Thursday, December 31, 2020


 

السلام عليكم و رحمۃاللہ و برکاتہ
ان الله لا یستحی من الحق ( القرآن)
کیا مرد کے شرمگاہ کو عورت اور عورت کے شرمگاہ کو مرد چوم و چوس سکتا ہے؟
یہ سوال کئ برادر نے مجھ سے پوچھا لیکن اس چیز کے بارے میں مجھے علم نہیں تھا اس لئے میں نے اس سوال کو پوچھنا مناسب سمجھا اور ویسے بھی جو جاہل طبقہ ہے ہمارے سماج و معاشرے میں وہ اس میں زیادہ ملوث ہے
پلیز قرآن و سنت کی روشنی میں آپ میرے اس سوال کا جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں...!!!
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
خاوند كے ليے بيوى سے كوئى بھى فائدہ اٹھانااور اس سے خوش طبعى كرنا جائز ہے، صرف دبر ميں دخول ( يعنى پاخانہ والى جگہ كا استعمال) اور حيض و نفاس كى حالت ميں بيوى سے جماع كرنا حرام ہے، اس كے علاوہ سب جائز ہے، خاوند جو چاہے كر سكتا ہے مثلاً بوس و كنار اور معانقہ اور چھونا اور اسے ديكھنا وغيرہ. حتىٰ كہ اگر وہ بيوى كے پستان سے دودھ پى لے تو يہ بھی مباح استمتاع ميں شامل ہوتا ہے
اور شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
’’ رضاع الكبير لا يؤثر ؛ لأن الرضاع المؤثر ما كان خمس رضعات فأكثر في الحولين قبل الفطام ، وأما رضاع الكبير فلا يؤثر ، وعلى هذا فلو قدِّر أن أحداً رضع من زوجته أو شرب من لبنها : فإنه لا يكون ابناً لها ‘‘ (فتاوى إسلامية " ( 3 / 338 )
" بڑے شخص كى رضاعت مؤثرنہيں؛ كيونكہ مؤثر رضاعت تو دودھ چھڑانے سے قبل دو برس كى عمر ميں پانچ يا اس سے زائد رضاعت دودھ پينا ہے، بڑے شخص كى رضاعت مؤثر نہيں ہو گى اس بنا پر اگر فرض كر ليا جائے كہ كوئى شخص اپنى بيوى كا دودھ پى لے يا اس كے پستان كو چوس لے تو وہ اس طرح اس كا بيٹا نہيں بن جائےگا "
تاہم جدت پسند معاشرہ کا مغرب سے متاثر ہوکر انکے طور طریقوں کو اپنانا اب عام ہو گیا ہے جس نے شعبہ ہائے زندگی کے دوسرے معاملات کے علاوہ ازدواجی زندگی کے فطری طریقوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ان ہی طریقوں میں اورل سیکس بھی ایک قبیح عمل ہے
1⃣ اورل سیکس :
ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ ہمیں جانوروں کے بہت سارے افعال اختیار کرنے سے روکا ہے ۔ پھر جو قبیح اور گھٹیا افعال ہیں، مثلاً : ’’علی الاعلان مجامعت کرنا اور ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹنا‘‘ ان میں جانوروں کی مشابہت کو کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے؟
جانوروں سے انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ عقل سلیم رکھنے والوں نے اچھائی اور عقل سقیم والوں نے برائی سیکھا اور اسے اپنایا۔ صدیوں پہلے جب انسان نے دیکھا کہ بعض جانور اپنے منہ اور زبان سے ایک دوسرے کیشرم گاہ چاٹتے ہیں تب بعض مریض ذہنیت کے لوگوں نے اورل سیکس یعنی شرم گاہ چاٹنے کا قبیح طریقہ اپنایا جسے کوئی سلیم الفطرت انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا یا ہے۔
چنانچہ دائمہ فتوی کمیٹی کے مطابق
" ہمبستری کرتے وقت بیوی شوہر کا عضو تناسل منہ میں لینا ، اس عمل کو اورل سیکس کہا جاتا ہے اور یہ ایک ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے ،جو مغربی تہذیب کا دیا ہوا ایک غیر اخلاقی تحفہ ہے۔وہی زبان جس سے ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں پھر اسی زبان میں عضو تناسل ڈال لیں ،یہ کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہے۔"
فتاویٰ علمائے حدیث میں کتاب الصلاۃجلد 1 پر مذکور ہے کہ
" اگرچہ بعض اہل علم نے اس کو استمتاع کے عموم میں شامل سمجھ کر اس کی اجازت دی ہے۔ کیونکہ سوائے دبر کے بیوی سے ہر قسم کا استمتاع جائز ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ مغربی تہذیب کا اثر ہے جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ عمل تکریم انسانیت اور احترام مسلم کے منافی ہے۔ اللہ نے انسان کو اس سے بلند پیدا فرمایا ہے۔کیا کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب طرز عمل ہے کہ وہ جس منہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہو، اذکار پڑھتا ہو اور اللہ کی تسبیح کرتا ہو۔ اسی منہ کے ساتھ شرمگاہ کا بوسہ لے۔ نبی کریم کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے۔ اور استنجاء وغیرہ بائیں ہاتھ سے فرماتے تھے۔ جب ہاتھوں میں اتنی احتیاط کی جا سکتی ہے تو زبان تو پھر ایک افضل واعلی عضو ہے۔
