EID-UL-FITAR K AHKAMAT

 ◆◆◆◆ احکامِ عیدالفطر ◆◆◆◆
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
  🌙رویت ہلال:
ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ)
یعنین۲۹ دنوں پر رمضان کا اختتام کر کے عید الفطر شروع کرنے کیلئے کم از کم ۲ گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
(فإن شهد شاهدان فصوموا وأفطروا)
رواه أحمد 18416 والنسائي 2116
اس کے علاوہ حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے آپ فرماتے ہیں:
(عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنابشهادتهما)
رواه أبو داود 2338
 🌙رویت ہلال کی دعا:
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» (ترمذی)
سنن الترمذی ، مسند احمد 1397 ، سنن الدارمی 1730 ،امام طبرانیؒ نے الدعاء 903 ،امام ابوبکر ابن السنی ؒ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے ))
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي
بِلالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ
كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلاَلَ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے
تھے تو کہتے تھے: ”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور
اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
سنن الترمذي (3451 )
شیخ الالبانیؒ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے ، اور شیخ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک ضعیف ہے ، جیساکہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3451) إسناده ضعيف ¤ سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما
قال الشيخ الألباني: صحيح،
الصحيحة (1816) ، الكلم الطيب (161 / 114)
شبِ عید میں عبادت کی حقیقت :
شب عید ( چاند رات ) میں عبادت کی فضیلت کے ضمن میں دو احادیث پیش کی جاتی ہیں
- حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمَرَّارُ بْنُ حَمُّويَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ»
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى
كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے"
یہ روایت سنن ابن ماجہ بایں طور مروی ہے
سنن ابن ماجہ : 1782
- اسکی سند بقیہ بن ولید کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور متن منکر و موضوع ہے! اس مضمون کی کوئی بھی روایت شدید ضعف سے خالی نہیں ہے۔
- یہ روایت موضوع(من گھڑت ) ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی ” عمربن ہارون بلخی “ ہے۔جس کےمتعلق علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ
ابن معین نے اس کوکذاب کہا ہے۔اور محدثین کی جماعت نے اسے متروک قراردیا ہے ۔
( تلخیص المستدرک
٨٧/٤ )
- علامہ ذہبیؒ نے ایک مقام پراس راوی کےلیے ”کذاب خبیث “ کے الفاظ بھی استعمال کیےہیں۔(میزان الاعتدال٢٢٨/٢)
- علامہ البانیؒ نےبھی اس روایت کو خودساختہ قرار دیاہے۔ (السلسلة الاحادیث ضعیفہ١١/٢ )
اسی طرح کی ایک روایت ابن ماجہ میں بھی ہے۔وہ بھی بقیہ بن ولید نامی راوی کی وجہ سےسخت ضعیف ہے۔کیونکہ یہ راوی مدلس ہے۔محدثین نےاسکی تدلیس سےاجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔علامہ البانیؒ نےاس روایت کوسخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے ۔ السلسلة الاحادیث الضعیفہ
١١/٢ )
- مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ : لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ
عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
( منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 182)
موضوع (من گھڑت):
یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
الحاصل :
لہذا عیدین کی راتوں میں کوئی خاص عبادت کرنا درست نہیں ہے۔
مسنونات عید :
غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔
عید کی شرعئی حیثیت اوراس کا صحیح وقت
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔
شیخ ابو صالح العثیمینؒ رقمطرازہیں
نماز عید فرض عین ہے لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعًا نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کوبھی نماز عیدکےلیے باہرنکلنے کا حکم دیا۔حتّیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کوبھی (عید کی دعا میں شرکت کےلیے ) نکلنے کا حکم دیا۔البتہ وہ عیدگاہ سے الگ تھلگ رہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کی بہت یادہ تاکید ہے۔
لہٰذا یہ نماز فرض عین ہے اور یہی قول راجح ہے۔اسی قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اختیار کیا ہے۔لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے ۔اگرفوت ہو جائے تواسکی قضا ادا نہیں کی جائیگی۔کیونکہ وجوبِ قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔لہٰذا اسکے بدلےکوئی نماز نہیں پڑھی جائیگی۔البتہ نماز جمعہ کے فوت ہونےکی صورت میں نماز ظہرادا کرنا واجب ہے۔کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے۔لیکن نمازِ عید کےفوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضاء نہیں ہے۔
نمازِ عید کا صحیح وقت
امام بخاری نے تعلیقًا اورامام داؤد اورامام ابن ماجہ نے موصولاً حدیث روایت فرمائی ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ
أَوْ أَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .
صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید
الاضحیکے دن نکلے ، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو نا پسند کیا اور کہا :ہم تو
اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔
(ابو داؤد ، الجمعہ ، باب وقت الخروج الیٰ العید )
راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا ۔تو ثابت ہوا کہ سورج طلوع ہوجائے اور کراہت والا وقت گزرجائے ، سورج اچھی طرح روشن ہوجائے اور چمکنے لگے تو نمازِ عیدکا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔یعنی سورج کارنگ سفید ہوجائے ،کراہت کا وقت گزر جائے تو وقتِ نماز عیدالفطر تیار ہو جاتا ہے۔پوری کوشش کی جائے کہ عید کی نماز جلدی پڑھی جائے ۔عبداللہ بن بسرؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے بخوبی پتا چل رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے اور آپؐ تاخیر نہیں کرتے تھے۔
(1) ایک روایت اس طرح سے آئی ہے ۔
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي بنا يومَ الفطرِ والشمسُ على قيدِ رُمحيْنِ والأضحَى على قيدِ رُمْحٍ(ارواء الغلیل: 3/101)
ترجمہ: نبی ﷺ ہمیں عیدالفطر کی نماز دونیزے کے برابر سورج ہونے پرپڑھاتے اور عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ پر ہوتا ۔
شیخ البانی اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں معلی بن ہلال کے کذب پر سارے نقاد کا اتقاق ہے۔ دیکھیں ارواء الغلیل کا مذکورہ حوالہ۔
(2) ایک دوسری روایت اس قسم کی ہے ۔
أنَّ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - كتب إلى عمرو بنِ حَزْمٍ وهو بِنَجْرانَ : عَجِّلِ الأضحى وأَخِّرِ الفِطرَ وذَكِّرِ الناسَ۔
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے والی نجران عمروبن حزم کو لکھا کہ وہ عیدالاضحی میں جلدی اور عیدالفطر میں تاخیر کریں اور لوگوں کو (خطبہ میں) نصیحت کریں۔
یہ مرسل روایت ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہےاورشیخ البانی نے کہا کہ اس میں مہتم روای ہے ۔ دیکھیں (تخريج مشكاة المصابيح:1394)
کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور ہمیں اوپرمعلوم ہوا کہ نمازعیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنا چاہئے ۔
جناب ابوعمیر بن انس اپنے چچوں سے ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ، بیان کرتے ہیں:
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم(صحيح أبي داود:1157)
ترجمہ: ایک قافلے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ ہم نے کل شام کو چاند دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور اگلے دن صبح کو عید گاہ میں پہنچیں ۔
جمعہ کے دن عید کی صورت میں نمازِ جمعہ کا کیا حکم ہے؟
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ
ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف
(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی
نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں
پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔
لہٰذاجو شخص جمعہ کےدن نماز عیدپڑھ لے تواسے رخصت ہےکہ جمعہ نہ پڑھے ۔البتہ امام کے لیے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے ۔تاکہ مسجدمیں آنے والوں اور عید نہ پڑھ سکنے والوں کو جمعہ پڑھایا جائے۔اور اگر صورت حال یہ ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ آئے تو جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائےگا۔اور امام کو نمازظہر پڑھنی ہو گی ۔
استدلال سنن ابی داؤد کی اس روایت سے ہے جو ایاس بن ابی رملہ شامی سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ
الشَّامِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ أَشَهِدْتَ
مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ صَنَعَ؟
قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى الْعِيدَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ .
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں
جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر
آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر
جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے
۱؎ ۔
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاة ، باب اذا وافق یوم الجمعة یوم عید ، حدیث
١٠٧٠ )
ابو داؤد نے سنن ہی میں ایک اورحدیث بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَطَاءٌ:‏‏‏‏ اجْتَمَعَ يَوْمُ
جُمُعَةٍ وَيَوْمُ فِطْرٍ عَلَى عَهْدِابْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عِيدَانِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَمَعَهُمَا جَمِيعًا
فَصَلَّاهُمَا رَكْعَتَيْنِ بُكْرَةً لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِمَا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہوگئے
تو آپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھرآپ نے دونوں کو ملا کر
صبح کے وقت صرف دورکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی
۱؎۔
(سنن ابی داؤد ،صحیح حدیث
١٠٧٠ )
حضرت نعمان بن بشیرؓ سےروایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ،
‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَقَرَأَ بِهِمَا .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں اور جمعہ کے روز «سبح اسم ربك الأعلى»
اور«هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور بسا اوقات عید اور جمعہ دونوں
ایک ہی دن پڑ جاتا تو ( بھی ) انہیں دونوں کو پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم ، کتاب الجمعہ ، ح
٨٧٨ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو جمعہ کی رخصت ہے کہ جمعہ پڑھا جائے یا ظہرادا کی جائے ۔اور جو شخص نماز عید تو پڑھے مگرجمعہ نہ پڑھے تو اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ان دلائل کے عموم سے ثابت ہےجن میں واضح ہے کہ جو شخص نماز جمعہ نہ پڑھ سکے وہ نماز ظہر ادا کرے ۔
══عید کی نماز کا شرعی طریقہ══
عید کی نماز کا شرعی طریقہ درج ذیل ہے۔
نماز عیدین باہر عید گاہ میں ادا کرنا سنت ہے، یہ نماز اذان اور تکبیر کے بغیر ادا کی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب العیدین، 888)
عید کی نماز کا وقت نماز اشراق والا ہے۔(سنن ابی داؤد، باب وقت الخروج الی العید 1135)
عید گاہ کو جاتے ہوئے تکبیرات کہنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے۔ (ابن ابی شیبہ 1/489)
اس کا طریقہ یہ ہے کہ وضو کر کے قبلہ رخ ہوں اور دو رکعت نماز عید کی نیت کر کے اللہ اکبر کہیں رفع یدین کرتے ہوئے ہاتھ سینے پر باندھ لیں اور جس طرح عام نماز ادا کرتے ہیں اسی طرح ادا کریں فرق صرف اس قدر ہے کہ اس نماز میں زائد تکبیریں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
(ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر في الفطر والأضحى سبعا وخمسا سوى تكبيرتي الركوع)
"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں سات اور پانچ تکبیریں کہیں، رکوع کی دو تکبیروں کے علاوہ۔"
((ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی کم یکبر الامام فی صلاۃ العیدین 1280 ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب التکبیر فی العیدین 1150 دارقطنی، کتاب العیدین، 2/57'1710'1704 بیہقی 3/276 المسند لابن وھب ق 27/1 کتاب العیدین للفریابی، باب ما روی فی تکبیر الامام بالصلاۃ فی العید و کم یکبر، 107 شرح معانی الآثار 2/399 ارواء الغلیل 3/101'639 التحقیق لابن الجوزی 1/508))
یہ روایت عبداللہ بن لھیعہ کی وجہ سے حسن ہے۔ حافظ ابن حجر، عسقلانی فرماتے ہیں:
" صدوق من السابعة خلطه بعد احتراق كتبه و رواية ابن المبارك و ابن وهب عنه اعدل من غيرهما وله فى مسلم بعض شئ مقرون "((تقریب ص: 186))
"یہ ساتویں طبقے کا صدوق راوی ہے اس کی کتابیں جلنے کے بعد اسے اختلاط ہو گیا تھا اور عبداللہ بن المبارک اور عبداللہ بن وھب کی اس سے روایت دوسروں کی نسبت زیادہ انصاف پر مبنی ہے اور صحیح مسلم میں اس کی بعض روایتیں متابعت میں مروی ہیں۔"
امام ابن حبان فرماتے ہیں: یہ صالح راوی تھا لیکن ضعفاء سے تدلیس کر جاتا تھا پھر اس کی کتب جل گئیں اور ہمارے اصحاب کہتے تھے۔
" سماع من سمع منه قبل احتراق كتبه مثل العبادلة عبدالله بن وهب، و ابن المبارك، و عبدالله بن يزيد المقرى، و عبدالله بن مسلمه القعبنى فسماعهم صحيح "
جس راوی نے اس سے اس کی کتب جلنے سے پہلے سماع کیا اس کا سماع صحیح ہے جیسے عبادلہ یعنی عبداللہ بن وھب، عبداللہ بن المبارک، عبداللہ یزید بن المقری اور عبداللہ بن مسلمہ القعنی کی روایت:
(نهاية الاغتباط بمن رمى من الرواة بالاختلاط) (ص: 194)
اور مذکورہ روایت اس سے عبداللہ بن وھب نے ہی بیان کی ہے لہذا ان کی روایت اس سے قبل از اختلاط ہے اور سنن دارقطنی 1704 میں اسحاق بن عیسی کی سند میں عبداللہ بن لھیعہ کی خالد بن یزید سے تصریح بالسماع موجود ہے اور اسحاق بن عیسی کا سماع بھی عبداللہ بن لھیعہ سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے۔ (میزان الاعتدال 2/477)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عبداللہ بن لھیعہ کی خالد بن یزید عن ابن شہاب والی روایت کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے اس لئے کہ یہ اس سے عبداللہ بن وھب نے بیان کی ہے۔ (ارواء الغلیل 3/107'108)
امام ذھلی نے بھی اس طریق کو محفوظ قرار دیا ہے۔
(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی 2/ ق 107/ ب)
نوٹ: دار العلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی سید مہدی حسن شاہ جہانپوری عبداللہ بن لھیعہ کی توثیق امام احمد اور امام مالک سے نقل کر کے لکھتے ہین کہ "یہ بھی نہ ہو تو ان کی حدیث درجہ حسن سے گری ہوئی نہیں ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ سے ظاہر ہے۔" (مجموعہ رسائل، ص 322)
اسی طرح ابن لھیعہ سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "طریق مذکورہ کو ضعیف کہنا ضعیفوں کا کام ہے۔"
(مجموعہ رسائل، ص 323)
ہمارے زیر بحث روایت بھی ابن لھیعہ کے طریق سے ہے اور اس کے قدیم شاگردوں میں سے عبداللہ بن وھب روایت کرتے ہیں لہذا یہ روایت صحیح ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
(ان النبى صلى الله عليه وسلم كبر فى صلاة العيد سبعا و خمسا)
"بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہی ہیں۔"
((ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی کم یکبر الامام فی صلاۃ العیدین، کتاب العیدین للفریابی 135، المنتقی لابن الجارود 262، ابوداؤد، کتاب الصلاۃ باب التکبیر فی العیدین 1151'1152، شرح معانی الآثار 2/399، مسند احمد 2/80، بیہقی 3/280، دارقطنی 1712'1713'1714، عبدالرزاق 3/292'5677، ابن ابی شیبہ، باب فی التکبیر فی العیدین و اختلافھم فیہ 1/493'5694، التحقیق لابن الجوزی 1/508، الاوسط لابن المنذر 4/279)
اس حدیث کو امام احمد امام علی ابن عبداللہ مدینی، امام بخاری، امام نووی، حافظ عراقی اور حافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے۔
(التلخیص الحبیر 2/84 المجموع للنووی 5/20، الفتوحات الربانیۃ 4/241)
اس کی سند میں عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
"صدوق يخطى و يهم" (تقریب ص: 180)
امام یحیی بن معین نے فرمایا: صالح، امام ابن عدی فرماتے ہیں:
"يروى عن عمرو بن شعيب احاديثه مستقيمة وهو ممن يكتب حديثه" امام دارقطنی فرماتے ہیں: "طائفى يقنبر به"
امام عجلی فرماتے ہیں: "ثقة"
ابن شاہین فرماتے ہیں: "صالح"
(تھذیب التھذیب 3/194، الکامل لابن عدی 4/1485، تاریخ اسماء الثقات لابن شاھین رقم 655، معرفۃ الثقات للعجلی 2/45، کتاب الثقات لابن حبان 7/40)
البتہ بعض آئمہ نے اس پر کلام بھی کیا ہے اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی کی روایات متابقات و شواھد میں پیش کی جا سکتی ہیں۔
نوٹ:
اس قسم کے روات کے متعلق دیکھیں فتاوی رضویہ 5/179'180'184 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور۔
(قواعد فی علوم الحدیث ظفر احمد تھانوی، ص 215 مطبوعہ کراچی ص: 72 تا 75)
عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
(أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكبر في العيدين في الأولى سبعا قبل القراءة ، وفي الآخرة خمسا قبل القراءة)
"بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات اور پچھلی رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔"
(ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی التکبیر فی العیدین 536، ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا 1279، صحیح ابن خزیمہ 2/346'1439'138) مسند عبد بن حمید 290) الاوسط لابن المنذر 4/279 دارقطنی 1715 المعجم الکبیر 17/24'15 الکامل لابن عدی 6/2079 بیہقی 3/286 شرح السنۃ 4/309 التحقیق لابن الجوزی 1/508)
اس کی سند میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی متروک راوی ہے۔
(المغنی فی الضعفاء 2/227، میزان الاعتدال 3/406، کتاب المجروحین 2/221 تقریب 285، الکامل فی ضعفاء الرجال 6/2078، الجرح والتعدیل 7/758)
لیکن یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے دو شواہد کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(التكبير فى العيدين فى الركعة الاولى سبع تكبيرات وفى الاخيرة خمس تكبيرات)
"عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔"
(سنن الدارقطنی 1716، التحقیق لابن الجوزی 818، 1/59 مسند حارث بن ابی اسامہ 1/ق، 26/ ب معانی الآثار للطحاوی)
اس کی سند میں فرج بن فضالۃ ضعیف راوی ہے۔
(المغنی فی الضعفاء 2/186 میزان الاعتدال 3/343، تقریب، ص: 274)
طلحہ بن یحیی نے کہا:
مجھے مروان نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تاکہ میں ان سے استسقاء کی سنت کے بارے پوچھوں تو انہوں نے فرمایا: نماز استسقاء کا طریقہ نماز عیدین کی طرح ہے سوائے اس بات کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر پلٹی ہے۔ اس کا دایاں بائیں پر اور بایاں دائیں پر کر دیا اور دو رکعت نماز پڑھی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی قراءت کی اور دوسری رکعت میں "هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ" کی قراءت کی اور اس میں پانچ تکبیریں کہیں۔
(و سنن الدارقطنی، کتاب الاستسقاء 1782، مستدرک حاکم 1/326 بیہقی 3/348 التحقیق لابن الجوزی 844' 1/518'519)
اس کی سند میں محمد بن عبدالعزیز ضعیف ہے۔
(المغنی فی الضعفاء 1/340) اور اس کا باپ مجہول ہے۔ (التعلیق المغنی 2/66'67)
امام طبرانی نے المعجم الکبیر 10/357'10708) میں سلیمان بن ارقم از زھری از سعید بن المسیب از ابن عباس روایت کیا ہے کہ:
"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكبر فى العيدين اثنتا عشرة فى الاولى سبعا وفى الثانية خمسا وكان يذهب من طريق ويرجع من اخرى"
"بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں بارہ تکبیریں کہتے تھے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ اور ایک راستے سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس پلٹتے تھے لیکن اس کی سند میں سلیمان بن ارقم ضعیف راوی ہے۔" (مجمع الزوائد 2/204)
نافع مولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"شهدت الأضحى والفطر مع أبي هريرة فكبر في الركعة الأولى سبع تكبيرات قبل القراءة ، وفي الآخرة خمس تكبيرات قبل القراءة"
(مؤطا امام مالک، کتاب العیدین، باب ما جاء فی التکبیر القراۃ فی صلاۃ العیدین ص 162، کتاب الامام، باب التکبیر فی صلاۃ العیدین (1/270 بیہقی 3/288 عبدالرزاق 3/292'568 ابن ابی شیبہ 1/494، کتاب العیدین للفریابی، 112'113'114'115'109'110'111)
"میں نماز عید الاضحیٰ اور نماز عید الفطر میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر تھا انہوں نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں قراءت سے پہلے اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیریں قراءت سے پہلے کہیں۔"
بیہقی میں شعیب ابن ابی حمزہ کی نافع سے روایت میں ہے کہ: "وهى السنة" یہ سنت طریقہ ہے۔ اس اثر کی سند بالکل صحیح بلکہ اصح الاسانید ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ يُكَبِّرُ مَرَّةً وَاحِدَةً ، تَفْتَتِحُ بِهَا الصَّلاةُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ سِتًّا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُكَبِّرُ خَمْسًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ " (کتاب العیدین للفریابی 128)
"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عید الفطر کی نماز میں پہلے ایک تکبیر کہے جس کے ساتھ نماز کا افتتاح کیا جائے پھر چھ تکبیریں کہے پھر قراءت اور رکوع کرے پھر (رکعت سے فارغ ہو کر) کھڑا ہو پانچ تکبیریں کہے پھر قراءت کرے پھر تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے۔"
"عن ابن عباس انه كبر ثنتى عشرة تكبيرة فى يوم عيد"
"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عید کے دن میں 12 تکبیریں کہیں۔"
(احکام العیدین للفریابی 120 الاوسط لابن المنذر 4/274 عبدالرزاق 5676، 3/291، بیہقی 3/289
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 12 تکبیریں کئی اور طرق سے بھی مروی ہیں۔ مندرجہ ذیل بالا احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عیدین کی نماز میں قراءۃ سے قبل بارہ تکبیریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کہا کرتے تھے اور ان کے مطابق اہل الحدیث کا شروع سے لے کر آج تک عمل ہے۔
احناف کا موقف یہ ہے کہ نماز عید میں چھ زائد تکبیریں ہیں پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین زائد تکبیریں ہیں ہر تکبیر میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لئے جاتے ہیں دوسری رکعت میں قراءت کے بعد رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جائیں چوتھی تکبیر کے بعد رکوع اور باقی نماز مکمل کی جاتی ہے۔ گویا پہلی رکعت میں تکبیر افتتاح اور تین زائد تکبیریں کل چار تکبیریں گنی جاتی ہیں، اسی طرح دوسری رکعت میں تین زائد تکبیریں اور رکوع کی تکبیر شمار کر کے کل چار گنی جاتی ہیں۔ اس کے لئے ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔
سعید بن العاص نے حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی کتنی تکبیریں کہتے تھے حضرت ابو موسی نے بتایا کہ آپ چار تکبیریں کہتے تھے۔ جنازہ کی چار تکبیروں کی طرح حضرت حذیفہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی، ابو موسیٰ نے بتایا کہ میں خود بھی جب بصرہ کا گورنر تھا تو ایسے کرتا تھا۔
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب التکبیر فی العیدین 1153، ابن ابی شیبہ 1/493'5685، الاوسط لابن المنذر 4/277'2166 بیہقی 3/289 شرح معانی الآثار 2/439 کتاب الزیادات، باب صلوۃ العیدین کیف التکبیر فیھما)
اس روایت کی سند کمزور ہے اس میں درج ذیل علل ہیں۔ اس میں ابو عائشہ راوی مجہول ہے امام ذھبی فرماتے ہیں: "غیر معروف" میزان الاعتدال 4/543 امام ابن حزم اور امام ابن القطان نے بھی اسے مجہول قرار دیا ہے۔ تہذیب التہذیب 6/395، امام ابن القیم نے تہذیب السنن 2/31 میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن الجوزی فرماتے ہیں یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ (العلل المتناھیہ 1/475) علاوہ ازیں ابو عائشہ کے سوا اسے چار ثقہ راویوں نے موقوف روایت کیا ہے جن کے نام یہ ہیں۔
علقمہ اسود عبداللہ بن قیس کردوس
علقمہ اور اسود کی روایت مصنف عبدالرزاق 3/293'5687 عبداللہ بن قیس کی روایت شرح معانی الآثار للطحاوی 2/440 اور کردوس کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ 1/494'5706 میں موجود ہے۔
اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن ثوبان متکلم فیہ ہے امام احمد فرماتے ہیں:
"احاديثه مناكير لم يكن بالقوى فى الحديث" امام یحیی بن معین، عجلی اور ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں "لین" امام نسائی نے ضعیف اور ابن خراش نے کہا "فی حدیثہ لین" امام ابن عدی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے جب کہ علی بن مدینی، عمرو بن علی، دحیم اور ابو حاتم نے ثقہ قرار دیا ہے۔
صالح بن محمد فرماتے ہیں:
"شامى صدوق الا ان مذهبه القدر وانكروا عليه احاديث يرويها عن ابيه عن مكحول"
یہ شامی صدوق مگر قدری ہے اور محدثین نے اس کی ان روایتوں کا انکار کیا ہے جو یہ اپنے باپ کے واسطے سے مکحول سے روایت کرتا ہے۔(تھذیب التھذیب 3/346)
اور زیر بحث روایت اس کی اپنے باپ کے واسطے سے مکحول سے ہے لہذا یہ روایت مرفوعا ضعیف ناقابل حجت ہے جب کہ مکحول خود بارہ تکبیرات کے قائل تھے۔
برد فرماتے ہیں:
"كان مكحول يقول فى الصلاة فى العيدين يكبر سبع تكبيرات ثم يقرأ ثم يكبر خمس تكبيرات ثم يقرأ"
(احکام العیدین للفریابی 122، ابن ابی شیبہ 1/495'5715)
"مکحول عیدین کی نماز کے بارے کہتے تھے کہ نمازی سات تکبیریں کہے پھر قراءت کرے پھر دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہے پھر قراءت کرے۔"
یہ روایت بیہقی 3/290 میں ایک اور سند سے بھی مروی ہے جس میں مکحول ابو موسی کے قاصد سے روایت کرتے ہیں اور یہ قاصد مجہول ہے۔
اسی طرح مکحول عن سے روایت کرتے ہیں اور احناف کے ہاں بالخصوص ان کی عن والی روایت کمزور ہوتی ہے۔ جیسا کہ احسن الکلام وغیرہ میں موجود ہے۔
علاوہ ازیں اس کی سند میں نعیم بن حماد ہیں جن پر احناف کافی لے دے کرتے ہیں۔
امام طحاوی نے "شرح معانی الآثار 4/345 طبع مصر اور 2/438 طبع پاکستان میں بطریق عبداللہ بن یوسف از یحیی بن حمزہ از الوضین بن عطاء از القاسم ابو عبدالرحمٰن از بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت ذکر کی ہے کہ:
"صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ , فَكَبَّرَ أَرْبَعًا , وَأَرْبَعًا , ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ , قَالَ: لَا تَنْسَوْا , كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ , وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ , وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ"
"ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی آپ نے چار چار تکبیرات کہیں پھر نماز سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: نہ بھولنا عید کی تکبیرات جنائز کی تکبیرات کی طرح ہیں آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور اپنا انگوٹھا دبا لیا۔"
یہ روایت نقل کر کے امام طحاوی حنفی فرماتے ہیں:
"هذا حديث حسن الاسناد و عبدالله بن يوسف و يحيي بن حمزه والوضين والقاسم كلهم اهل رواية، معروفون لصحة الرواية"
"یہ حدیث حسن الاسناد ہے اور عبداللہ بن یوسف، یحیی بن حمزہ، الوضین بن عطاء اور قاسم ابو عبدالرحمٰن سب روایت کے اہل ہیں اور صحت روایت کے ساتھ معروف ہیں۔"
اس کی سند میں اگرچہ الوضین بن عطاء پر کچھ کلام کیا گیا اور ابن ترکمانی حنفی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ "هوواه" یہ کمزور راوی ہے۔ (الجوھر النقی 1/118)
لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث ہے جس طرح امام طحاوی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2997 میں ذکر کیا ہے اور امام طحاوی کی تائید کی ہے۔
علاوہ ازیں آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، طحاوی میں موجود ہے، اس کا ذکر احناف کے دلائل کے ضمن میں پہلی دلیل کے تحت گزر چکا ہے۔
عبداللہ بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ:
"صلى بنا ابن عباس يوم عيد فكبر تسع تكبيرات خمسا في الأولى وأربعا في الآخرة ، والى بين القراءتين"
(ابن ابی شیبہ 1/495'5708، شرح معانی الآثار للطحاوی 2/439 ارواء الغلیل 3/111)
"ہمیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز پڑھائی انہوں نے نو تکبیریں کہیں پہلی رکعت میں پانچ اور پچھلی رکعت میں چار تکبیریں کہیں اور دونوں رکعتوں میں قراءت پے در پے کی۔"
اس کی سند بھی صحیح ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے 12 تکبیرات والی روایت پہلے گزر چکی ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات کے بارے فرماتے ہیں:
"يمكن أن يقال : ان الروايات كلها صحيحة عن ابن عباس ، وانه كان يرى التوسعة في الأمر ، وانه يجيز كل ما صح عنه مما ذكرنا والله أعلم" (ارواء الغلیل 3/112)
"ممکن ہے کہ یوں کہا جائے: بلاشبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تمام روایات صحیح ہوں اور وہ اس مسئلہ میں وسعت کے قائل ہوں اور جو صحیح روایات ہم نے ان سے ذکر کی ہیں وہ یہ سب جائز قرار دیتے ہوں، واللہ اعلم۔"
علامہ البانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 6/1263'1264 میں فرماتے ہیں:
"والحق ان الامر واسع فى تكبيراتالعيدين، فمن شاء كبر أربعا أربعا بناء على هذا الحديث والآثار التي معه، ومن شاء كبر سبعا في الأولى، وخمسا في الثانية بناء على الحديث المسند الذي أشار إليه البيهقي، وقد جاء عن جمع من الصحابة، يرتقي بمجموعها إلى درجة الصحة، كما حققته في " إرواء الغليل" (رقم، 639)
"حق بات یہ ہے کہ تکبیرات عیدین میں معاملہ وسعت والا ہے جو چاہے چار چار تکبیرات کہے اس حدیث (طحاوی) اور اس کے ساتھ آثار پر بنیاد رکھتے ہوئے اور جو چاہے پہلی رکعت میں سات اور پچھلی رکعت میں پانچ تکبیرات کہے۔ اس مستند حدیث پر بنا کرتے ہوئے جس کی طرف امام بیہقی نے اشارہ کیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت سے مروی ہے اور مجموعی لحاظ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے جیسا کہ میں نے ارواء الغلیل رقم الحدیث (639) میں تحقیق کی ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
"و الحق أن كل ذلك جائز ، فبأيهما فعل فقد أدى السنة ، و لا داعي للتعصب و الفرقة ، و إن كان السبع و الخمس أحب إلي لأنه أكثر" (سلسلة الاحادیث الصحیحه 6/1264)
حق بات یہ ہے کہ تکبیرات عیدین ہر دو طرح جائز ہیں جس صورت پر بھی جس نے عمل کیا اس نے سنت کی ادائیگی کر لی، تعصب اور فرقت کا داعیہ نہیں ہونا چاہیے۔ 12 تکبیرات مجھے زیادہ پسند ہیں اس لیے کہ یہ زیادہ ہیں۔
مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ تکبیرات عیدین میں اہل حدیث اور احناف کے پاس ایسے دلائل صحیحہ موجود ہیں جو دونوں کی تائید کرتے ہیں البتہ اہل حدیث کے دلائل زیادہ اور ان کی نسبت قوی ہیں۔
ضد اور تعصب سے ہٹ کر سوچا جائے تو معاملہ وسعت پر مبنی ہے جس نے کسی بھی صورت پر عمل کر لیا اس کی نماز عید صحیح طور پر ادا ہو گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ضد اور ہٹ دھرمی سے محفوظ فرمائے اور کتاب و سنت کے صحیح دلائل کے تحت رہ کر ہر مسئلہ پر سوچ و بچار کی ہمت عطا فرمائے اور مخالفت در مخالفت سے بچائے۔
آمین ثم آمی
ــــــــــــــن یارب العالمین
◆◆ عید کی نماز کہاں پڑھی جائے :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عیدین کی نمازکھلے میدان میں پڑھتےتھے۔کسی چاردیواری یامسجد وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکبھی نمازِ عیدین ادا نہیں فرمائی ۔باوجود یہ کہ مسجدنبوی میں ایک رکعت کا ثواب عام مسجد سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن آپؐ نے کبھی بھی اپنی مسجد میں بھی نمازعید ادا نہیں فرمائی (بجز عذرِ باراں) ۔
حضرت ابو سعیدخدریؓ سےروایت ہے۔وہ بیان کرتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطراورعیدالضحیٰ کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ، باب الخروج الیٰ المصلی بغیرمنبر ، ح
٩٥٦ )
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ
جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏""أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ
لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نکلے اور ( عیدگاہ ) میں دو رکعت نماز عید
پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ "أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،
وَلَوْلَا مَكَانِي مِنَ الصِّغَرِ مَا شَهِدْتُهُ حَتَّى أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏
ثُمَّ خَطَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُنَّ
يَهْوِينَ بِأَيْدِيهِنَّ يَقْذِفْنَهُ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَبِلَالٌ إِلَى بَيْتِهِ"".
کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور
اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا ۔
آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔آپ نے وہاں نماز پڑھائی
پھر خطبہ دیا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے ۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی
تھے۔آپ نے انہیں وعظ اورنصیحت کی اورصدقہ کےلیےکہا۔چنانچہ میں نے دیکھاکہ عورتیں
اپنےہاتھوں سے بلال رضی اللہ عنہ کےکپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ گھر واپس ہوئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ""، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِي حَدِيثِ
حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سےبھی اسی طرح روایت کی ہے۔حفصہ رضی اللہ عنہاکی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ
دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
أَخْبَرَنِي نَافِعٌ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ
بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےآگےآگےلے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ،حدیث
٩٧٣ )
حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏
فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔
کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔ یہ سب مردوں کےپیچھےپردہ
میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس
دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَ هُمْ قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ،عَنْ جَابِرِ
بْنِ عَبْدِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِفَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ"
آپ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن
عیدگاہ تشریف لے گئے تو پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ سنایا۔
لہٰذا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ کھلے میدان میں نمازِ عیدادا کرنا مسنون ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھلے میدان میں عیدکی نماز ادا فرماتے تھے۔لہٰذا میدان میں نماز پڑھنا مسنون اور افضل ہے۔کسی عذر یا بارش کے بغیرمسقف مسجدمیں نمازِ عید پڑھنا درست نہیں۔امام مالکؒ کے نزدیک میدان افضل ہے۔اس کےلیے انہوں نے دو دلائل سے استدلال کیا ہے
؎
١ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عید کی نماز کھلےمیدان میں پڑھی ۔اور جس کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی اختیارکریں وہ مقام افضلیت سےنہیں اتر سکتا ۔
؎
٢ دوسری دلیل یہ ہے کہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان کی طرف نکلے اور فرمایا
لَو
ۡ لاَ اَنَّہُ السُّنَّةُ لَصَلَّیۡتُ فِیۡ المَسۡجِدِ
اگر میدان کی طرف نکلنا مسنون نہ ہوتاتومیں نمازمسجد میں پڑھتا
◆◆ بعذر بارش مسجد میں صلاةالعید کی صورت میں تحیةالمسجد :
نما زِعید اگر مسجد میں پڑھی جائے تو عمومِ حدیث کے پیش نظر تحیة المسجد پڑھنی چاہئے۔
بارش وغیرہ کی صورت میں نماز عید کا اہتمام مسجد میں کرنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیةالمسجد کا اہتمام کرنا لازم ہے ۔ چنانچہ عام صورت میں تحیةالمسجد کے التزام کے ٹھوس دلائل سے انحراف کے عذر نہیں تراشے جاتے ۔ لیکن عید کے دن عوام الناس یہ بہانہ بنا کرکہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاةالعید سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے، لہٰذا عید کے دن مسجد میں بیٹھنے سے قبل تحیةالمسجد پڑھنا ضروری نہیں ، جبکہ شریعت کی رو سے عیدین و غیر عیدین میں مسجد میں بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنا شرط ہے ۔ تحیّةالمسجد ایک سببی نماز ہے جو کسی وقت یا دن کے ساتھ خاص نہیں ۔ اسکی دلیل حسب ذیل ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ"".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
صحيح بخاري/كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
بَابُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ:
باب: جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
حدیث نمبر: 444
◆◆ عید کی نماز اور خواتین
نماز عیدین عورتوں پر بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے ۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
عَنْ اُمِّ عَطِیّۃَ قَا لَتْ : اُمِرْ نَا اَنْ نُخْرِجَ الحُیّضَ یَومَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَالْمُسْلِمِیْنَ وَ دَعْو تَھُمْ ،وَ تَعْتَزِلُ الُحیّضُ عَنْ مُصَلّاَ ھُنَّ ، قَالَتِ امْرَ اۃُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِحْدَانَا لَیْس لَھَا جِلْبَابُ ۔ قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَا حِبَتُھَا مِنْ جِلْبَا بِھَا ۔
ترجمہ ! ام ِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ عورتوں اور پردہ نشین لڑکیوں (کوُاریوں کو جوخدر میں بیٹھتی ہیں) کو بھی باہر (عید کے میدان میں ) لے جائیں ، تاکہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ دعاؤں میں شامل ہو سکیں ، البتہ حائضہ عورتوں کو صلوٰۃ کی جگہ سے علیحدہ رکھیں ۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ! ہم مین بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کیلئے ) چادر نہیں ہوتی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنی چادر کا ایک حصّہ اسے اوڑھا دے ۔
( صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب )
اے ایمان والو! غور کرو کہ عورتوں کا عید گاہ میں جانا کتنا ضروری ہے ،نماز نہ پڑھنے کے شریعی عذر ہونے کے باوجود ان عورتوں کو بھی رخصت نہیں دی گئی اور وہ لڑکیاں جو عرب کے دستور کے مطابق اپنا زیادہ تر وقت پردہ (خدر) کے پیچھے گزارتی تھیں ان کو بھی نکال کر عید کے میدان میں لانے کا حکم یہ ظاہر کر رہا ہےکہ ہر ایک کا عید کے میدان میں حاضر ہونا اشد ضروری ہے ۔
اے ایمان والو ! صلوٰۃ العیدین میں عورتوں کا جانا حکم رسول ﷺ سے ثابت ہے ۔
کیا آج کل اس حکم رسولﷺ پر یہ امت عمل کررہی ہے ����
یوں تو زبانی رسول اللہ ﷺ کا کلمہ تو سبھی پڑھتے ہیں مگر اکثریت فرمان رسولﷺ پرعمل نہیں کرتے کیا یہی ایمان بالرسالت ہے کہ زبانی دعویٰ امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت کا مگر عمل دوسروں کے اقوال پر ، ہر فرقہ وارانہ مذاہب کا امام الگ الگ کیوں ہے ؟
کیا یہ سب ایک امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی و اطاعت پر اکٹھے نہیں ہو سکتے جن کو اللہ تعالیٰ نے امام مقرر کیا ہے ۔؟؟؟
اے ایمان والو!
ذرا غور کیجیئے کہ جو لوگ عورتوں کو صلوٰۃ العیدین کے اجتماع میں جانے کے لیئے منع کرتے ہیں جو کہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لیئے اللہ کے رسول ﷺ کا حکم بھی ہے ، مگر شادی بیاہ کی جاہلانہ رسموں میں گانے بجانے کی محفلوں میں جانے کی اجازت تو عام ہے اور خوشی سے دیتے ہیں اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔
◆◆عورت کا عیدگاہ جانا صحیح احادیث سے ثابت ہے
نبی ﷺ نے عورتوں کو عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا لہذا خواتین کو نماز عید میں شریک ہونا چاہئےخواہ بوڑھی ہو جوان، شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اور بالغہ ہو یا نابالغہ یہاں تک آپ ﷺ نے حائضہ کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکے ۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا
الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ .قُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .
(صحیح البخاري :324وصحیح مسلم :890)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور
عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور
پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سےالگ رہیں لیکن
وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں،میں نےعرض کی یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سےکسی ایک کےپاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔ "
حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ،
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏"كُنَّانُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَمِنْ خِدْرِهَا
حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ
يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں
جانےکاحکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اورحائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔
یہ سب مردوں کے پیچھےپردہ میں رہتیں۔جب مرد تکبیر کہتےتویہ بھی کہتیں
اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل
کرنے کی امید رکھتیں۔ (صحیح البخاری #971 )
اس لئے عید کے دن خواتین کے لئے افضل ہے کہ وہ عیدگاہ جائیں ۔ ذمہ داروں کو چاہئے کہ خواتین کے لئے الگ سے خیمے کا انتظام کرے تاکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکے ۔ خواتین کا الگ سے عید کی نماز ادا کرنا مشروع نہیں ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏
قَالَ:‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ:‏‏‏‏ "أُمِرْنَا أَنْ نَخْرُجَ فَنُخْرِجَ الْحُيَّضَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ،
قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:‏‏‏‏أَوِ الْعَوَاتِقَ ذَوَاتِ الْخُدُورِ، ‏‏‏‏فَأَمَّاالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَالْمُسْلِمِينَ
وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلْنَ مُصَلَّاهُمْ"".
ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عیدگاہ لے
جائیں ابن عون نےکہاکہ یا(حدیث میں)پردہ والی دوشیزائیں ہےالبتہ حائضہ
عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں شریک ہوں اور ( نماز سے )
الگ رہیں۔( صحیح البخاری صحیح حدیث #
٩٨١)
ان احادیث سےثابت ہواکہ مردوں کےعلاوہ مستورات کابھی عیدگاہ میں جاکرنمازعیدمیں شریک ہونا مسنون ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں
شوکت اسلام کے لیے تمام افراد کا عورتوں اور بچوں سمیت عیدگاہ میں جانا مستحب ہے۔ “ (حجة اللہ البالغہ)
حافظ ابن حجرؒ نےاس مسئلہ پر تمام صحابہ اکرامؓ کا اجماع نقل کیا ہے ۔( فتح الباری )
البتہ اس سنت پر عمل کرنےکےلیے مندرجہ ذیل امورکوپیش نظر رکھنا چاہیے ۔
* عورتیں باپردہ ،سادہ لباس میں عیدگاہ جائیں اور مہکنے والی خوشبو وغیرہ سے اجتناب کریں ۔
* ظاہری آرائش وزیبائش سے بھی گریزکریں وگرنہ نیکی برباد گناہ لازم کے مترادف ہوگا ۔
* راستہ کے ایک طرف ہوکرچلیں اور مردوں سے اختلاط سے پرہیز کریں ۔
* عید گاہ میں تکبیرات اور ذکرالہیٰ میں مصروف رہیں اورادھرادھرکی باتوں میں وقت ضایع نہ کریں ۔
* شور وغل کرنےوالے شرارتی بچوں کوساتھ نہ لائیں جو نمازیوں کےلیےپریشانی کاسبب بنیں ۔
* عورتوں کا عیدگاہ جا کربناؤ سنگھارکی نمائش کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔عورتوں کو عام حالات میں بھی ان احکامات کا پابند کیا گیا ہے کہ
وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا
مَا ظَہَرَ مِن
ۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَایُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّالِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ
اَو
ۡاٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤاِخۡوَانِہِنَّ اَوۡبَنِیۡۤ
اَخَوٰتِہِنَّ اَو
ۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ
الَّذِی
ۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ
وَ تُو
ۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ سورة النور ....۳۱
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت
میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے
اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کوکسی کے سامنے
ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والدیا اپنے خسر کے یااپنےلڑکوں کے
یا اپنےخاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوںکے یااپنے بھانجوں
کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کےیا غلاموں کے یاایسےنوکر چاکر مردوں کےجو
شہوت والےنہ ہوں یاایسےبچوں کےجو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں
اوراس طرح زورزورسے پاؤں مارکرنہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے
،اےمسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔
* خوشبو لگا کرباہر نکلنا بھی عورت کے لیے جائز نہیں ہے ۔اورجو ایسا کرتی ہےوہ شریعت کی نظرمیں بدکار ہے۔
اگرکوئی عورت مذکورہ بالا احکامات کی خلاف ورزی کرتےہوئے نماز عید یا عام نماز کےلیے گھرسے باہرنکلے تو سرپرست کو چاہیے کہ انہیں روک دے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک ہے بصورت دیگروہ باہرجانے کے لیے ایسی عورتوں پر پابندی لگادیں ۔ عورت کو شمع محفل بننے کے بجائے چراغ خانہ بننا چاہیے تاکہ اسکی چادراور چاردیواری کا تحفظ ہو ۔
◆◆ عید کی رات قبروں کی زیارت :
یہ فعل باطل، حرام اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا سبب ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدین باننے والوں اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے
سنن ابی داود، الجنائز، باب فی زیارۃ النساء القبور، حدیث: 3236
عید کی رات قبروں کی زیارت بدعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے عید کی رات یا عید کے دن بطور خاص قبروں کی زیارت کی ہو، بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے:
(اياكم و محدثات المور‘ فان كل محدثه بدعة‘ وكل بدعة ضلالة) (سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم)
"اپنے آپ کو دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچاؤِ کیونکہ دین میں ایجاد کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔"
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادت اور ہر اس کام کے لیے جسے وہ تقرب الہی کے حصول کے لیے کرنا چاہتا ہو یہ دیکھے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ اصول یہ ہے کہ عبادات میں اصل ممانعت ہے الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس سے معلوم ہو کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ہے۔ عید کی رات قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں ہے کہ اس بات کی دلیل موجود ہے کہ یہ ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ میں ابھی بیان کر آیا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 2
◆◆نماز عید کے بعد ’’تقبل اللہ مناومنک‘‘ کہنا
اس بارے میں دو مرفوع روایتیں مروی ہیں:
۱: سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت (الکامل لابن عدی ج۶ ص۲۲۷۴، دوسرا نسخہ ۵۲۴/۷ وقال: ’’ھذا منکر……‘‘ المجروحین لابن حبان ۳۰۱/۲، دوسرا نسخہ ۳۱۹/۲، السنن الکبریٰ للبیہقی ۳۱۹/۳، العلل المتناہیہ لابن الجوزی ۴۷۶/۱ ح۸۱۱ وقال: ’’ھذا حدیث لایصح……‘‘ التدوین فی اخبار قزوین ۳۴۲/۱، ابوبکر الازدی الموصلی فی حدیثہ ق ۲/۳ بحوالہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ للالبانی ۳۸۵/۱۲۔ ۳۸۶ ح۵۶۶۶)
یہ روایت محمد بن ابراہیم بن العلاء الشامی کی وجہ سے موضوع ہے۔ محمد بن ابراہیم: مذکور کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: کذاب (سوالات البرقانی للدارقطنی:
۴۲۳)
حافظ ابن حبان نے کہا: وہ شامیوں پر حدیث گھڑتا تھا۔ (المجروحین
۳۰۱/۲، دوسرا نسخہ ۳۱۹/۲)
صاحب مستدرک حافظ حاکم نے کہا: اس نے ولید بن مسلم اور سوید بن عبدالعزیز سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الی الصحیح ص
۲۰۸ ت۱۹۱)
۲: سیدنا عباد بن الصامت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت (السنن الکبریٰ للبیہقی ۳۱۹/۳، ۳۲۰، امالی ابن شمعون: ۲۷۷، المجروحین لابن حبان ۱۴۹/۲، دوسرا نسخہ ۱۳۳/۲، العلل المتناہیہ ۵۷/۲۔ ۵۸ ح۹۰۰ وقال: ’’ھذا حدیث لیس بصحیح‘‘ تاریخ دمشق لابن عساکر ۶۹/۳۶)
اس کے راوی عبدالخالق بن زید بن واقد کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا:
’’منکر الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی:
۲۴۴)
امام بخاری نے فرمایا: میں جسے منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت بیان کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ (التاریخ الاوسط
۱۰۷/۲، دوسرا نسخہ: ہامش التاریخ الاوسط ۵۸۲/۳)
ملوم ہا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مکحول اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ نہ ہونے کی وجہ سے منقطع بھی ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس روایت کو سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری
۴۴۶/۲ تحت ح۹۵۲)
ان مردود روایات کے بعد اب بعض آثار کی تحقیق درج ذیل ہے:
(
۱) طاوی نے کہا: ’’وحدیثا یحیی بن عثمان قال: حدثنا نعیم قال: حدثنا محمد ابن حرب عن محمد بن زیاد الالهانی قال: کناناتی ابا امامة وواثلة بن الاسقع فی الفطر والاضحی ونقل لهما: تقبل الله منا و منکم فیقولان: ومنکم ومنکم‘‘ محمد بن زیاد الالہانی (ابوسفیان الحمصی: ثقہ) سے روایت ہے کہ ہم عید الفطری اور عید الاضحیٰ میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع (رضی اللہ عنہما) کے پاس جاتے تو کہتے: ’’تقبل اللہ مناومنکم‘‘ اللہ ہمارے اور تمھارے (اعمال) قبول فرمائے، پھروہ دونوں جواب دیتے: اور تمھارے بھی، اور تمھارے بھی۔ (مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی / اختصار الجصاص ۳۸۵/۴ و سندہ حسن) اس سند میں یحیی بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد دونوں جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔
اس روایت کو بھی ابن الترکمانی نے بغیر کسی حوالے کے نقل کرکے ’’حدیث جید‘‘ کہا اور احمد بن حنبل سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کیا۔ دیکھئے الجوہر النقی (
۳۱۹/۳۔ ۳۲۰)
(
۲) قاضی حسین بن اسماعیل المحاملی نے کہا: ’’حدثنا المهنی بن یحیی قال: حدثنا مبشر بن اسماعیل الحلبی عن اسماعیل بن عیاش عن صفوان بن عمرو عن عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر عن ابیه قال: كان اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم اذا التقوا یوم العید یقول بعضهم للبعض: تقبل الله مناومنک‘‘
جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ /تابعی) سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو تقبل اللہ مناومنک کہتے تھے۔ (الجزء الثانی من کتاب صلوۃ العیدین مخطوط مصور ص
۲۲ ب و سندہ حسن)
اس روایت کی سند حسن ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
دیکھئے فتح الباری (
۴۴۶/۲ تحت ح۹۵۲)
۳: صفوان بن عمرو السکسکی (ثقہ) سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن بسر المازنی (رضی اللہ عنہ) خالد بن معدان (رحمہ اللہ) راشد بن سعد (رحمہ اللہ) عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ) اور عبدالرحمن بن عائذ (رحمہ اللہ) وغیرہم شیوخ کو دیکھا وہ عید میں ایک دوسرے کو تقبل اللہ مناومنک کہتے تھے۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۰۶/۲۶، ترجمہ: صفوان بن عمرو، و سندہ حسن)
۴: علی بن ثابت الجزری رحمہ اللہ (صدوق حسن الحدیث) نے کہا: میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) سے عید کے دن لوگوں کے ’’تقبل اللہ مناومنک‘‘ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل جاری ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج۹ ص۹۰ و سندہ حسن)
۵: امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھے عید کے دن یونس بن عبید ملے تو کہا: ’’تقبل اللہ مناومنک‘‘ (کتاب الدعاء للطبرانی ج۲ ص۱۲۳۴ ح۹۲۹ و سندہ حسن)
اس روایت کے راوی حسن بن علی المعمری ان روایات میں صدوق حسن الحدیث تھے، جن میں ان پر انکار نہیں کیا گیا تھا اور اس روایت میں بھی ان پر انکار ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھئے لسان المیزان بحاشیتی (ج
۲ ص۴۱۴۔ ۴۱۵)
۶: طحاوی نے اپنے استاذوں اور معاصرین بکار بن قتیبہ، امام مزنی، یونس بن عبدالاعلیٰ اور ابوجعفر بن ابی عمران کے بارے میں کہا کہ جب انھیں عید کی مبارکباد دی جاتی تو وہ اسی طرح جواب دیتے تھے۔ (مختصر اختلاف العلماء ج۴ ص۳۸۵)
ان آثار سے معلوم ہوا کہ عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ مناومنک‘‘ کہنا (اور مبارکبباد دینا) جائز ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)/جلد : 2/صفحہ :131
◆◆ عورت کا دوسری عوتوں کی الگ جماعت کرانا
عورت دوسری عورتوں کی علیحدہ جماعت نہیں کرا سکتی ۔کیونکہ عورتوں کا عید گاہ کی نماز مَردوں سےالگ پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ اتنی بات ثابت ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ شاید آپؐ عورتوں کو عید کا خطبہ نہیں سنا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کے موقعہ پر پھربعدمیں الگ وعظ فرمایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏بِمَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَشَى إِلَيْهِنَّ
وَبِلَالٌ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ فِي
ثَوْبِ بِلَالٍ.
اس میں یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ عورتوں کو نہیں
سنا سکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے اور بلال رضی اللہ
عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے،آپ نے انہیں وعظ ونصیحت کی اور صدقہ کاحکم
دیا، تو عورتیں بالی اور انگوٹھی بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔
(دیکھیے بخاری ، کتاب العیدین ، باب موعظة الامام النساء یوم عید )
◆◆ تکبیراتِ عید کا وقت :
حافظ ابن حجرؒ تکبیرات کے وقت ، ابتدء وانتہا کے بارےمیں فرماتےہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔صحابہؓ سے جوسب سے زیادہ صحیح روایت مروی ہے وہ سیّدنا علی کا قول ہے۔
سیّدنا حضرت علیؓ عرفہ کے دن نو ذاالحجة کی فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة کی عصرتک تکبیرات کہتے۔
( دیکھیے (صحیح ) السنن الکبریٰ للبیہقی ، صلاة العیدین ، باب من استحب ان یبتدی بالتکبیر
خلف صلاة الصبح ،
٣١٤/٣ حدیث ، ٢٦٧٥ ، امام حاکم نےالمستدرک٢٩٩/١ میں اور
حافظ ذہبیؒ نےاسےصحیح کہا ہے ۔اسکی سند صحیح ہے )
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطرکےدن گھر سےعیدگاہ تک باآواز بلند تکبیرات کہتے ۔
( السنن الکبریٰ للبیہقیؒ ، صلاة العیدین ، باب التکبیر لیلة الفطر ویوم الفطر
٢٧٩/٣ ،
ح
٦١٢٩ ،امام بیہقیؒ فرماتےہیں کہ حدیث ابن عمرموقوفًا صحیح ہے۔اسکی سندحسن ہے)
امام زہریؒ کہتے ہیں کہ لوگ عیدکےدن اپنےگھروں سے عیدگاہ تک تکبیرات کہتے ۔پھر امام کےساتھ تکبیرات کہتے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ;
٤٨٨/١،ح ٥٦٢٨ ، وسندہ صحیح )
سیدنا عبداللہ بن عبّاسؓ نو ذوالحجة نماز فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة عصر تک ان الفاظوں میں تکبیرات کہتے
اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اللہ سب سےبڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ سب سےبڑا ہے،بہت بڑا
اللہ سب سے بڑا ہے، اورسب سےزیادہ صاحب جلال ہے ، اللہ
سب سےبڑاہے۔اور اللہ ہی کےلیے ساری تعریف ہے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ;
٤٨٩/١،ح ٥٦٤٥، وسندہ صحیح ٤٩٠/١حدیث ٥٦٥٤ ،
وسندہ صحیح ، امام حاکم نے المستدرک
٢٩٩/١ میں اور ذہبیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ۔)
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی
ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
(البقرة:185)
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
(1)
اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
(2)
اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
(3)
اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
(4)
اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
(5)
اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔
◆◆ عید گاہ کس طرح جایا جائے
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ
بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ
خَالَفَ الطَّرِيقَ""، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَال مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏عَن فُلَيْحٍ،
عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ جَابِرٍ أَصَحُّ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل
کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے
اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
(صحيح البخاري:986)
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔
(جاری ہے )
◆◆ عید کا روزہ
عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی
کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(صحيح مسلم:1138)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي
سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ
وَالنَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الصَّمَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی
اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔
(صحیح حدیث ،صحیح البخاری ،
١٩٩١ )
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""يُنْهَى
عَنْ صِيَامَيْنِ وَبَيْعَتَيْنِ:‏‏‏‏ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُلَامَسَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَابَذَةِ"".
آپ نے فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت
سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت
کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔
( صحیح البخاری ، حدیث
١٩٩٣ ).
◆◆ عید کے دن کھانا
کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ
اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ""، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ:‏‏‏‏
حَدَّثَنِي أَنَسٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا،
کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان
کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔
(صحيح البخاري:953)
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔
◆◆ مسجد میں نماز عید کے لیے منبر استعمال کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز آبادی کے باہر عیدگاہ میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عید گاہ کی طرف باہر نکلتے تھے۔
صحیح بخاری، العید ین:95۔
لیکن کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں عید ین کا ادا کرنا صحیح ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ اگر بارش وغیرہ کا عذر ہوتو نماز عید مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے۔
بیہقی،ص:31،ج3۔
پھر یہ قاعدہ ہے کہ ضروریات ممنوع کا موں کو جائز اور مباح کر دیتی ہیں، لیکن خطبہ عید کے لیے منبر مشروع نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کااستعمال ثابت نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید کی ادائیگی کے بعد اپنا رخ پھیرتے اور لوگوں کے بالمقال کھڑے ہو جاتے،باقی تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے ، اس کے بعد گھر واپس تشریف لاتے۔
صحیح بخاری،العیدین:956
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ"عیدگاہ کیطرف منبر کے بغیر جانا "اس روایت میں صراحت ہے کہ سب سے پہلے مروان بن حکم نے عید گاہ میں منبر رکھوایا۔اس بناء پر ہمارا رجحان ہے کہ خطبہ عید کیلیے منبر کا استعمال مشروع نہیں ہےخواہ نماز عید مسجد میں ہی ادا کیجائے
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد3/صفحہ : 144
البتہ ایک دوسری حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر خطبہ عید ارشاد فرمایا۔ (صحیح ابن خزیمہ،الصلوٰۃ:1445)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سواری پر بیٹھ کر خطبہ عید دیا جا سکتا ہے لیکن منبر وغیرہ کا اہتمام درست نہیں۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد4۔صفحہ نمبر 138
◆◆ تکبیراتِ عیدین کے ساتھ رفیع الیدین
تکبیرات عیدین کے ساتھ رفیع الیدین کرنےکی بابت محدثین اکرام ” امام ابن المنذرؒ اور امام بیہقیؒ نے سیدنا ابن عمرؓ کی حدیث سےاستدلال کیا ہے۔جس میں ہے کہ ” اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہررکعت اور تکبیر کے ساتھ جو رکوع سےپہلے ہے
دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔“ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان محدثین کا مخالف نہیں ۔اور یہ استدلال قوی ہے۔اس بارے میں ائمہ کےاقوال بھی ملتےہیں۔
جیساکہ عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا” کیا امام نماز عیدین میں ہرتکبیرکےساتھ رفیع الیدین کرے ؟ انہوں نے جواب دیا ” ہاں وہ رفیع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں ۔
(المصنف ،لعبدالزاق
٢٩٧/٣ )
نیز امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ تکبیراتِ عیدین کے موقعہ پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ سنا نہیں۔
( الفریابی بحوالہ ارواء الغلیل
١١٣/٣ ) امام شافعیؒ اور امام بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں ۔(الامام ٢٣٧/١ )
لہٰذا تکبیرات عید کے ساتھ رفیع الیدین کرنا بہتر ہے ۔
◆◆ تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار :
۱:امام عبدالرحمن بن عمر و الاوز اعی الشامی رحمہ اللہ =ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
‘‘قلت للأّ وزاعی : فأرفع یدي کرفعي فی تکبیرۃ الصلوۃ؟قال: نعم، ارفع یدیک مع کلھن’’ میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں(عید میں) رفع یدین کروں ، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔(احکام العیدین للفریابی: ۱۳۶و إسنادہ صحیح)
۲:امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ= ولید بن مسلم سے روایت ہے کہ:
‘‘سألت مالک بن أنس عن ذلک فقال: نعم، ارفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئاً’’
میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں ، ہر تکبیر کےس اتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔(احکام العیدین:
۱۳۷، و إسنادہ صحیح)
تنبیہ: امام مالک کا ‘‘ ولم أسمع فیہ شیئاً’’ دو باتوں پر ہی محمول ہے۔
اول: میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔
دوم: میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔
اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزھری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
تنبیہ:۲: مجموع شرح المہزب للنووی(۵؍۲۶)الاوسط لابن المنذر (۴؍۲۸۲) اور غیر مستند کتاب المدونہ (۱؍۱۶۹)وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند و بے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
۳: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ =دیکھئے کتاب الام(ج۱ص۲۳۷)
۴: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ=دیکھئے مسائل الامام احمد، روایۃ ابی داود (ص۶۰)
۵:امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ=دیکھئے تاریخ ابن معین(روایۃ الدوری:۲۲۸۴)
معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اور شام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی(کذاب؍کتاب الضعفاء للعقیلی:۴ ؍۵۲و سندہ صحیح، الحدیث حضرو: ۷ص۱۷) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے، دیکھئے کتاب الاصل (۱؍۳۷۴ ، ۳۷۵)والا وسط لابن المنذر(۴؍۲۸۲) سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفیع الیدین کے قائل نہیں تھے
(مجموع :
۵؍۲۶والا وسط: ۴؍۲۸۲)یہ قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
بعض حنفیوں نے بغیر کسی سند متصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔ یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔
۱:بے سند ہے۔
۲: قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘ألا تعجبون من یعقوب، یقول علي مالا أقول’’ کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر للبخاری ج ۲ص ۲۱۰و فیات: عشر إلی تسعین و مائتہ ؍ و إسنادہ حسن ولہ شواہد‘‘فالخبر صحیح’’ انظر تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص ۱۲۲ت ۴۲۵) معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذاب سمجھتے تھے۔
تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔ (مصنف عبدالرزاق۳؍۲۹۷ح۵۶۹۹) اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ھمامدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔ سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ۳؍۲۹۳) یہ روایت ان دونوں سندوں کےساتھ ضعیف ہے۔
اختتام بحث: تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری ، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔ وما علینا إلا البلاغ۔
◆◆ طریقہ نماز
وضو کرکے قبلےکی طرف منہ کریں اور ” اَللہُ اَکۡبَرۡ “ کہتے ہوئے رفیع الیدین کریں ۔
( صحیح البخاری ، الاذان ، حدیث
٧٣٨ )
پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعاء استفتاح پڑھیں ۔
پھردعائے استفتاح پڑھ کرقرآت سےپہلے ٹھہرٹھہرکرسات تکبیریں کہیں۔
(حسن ، سنن ابی داؤد، الصلاة ،باب التکبیرفی العیدین ،حدیث
١١٥١
وسندہ حسن۔امام احمداورعلی بن مدینی نےاسےصحیح کہا ہے۔ )
پھرامام اونچی آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے ” الحمد شریف “ پڑھیں۔
پھر امام اونچی آواز سے قرآت کرے اور مقتدی چپ چاپ سنیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےعیدالضحیٰ اورعیدالفطر میں قٓ ۟ ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾۔اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾ پڑھاکرتےتھے۔
ایک اورروایت میں سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾اورہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾پڑھنےکابھی ذکرآیاہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ
عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ مَا كَانَ يَقْرَأُبِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ فَقَالَ كَانَ يَقْرَأُ فِيهِمَابِق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِوَاقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
مالک نےضمرہ بن سعید مازنی سےاورانھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سےروایت کی کہ حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو واقدلیثی سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ اور
عید الفطر میں کون سی سورت قراءت فرماتے تھے ؟ توانھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان
دونوں میں سورہ ق وَالْقُرْ‌آنِ الْمَجِيدِ اور سورہ اقْتَرَ‌بَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ‌ پڑھا کرتے تھے ۔
( صحیح مسلم ،صلاة العیدین ،حدیث
٨٩١ ۔ والجمعة ، حدیث ٨٧٨ )
بہتر ہے کہ سورة الفاتحہ کے بعد مسنون قرآت کی جائے ۔جب پہلی رکعت پڑھ کر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں اور قیام کی تکبیرکہہ لیں تو قرآت شروع کرنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏عَنْ
عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُفِي الْفِطْرِسَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا .
اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں
اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اوردونوں میں قرأت تکبیر ( زوائد )کے بعد ہے ۔
( حسن ، سنن ابی داؤد ، الصلاة ، باب التکبیر فی العیدین ، حدیث
١١٥١،
وسندہ حسن ، امام احمدؒ نے اسے صحیح کہا ۔)
پھر دو رکعتیں پڑھ کرسلام پھیر دیں ۔
◆◆ خطبہ عید
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے كثير بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے روايت بيان كى ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين ميں پہلى ركعت ميں سات تكبيريں اور دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيريں قرآت سے قبل كہيں.
امام ترمذى كہتے ہيں:
ميں نے محمد ـ يعنى بخارى رحمہ للہ تعالى ـ سے اس حديث كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا:
اس باب ميں اس حديث سے زيادہ صحيح كوئى نہيں.
اور ميں بھى يہى كہتا ہوں. اھـ
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز سے مكمل كر ليتے تو لوگوں كى طرح رخ كر كے كھڑے ہو جاتے، اور لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے رہتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں وعظ و نصحيت كرتے، اور انہيں حكم ديتے اور منع كرتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، يا پھر كسى چيز كا حكم دينا ہوتا تو اس كا حكم ديتے.
عيدگاہ ميں منبر نہيں ہوتا تھا جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چڑھ كر خطبہ ديتے، بلكہ لوگوں كے سامنے زمين پر كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے.
اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى كے دن عيدگاہ جاتے اور سب سے پہلے نماز پڑھاتے، اور نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كى سامنے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے تو لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے"
اس حديث كو مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سارے خطبے الحمد للہ سے شروع كرتے تھے، اور كسى بھى حديث ميں يہ بيان نہيں ملتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين كا خطبہ تكبير سے شروع كيا ہو.
لہٰذا نماز کے بعد امام مرد و خواتین کو وعظ و نصیحت کرے ۔ خطبہ صحیح قول کی روشنی میں سنت ہے، واجب نہیں ہے ۔ عید کی نماز کےبعد نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
مَن أحبَّ أن ينصرفَ فلينصرِفْ ، ومن أحبَّ أن يُقيمَ للخطبةِ فليُقِمْ۔
جو لوٹنا پسند کرے وہ لوٹ جائے اور جو خطبہ کے لئے رکنا چاہے وہ رک جائے۔
(صحيح النسائي:1570)
جمعہ کی طرح اس کا سننا واجب نہیں لیکن وعظ ونصیحت کو سنے بغیر جانا بھی نہیں چاہئے۔
عید کا ایک ہی خطبہ حدیث سے ثابت ہے ۔
خطبہ کھڑے ہوکر دینا ہے اور بغیر منبر کے دینا ہے ۔
( دیکھیے صحیح لبخاری ، العیدین حدیث
٩٥٦ ۔وصحیح مسلم، صلاة العیدین حدیث ٨٨٩ )
خطبہ کے بعد یا نماز عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا لہذا اس نئی ایجاد سے بچنا چاہئے۔
◆◆ عید کی مبارک باد
ہمارے معاشرےمیں جس دھوم دھام سےعید کے بعد مصافحہ و معانقہ کیا جاتا ہےاور ایکدوسرےسے بغلگیرہواجاتاہے یہ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اجمعینؓ سے بلکل ثابت نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
جس عمل پرہماری طرف سےکوئی امرنہ ہو وہ رد کردینے کے قابل ہے ۔
(صحیح مسلم ، الاقضیہ ،
٤٤٩٣ )
مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ سے کسی نے عیدکےدن مصافحہ و معانقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نےبڑےجامع الفاظ میں فرمایا
مصافحہ بعداز سلام آیا ہے۔عید کے روز بھی بنیتِ تکمیل سلام ، مصافحہ
تو جائز ہےلیکن بنیت خصوص عید ، بدعت ہے۔کیونکہ زمانہ رسالت و
خلافت میں یہ طریقہ مروج نہیں تھا ۔
( فتاوٰی ثنائیہ ، جلد
١ ، صفحہ ٤٥٠ )
امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا کہ لوگ عیدین کےمواقع پر ”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “سےایکدوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔اسکی شرعئی حیثیت کیا ہے۔آپ نے فرمایا
ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔کیونکہ اہل شام اسے ابوامامہ باہلیؒ سے
اسے بیان کرتے ہیں ۔اسکی سند جیّد ہے ۔
عید کےدن مبارک باد کی بابت فضیلة الشیخ محمدبن صالح العثیمینؒ رقمطراز ہیں
عید کی مبارک باد دیناجائز ہے لیکن اسکے لیے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ۔
لوگوں کا جو بھی معمول ہو وہ جائز ہے ۔بشرطیکہ گناہ نہ ہو ۔
( فتاوٰی ارکانِ اسلام )
امام ابن تیمیہؒ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کے موقعہ پر ایکدوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں کیا شرعئی طور پر اسکی کوئی بنیاد ہے ؟ اگر ہے تو اسکی وضاحت فرمائیں ۔امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا
عید کے دن نماز کےبعد”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِن
ۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد
دی جا سکتی ہے ۔کیونکہ چند ایک صحابہؓ سے یہ عمل مروی ہے ۔ اور امام احمد
بن حنبلؒ جیسے ائمہ اکرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے ۔اس کے متعلق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم یا نہی مروی نہیں ہے ۔ اس لیے
اس کےکرنے میں یا نہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے ۔
( فتاوٰی ابن تیمیہؒ ، جلد
٢٤ ، صفحہ ٢٥٣ )
امام ابن تیمیہؒ نے جن صحابہ اکرامؓ کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں
(1) * حضرت جبیر بن معطمؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ اکرامؓ جب عیدکےدن ملتے تو
تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِن
ۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد دیتے تھے ۔
( فتح الباری ، جلد
٣ ،صفحہ ٤٤٦ )
(2) * محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور دیگر صحابہ اکرامؓ کے
ہمراہ تھا ۔جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے توانہوں نے ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِن
ۡکُمۡ
کے ساتھ ایکدوسرے کو مبارک باد دی ۔
( الجواہر المقعی ، جلد
٣ ، صفحہ ٣٢٠ )
ان روایات کے پیش نظرمذکورہ الفاظ ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ“ سے مبارک باد تو دی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ ومعانقہ یا گلے ملنا ایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔اور کتب احادیث سے بعض روایات ایسی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت محسوس ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتایاگیا ہے۔لیکن وہ روایات محدثین کے معیارصحت پر پوری نہیں اترتیں ۔( سنن بیہقی ٣٢/٣ )
◆◆ عید کی مبارکباد اور عید کارڈ
اِمام ابن قُدامہ رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ''' المُغنی ''' میں نقل کیا کہ ، مُحمد بن زیاد نے کہا ''' میں ابی اُمامہ الباھلی رضی اللہ عنہُ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ہوا کرتا تھا ، وہ لوگ جب عید کی نماز سے فارغ ہوتے اور ایک دوسرےسے ملتے تو ایک دوسرے کو کہا کرتے ::: تَقَبَّلَ اللَّہ ُ مِنَّا و مِنکُم
اِمام احمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ اِس حدیث کی سند بہترین ہے ۔ یہ دُعائیہ الفاظ صحابہ ایک دوسرے کے لیے ادا کیا کرتے تھے ، بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے عید کے موقع پر عید کی نسبت سے کِسی کے لیے دُعا یا مُبارک باد کا کوئی ثبوت نہیں ، میں صحابہ رضی اللہ عنہُم کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے عید کی مُبارک باد کے طور پر اپنے اور آپ سب کے لئیے دُعا کرتا ہوں :::
( تَقَبَّلَ اللَّہ ُ مِنَّا و مِنکُم ) اللہ ہم سے اور تُم سے( ہمارے نیک عمل ) قُبُول فرمائے
"" عید مُبارک "" کہنا کوئی دُعا نہیں بنتا ، جی ہاں اگر اِس کے ساتھ ""اِنشاء اللہ ""بھی کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ """ اللہ عید مبارک کرے یا بنائے """ وغیرہ تو پھر یہ اِلفاظ دُعا کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ، اگر صرف ""عید مُبارک"" کو کھینچ تان کر دُعا مان بھی لیا جائے تو بھی یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے بہتر نہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( اَ تَستَبدِلُون َ الَّذِی ھُوَ اِدنیٰ بِالَّذِی ھُوَ خَیرٌ ) ( کیا ! تُم بہتر چیز کو گھٹیا چیز سے تبدیل کرتے ہو ) سورت بقرہ /آیت
٦١ ، عید مُبارک کہنے ، اور عید کارڈز کی اصل سوائے marry cristmas,happy cristmas,holy cristmas اور کرسمس کارڈز کے اور کُچھ نہیں ، خیر کے تین زمانے جِن کا ذِکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اُن میں یہ سب کہیں نہیں پایا جاتا تھا بلکہ اُن کے بعد صدیوں تک مُسلمانوں پر کافروں کے تسلط سے پہلے مُسلمان اِن کاموں یا چیزوں کو نہیں جانتے تھے ، پس یہ ہماری اسلامی رسمیں نہیں لہذا ہمیں اِنکو ترک کرنا اور مِٹا دینا چاہئیے ۔
( عادِل سُہیل ظفر )
◆◆ نمازعید کی قضا
٭ اگر کسی کو ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی ،جو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ۔ نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search