۔
••─━══★﷽★══━─ ••
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
علماء کے دو اقوال میں صحیح تر قول یہ ہے کہ اذان اور اقامت فرض کفایہ ہے۔ نبیﷺ نے مالک بن حویرد اور اس کے ساتھیوں سے فرمایا:
((إذا حضرتِ الصَّلاۃُ فلْیؤذِنْ لکُم أحدُکم ولْیَؤُ مَّکم أکبرُکم۔))
’’ جب نماز کا وقت آجائے تو تمہارے لیے تم میں سے کوئی ایک اذان کہہ اور جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے‘‘
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے مالک بن حویرث اور اس کے ساتھی سے کہا :
((إذا حضرت الصَّلاۃُ فأذَّنا وأقیماَ۔))
’’ جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کہو اور نماز با جماعت ادا رکرو‘‘
مشہور فقیہ امام خرقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’ وَ مَن صَلّٰی بِلَا أَذَانٍ، وَ لَا إِقَامَةٍ کَرِهنَا لَهٗ ذٰلِكَ، وَ لَا یُعِید‘المختصر مع المغنی: ا/۴۳۱
’’ جس نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھی، ہمارے نزدیک یہ فعل مکر وہ ہے۔ تاہم نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ‘‘اس کے شارح فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی بلا اذان اور اقامت کے نماز پڑھ لے تو
’فَالصَّلَاةُ صَحِیحَةٌ عَلَی القَولَینِ۔‘
’’دونوں اقوال (سنت مؤکدہ اور فرض کفایہ) کے مطابق نماز درست ہے۔‘‘
دوسری طرف صحیح بخاری کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علی الاطلاق ( بغیر شرط کے) ان کی مشروعیت اور مسنون ہونے کے قائل ہیں ۔اسی طرح امام فقیہ مجتہد ’’ابن دقیق العید‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَالمَشهُورُ أَنَّ الأَذَانَ وَالاِقَامَةَ سُنَّتَانِ وَ قِیلَ: هُمَا فَرضَانِ عَلَی الکِفَایَةِ وَهُوَ قَولُ الأَصطَخرِی مِن أَصحَابِ الشَّافِعِيِّ ‘احکام الاحکام ۱/۲۱۵
’’مشہور بات یہ ہے کہ اذان اور اقامت دونوں سنت ہیں اور بصیغۂ مجہول ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں فرض کفایہ ہیں ۔امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے اصطخری رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔‘‘
فتاوی علمیہ میں مذکور آپکے مسائل اور ان کا حل میں جلد نمبر ١ " كتاب الاذان " میں صفحہ نمبر ٢۵١ پو مذکور ہے کہ اگرچہ گاؤں ،شہر یا جنگل وغیرہ میں نماز باجماعت کے لیے اذان واقامت لازمی ہیں جیسا کہ مشہور احادیث سے ثابت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم"
"تم میں سے ایک اذان کہے اور سب سے بڑا امامت کرائے۔(صحیح البخاری:628 وصحیح مسلم:674)
اذان واقامت شعائر اسلام میں سے ہیں۔تاہم میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوکہ اگر سہواًیاتعمداً اذان یا اقامت رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی۔
بالتعمد اذان واقامت نہ دینا احادیث صحیحہ اور شعائر اسلام کی مخالفت کی وجہ سے انتہائی مذموم عمل ہے تاہم سہو پر اعادہ صلوٰۃ لازم نہیں ہے۔
مشہور تابعی عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ اس بات کے قائل تھے کہ اگر کوئی شخص اقامت بھول جائے تو دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے۔
(مصنف عبدالرزاق 1/511 ح1958 مصنف ابن ابی شیبہ 1/218 ح 2272 وسندہ صحیح 2274 ،2275)
مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی خیال تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218ح2273وسندہ صحیح)
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ اس بات کے قائل تھے کہ اقامت بھول جانے کی صورت میں نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائےگی۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218ح2271 وسندہ صحیح)
ان متناقض اقوال میں راجح یہی ہے کہ نماز صحیح ہے اور اس کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔واللہ اعلم (شہادت،دسمبر 2003ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاوی علمیہ/ آپکے مسائل اور ان کا حل"
جلد1۔كتاب الاذان۔صفحہ251
اور فضیلةالشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ کہتے ہیں
نماز ادا کرنے کے لیے اذان دینا ضروری نہیں ہے، اگر بغیر اذان کے جماعت کروا لی جائے تو نماز ادا ہو جائے گی اور اگر اذان کہہ لیں تو اس کا جواز ہے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے :
”انس رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے تو جماعت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز ادا کی“۔ [صحيح بخاري، كتاب الأذان : باب فى فضل صلاة الجماعة ]
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اذان واقامت کے بغیر جماعت کرانا بھی ثابت ہے، جیسا کہ طبرانی کبیر اور کتاب الآثار وغیرھما میں منقول ہے۔
کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل ہمیں معلوم نہیں جس سے یہ لازم آتا ہو کہ جماعت کے لیے اذان کہنا فرض و واجب ہے، اس کے بغیر جماعت نہیں ہوتی۔ اذان تو صرف مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے اطلاع کا نام ہے۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
