Thursday, July 23, 2020

Kisi k Moun par Tareef Karna


کسی کے منہ پر تعریف کرنے کی جائز صورت



بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
 تحریر : مسزانصاری
تعریف پیٹھ پیچھے ہی کرنی چاہئیے ،سامنے منہ پر تعریف کرنا حرام ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ گویا آپ کی تعریف اس کے حق میں ایک گواہی ہوتی ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ ایک جنازہ سامنے سے لے کر گزرے، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تعریف کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ واجب ہو گئی۔” پھر لوگ دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو انہوں نے اس کی برائی بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ واجب ہو گئی۔” تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ کیا چیز واجب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لیے جنت اور جس کی تم لوگوں نے برائی بیان کی اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی اور تم لوگ زمین میں اللہ کی طرف سے گواہ ہو۔ (بخاری : ۶۸۶)
اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے کسی کے منھ پر اس کی بے جا تعریف و توصیف سے سختی سے منع فرمایا ہے
کسی کے منھ پر اس کی تعریف کرنے سے اس کی روحانی و اخلاقی موت ہوجاتی ہے
پیارے نبیﷺ نے تعلیم دی ہے کہ :
عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال: أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: «ويلك قطعت عنق صاحبك، قطعت عنق صاحبك» مرارا، ثم قال: «من كان منكم مادحا أخاه لا محالة، فليقل أحسب فلانا، والله حسيبه، ولا أزكي على الله أحدا أحسبه كذا وكذا، إن كان يعلم ذلك منه»
(صحیح البخاری 2662 )
تخریج «صحیح البخاری/الشہادات 2662 ) ، الأدب
۹۵ ( ۶۱۶۲ ) ، صحیح مسلم/الزہد ۱۴ ( ۳۰۰۰ ) ، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ ( ۴۸۰۵ ) ، ( تحفة الأشراف : ۱۱۶۷۸ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ۵/۴۱ ، ۴۶ ، ۴۷ ، )
ترجمہ :
جناب ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا
مسند امام احمد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مرفوع حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"ایاکم والمدح فانہ الذبح"
کسی کے منہ پر تعریف کرنے سے بچو ۔ یہ تو اسے ذبح کرنے کے مترادف ہے
درج بالا بیان منہ پر بے جا اور جھوٹی تعریف کی ممانعت میں تھا ، اور اس شخص کی تعریف کرنے کی ممانعت تھی جو اپنی تعریف سن کر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجائے ۔ لیکن جس سے کبرو نخوت کا اندیشہ نہ ہو اور نہ جس سے یہ خطرہ ہو کہ وہ غرور میں مبتلا ہو کر اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے گا تو اس کے حق میں تعریف کا جواز موجود ہے
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَجُلًا ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَيْهِ رَجُلٌ خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْحَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ - يَقُولُهُ مِرَارًا - إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا لاَ مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يُرَى أَنَّهُ كَذَلِكَ، وَحَسِيبُهُ اللَّهُ، وَلاَ يُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا قَالَ وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ: «وَيْلَكَ»
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَدَبِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّمَادُحِ)

صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا منع ہے)

رقم الحدیث :
٦٠٦١
حکم : صحیح 6061
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے خالد نے ، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے ، ان سے ان کے والد نے نبی کریم کی مجلس میں ایک شخص کا ذکر آیا تو ایک دوسرے شخص نے ان کی مبالغہ سے تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس تم نے اپنے ساتھی کی گردن تو ڑ دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ کئی بار فرمایا ، اگر تمہارے لئے کسی کی تعریف کرنی ضروری ہو تو یہ کہنا چاہیئے کہ میں اس کے متعلق ایسا خیال کرتا ہوں ، باقی علم اللہ کو ہے وہ ایسا ہے ۔ اگر اس کو یہ معلوم ہو کہ وہ ایسا ہی ہے اور یوں نہ کہے کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہی ہے ۔ اورکوئی اللہ کے سامنے پاک صاف ہونے کا دعوٰی نہ کرے ۔
واضح ہو کہ احادیث میں مذمت ان لوگوں کی معلوم ہوتی ہے جو بے جا تعریفوں سے امراء و غنی افراد سے مال ہڑپ کرنا چاہتے ہیں یا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انکے دلوں کو خوش کرنے کے لیے بے جا تعریف کرتے ہیں جبکہ وہ ان تعریفوں کے مستحق بھی نہیں ہوتے ۔ اسکے برعکس تعریف کا مقصد کسی کی حوصلہ افزائی اور مزید بھلائی کی طرف اسکی ترغیب و تشویق ہو ، نیز کسی مومن بھائی کی غلط فہمی کی بنیاد پر دل شکنی کو دور کرنے کے لیے حق راہ سے اور اعتدال میں رہ کر مناسب الفاظ سے اسکی مدح کر دی جائے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں اور ان شاءاللہ یہ مباح ہے ۔ بلکہ مسلمان بھائی کی ظاہری و عملی صالحات پراس کی جائز تعریف اسکی عدم موجودگی میں کرنا بالکل جائز بلکہ مستحسن ہے ۔ اور کچھ مواقع پر جیسے علماء و مشائخ کی خدمات کو مدح وتعریف کی صورتوں میں سراہنا ضروری بھی ہوتا ہے جو ایک مستحسن عمل ہے ۔ اسی طرح شوہر کی بیوی کیلیے تعریف رشتہ کی پختگی کا باعث بنتی ہے ، استاد کا شاگرد کی اچھی کارکردگی پر سراہنا اسے زندگی کے میدان میں حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں باب باندھا ہے : '' منہ پر اس شخص کی تعریف کرنے کی ممانعت ، جس کی بابت غرور وغیرہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور جس سے یہ خطرہ نہ ہو ، اس کے حق میں تعریف کا جواز'' امام رحمہ اللہ ممانعت میں یہی حدیث لیکر آئے ہیں اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اس کے فوائد تحریر کیے ہیں جو یہ ہیں
فوائد
- اس میں ایک تو منہ پر تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
- کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو اس طرح کہے کہ میرے گمان کے مطابق وہ ایسا ہے ۔
- اپنی بابت بھی کوئی پاکیزگی کا دعوٰی نہ کرے ، اس لیے کہ ہر شخص کے ایمان و تقویٰ کی اصل حقیقت سے صرف اللہ تعالٰی ہی آگاہ ہے ۔
سنن ابی داود کی روایت ہے :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ، فَأَثْنَى عَلَى عُثْمَانَ فِي وَجْهِهِ، فَأَخَذَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ تُرَابًا، فَحَثَا فِي وَجْهِهِ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِذَا لَقِيتُمُ الْمَدَّاحِينَ, فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ<.
سنن أبي داؤد / كِتَابُ الْأَدَبِ (بَابٌ فِي كَرَاهِيَةِ التَّمَادُحِ)/ رقم الحدیث :
۴٨٠۴
سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: ایک دوسرے کی مدح سرائی کی کراہت کا بیان)

حکم : صحیح
جناب ہمام ( ہمام بن حارث رضی اللہ عنہ ) کہتے ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے منہ پر ان کی تعریف شروع کر دی ۔ تو سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جب تمہارا سامنا ایسے لوگوں سے ہو جو مدح سرائی اور خوشامد کرنے والے ہوں تو ان کے مونہوں میں مٹی ڈالو ۔ “ ۔
فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعدی حفظہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں
" یہ مذمت اور یہ معاملہ ایسے لوگوں کے لیے معلوم ہوتا ہے جن کا وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے لوگوں کی خوشامد اور مدح سارئی کر کے مال کھاتے اور اپنے کام نکالتے ہیں ، لیکن اگر کسی کی حوصلہ افزائی اور ترغیب و تشویق کے لیے اس کے اعمال خیر کی مناسب حد تک مدح کر دی جائے تو ان شاء اللہ مباح ہے ، بہر حال سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ فرمان رسول اللہ ﷺ کے ظاہری معنی ہی لیتے تھے ۔ جو بلاشبہ حق اور سچ ہے ۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search