کیا کرسی پہ بیٹھ کر نماز ہو جاتی ہے ؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
مريض كى نماز كے ليے قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ مريض نماز كے جن اركان اور واجبات كو ادا كرنے كى استطاعت ركھتا ہو وہ ادا كرنے واجب ہيں، اور جن كى استطاعت نہ ركھے وہ ساقط ہو جائينگے، كتاب و سنت ميں اس كے بہت سے دلائل موجود ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ تم اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو ﴾
التغابن ( 16 ).
﴿ تم اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو ﴾
التغابن ( 16 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا ﴾
البقرۃ ( 286 ).
﴿ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا ﴾
البقرۃ ( 286 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اسے اپنى استطاعت كے مطابق سرانجام دو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7288 )
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337)
" جب ميں تمہيں كسى چيز كا حكم دوں تو تم اسے اپنى استطاعت كے مطابق سرانجام دو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7288 )
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337)
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ميں بواسير كا مريض تھا چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:
" كھڑے ہو كر نماز ادا كرو، اگر كھڑے ہونے كى استطاعت نہ ہو تو بيٹھ كر، اور اگر بيٹھنے كى استطاعت نہ ہو تو پھر پہلو كے بل "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1117 ).
اس بنا پر اگر آپ كھڑى ہو كر نماز ادا كر سكتى ہو كھڑے ہونا واجب ہے، اور اگر اس سے عاجز ہو يا پھر شديد قسم كى مشقت ہوتى ہو تو پھر آپ نماز ميں بيٹھ سكتى ہيں.
كرسى يا زمين پر بيٹھ كر نماز ادا كرنا جائز ہے، آپ جس طرح استطاعت ركھيں يا جس ميں آپ كو آسانى ہو اس طرح نماز ادا كر ليں، ليكن افضل يہ ہے كہ زمين پر بيٹھا جائے، كيونكہ سنت يہ ہے كہ قيام اور ركوع كى جگہ انسان چار زانوں ہو كر بيٹھے، جو كہ كرسى پر ميسر نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر وہ كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے كى استطاعت نہ ركھے تو بيٹھ كر نماز ادا كرے، افضل يہ ہے كہ قيام اور ركوع ميں چار زانوں ہو. اھـ
ديكھيں: طہارۃ المريض و صلاتہ.
ليكن چار زانو ہو كر بيٹھنا واجب نہيں، بلكہ وہ جس طرح چاہے بيٹھ سكتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر استطاعت نہ ركھو تو بيٹھ كر "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيٹھنے كى كيفيت بيان نہيں فرمائى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 462 ).
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 462 ).
اور اگر آپ كے ليے سجدہ اور ركوع كرنے ميں مشقت ہو تو آپ ان دونوں كو اشارہ ( يعنى اپنى پشت جھكا كر ) كر كے ادا كرليں، اور سجدہ ركوع سے كچھ نيچا ہونا چاہيے.
اگر آپ قيام كى استطاعت ركھتى ہيں تو آپ كھڑى كھڑى اشارہ كے ساتھ ركوع كر ليں، اور سجدہ كے ليے بيٹھ جائيں، كيونكہ ركوع كے ليےكھڑا ہونا بيٹھنے سے زيادہ قريب ہے، اور كھڑے ہونے سے سجدے كے ليے بيٹھنا زيادہ قريب ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جو شخص قيام پر قادر ہو اور ركوع يا سجدہ كرنے سے عاجز تو اس سے قيام ساقط نہيں ہو گا، بلكہ وہ كھڑے ہو كر نماز ادا كرے گا، اور ركوع كے ليے كھڑے ہى اشارہ كر كے ركوع كرے، اور پھر سجدے كے ليے بيٹھ كر اشارہ كے ساتھ سجدہ كرے.... اور سجدہ ركوع سے زيادہ جھك كر كرے گا، اور اگر وہ صرف سجدہ كرنے سے عاجز ہو تو ركوع كرے اور سجدہ كے ليے اشارہ كرے گا...
اور جب مريض دوران نماز ہى درست ہو جائے اور جس چيز سے عاجز تھا مثلا قيام يا بيٹھنے يا ركوع اور سجدہ كرنا وہ اسے كرنے پر قادر ہو جائے تو اس كى طرف منتقل ہو گا اور جو نماز ادا ہو چكى ہے اس پر بنا كرے گا. اھـ
ماخوذ از: احكام صلاۃ المريض و طھارتہ.