••─━══★﷽★══━─ ••
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
علماء کے دو اقوال میں صحیح تر قول یہ ہے کہ اذان اور اقامت فرض کفایہ ہے۔ نبیﷺ نے مالک بن حویرد اور اس کے ساتھیوں سے فرمایا:
((إذا حضرتِ الصَّلاۃُ فلْیؤذِنْ لکُم أحدُکم ولْیَؤُ مَّکم أکبرُکم۔))
’’ جب نماز کا وقت آجائے تو تمہارے لیے تم میں سے کوئی ایک اذان کہہ اور جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے‘‘
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے مالک بن حویرث اور اس کے ساتھی سے کہا :
((إذا حضرت الصَّلاۃُ فأذَّنا وأقیماَ۔))
’’ جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کہو اور نماز با جماعت ادا رکرو‘‘
مشہور فقیہ امام خرقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’ وَ مَن صَلّٰی بِلَا أَذَانٍ، وَ لَا إِقَامَةٍ کَرِهنَا لَهٗ ذٰلِكَ، وَ لَا یُعِید‘المختصر مع المغنی: ا/۴۳۱
’’ جس نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھی، ہمارے نزدیک یہ فعل مکر وہ ہے۔ تاہم نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ‘‘اس کے شارح فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی بلا اذان اور اقامت کے نماز پڑھ لے تو
’فَالصَّلَاةُ صَحِیحَةٌ عَلَی القَولَینِ۔‘
’’دونوں اقوال (سنت مؤکدہ اور فرض کفایہ) کے مطابق نماز درست ہے۔‘‘
دوسری طرف صحیح بخاری کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علی الاطلاق ( بغیر شرط کے) ان کی مشروعیت اور مسنون ہونے کے قائل ہیں ۔اسی طرح امام فقیہ مجتہد ’’ابن دقیق العید‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَالمَشهُورُ أَنَّ الأَذَانَ وَالاِقَامَةَ سُنَّتَانِ وَ قِیلَ: هُمَا فَرضَانِ عَلَی الکِفَایَةِ وَهُوَ قَولُ الأَصطَخرِی مِن أَصحَابِ الشَّافِعِيِّ ‘احکام الاحکام ۱/۲۱۵
’’مشہور بات یہ ہے کہ اذان اور اقامت دونوں سنت ہیں اور بصیغۂ مجہول ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں فرض کفایہ ہیں ۔امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے اصطخری رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔‘‘
فتاوی علمیہ میں مذکور آپکے مسائل اور ان کا حل میں جلد نمبر ١ " كتاب الاذان " میں صفحہ نمبر ٢۵١ پو مذکور ہے کہ اگرچہ گاؤں ،شہر یا جنگل وغیرہ میں نماز باجماعت کے لیے اذان واقامت لازمی ہیں جیسا کہ مشہور احادیث سے ثابت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم"
"تم میں سے ایک اذان کہے اور سب سے بڑا امامت کرائے۔(صحیح البخاری:628 وصحیح مسلم:674)
اذان واقامت شعائر اسلام میں سے ہیں۔تاہم میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوکہ اگر سہواًیاتعمداً اذان یا اقامت رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی۔
بالتعمد اذان واقامت نہ دینا احادیث صحیحہ اور شعائر اسلام کی مخالفت کی وجہ سے انتہائی مذموم عمل ہے تاہم سہو پر اعادہ صلوٰۃ لازم نہیں ہے۔
مشہور تابعی عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ اس بات کے قائل تھے کہ اگر کوئی شخص اقامت بھول جائے تو دوبارہ نماز پڑھنی چاہیے۔
(مصنف عبدالرزاق 1/511 ح1958 مصنف ابن ابی شیبہ 1/218 ح 2272 وسندہ صحیح 2274 ،2275)
مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی خیال تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218ح2273وسندہ صحیح)
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ اس بات کے قائل تھے کہ اقامت بھول جانے کی صورت میں نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائےگی۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/218ح2271 وسندہ صحیح)
ان متناقض اقوال میں راجح یہی ہے کہ نماز صحیح ہے اور اس کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔واللہ اعلم (شہادت،دسمبر 2003ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاوی علمیہ/ آپکے مسائل اور ان کا حل"
جلد1۔كتاب الاذان۔صفحہ251
اور فضیلةالشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ کہتے ہیں
نماز ادا کرنے کے لیے اذان دینا ضروری نہیں ہے، اگر بغیر اذان کے جماعت کروا لی جائے تو نماز ادا ہو جائے گی اور اگر اذان کہہ لیں تو اس کا جواز ہے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے :
”انس رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے تو جماعت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کہی اور جماعت سے نماز ادا کی“۔ [صحيح بخاري، كتاب الأذان : باب فى فضل صلاة الجماعة ]
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اذان واقامت کے بغیر جماعت کرانا بھی ثابت ہے، جیسا کہ طبرانی کبیر اور کتاب الآثار وغیرھما میں منقول ہے۔
کتاب و سنت میں کوئی ایسی دلیل ہمیں معلوم نہیں جس سے یہ لازم آتا ہو کہ جماعت کے لیے اذان کہنا فرض و واجب ہے، اس کے بغیر جماعت نہیں ہوتی۔ اذان تو صرف مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے اطلاع کا نام ہے۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
┄┅════════════⚜⚜⚜════════════┅┄
Post a Comment