ننگے سر نماز پڑھانا یا امامت کروانا کیسا ہے؟
بِسْــــــــــمِ
اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں
عن أبى هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”لا يصلي أحدكم فى الثوب الواحد ليس عليٰ عاتقيه شيء“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم میں سے کوئی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے، کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔“
[صحيح بخاري : 52/1 ح 359، صحيح مسلم : 198/1 ح 516]
فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے۔
➋ بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ شمائل الترمذی [ص 71 و فى نسختنا ص 4 حديث : 33، 125] کی روایت جس میں :
عن أبى هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”لا يصلي أحدكم فى الثوب الواحد ليس عليٰ عاتقيه شيء“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم میں سے کوئی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے، کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔“
[صحيح بخاري : 52/1 ح 359، صحيح مسلم : 198/1 ح 516]
فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے۔
➋ بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ شمائل الترمذی [ص 71 و فى نسختنا ص 4 حديث : 33، 125] کی روایت جس میں :
يكثر القناع یعنی ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات اپنے
سر مبارک پر کپڑا رکھتے تھے“ آیا ہے،
وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے، یزید پر جرح کے لئے
تہذیب التہذیب [ج11 ص 270] وغیرہ دیکھیں۔
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : متروك بصري [کتاب الضعفاء : 642]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا : ويزيد الرقاشي ضعفه الجهمور
”اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ [مجمع الزوائد 226/6]
تقریب التہذیب [7683] میں لکھا ہوا ہے زاهد ضعيف۔
دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب ”در مختار“ میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ [الدرالمختار مع رد المختار 474/1]
◈ اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
”سوال : ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں۔“
جواب : یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے۔“
[فتاويٰ دارالعلوم ديوبند 94/4]
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا : متروك بصري [کتاب الضعفاء : 642]
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا : ويزيد الرقاشي ضعفه الجهمور
”اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ [مجمع الزوائد 226/6]
تقریب التہذیب [7683] میں لکھا ہوا ہے زاهد ضعيف۔
دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب ”در مختار“ میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ [الدرالمختار مع رد المختار 474/1]
◈ اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
”سوال : ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں۔“
جواب : یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے۔“
[فتاويٰ دارالعلوم ديوبند 94/4]
◈ احمد رضاخان بریلوی صاحب نے لکھا ہے :
”اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ “
[احكام شريعت حصه اول ص 130]
”اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ “
[احكام شريعت حصه اول ص 130]
↰ بعض مساجد میں نماز کے دوران میں سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی
جاتی ہے، اس لئے انہوں نے تنکوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں، ایسی ٹوپیاں
نہیں پہننی چاہئیں، کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں کیا کوئی ذی شعور انسان
ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے ؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ
عزوجل کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔
اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
👈 تنبیہ :
راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
نافع تابعی کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا کہ وہ ایک
کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا : ”کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں
دیئے ؟ …کیا میں تمہیں اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے ؟ ”نافع نے کہا :
نہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کیا اللہ عزوجل اس کا زیادہ
مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے زیادہ مستحق ہیں
؟ پھر انہوں نے نافع رحمہ اللہ کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے
کا حکم ثابت ہوتا ہے۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ملخصًا 236/2 و سنده صحيح]
[السنن الكبريٰ للبيهقي ملخصًا 236/2 و سنده صحيح]
🌏 كيا امام ننگے سر لوگوں كو نماز پڑھا سكتا ہے ❓
جى ہاں ننگے سر نماز پڑھانا جائز ہے، ليكن افضل اور بہتر يہ ہے كہ
وہ سر ڈھانپ كر ركھے، كيونكہ سر ننگا ركھنا خلاف مروؤت ہے، اور اسے چاہيے كہ وہ
اپنے دونوں كندھے ڈھانپ كر ركھے، امام احمد كا مسلك يہى ہے-
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے كوئى بھى ايك كپڑے ميں
نماز ادا نہ كرے كہ اس كے كندھے پر كچھ نہ ہو "
صحيح بخارى ( 1 / 498 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 516 ).
ديكھيں: فتاوى فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن حميد صفحہ نمبر ( 77
🌏 امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میری نظر (اور تحقیق) میں ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ یہ بات طےشدہ ہے کہ مسلمان کے لیے مکمل اسلامی ہیئت اختیار کرنے کے بعد ہی نماز میں داخل ہونا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
"فان اللہ احق ان یتزین لہ" (اخرجہ الطحاوی فی "شرح الآثار" و الطبرانی والبیہقی فی "السنن الکبری")
"اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے"
ننگے سر رہنے کی عادت، ننگے سر راستوں میں چلنا اور اسی طرح عبادات کی جگہوں میں داخل ہو جانا سلف صالحین کے عرف میں اچھی ہیئت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ غیرمسلموں کی عادت ہے جو کفار اپنی فتوحات کے ساتھ لے کر آئے اور بہت سے مسلمان ممالک میں یہ عادت (عامۃ الناس میں) سرایت کر گئی جسے اپنا کر انہوں نے اپنی اسلامی شخصیت کو ضائع کر دیا۔ پس یہ جدید صورتحال سابق اسلامی عرف کی مخالفت کی دلیل نہیں بن سکتی اور نہ اس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جا سکتا ہے۔
"میری نظر (اور تحقیق) میں ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ یہ بات طےشدہ ہے کہ مسلمان کے لیے مکمل اسلامی ہیئت اختیار کرنے کے بعد ہی نماز میں داخل ہونا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
"فان اللہ احق ان یتزین لہ" (اخرجہ الطحاوی فی "شرح الآثار" و الطبرانی والبیہقی فی "السنن الکبری")
"اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے"
ننگے سر رہنے کی عادت، ننگے سر راستوں میں چلنا اور اسی طرح عبادات کی جگہوں میں داخل ہو جانا سلف صالحین کے عرف میں اچھی ہیئت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ غیرمسلموں کی عادت ہے جو کفار اپنی فتوحات کے ساتھ لے کر آئے اور بہت سے مسلمان ممالک میں یہ عادت (عامۃ الناس میں) سرایت کر گئی جسے اپنا کر انہوں نے اپنی اسلامی شخصیت کو ضائع کر دیا۔ پس یہ جدید صورتحال سابق اسلامی عرف کی مخالفت کی دلیل نہیں بن سکتی اور نہ اس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جا سکتا ہے۔
یہ یاددہانی کرنا بھی ضروری ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا صرف مکروہ ہی
ہے، لیکن (ایسا کرنے والے کی نماز باطل نہیں ہوتی) بلکہ نماز صحیح ہوتی ہے۔ ۔ ۔ پس
ننگے سر والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا درست نہیں ہے البتہ (امام کو
خیال کرنا چاہیے) کہ اسے دوسروں سے زیادہ تمام و کمال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی سنت کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کا پابند ہونا چاہیے۔ اللہ
تعالیٰ توفیق دے۔
(القول المبین فی اخطاء المصلین ص 56 تا 58، مشہور حسن سلمان)
(القول المبین فی اخطاء المصلین ص 56 تا 58، مشہور حسن سلمان)
🌏 ننگے سر نماز فتاویٰ کی روشنی میں :
سر جسم کا ایسا حصہ نہیں ہے جس کا نماز میں ڈھانپنا ضروری ہوا
البتہ ننگے سر رہنا انسانی وقار اور شرافت کے خلاف ضرور ہے اس لئے ہمیشہ ننگے سر
نماز پڑھنے کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام
حالات میں ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت کسی صحیح اور صریح حدیث سے نہیں ملتا اس بنا
پر ننگے سر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ہی اس عادات کو اپنے لئے طرہ امتیاز
بنایاجائے نماز کی ادائیگی ایسے لوگوں کے لئے ہونی چاہیے جن کے عقائد ونظریات کتاب
وسنت سے متصادم نہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ''امامت
کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کرو جو تم سے بہتر ہوں'' اس لئے مستقل طور پر غلط
عقائد کے حاملین کو امام نہیں بنانا چاہیے اگر کبھی کبھار لا علمی کی صورت میں
اتفاقاً ایسا ہوجائے تو ان شاء للہ نماز ہوجائے گی۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد1/صفحہ124
🌟 سر پر رومال یا ٹوپی رکھنے کے متعلق نبیﷺ کی سنت :
چند مقامات پر رسول اللہﷺ کے سر مبارک پر پگڑی کا ذکر آیا ہے مثلاً
آپﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے توآپ کے سر پر سیاہ پگڑی تھی۔
(مسلم۔الحج۔باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام۔ابوداؤد۔اللباس۔باب فی العمائم۔ترمذی۔اللباس)
پھر ایک حدیث میں ذکر ہے
آپﷺ نے وضوء کیا تو پگڑی پر مسح کیا۔
(بخاری۔الوضوء۔باب المسح علی الخفین)
اسی طرح کچھ دوسرے مواقع میں خمار اور عصابہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ رہا مسجد میں ننگے سر جانا یا ننگے سر نماز پڑھنا تو یہ بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہے بالخصوص حج اور عمرہ کے موقع پر رسول اللہﷺ ننگے سر ہی مسجد حرام میں گئے اور ننگے سر ہی نماز پڑھتے رہے ہاں بالغ عورت کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :
«لاَ یَقْبَلُ اﷲُ صَلاَۃَ حَائِضٍ اِلاَّ بِخِمَارٍ» ’’
نہیں ہے نماز بالغ عورت کی مگر دوپٹہ کے ساتھ‘‘
(ابوداؤد۔الصلاۃ۔باب المراۃ تصلی بغیر خمار)
(مسلم۔الحج۔باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام۔ابوداؤد۔اللباس۔باب فی العمائم۔ترمذی۔اللباس)
پھر ایک حدیث میں ذکر ہے
آپﷺ نے وضوء کیا تو پگڑی پر مسح کیا۔
(بخاری۔الوضوء۔باب المسح علی الخفین)
اسی طرح کچھ دوسرے مواقع میں خمار اور عصابہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ رہا مسجد میں ننگے سر جانا یا ننگے سر نماز پڑھنا تو یہ بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہے بالخصوص حج اور عمرہ کے موقع پر رسول اللہﷺ ننگے سر ہی مسجد حرام میں گئے اور ننگے سر ہی نماز پڑھتے رہے ہاں بالغ عورت کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :
«لاَ یَقْبَلُ اﷲُ صَلاَۃَ حَائِضٍ اِلاَّ بِخِمَارٍ» ’’
نہیں ہے نماز بالغ عورت کی مگر دوپٹہ کے ساتھ‘‘
(ابوداؤد۔الصلاۃ۔باب المراۃ تصلی بغیر خمار)
احکام و مسائل /نماز کے مسائل
جلد1/صفحہ 98
جلد1/صفحہ 98
🌟 ٹوپی یا عمامہ کا جواز :
نماز میں اور نماز سے باہر ہمیشہ یا کبھی صرف ٹوپی استعمال کرنا
بلاشبہ جائز اور مباح ہے پگڑی باندھنی نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت مؤکدہ ۔ اور حدیث :
ان فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس
(ترمذی ابوداؤد)
ضعیف ہے۔
اور اگر صحیح بھی مان لی جائے تو ابن الملک وغیرہ شراح کے بیان کردہ معنی کے مطابق اس حدیث سے صرف ٹوپی پہننے کی کراہت نہیں ثابت ہوتی۔ آنحضرتﷺ بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔
امام ابن القیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں:
ان فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس
(ترمذی ابوداؤد)
ضعیف ہے۔
اور اگر صحیح بھی مان لی جائے تو ابن الملک وغیرہ شراح کے بیان کردہ معنی کے مطابق اس حدیث سے صرف ٹوپی پہننے کی کراہت نہیں ثابت ہوتی۔ آنحضرتﷺ بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔
امام ابن القیم زاد المعاد میں فرماتے ہیں:
وکان یلبسھا (ای العمامۃ) ویلبس تحتھا القلنسوۃ وکان یلبس القلنسوۃ
بغیر عمامۃ ویلبس العمامۃ بغیر قلنسوۃ انتھٰی۔ (ص۳۴ج۱)
اور جامع ترمذی (ص ۲۱۱، جلد ۱ ) میں ہے:
عن ابی یزید الخولانی انہ سمع فضالۃ بن عبید یقول سمعت عمر بن
الخطابؓ یقول سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول الشھداء اربعۃ جل مومن جید الایمان لقی
العدو فصدق اللّٰہ حتی قتل فذالک الذییرفع الناس الیہ اعینھم یوم القیمۃ ھکذا ورفع
راسہ حتی وقعت قلنسوتہ فلا ادری قلنسوۃ عمر ارادام قلنسوۃ النبی ﷺ الحدیث۔
اور جامع صغیر للسیوطی میں ہے:
کان (ﷺ) یلبس القلانس تحت العمائم وبغیر العمائم ویلبس العمائم
بغیر القلانس وکان یلبس القلانس الیمانیۃ الحدیث (الرویانی وابن عساکر عن ابن عباس)
اور صحیح بخاری شریف میں ہے:
وضع ابو اسحق قلنسونہ فی الصلوٰۃ ورفعھا۔
اس اثر سے معلوم ہوا کہ ابو اسحق سبیعی جوکتبار تابعین سے ہیںاور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ ہیں اور اڑتیس صحابیوں سے حدیث روایت کی ہے۔ نماز بھی صرف ٹوپی کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔
(محدث دہلی جلد ۱۰، ش ۳)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ ابو اسحق سبیعی جوکتبار تابعین سے ہیںاور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ ہیں اور اڑتیس صحابیوں سے حدیث روایت کی ہے۔ نماز بھی صرف ٹوپی کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔
(محدث دہلی جلد ۱۰، ش ۳)
فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 04 /صفحہ 295
جلد 04 /صفحہ 295
🌟 احرام کی حالت کے علاوہ آپﷺاپناسرڈھانپاکرتےتھےلہذااگرچہ
سرکھلارکھناجائز توہے اورکھلےسرنمازبھی جائز ہے لیکن تاہم سرڈھانپناافضل اورمستحب
ہے باقی سر کِس سےڈھانپاجائے؟تواس کےلیےاحادیث میں کالی پگڑی کاذکرآتا
ہے۔اوراکثراوقات آپﷺکےسرمبارک پرعمامہ ہواکرتاتھاااورمنبروغیرہ پرعمامہ کے ساتھ
ہونے کاتذکرہ احادیث میں موجودہے۔
صحیح بخاری میں وضوکے وقت پگڑی پرمسح کاذکرآتاہے۔فتح مکہ کے وقت آپ کےسرمبارک پرکالی پگڑی تھی لیکن احادیث میں ٹوپیوں کابھی ذکرملتاہے۔رنگ کاتعین کرنابہت مشکل ہےلیکن ایک حدیث جوکہ ابوالشیخ لائے ہیں اس میں ہے کہ:
‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ آپﷺدوران سفرکانوں
والی ٹوپی پہنتےتھےجب کہ دوران حضرشامی ٹوپی پہنتے تھے۔’’
صحیح بخاری میں وضوکے وقت پگڑی پرمسح کاذکرآتاہے۔فتح مکہ کے وقت آپ کےسرمبارک پرکالی پگڑی تھی لیکن احادیث میں ٹوپیوں کابھی ذکرملتاہے۔رنگ کاتعین کرنابہت مشکل ہےلیکن ایک حدیث جوکہ ابوالشیخ لائے ہیں اس میں ہے کہ:
‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ آپﷺدوران سفرکانوں
والی ٹوپی پہنتےتھےجب کہ دوران حضرشامی ٹوپی پہنتے تھے۔’’
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی روایات میں ٹوپیاں
پہننے کےآثارملتے ہیں جن کی تفصیل کی یہاں پرگنجائش نہیں ہے۔
حاصل کلام:......پگڑی خواہ ٹوپی آپﷺاورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم اجمعین کی سنت ہےدونوں میں سےکسی پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے یا کبھی اس پر
اورکبھی اس پرعمل کیاجاسکتاہے۔
فتاویٰ راشدیہ/صفحہ نمبر 510
🌏 آنحضرت ﷺ یاصحابہ کرامؓ کا ہمیشہ ٹوپی بغیر پگڑی کےاستعمال
کرنا :
نماز میں اورنماز سےباہر ہمیشہ یاکبھی صرف ٹوپی استعمال کرنی
بلاشبہ جائز اورمباح ہے۔پگڑی باندھنے نہ فرض ہے، نہ واجب نہ سنت موکدہ ۔ اورحدیث
’’ إن فرق مابينا وبين المشركين العمائم على القلانس ، ، ترمذى
( كتاب اللباس باباالعمائم على القلنسوة (1784 4/248 )
داؤد ( كتا ب اللباس باب فى العمائم (4078 ) 4/241 )
ضعيف ثابت هوتى ہے ۔
آنحضرت ﷺ بغیر عمامہ کےصرف ٹوپی بھی استعمال فرمایا کرتے تھے ۔
’’ إن فرق مابينا وبين المشركين العمائم على القلانس ، ، ترمذى
( كتاب اللباس باباالعمائم على القلنسوة (1784 4/248 )
داؤد ( كتا ب اللباس باب فى العمائم (4078 ) 4/241 )
ضعيف ثابت هوتى ہے ۔
آنحضرت ﷺ بغیر عمامہ کےصرف ٹوپی بھی استعمال فرمایا کرتے تھے ۔
فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری
جلد نمبر 1/صفحہ نمبر 318
جلد نمبر 1/صفحہ نمبر 318
🌏 ایک روایت کی رو سے اکیلی ٹوپی پہننا یا صرف پگڑی باندھنا :
نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ 👇 روایت انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس روایت کی سنداس طرح ہے:
((حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ
الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ
الْعَسْقَلَانِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ
رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَرَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
قَالَ رُكَانَةُ: وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ، الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ.))
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ سے
کشتی لڑی اور اسے پچھاڑ دیا۔ رکانہ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پگڑی
باندھنا ہے۔'' (ابو داؤد لباس۴۰۷۸، ترمذی۱۷۸۴،۱'۲۱۷/۴)
اس
روایت کی سند میں تین مجمول راوی 👇 ہیں۔
۱) ابو الحسن عسقلانی ، مجہول تقریب ص٤٠١
۲) ابو جعفر بن محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٣٩٩
۳) محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٢٩٧
۲) ابو جعفر بن محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٣٩٩
۳) محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٢٩٧
اس لئے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا "
هذا حديث غريب و إسناده ليس بالقائم ولا نعرف أبا الحسن العسقلانى ولا ابن ركانة
"(ترمذی مع تحفہ۷۰/۳) یہ روایت غریب ہے س کی سند درست نہیں اور ابو الحسن عسقلانی اور
ابن رکانہ کو ہم نہیں پہچانتے۔''
علامہ مبارک پوری تحفة الاحوذی۷۰/۳ پر فرماتے ہیں:
" و فى الجامع الصغير برواية
الطبرانى عن ابن عمر كان يلبس قلنسوة بيضاء قال العزيزى إسناده حسن"
''الجامع الصغیر میں ابنِ عمر سے روایت
ہے جس کی سند کو علامہ عزیزی نے حسن قرار دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
سفید ٹوپی پہنتے تھے۔''
لیکن علامہ البانی حفظہ اللہ نے اسے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔
(ص۶۶)
اس طرح کی کئی روایتیں امام ابو نعیم اصبہانی نے کتاب اخلاق النبی
صلی اللہ علیہ وسلم و آدابہ میں نقل کی ہیں جن سے معلم ہوتا ہے کہ آ پ صلی اللہ
علیہ وسلم ٹوپی عمامہ کے بغیر بھی پہنتے تھے۔
امام ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ زاد المعاد ۱۳۵/۱پر
رقم طراز ہیں:
(( كانت له عمامة تسمى السحاب كساها عليا
وكان يلبسها و يلبس تحتها القلنسوة وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة ويلبس العمامة
بغير قلنسوة .))
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
ایک پگڑی تھی جس کا نام سحاب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سیدنا علی رضی اللہ
عنہ کو پہنائی۔ اسے آپ پہنتے اور کبھی اس کے نیچے ٹوپی ہوتی اور کبھی ٹوپی بغیر
پگڑی کے اور پگڑی بغیر ٹوپی کے پہن لیتے۔''
امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف
پگڑی باندھنا یا صرف ٹوپی لینا یا ٹوپی پر پگڑی باندھ لینا، تینوں طرح جائز و صواب
ہے۔ کسی صحیح حدیث سے اس کی نفی یا ممانعت نہیں ہے۔ اہل بدعت کا اس طرح عمامے کے
متعلق قیود و پابندیاں لگانا اس کے جعلی فضائل بیان کرنا جیسا کہ فیضانِ سنت میں
سبز پگڑی والوں کے پیر الیاس قادری نے ذکر کیا ہے یا ماہنامہ البر میں مولوی شفیع
اوکاڑوی کا اس بارے میں ذکر کرنا احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل/جلد 1
🌏 امام کا ننگے سر امامت کرانا :
جعفر بن عمر و بن حر یث نے اپنے با پ سے روا یت کیا کہ انہوں نے
کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا ہے کہ :
(رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم علي
المنبر وعليه عمامة سوداء قد ارخي طرفها بين كتفيه )(صحیح مسلم )
"آپ نے سیا ہ عمامہ پہنا ہو ا تھا
اور اس کے کنا رے آپ نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیا ن لٹکا رکھا تھا ۔ امام تر ندی
نے نا فع از ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سند سے ذکر کیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم جب عمامہ با ند ھتے تو عمامہ کو اپنے دونو ں کند ھوں کے در میا ن
لٹکا لیتے تھے ان روا یات کے پیش نظر بہت سے علما ء نے امام ہو یا مقتدی سب کے لئے
عمامہ پہننا اور اس کے کچھ حصہ کو لٹکا نا مستحب قرار دیا ہے حا فظہ ابن قیم رحمۃ
اللہ علیہ نے ذکر فر ما یا ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹو پی پر
عمامہ با ند ھتے اور کبھی ٹو پی کے بغیر اور کبھی آپ ٹو پی ہی پہن لیتے اور عمامہ
استعما ل نہ فر ما تے اس مسئلہ میں گنجا ئش ہے کیو نکہ یہ ثا بت نہیں نبی کر یم
صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ استعما ل کر نے کا حکم دیا ہو یا آپ نے خود اس کی
ہمیشہ پا بند ی فرمائی ہو اور اس پر بھی تمام امت کا اجماع ہے کہ عما مہ نماز یا
جما عت کی صحت کے لئے شر ط بھی نہیں ہے تو اس کو لا ز م قرا ر دینا بھی دین میں
تکلف اور تشد د ہے اور جو شخص دین میں تکلف اور تشد د کو اختیا ر کر ے گا دین اس
پر غا لب آجا ئے گا ۔
فتاویٰ اسلامیہ/ج1ص502
فتاویٰ اسلامیہ/ج1ص502
🌏 سیاہ عمامہ افضل ہے یا سفید :
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’
کپڑوں میں سے افضل کپڑے سفید ہیں۔ ‘‘ اس لیے سفید عمامہ یا خمار سیاہ وغیرہ کی بنسبت افضل ہے۔ ہاں معصفر کپڑے سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمادیا ہے۔
مسلم،کتاب اللباس،باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر۔ ترمذی،کتاب اللباس،باب ما جاء فی کراھیۃ المعصفر للرجال
کپڑوں میں سے افضل کپڑے سفید ہیں۔ ‘‘ اس لیے سفید عمامہ یا خمار سیاہ وغیرہ کی بنسبت افضل ہے۔ ہاں معصفر کپڑے سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمادیا ہے۔
مسلم،کتاب اللباس،باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر۔ ترمذی،کتاب اللباس،باب ما جاء فی کراھیۃ المعصفر للرجال
[’’رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے
فرمایا: تم سفید کپڑے پہنا کرو اس لیے کہ یہ تمہارے کپڑوں میں سے بہترین کپڑے ہیں
اور اپنے مردوں کو بھی اسی میں کفنایا کرو۔ ‘‘]
سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی البیاض ، سنن ترمذی، أبواب الجنائز، باب ما یستحب من الاکفان
سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی البیاض ، سنن ترمذی، أبواب الجنائز، باب ما یستحب من الاکفان
[ ’’ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے
فرمایا: ’’ سفید کپڑا پہنو اس لیے کہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہے اور اپنے مردوں کو
بھی اس میں کفن دو۔ ‘‘
صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر
صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر
’’ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ
والے دن مکے میں داخل ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ رنگ کی
پگڑی تھی۔ ‘‘
سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب أی الکفن خیر ( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام
سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب أی الکفن خیر ( صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام
’’ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ
بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مجھے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے
دیکھا تو دریافت فرمایا: کیا تیری ماں نے تجھے یہ کپڑے پہننے کا حکم دیا ہے؟ میں
نے عرض کیا کہ: میں انہیں دھوڈالوں۔ آپؐ نے فرمایا: بلکہ ان کو جلادے۔ ‘‘ ]
صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر/ رقم الحدیث : ٢٠٧٧
صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر/ رقم الحدیث : ٢٠٧٧
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 /صفحہ 764
جلد 02 /صفحہ 764
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment