Monday, January 27, 2020

پالتو پرندے امپورٹڈ طوطے وغیرہ پالنا اور ان کی خریدوفروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟


Is it permissible to sell and buy pet birds imported parrots etc?



بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

پ̳ا̳ل̳ت̳و̳ پ̳ر̳ن̳د̳ے̳ ا̳م̳پ̳و̳ر̳ٹ̳ڈ̳ ط̳و̳ط̳ے̳ و̳غ̳ی̳ر̳ہ̳ پ̳ا̳ل̳ن̳ا̳ ا̳و̳ر̳ ا̳ن̳ ک̳ی̳ خ̳ر̳ی̳د̳و̳ف̳ر̳و̳خ̳ت̳ ک̳ر̳ن̳ا̳ ج̳ا̳ئ̳ز̳ ہ̳ے̳ ی̳ا̳ ن̳ہ̳ی̳ں̳ ؟̳
    
دیگر پالتو جانوروں کی طرح گھر میں پرندے خرگوش رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر ان پرندوں کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جاتا ہے تو ان کی خرید وفروخت بھی درست ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جانور پالا کرتے تھے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے بھائی نے ایک چڑیا پال رکھی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی تشریف لاتے تو اس سے کہتے۔

" يا أبا عمير ما فعل النغير. نغر كان يلعب به" (متفق عليه)

اے ابو عمیر! تیری چڑیا کا کیا بنا۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔

" إن في الحديث دلالة على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه ، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي "

اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے،اور روکنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق مثلاً خوراک وغیرہ کا خوب خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔کیونکہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے،حدیث نبوی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔:

" دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض " (متفق عليه)

ایک عورت صرف اس لئے جہنم میں چلی گئی ،کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی،لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے زمین میں کھلا چھوڑ دیا،کہ وہ حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔

واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث/کتاب الصلاۃ/جلد 1

جب پرندوں سے اچھا سلوک کیا جائے اور ان کے دانے دنکے کا اہتمام کیا جائے تو انہیں گھر میں زینت یا تفریح طبع کے طور پر رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : حضرت انس  رضی اللہ عنہ کا ایک ابو عمیر نامی مادری بھائی تھا جس نے گھر میں نغیر نامی پرندہ رکھا ہوا تھا جو کسی وجہ سے مر گیا تو ابو عمیر بہت پریشان ہوا۔ 
رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلمجب حضرت اُم سلیم کے گھر جاتے تو 
ابو عمیر سے مخاطب ہو کر فرماتے:’’ اے ابو عمیر1 نغیر کو کیا ہوا؟ 
{ صحیح بخاری،کتاب الادب باب الکنیۃ للصبی و قبل ان یولد للرجل}

بخاری میں وضاحت ہے کہ ابو عمیر  رضی اللہ عنہ نے یہ پرندہ محض تفریح طبع کے لیے رکھا تھا۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث سے زیادہ مسائل کو استنباط کیا ہے ۔ چند ایک درج ذیل ہیں:

بچوں کا دل بہلانے اور ان کی تفریح طبع کے لیے مال خرچ کرنا جائز ہے۔

پرندوں کو تفریح کے طور پر گھر میں رکھا جا سکتا ہے 
 اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: 

(الف) انہیں پنجروں میں بند کر دیا جائے۔  ✔

(ب) ان کے پر کاٹ دیےجائیں۔  ✔
دونوں صورتیں جائز ہیں بشرطیکہ انکی خوراک کا اہتمام کیا جائے 

بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حدیث میں حیوانات کو تکلیف دینے کی ممانعت ہے ۔ لہٰذا پرندوں کو اس طرح بند رکھنا جائز نہیں بلکہ منسوخ ہے۔ علامہ البانی نے اس کا جواب دیا ہے کہ بچوں کے لیے دل بہلاوے کے طور پر گھر میں پرندوں کا رکھنا جائز ہے۔ البتہ انہیں تنگ کرنے کے لیے رکھنا جائز نہیں۔ جس کی صورت یہ ہے کہ ان کی خوراک اور پانی وغیرہ کا اہتمام نہ کیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت کو صرف اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے گھر میں بلی کو باندھ رکھا تھا نہ اسے خوراک مہیا کرتی اور نہ ہی اسے آزاد کرتی تاکہ وہ خود اپنی خوراک کا اہتمام کر لے۔ 
(فتح الباری : ۱۰،۷۱۸)1
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کی تفریح طبع یا گھر کی زینت کے لیے پرندوں کو گھر میں رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے ۔                    
دیکھیے : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 /صفحہ 784

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Message: Follow Us on Regular Bases

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search