمیں اللہ تعالی نے
"سبحانك اللھم"کا حکم معلوم کرنے کا مکلّف نہیں ٹھہرایا ہے، ہمارے لیے
تو یہی کافی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ لیکن مقلد کے
لیے اتنا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا جہالت زدہ ذہن کسی اور چیز کا مطالبہ کرتا
ہے۔
(2)- دوسرا سوال یہ ہے کہ
نماز میں اگر کوئی "سبحانك اللھم" کی جگہ "التحيات لله"پڑھ لے
تو یہ نماز دہرائی جائی گی یا سجدہ سہو کیا جائے گا؟۔
جواب: اس کا آسان اور
عام فہم جواب یہ ہے کہ سجدہ سہو کرنا چاہیے کیونکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا :
(فمن زاد او نقص فليسجد سجدتين) ۔ مسلم:ج1ص212۔
نماز میں ہر کمی اور
زیادتی کے عوض دو سجدہ سہو کرنا ہے۔
(3)- امام " بسم اللہ
الرحمن الرحیم" کو سرَّاََ یعنی آہستہ پڑھے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
جہراََ نماز کو " الحمد للہ" سے شروع کرتے تھے۔ جس طرح کہ انس بن مالک
رحمہ اللہ کی روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آتی ہے۔ دیکھئے مشکوۃ:ج1ص79۔
اور مقتدی بھی "
بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھے گا کیونکہ سورۃ فاتحہ اس کے لیے بھی پڑھنا
ضروری ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سورت کی شروع میں بسم اللہ پڑھتے تھے۔
دیکھئے مسلم:ج1ص172۔
(4)- جو مسلمان نماز میں رفع
الدین نہ کرے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟۔
جواب: جس کو معلوم ہو
کہ یہ عمل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کے باوجود وہ اس سے نفرت کرتا ہے
اور نماز میں نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور سنت سے نفرت کی وجہ سے وہ
مجرم قرار پائے گا اور کوئی نماز قبول نہیں ہوگی۔ لیکن جو شخص نبی علیہ السلام سے
رفع الیدین کے ثبوت کو نہ جانتا ہو اور لاعلمی کی وجہ سے اس کو ترک کرتا ہو اس کی
نماز قابلِ قبول ہے۔ کیونکہ وہ اس کے حکم سے بے خبر ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ
السلام لا علمی میں کسی عمل کے ترک کرنے والے پر گرفت نہیں کرتے تھے۔
حدیث عدی بن حاتم رضی اللہ
عنہ معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ اور حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہ اس کی بیّن
دلیل ہیں اور جس کو رفع الیدین معلوم ہو اس کو نبی علیہ السلام کی مستقل سنت بھی
مانتا ہو اس کے باوجود اس کو ترک کرتا ہو تو وہ خلاف سنت عمل کرتا ہے اس کی نماز
فاسد نہیں ہوگی۔ کیونکہ نبی علیہ السلام کی سنت کی دو قسمیں ہیں، 1-فعلی 2-قولی
امری۔ قولی امری پر عمل کرنا ضروری ہے جبکہ فعلی پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے اس کو
کرنا باعث ثواب اور بہتر ہے۔ اس پر دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے: فَلْيَحْذَرِ
الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ
عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾۔ سورۃ النور۔
اسی طرح مقلدین کے اور
بھی کئی مسائل ہیں جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں
نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود
ہوتا ہے۔ مقلدین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ مسائل ہمارے اماموں نے فقہی انداز
سے حل کیے ہیں لہذا ان کی تقلید ہر ایک پر فرض ہے لیکن یہ مقلدین ہی کو مبارک ہو۔
مقلدین کے امام جس کتاب
وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے آج وہی کتاب وسنت ہمارے پاس بھی موجود ہے بلکہ احادیث
رسول صلی اللہ علی وسلم ان کی بہ نسبت ہم تک زیادہ پہنچی ہیں۔ بہت سی ایسی حدیثین
موجود ہیں جن سے وہ مطلع نہیں ہوسکے تھے۔ مثال کے طور پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
اور امام مالک رحمہ اللہ شوال کے چھ روزوں کو بدعت سمجھتے تھے اور دلیل یہ دیتے
تھے کہ ہمیں اس بارے کوئی حدیث نہیں ملی (موطا:206)
لیکن الحمدللہ ہم تک
صحیح مسلم کی حدیث پہنچی ہے جس میں شوال کے چھ روزوں کے اجر کا ذکر ہے۔ (مسلم:
ج1ص329، مشکوۃ: ج1ص179)
اسی طرح امام ابوحنفیہ
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ امام" ربنا لك
الحمد" پڑھے گا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں، امام " ربنا لك
الحمد"نہیں پڑھے گا اور آگے فرماتے ہیں کہ: ہمیں اس بارے کوئی حدیث نہیں ملی۔
(مسند الامام اعظم ص21)
حالانکہ صحیح بخاری کی
حدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام باجماعت نماز میں " ربنا لك الحمد"
پڑھتے تھے۔ (مشکوۃ: ج1ص172:113)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
علماء کو ساری حدیثیں نہیں ملی تھی بہت سی حدیثیں ان پر مخفی رہ گئی تھی۔ ان چند
مثالوں کو نمونہ سمجھئے کیونکہ یہ ہم اپنے حافظے سے تحریر کررہے ہیں۔ اگر ہم اس
قسم کی مثالیں تلاش کرنا شروع کردیں تو سینکڑوں مثالیں سامنے آجائیں گی۔ ان شاء
اللہ!۔ ( اس کے لیے دیکھیں ہماری کتاب: "احناف اور خلفاء راشدیں" اور
"تناقضات المقلدین")۔
قارئین محترم: قرآن
وحدیث کو ناقص نہیں سمجھنا چاہیے اور تقلید کی بجائے ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے
قرآن کریم کو پسِ پُشت ڈالنےوالوں کی شکایت اگر نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے
قیامت کے دن کردی اور اللہ تعالی نے پوچھ لیا تو جواب کیا ہوگا؟
سلسلہ تقلید
۔ ─━══★◐★══━─
تیرھواں شبہہ
حنفیہ کا تیرھواں شبہہ
یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ تابعی ہیں جن سے حدیثِ ثنائی مروی ہے۔ یعنی امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے ہیں اور فقہ حنفی
حدیثِ ثنائی پر مبنی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی سب سے بہتر اور معتبر
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔ (مقدمہ درس بخاری شریف
للشیخ زکریا)
جواب: امام ابوحنفیہ
رحمہ اللہ تابعی ہیں لیکن " من حيث الروية لا من حيث الرواية" یعنی امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ ایسے تابعی ہیں جنہوں نے صغرِ سنی (بچپن) میں صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کو دیکھا ہے لیکن ان سے روایت نقل نہیں کرسکے ہیں۔ (کتب اسماء الرجال)
دوسری بات یہ ہے کہ
تابعین اور بھی تو بہت سارے ہیں اویس قرنی رحمہ اللہ زبانِ رسالت سے "افضل
التابعین" کا خطاب پاچکے ہیں۔ سعید بن المسیب "اعلم التابعین"
کہلاتے ہیں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
جہاں تک اس بات کا تعلق
ہے کہ فقہ حنفی حدیث ثنائی پر مبنی ہے تو اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ
مقلدین ہمیشہ خیالات اور اوہام کی ایسی وادی میں مگن رہتے ہیں جس میں مقلد کے لیے
حقائق کی تسکین آمیز مہک سے روح آفزائی کا تصور محال ہے۔ مقلد میں تحقیق کے مادے
کا یکسر فقدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر سوچے سمجھے
تسلیم کر لیتا ہے۔ اگر یقینا امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ سے حدیثِ ثنائی مروی ہے تو
ہم حنفی مقلدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حدیث ثنائی ہمیں بھی دکھا دیں کیونکہ ہم
بھی اس کو دیدہ اشتیاق سے دیکھنے کے خواہشمند ہیں لیکن۔۔۔حنفی مقلدین کو مایوسی
ہوگی کیونکہ ذخیرہ کت میں ایسی کسی حدیث کا وجود یکسر معدوم ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ پر محدثین کی جرح :
پھر دوسری بات یہ ہے کہ
اصطلاحات المحدثین کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روایات ضعیف ہیں کیونکہ
محدثین نے ان پر جرح کی ہے۔
یہ جرح ہم یہاں نقل
کررہے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں بلکہ علماء جرح و تعدیل کی کتابوں سے۔
(1)۔ قال الامام البخاري
في التاريخ الكبير (۸۱/۳) (سكتواعنه) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے خاموشی اختیار کی گئی
ہے۔
علامہ ابن کثیر مختصر
علوم الحدیث ص 118 پر فرماتے ہیں :اذا قال البخاري في الرجل : سكتوا عنه او فيه
نظر، فانه في ادنى المنازل واردئھا عنده) جب امام بخاری رحمہ اللہ کسی کے بارے میں
کہہ دیں کہ :"سكتوا عنه يا فيه نظر" تو وہ انکے نزدیک سب سے ادنیٰ راوی
ہوتا ہے۔الرفع والتكميل ص۱۸۲۔
یہ جرح مفسرہ ہے کیونکہ
مسائل المروزی میں آتا ہے(قلت متى يترك حديث الرجل؟ قال: اذا كان الغالب عليه
الخطاََ۔)
فرماتے ہیں: کہ میں نے
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ راوی کی روایت کب ترک کی جائے گی؟ انہوں نے
فرمایا: جب اس کی صحت پر خطاء غالب آجائے۔
(2)۔ وقال الامام مسلم في الكنى والاسماء ،ص(۳۱) مضطرب الحديث ليس له
كبير حديث صحيح۔
امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ مضطرب الحدیث ہے اس کے پاس صحیح حدیث کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔
(3)۔ امام نسائی فرماتے ہیں: "ليس بالقوي في الحديث وھو كثير
الغلط على قلة روايته (كتاب الضعفاء والمتروكين: ۵۸)۔
امام ابو حنیفہ رحمہ
اللہ علم حدیث میں قوی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے قلت روایت کے باوجود اکثر
احادیث میں غلطیاں ہوئی ہیں۔
(4)۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "له أحاديث صالحة و
عامة ما يرويه غلط و تصاحيف و زيادات في أسانيدها و متونها و تصاحيف في الرجال و
عامة ما يرويه كذلك و لم يصح له في جميع ما يرويه إلا بضعة عشر حديثا و قد روى من
الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير و غرائب و كله على هذه الصورة لأنه
ليس هو من أهل الحديث و لا يحمل عمن يكون هذه صورته في الحديث" الكامل لابن
عدي (ص 403 / ج2 )
امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ سے صحیح احادیث بھی مروی ہیں لیکن عام طور پر آپ سے جو حدیثیں روایت کی جاتی
ہیں وہ غلط ہیں ان کی سندوں اور متنوں میں تصاحیف (غلطیاں) اور زیادات ہیں۔ اس طرح
ان کے رجال میں اور عام روایتوں میں بھی تصاحیف موجود ہیں۔ ان سے جتنی بھی روایتیں
مروی ہیں ان میں سے چند (سترہ17) روایتوں کے علاوہ باقی تمام ضعیف ہیں۔ غالباََ
ایک راجح قول کے مطابق آپ سے تقریباََ تین سو (300) حدیثیں مروی ہیں جن میں مشاہیر
اور غرائب موجود ہیں۔ ان کی تقریباََ تمام روایتوں کی یہی حالت ہے کیونکہ وہ اہل
الحدیث میں سے نہیں تھے اور جس کی ایسی حالت ہو اس سے حدیث نہیں لی جاتی۔
(5)۔ ابن سعد رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: "كان ضعيفاََ في
الحديث" ۔ الطبقات:ج6ص256۔ کہ
امام ابوحنیفہ حدیث میں کمزور تھے۔
(6)۔ امام عقیلی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں : کہ میں نے اپنے والد احمد رحمہ اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ
ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث ضعیف ہے۔
(7)۔ امام ابن ابی حاتم
رحمہ اللہ اپنی صحیح سند کے ساتھ ابن مبارک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ
فرماتے تھے" كان ابوحنيفه مسكيناََ في الحديث" کہ امام ابوحنیفہ حدیث کی
دولت سے محروم تھے۔
(8)۔ وقال الدارقطني في سننه ،ج1ص223۔ ولم يسنده عن موسى بن ابي عائشة
غير ابي حنيفة والحسن بن عمارة وھما ضعيفان۔ اس کو موسیٰ بن ابی عائشہ رحمہ اللہ
سے صرف ابوحنیفہ اور حسن بن عمارہ نے روایت کیا ہے جبکہ یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔
(9)۔ وذكره الحاكم في معرفة علوم الحديث ص256۔ ثم قال: فجميع من ذكرنا
هم قوم قد اشتھروا بالرواية ولم يعدوا في طبقة المتقنين الحفاظ"
امام حاکم معرفۃ علوم
الحدیث میں امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کے تذکرے کے بعد فرماتے ہیں: کہ جن کے بارے
میں ہم نے بحث کی وہ اگرچہ روایت کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں لیکن ان کا شمار مضبوط
حفاظ کے طبقے میں نہیں ہوتا۔
(10)۔ عبدلالحق اشبیلی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں: ولا يحتج بابي حنيفة لضعفه في الحديث۔ الاحكام الكبرى : ج2ص17۔
ضعف فی الحدیث کی وجہ
سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دلیل نہیں بن سکتی۔
(11)۔ وقال الذھبي في "الضعفاء" النعمان الامام رحمة الله
عليه قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال
النسائي: ليس بالقوي في الحديث كثير الغلط والخطاء على قلة روايته وقال ابن معين :
لايكتب حديثه۔ السلسة:ج14ص465۔
امام ذہبی رحمہ اللہ
"الضعفاء" میں فرماتے ہیں: کہ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نعمان بن
ثابت رحمہ اللہ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) کی روایتوں میں تصحیف، زیادات اور
غلطیاں ہیں جبکہ چند روایات قدرے بہتر ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں غلطیاں کر گئے ہیں۔ ابن معین رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: کہ ان کی حدیث لکھی نہیں جائیگی۔
(12)۔ امام ابن ابی شیبہ
رحمہ اللہ اپنی "مصنف" میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر رد کرتے ہیں اور
فرماتے ہیں: اس کتاب الردعلی ابی حنیفہ میں تردید کا مرکز امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
ہے۔ (ص:148ج14)۔
اسی طرح ابو نعیم نے
بھی ان پر رد کیا ہے۔ (الحلیۃ:ج3ص11،197)
عبداللہ بن امام احمد
رحمہ اللہ نے بھی ان پر رد کیا ہے۔ (کتاب السنۃ:ج1ص180)۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ
نے بھی رد کیا ہے۔ (تاریخ بغداد:ج13)
معلّمی نے بھی ان پر رد
کیا ہے۔(التنکیل: ج1ص18)، عمدۃ الرعایہ:ص34۔
امام ابن عبدالبر
فرماتے ہیں : کہ امام ابوحنیفہ رحمہ کی رائے کا انکار بھی کیا گیا ہے۔ (کما فی
التمھید)
ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی
"تاويل مختلف الحدیث" میں ص37۔39 میں لکھا ہے۔
كان الامام الاوزاعي
يقول: لاننقم على ابي حنيفة انه راى كلنا يرى ولكنا ننقم عليه انه يجيئه الحديث عن
النبي صلى الله عليه وسلم فيخالفه الى غيره۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: کہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر اس لیے رد نہیں کرتے کہ وہ رائے سے
کام لیتے ہیں کیونکہ رائے ہم بھی قائم کرتے ہیں بلکہ ہم ان پر اس لیے رد کرتے ہیں
کہ جب ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آتی ہے تو ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
عمدۃ الرعایۃ میں شیخ
عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
کی کل سترہ سو (1700) روایتیں ہیں۔
مذکورہ جرح کی روشنی
میں اس قول کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
مذکورہ بالا بحث کا
ماحصل یہ ہے کہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ صادق بھی ہے اور فقیہ بھی۔
لیکن مذکورہ محدثین کے
نزدیک احادیث کے اعتبار سے قوی نہیں ہیں۔ اور یہ کوئی بے ادبی بھی نہیں ہے کیونکہ
بہت سے نیک اور صلاحیت اور صالحیت کے حامل راوی سیئ الحفظ اور کثیر الخطاء ہوتے
ہیں۔ جیسا کہ جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ پر کی جانے والی جرح اکثر مقلدین پر گراں گزرتی ہے لیکن عدل و انصاف کو ملحوظ
رکھنا چاہیے اور غلو فی الصالحین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ شرک کا پیش خیمہ
ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مقلدین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت میں
حدیثیں وضع کی ہیں جس طرح کہ فتاوی برہنہ :ج2ص184 میں لکھا ہوا ہے کہ نعمان بن
ثابت کا تذکرہ تورات میں بھی ہے۔ معراض میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ موضوع بحث
رہے تھے۔ اور نبی علیہ السلام نے امام صاحب کے بارے پیش گوئی بھی کی تھی۔
قارئین کرام! امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ اُمت کے ایک عالم ہیں۔ دیگر علماء کے مقابلے میں اس کی عزت و
عظمت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن ان کی عظمت کا محل اتنا بھی بلند نہیں کہ نبوت کے
قصرِ رفیع سے بھی بالاتر نظر آئے۔ ترفیعِ شان کا یہ انداز کسی مسلمان کو زیب نہیں
دیتا اور نہ ان کی شان میں گستاخی کا یہ انداز کسی مسلمان کے شایانِ شان ہے کہ وہ
امام صاحب رحمہ اللہ سے بُری نسبتوں کا ناطہ جوڑے۔ جس طرح کہ بعض متشددین نے ان کی
طرف کفروارتداد کی نسبت کی ناپاک اور مذموم جسارت کی ہے۔
تاریخ بغداد اور عقیلی
کی "ضعفاء کبیر"اور عبداللہ بن احمد رحمہ الہ کی "کتاب السنۃ"
میں یہ نسبتیں موجود ہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ
ہے کہ فقہ حنفی حدیث ثنائیہ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے اکثر مسائل قرآن وحدیث کے
مخالف ہیں باوجودیکہ اس میں بڑی تعداد میں مسائل کتاب وسنت کے موافق بھی ہیں۔ فقہ
کے تمام مسائل کو پرکھنے کا واحد معیار اور ذریعہ کتاب وسنت ہے اس ترازو میں
معیارِ صحت پر پورا اترنے والا ہر مسئلہ ہر مسلمان کے سر آنکھوں پر اسکے علاوہ ہر
مسئلے کو ترک کردیا جائےگا۔
ALQURAN
O HADITHS➤WITH
MRS. ANSARI
وَبِاللّٰہِ
التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی
وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
حقيقة التقليد واقسام
المقلدين (مقدمه)
تقلید کی حقیقت اور
مقلدین کی اقسام
مولف: ابو محمد امین
اللہ پشاوری حفظہ اللہ
وَالسَّــــــــلاَم
عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment