Roza

روزہ

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
روزوں کی فرضیت
ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جو دین اسلام سے بدیہی اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل کے علاوہ اجماع بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾ أَيّامًا مَعدود‌ٰتٍ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَهُوَ خَيرٌ لَهُ وَأَن تَصوموا خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿١٨٤﴾ شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّنـٰتٍ مِنَ الهُدىٰ وَالفُرقانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (183) گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وه اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو (184) ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو "
البقرۃ:2/183۔185
واضح رہے کہ آیت مذکورہ (كُتِبَ) کے معنی ہیں"فرض کیا گیا ۔"اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(فَلْيَصُمْهُ)میں روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے جو فرض ہونے پر دلالت کرتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا بھی ذکر فرمایا ہے:
صحیح البخاری الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم حدیث 8 وصحیح مسلم الایمان باب ارکان الاسلام ودعائمہ العظام حدیث :16۔
الغرض رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور فضیلت میں بہت سی مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں علاوہ ازیں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں اور ان کا منکر کافر ہے۔
روزے کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے نفس انسانی کو ردی خیالات اور ذیل اخلاق سے پاک کیا جائے اور اس کا تزکیہ اور تطہیر ہو۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول سے انسانی بدن کے وہ رخنے تنگ ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے سے شیطان انسان کے جسم میں سرایت کرتا ہے کیونکہ۔
"إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَىَ الدَّم"
"شیطان خون کی طرح انسان کے رگ وپے میں چلتا ہے۔"
صحیح البخاری الاعتکاف باب ھل یدر المعتکف عن نفسہ ؟ حدیث 2039
جب کوئی شخص خوب کھاپی لیتا ہے تو اس کا نفس خواہشات کی پیروی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے جس سے انسان کی قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے عبادات میں رغبت کم ہو جاتی ہے جبکہ روزہ اس کے برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔
روزہ دنیا کے حصول کی تمنا اور اس کی فاسد خواہشات کو کم کرتا ہے آخرت کی طرف رغبت پیدا کرتا ہےمساکین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے کیونکہ روزے دار روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکالیف کا ذائقہ خود چکھتا ہے یاد رہے عربی زبان میں روزے کوصوم کہتے ہیں جس کے شرعی معنی میں "نیت کر کے کھانے پینے اور اجماع وغیرہ سے رکنا۔" نیز بے حیائی اور نافرمانی کی باتوں اور کاموں سے رکنا اس میں شامل ہے۔
دیکھیے : قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل/روزوں کے مسائل / جلد :01 /صفحہ : 315
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘
الملخص الفقہی:1/262۔263
احادیث نبوی سے استدلال :
۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری: 1808، مسلم :1080
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ
لسان العرب ، ج12ص443
یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری، 1814، مسلم1080
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ
اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘
و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔
(بخاری ومسلم)
یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ:
اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔
۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔
جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔
مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی
سیدناعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم روزہ نہ رکھو حتیٰ کہ چاند دیکھ لو اور افطار نہ کروحتیٰ کہ چاند دیکھ لو
اگرتم پر مطلع ابرآلود ہو تو گنتی پوری کر لو
(بخاری ،کتاب الصوم(
١٩٠٦) ۔مسلم ، کتاب باب وجوب صوم (١٠٨٠) )
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا
چاند دیکھ کر روزہ رکھواور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر مطلع
ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تیس دن پورے کرلو
(بخاری ،کتاب الصوم ،
١٩٠٩ ۔ مسلم ،کتاب الصوم ،١٠٨١ )
یعنی شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھو اگر نظر آجائے تو دوسرے دن روزہ رکھو اور اگر نظرنہ آئے یا مطلع ابرآلود ہو تو سیدنا عمّار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ
جس شخص نے اس دن( یعنی شک کے دن) کا روزہ رکھا اس نے یقینًا
ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی
(ابن ماجہ کتاب الصیام ،
١٦٤٠ ۔ابوداؤد کتاب الصیام ،٢٣٣٤
ترمذی ،
٦٨٦ ، نسائی ،٢١٩٠ ۔دارمی،١٦٨٢)
روزوں کے آداب :
روزے کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ احکام بجا لا کر اور ممنوع احکامات سے اجتناب کر کے اللہ عزوجل کے تقویٰ کو لازمی طورپر اختیار کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ي
ـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة
’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِی أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» صحيح البخاری، الصيام، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، ح:
۱۹۰۳۔
’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
ایک روایت میں جھوٹی بات ترک کرنے کے ساتھ جہالت کی باتیں ترک کرنے کا ذکر بھی ہے۔
٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ صدقہ، نیکی اور لوگوں کے ساتھ احسان کیا جائے
خصوصاً رمضان میں۔ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان میں جب جبرئیل آپ کے ساتھ قرآن مجید کے دور کے لیے آتے تو آپ مجسم جو دو سخا ہوتے تھے۔
٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جھوٹ، گالی گلوچ، دغا وخیانت، حرام نظر اور حرام چیزوں کے ساتھ دل بہلانے سے اجتناب کیا جائے اور ان تمام محرمات کو بھی ترک کر دیا جائے جن سے اجتناب روزہ دار کے لیے واجب ہے۔
٭ روزے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سحری کھائی جائے اور تاخیر کے ساتھ کھائی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَةً» صحيح البخاری، الصوم، باب برکة السحور، ح:
۱۹۲۳وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۵۔
’’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘
٭ روزے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ تر کھجور کے ساتھ روزہ افطار کیا جائے۔ تر کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کے ساتھ اور اگر خشک کھجور بھی موجود نہ ہو تو پھر پانی کے ساتھ افطار کر لیا جائے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یا جب ظن غالب ہو کہ سورج غروب ہوگیا ہے، تو فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» صحيح البخاری، الصوم، باب تعجيل الافطار، ح:
۱۹۵۷وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۸۔
’’لوگ ہمیشہ خیریت کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ394

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search