لہذا آدمی کو چاہیئے کہ وہ مغرب کی مشابہت اختیار کرنے کی بجائے تکریم انسانیت اور احترام مسلم کا خیال رکھے اور اللہ تعالی کی جانب سے حلال کردہ امور سے استمتاع پر قناعت کرے۔ اور مشکوک امور سے اجتناب کرے۔
فتاویٰ علمائے حدیث/کتاب الصلاۃجلد 1
دائمہ فتوی کمیٹی اس بارے میں کہتی ہے
" مرد کی شرم گاہ منہ میں ڈالنے کے بارے میں ہمارا مؤقف ہےکہ اگر اس میں درج ذیل امور وارد نہ ہوں تو اس عمل کے قائل کو مطعون نہیں کیا جاسکتا اور اس پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا۔
(1) مرد کی شرمگاہ یعنی (عضو تناسل) کی نالی میں پیشاب کی ہلکی سی مقدار جمع رہتی ہے جب عورت اسے منہ میں ڈالتی ہے تو مذی کے ساتھ پیشاب کی یہ مقدار بھی اس کے منہ میں چلے جاتی ہے گویا وہ ایک نجس مادہ کو زبان لگاتی ہے اور یہ حرام ہے۔
(2) اگربالفرض صرف مذی یا منی کا اخراج ہی ہو تب بھی وہ ان دونوں کو زبان لگاتی ہے جبکہ حرام جاندار کے سب اعضاء خاص طور پر اندرونی سیالی اعضا ء حرام ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان کا گوشت اور خون بھی دوسرے مسلمان پر حرام ہے او رمذی اور منی گوشت کا حصہ ہیں۔ یہ بھی اسی طرح حرام ہوں گے۔
نوٹ: اگر ان دو قباحتوں سے بچا جاسکے تو عضا تناسل کو منہ میں ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔
عورت کی شرم گاہ کا معاملہ مردسے مختلف ہے ،کیونکہ اس کی شرمگاہ میں پیشاب اور قُبل(دخول کی جگہ) کے سوراخ کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے پیشاب کے پوری شرمگاہ پر اثرات ہوتے ہیں اگر خاوند صرف دخول والی جگہ پر زبان لگاتا ہے تب بھی یہ جگہ ہر وقت رطوبت سے تر رہتی ہے اور شہوت کے وقت مذی کے اخراج سے مزید رطوبت شدہ ہوجاتی ہے لہٰذا اس پر زبان لگانے سے اس مادہ کا لگنا لازمی امر ہوتا ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے۔ لہٰذا عورت کی شرمگاہ یعنی دخول کے سوراخ میں زبان لگانا درست نہیں ،کیونکہ انسان کی جسمانی اندرونی رطوبت بھی گوشت کے حکم میں ہے ہاں اس میں تھوک اور دودھ کا استثناء ہے جو کہ احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عائشہؓ کا تھوک نبیﷺ کے تھوک سے ملا اور بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے۔
2⃣ جواز کی صورت
(1) مرد کی شرمگاہ اگر رطوبت سے بچتے ہوئے منہ میں ڈال لی جائے تو بیوی کے لیے جائز ہے ۔
(2) عورت کی شرمگاہ کا ظاہری حصے کو زبان لگائی جاسکتی ہے کیونکہ اندرونی حصہ بروقت رطوبت زدہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم فتویٰ کمیٹی محدث فتوی
3⃣ کیا اورل سیکس کی کراہت کے بارے میں واضح حکم قرآن و سنت میں موجود ہے۔؟
شریعت کا اصول ہے یہ کہ "ہر عمل جائز ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں شریعت میں واضح ممانعت آگئی ہو۔" یہی اصول سیکس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شریعت نے میاں بیوی کے سیکس کے معاملے میں صرف دو امور کی ممانعت کی ہے:
1. ایک دوران حیض سیکس اور
2. دوسرے پیچھے کے مقام (دبر) میں سیکس۔
اس کے علاوہ باقی سب جائز ہے۔ اورل سیکس کے بارے میں اختلاف اس وجہ سے ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی واضح ممانعت نہیں آئی۔ چنانچہ فقہاء کے سامنے جب یہ صورت آئی تو انہوں نے قرآن و حدیث کے عمومی مزاج سے استدلال کیا ہے۔ بعض کے نزدیک چونکہ ممانعت نہیں آئی، اس لیے یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک چونکہ اس میں گندگی ہوتی ہے، اس وجہ سے ناجائز ہے۔ اس میں جواز کے قائلین میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی صاحب کا نام آتا ہے۔ نیز جو لوگ جواز کے قائل ہیں، وہ بھی مطلق جواز کے نہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو تیار کرتے ہوئے اگر منہ سے شرم گاہ وغیرہ کو چوم لیں تو اس میں حرج نہیں۔ تاہم مادہ منویہ کے منہ میں ڈسچارج کرنے کو وہ بھی غلط سمجھتے ہیں۔
4⃣ اگر اورل سیکس کے دوران عورت کا پانی منہ میں آ جائے تو کیا اس کو نگلنا حرام ہے۔ ؟
اورل سیکس ایک ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے ۔ جبکہ منی کو نگلنا ایک حرام عمل ہے ،کیونکہ احناف سمیت بعض فقہاء کے نزدیک منی بھی پیشاب اور پاخانے کی مانند نجاست مغلظہ ہے،لہذا نجاست ہونے کی وجہ سے اسے نگلنا حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5⃣اس فعل قبیح کا انجام
اس فعل قبیح کا انجام دنیا میں مندرجہ ذیل بیماریوں کا تحفہ ہے:
اعضائے تناسل کی ہرپیس۔Genital Herpes
اعضائے تناسل کی وارٹس ۔ Genital Warts
اندام نہانی کی سوزش ۔Bacterial Vaginosis
ہیومن پیپیلوما وائرس ۔ HPV
سوزاک۔ Gonorrhea
آتشک ۔ Syphlis
کلیمیڈیا ۔ Chlamydia
کینسر ۔Cancer
وائرل ہیپا ٹائٹس ۔ Hepatitis A, B and C
ٹرائکو مونیاسس۔ Trichomoniasis
انسانی جسم کے طفیلیے ( جیسےجووئیں‘ چچڑیاں وغیرہ)۔Public Lice
ایچ آئی وی انفیکشن اور ایڈز۔ HIV Infection and AIDS
وغیرہ وغیرہ
اینل سیکس یعنی دبر میں وطی کا تحفہ بھی یہ سب اور ان جیسے دیگر امراض ہیں۔
6⃣ بیوی کے دبر میں جماع حرام عمل ہے :
یوی کے پاخانے کی جگہ جماع کرنا ایک حرام اور ملعون عمل ہے،جس سے نبی کریم نے منع فرمایا ہے،اور ایسا کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوبھی اپنی بیوی کی دبر میں وطی کرے وہ ملعون ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2162 ) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔
یہ توتھی اس شخص پر لعنت جواپنی بیوی کی دبر میں وطی کرے توجوکسی اجنبی عورت کی دبر میں کرے اس کے بارہ میں کیا ہوگا ؟
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوشخص کسی حائضہ عورت یا پھر عورت کی دبر میں وطی کرے یا کسی کاہن کے پاس جاۓ تواس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ ( دین ) کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 135 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذي میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اوراگر خاوند اپنی بیوی کے ساتھ دبرمیں وطی کرنے پر اتفاق کرلیں اور تعزير لگاۓ جانے کے باوجود بھی باز نہ آئيں توان دونوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے گی ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جواپنی بیوی سے دبرمیں وطی کرتا ہے ؟
توان کا جواب تھا :
کتاب وسنت کے مطابق عورت کی دبرمیں وطی کرنا حرام ہے ، اورجمہورعلماء سلف اوربعد میں آنے والوں کا بھی یہی قول ہے ، بلکہ یہ لواطت صغری ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :
( بلاشبہ اللہ تعالی حق بیان کرنے سے نہيں شرماتا ، تم اپنی بیویوں کی دبر میں وطی نہ کیا کرو ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
’’ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھتیوں میں جس طرح چاہو آؤ ‘‘ البقرۃ ( 223 ) ۔
اورکھیتی بچے کی جگہ ہے کیونکہ کھیتی کاشت اوربونے کی جگہ ہوتی ہے ، اوریھودیوں کا کہنا تھا کہ جب خاوند بیوی کی دبر میں وطی کرے تواولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی ، اورمرد کے لیے مباح قرار دیا کہ عورت کی فرج میں جس طرف سے مرضی جماع کرے ۔
اورجس نے بھی بیوی کی دبر میں وطی کی اوربیوی نے بھی اس کی اطاعت کی تودونوں کوتعزیر لگائی جاۓ گی ، اوراگر تعزیر کے بعد بھی وہ باز نہ آئيں توجس طرح فاجراورجس کے ساتھ فجور کا ارتکاب کیا گیا ہوان کے درمیان علیحدگی کردی جاتی ہے اسی طرح ان دونوں کے درمیان بھی علیحدگي کردی جاۓ گی ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری ( 3 / 104 - 105 ) ۔
اس قبیح اور حرام عمل کے ارتکاب پر کوئی کفارہ تو نہیں ہے ،ہاں البتہ گناہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے آپ کو جلد از جلد اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہئے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرنا چاہئے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
فتاویٰ ثنائیہ/جلد 01
" فتاویٰ اسلامیہ " جلد3 میں صفحہ نمبر284 پر ملاحظہ فرمائیے
یہ انتہائی برا کام ہے۔ ابو دائود، نسائیؒ اور کئی دیگر محدثین نے جید سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
((ملعون من أتى امرأة في دبرها ))
(سنن أبي داؤد)
’’وہ شخص ملعون(لعنتی) ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں وطی(اجماع) کرے۔‘‘
عورت کی دبر میں جماع کرنا جائز نہیں ہے ۔ یہ انتہائی برا کام ہے۔ ابو دائود، نسائیؒ اور کئی دیگر محدثین نے جید سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
((ملعون من أتى امرأة في دبرها ))
(سنن أبي داؤد)
’’وہ شخص ملعون(لعنتی) ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں وطی(اجماع) کرے۔‘‘
اور نہ یہ جائز ہے کہ حالت حض و نفاس میں جماع کیا جائے بلکہ یہ تو کبیرہ گناہ ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ ۖ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ ۖ وَلا تَقرَ‌بوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُر‌نَ ۖفَإِذا تَطَهَّر‌نَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَ‌كُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّر‌ينَ ﴿٢٢٢﴾نِساؤُكُم حَر‌ثٌ لَكُم فَأتوا حَر‌ثَكُم أَنّىٰ شِئتُم... ﴿٢٢٣﴾... سورة البقرة
’’اور آپ سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دیجئے وہ تو نجاست ہے، سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہو جائیں ان سے متقاربت نہ کرو ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے، ان کے پاس جائو کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے، تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا ہے کہ حالت حیض میں عورتں سے کنارہ کشی ضروری ہے اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے ساتھ مقاربت(جماع) کرنے منع کردیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حالت حیض میں جماع کرنا حرام ہے، نفاس کا بھی یہی حکم ہے اور جب وہ غسل کر کے پاس ہو جائیں تو پھر شوہر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس جائے جس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ کہ قبل میں جماع کرے کیونکہ کھیتی کا مقام یہی ہے جب کہ دبر تو نجاست اور غلاظت کا مقام ہے، یہ کھیتی کی جگہ نہیں ہے۔، لہٰذا بیوی کی دبر میں جماع کرنا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت مطہرہ میں یہ کبرہ گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے امام دائود اور نسائیؒ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((ملعون من أتى امرأة في دبرها )) (سنن أبي داؤد)
’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں جماع کرے۔‘‘
امام ترمذی و نسائیؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لا ينظر الله إلى رجل أتى رجلا أو امرأة في الدبر )) ( جامع الترمذي)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مرد سے یا اپنی بیوی کی دبر میں جنسی عمل کرے ۔‘‘
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دبر میں جنسی عمل لواطت ہے جو مردوں اور عورتوں سب کے لئے حرام ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے قوم لوط کے تذکرہ میں فرمایا ہے۔
﴿وَلوطًا إِذ قالَ لِقَومِهِ إِنَّكُم لَتَأتونَ الفـٰحِشَةَ ما سَبَقَكُم بِها مِن أَحَدٍ مِنَ العـٰلَمينَ ﴿٢٨﴾... سورة العنكبوت
’’بلا شبہ تم(عجب) بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو، تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا۔‘‘
اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لعن الله من عمل قوم لوط )) ( مسند أحمد)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جو قوم لوط جیسا عمل کرے۔‘‘
آپﷺ نے یہ تین بار فرمایا، اس حدیث کو امام احمدؒ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔تمام مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کام سے پرہیز کریں نیز ہر اس کام سے اجتناب کریں جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو، مردوں کو چاہیے کہ وہ اس برے کام سے اجتناب کریں نیز عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس سے اجتناب کریں اور اپنے شوہروں کو یہ بہت ہی برا کام یعنی حالت حیض و نفاس یا دبر میں صحبت نہ کرنے دیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو ہر اس کام سے عافیت و سلامتی عطا فرمائے جو اسکی شریعت مطہرہ کے خلا ف ہو۔
فتاوی البانیہ

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

1 comment:

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search