ماخوذ از: احكام صلاۃ المريض و طھارتہ.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جو شخص ركوع كرنے پر قادر نہ ہو وہ كھڑے كھڑے ہى اشارہ كر كے ركوع كرے گا، اور جو شخص سجدہ كرنے سے عاجز ہو وہ بيٹھ كر اشارہ كے ساتھ سجدہ كرے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 475 )
🖊 فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
⛔ مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت 👇
مریض کھڑا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا
(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362)
“سیدنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) سیدنا ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی”
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا
(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362)
“سیدنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) سیدنا ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی”
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب مرض کی تکلیف کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد فرمایا :
إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام)
“تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو”
إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام)
“تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو”
اسی بارے میں ایک اور حدیث عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت کیا (کیا مجھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟) تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب)
“کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو”
صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب)
“کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو”
دوسری روایت میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “میں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے” تو فرمایا
مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231)
“ جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا، اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے”۔
مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231)
“ جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا، اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے”۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کررہے ہیں۔ تو فرمایا :
صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230)
“بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا”
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230)
“بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا”
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
⛔ عارضہ کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا
❓ والدہ درد کی وجہ سے کھڑی ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتیں کیا کرسی پر بیٹھ کر میز پر سجدہ دے سکتی ہیں؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ بلوغ المرام میں لکھتے ہیں:
« وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: عَادَ النَّبِیُّ ﷺ مَرِیْضًا فَرآہُ یُصَلِّيْ عَلٰی وِسَادَۃٍ فَرَمٰی بِہَا وَقَالَ: صَلِّ عَلَی الْأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِ إِیْمَائً وَّاجْعَلْ سُجُوْدَکَ أَخْفَضَ مِنْ رُکُوْعِکَ»
’’نبی ﷺ نے ایک مریض کی عیادت کی تو آپﷺ نے دیکھا وہ تکیہ پر نماز پڑھ رہا ہے آپﷺ نے تکیہ کو پھینک دیا اور فرمایا زمین پر نماز پڑھ اگر تجھے طاقت ہے اگر نہیں تو اشارہ کر اور سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکائو پیدا کر‘‘
( رواہ البیہقی وصحح أبو حاتم وقفہ‘‘(باب صلاۃ المسافر والمریض)حافظ صاحب ہی باب صفۃ الصلاۃ کے آخر میں اسی حدیث کو درج فرمانے کے بعد لکھتے ہیں ’’رواہ البیہقي بسند قوي، ولکن صحح أبو حاتم وقفہ‘‘ صاحب سبل السلام اس حدیث کی شرح ص ۳۰۷ ج۱میں لکھتے ہیں:
« وَالْحَدِیْثُ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّہُ لاَ یَتَّخِذِ الْمَرِیْضُ مَا یَسْجُدُ عَلَیْہِ حَیْثُ تَعَذَّرَ سُجُوْدُہُ عَلَی الْأَرْضِ ، وَقَدْ أَرْشَدَہُ إِلَی أَنَّہُ یَفْصِلُ بَیْنَ رُکُوْعِہِ وَسُجُوْدِہِ ، وَیَجْعَلُ سُجُوْدَہُ أَخْفَضَ مِنْ رُکُوْعِہِ‘‘» الخ
’’اور یہ حدیث دلیل ہے کہ جب مریض کو زمین پر سجدہ کرنا مشکل ہو تو وہ سجدہ کے لیے کوئی چیز نہ رکھے اور نبیﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے کہ مریض رکوع اور سجدہ میں فرق کرے ۔ اور سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکے‘‘
( رواہ البیہقی وصحح أبو حاتم وقفہ‘‘(باب صلاۃ المسافر والمریض)حافظ صاحب ہی باب صفۃ الصلاۃ کے آخر میں اسی حدیث کو درج فرمانے کے بعد لکھتے ہیں ’’رواہ البیہقي بسند قوي، ولکن صحح أبو حاتم وقفہ‘‘ صاحب سبل السلام اس حدیث کی شرح ص ۳۰۷ ج۱میں لکھتے ہیں:
« وَالْحَدِیْثُ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّہُ لاَ یَتَّخِذِ الْمَرِیْضُ مَا یَسْجُدُ عَلَیْہِ حَیْثُ تَعَذَّرَ سُجُوْدُہُ عَلَی الْأَرْضِ ، وَقَدْ أَرْشَدَہُ إِلَی أَنَّہُ یَفْصِلُ بَیْنَ رُکُوْعِہِ وَسُجُوْدِہِ ، وَیَجْعَلُ سُجُوْدَہُ أَخْفَضَ مِنْ رُکُوْعِہِ‘‘» الخ
’’اور یہ حدیث دلیل ہے کہ جب مریض کو زمین پر سجدہ کرنا مشکل ہو تو وہ سجدہ کے لیے کوئی چیز نہ رکھے اور نبیﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے کہ مریض رکوع اور سجدہ میں فرق کرے ۔ اور سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکے‘‘
🖊احکام و مسائل / مساجد کا بیان ج1ص 103
بیٹھ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مریض زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی اونچی چیز سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ ایسی صورت میں سر کے اشارے سے رکوع و سجود کرنےچاہئیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز ادا کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھا کر پرے کر دیا۔ پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے بھی پرے کر دیا۔ اور فرمایا :
صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306)
“اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو”
صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306)
“اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو”
⛔ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنااور اس کا شرعی حکم :
اس مختصر مضمون میں نمازیوں کا کرسی پر نماز پڑھنا،خصوصاًباجماعت نماز کے احکام پر بحث کی گئی ہے۔
اس کی غرض و غایت نمازیوں کو نماز کی اصلاح اور اس کے منافی امور سے اجتناب کی رغبت دلانا ہے۔
نماز دین کا ستون ہے اور شہاد تین کے بعد اہم ترین ہے۔ تمام اعمال کی اصلاح کا دارومدار اور انحصار نماز کی درستگی پرہے۔اگر نماز درست ہو گی تو باقی تمام اعمال صحیح ہو ں گے۔ اگر نماز درست نہ ہو گی تو باقی تمام اعمال بھی ناقص ہو جائیں گے۔اس لئے نماز کو اس کے کامل حسن کے ساتھ ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرنا عین دین ہے۔آج کل نمازیوں کی کثیر تعداد کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہے اور کوئی مسجد بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ان میں بعض لوگ غیر شعوری طور پر غلطی کاارتکاب کرتے ہیں۔ بسا اوقات نمازی آدمی رکوع تو نہیں کرسکتامگر قیام کی استطاعت رکھتا ہوتا ہے لیکن وہ استطاعت کے باوجود کھڑا نہیں ہوتا جب کہ قیام نماز کا رکن ہے۔ ذیل میں ہم انہی کوتاہیوں اور حالات کو بالتفصیل بیان کریں گے۔
اس کی غرض و غایت نمازیوں کو نماز کی اصلاح اور اس کے منافی امور سے اجتناب کی رغبت دلانا ہے۔
نماز دین کا ستون ہے اور شہاد تین کے بعد اہم ترین ہے۔ تمام اعمال کی اصلاح کا دارومدار اور انحصار نماز کی درستگی پرہے۔اگر نماز درست ہو گی تو باقی تمام اعمال صحیح ہو ں گے۔ اگر نماز درست نہ ہو گی تو باقی تمام اعمال بھی ناقص ہو جائیں گے۔اس لئے نماز کو اس کے کامل حسن کے ساتھ ادا کرنا اور اس کے تمام ارکان کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرنا عین دین ہے۔آج کل نمازیوں کی کثیر تعداد کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہے اور کوئی مسجد بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ان میں بعض لوگ غیر شعوری طور پر غلطی کاارتکاب کرتے ہیں۔ بسا اوقات نمازی آدمی رکوع تو نہیں کرسکتامگر قیام کی استطاعت رکھتا ہوتا ہے لیکن وہ استطاعت کے باوجود کھڑا نہیں ہوتا جب کہ قیام نماز کا رکن ہے۔ ذیل میں ہم انہی کوتاہیوں اور حالات کو بالتفصیل بیان کریں گے۔
🔅 پہلی صورت:
جو لوگ قیام،رکوع،سجود کی استطاعت موٹاپے یا کسی اور وجہ سے نہیں رکھتے،وہ کرسی پراس کیفیت میں نماز ادا کریں جو ان کےلئے ممکن وآسان ہوجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔"فاتقوا اللہ مااستطعتم"حسب استطاعت اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اللہ تعالی کافرمان ہے"لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" ۔۔۔"اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"
٭افضل عمل یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھ کرنماز ادا کرنے والا امام کے بالکل پیچھے کھڑا نہ ہو تاکہ اگر باوقت ضرورت امام کی نیابت میں امامت کروانا پڑے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔اور کرسی پر بیٹھنے والا شخص دروس و محاضرات کے موقع پر امام وسامعین کے درمیان حائل بھی نہ ہو۔
٭بہتر یہ ہےکہ ہمیشہ چھوٹی کرسی ہی استعمال کی جائے جو صرف ضرورت کو پورا کرے اور صف بندی میں بھی سہولت رہے۔
٭افضل عمل یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھ کرنماز ادا کرنے والا امام کے بالکل پیچھے کھڑا نہ ہو تاکہ اگر باوقت ضرورت امام کی نیابت میں امامت کروانا پڑے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔اور کرسی پر بیٹھنے والا شخص دروس و محاضرات کے موقع پر امام وسامعین کے درمیان حائل بھی نہ ہو۔
٭بہتر یہ ہےکہ ہمیشہ چھوٹی کرسی ہی استعمال کی جائے جو صرف ضرورت کو پورا کرے اور صف بندی میں بھی سہولت رہے۔
🔅 دوسری صورت:
جوشخص قیام اور رکوع تو کرسکتا ہو لیکن سجدہ کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو وہ معمول کے مطابق نماز ادا کرےمگر سجدے کے وقت کرسی پر بیٹھ جائےاور بہ قدر طاقت سجدہ کرے۔
🔅 تیسری صورت:
اگر کوئی شخص قیام کی طاقت تو رکھتا ہو مگر رکوع اور سجود کی ہمت نہ پاتاہو تو وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے لیکن رکوع اور سجود کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے اور سجدوں میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکاؤ ہو۔
🔅 چوتھی صورت:
جو شخص رکوع و سجود کا متحمل تو ہو لیکن قیام میں اسے مشکل پیش آتی ہوتووہ بیٹھ کرنماز ادا کرے،رکوع کرسی کے بغیر اور سجدہ زمین پر کرے۔ اسے چاہئے کہ حسب ضرورت ہی رخصت سے فائدہ اٹھائے۔اور بغیر عذر کے رخصت پر عمل نہ کرے۔رخصت کو ضروت تک محدود رکھے اور بلاوجہ رخصتوں پر عمل نہ کرے۔
🔅 پانچویں صورت:
اگر کوئی شخص قیام اور رکوع میں دقت محسوس کرے لیکن سجدہ بآسانی بجا لا سکتاہو،وہ تمام نماز کرسی پر بیٹھ کرادا کرے لیکن سجدہ زمین پر کرے۔
یاد رہے کہ یہ تمام احکام فرض نماز کے متعلق ہیں،نفل نماز کے متعلق وسعت رکھی گئی ہے۔کہ بندہ جیسے آسانی محسوس کرے نماز ادا کرلے،کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے نفل نماز سواری پر بھی ادا کی ہے۔حدیث نبوی ہے"من صلی قاعدا فلہ نصف اجر القائم"۔۔۔"بیٹھ کر نماز ادا کرنے والےکےلئے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ہے"
یاد رہے کہ یہ تمام احکام فرض نماز کے متعلق ہیں،نفل نماز کے متعلق وسعت رکھی گئی ہے۔کہ بندہ جیسے آسانی محسوس کرے نماز ادا کرلے،کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے نفل نماز سواری پر بھی ادا کی ہے۔حدیث نبوی ہے"من صلی قاعدا فلہ نصف اجر القائم"۔۔۔"بیٹھ کر نماز ادا کرنے والےکےلئے کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ہے"
🔅 چھٹی صورت:
اگر کوئی شخص قیام ،رکوع اورسجود کی استطاعت تو رکھتا ہے مگر دیگر نمازیوں کی طرح تشہد میں نہیں بیٹھ سکتا تو وہ تشہد کے وقت کرسی پر بیٹھ جائے۔۔
🔅 ساتویں صورت:
اصل صورت تو یہ ہی ہے کہ مریض آدمی زمین پر بیٹھ کر نماز اداکرےلیکن کرسی پر نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔
❓مسئلہ:اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ میز نما چیز کرسی کے آگے رکھ لیتے ہیں،یہ عمل صحیح نہیں ہےسراسر تکلیف ہے جسکا ہمیں حکم نہیں دیا گیاجب کہ نماز میں آدمی سے بغیر کسی تکلف کے حسب استطاعت اور حسب توفیق تقویٰ مطلوب ہے،تقویٰ کا حصول ہی نماز کا اصل مقصد ہے اور یہ ہی اکثر علما کا موقف ہے۔
❓ مسئلہ:ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض بھائی سجدے کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں بچھا دیتےہیں اور پھر ان کے برابر سجدہ کرتے ہیں۔یہ درست عمل نہیں اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود ہے۔
(واللہ اعلم)
تحریر: الشیخ فہد بن عبد الرحمن الشویب
مترجم:جناب عبدالعظیم جواد۔
(واللہ اعلم)
تحریر: الشیخ فہد بن عبد الرحمن الشویب
مترجم:جناب عبدالعظیم جواد۔
درج بالا مفصل و مدلل کلام کے بعد خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ جس طرح سہولت محسوس کریں اسی طرح نماز پڑھیں ۔ لیکن یاد رہے بلا ضرورت اس رخصت کو استعمال نہ کیا جائے ۔۔۔ اگر آپ سجدہ ، احناف کے طریقے پر کرتی ہیں تو یہ آپکی جسمانی مجبوری پر محمول ہے نہ کہ عقائد کی تبدیلی مقصود ہے ۔ اورمجبوری میں نماز لیٹ کر بھی پڑھنا جائز ہے ۔ پھر آپ کی ہئیتِ سجدہ تو اس سے کم ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment