ITIKAF K AHKAM O MASAIL


اعتکاف کے احکام و مسائل

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
اعتکاف :
عبادت کی نیت سے مسجد میں گوشہ نشین ہونا اعتکاف کہلاتا ہے، رمضان کے پورے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
اعتکاف عکوف سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی کسی جگہ بیٹھ جا نا ہے۔ لیکن اصطلاحِ شرع میں کسی شخص کا ایک خاص مدت کے لئے مخصوص صفت کے ساتھ مسجد کے ایک گوشہ میں اقامت گزین ہونا اور خلوت و تنہائی میں اللہ کی عبادت یعنی نوافل، تلاوتِ قرآن و حدیث، ذکر و اذکار کے لئے وقف ہو جانا ہے۔ ملاحظہ کیجئے طرح التثریب ۴/۱۶۶ مفر دات القرآن ص ۳۴۳، شرح مسلم للنووی۷/۶۶۔یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت مؤکدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال کسی سفر کی بنا پر اعتکاف چھوٹ گیا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کر لیا۔ حدیث میں آتا ہے:
(( عن عبد اللہ بن عمر قال کان النبی صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان .))
اور لغوی اعتبار سےاعتکاف کا معنی کسی چیز پر جم کر بیٹھ جانا اور نفس کو اسکے ساتھ لگائے رکھنا ہے۔اور شرعئی اعتبارسےتمام دنیاوی معاملات ترک کرکے عبادت کی نیت سےاللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی خاطرمسجد میں ٹھہرنےکا نام اعتکاف ہے۔
اعتکاف میں بیٹھنے والےکو ” مُع
ۡتَکِفۡ “ کہتے ہیں اورجائے اعتکاف کو ” مُعۡتَکَفۡ “ کہا جاتا ہے۔اعتکاف سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شوّال کےمہینے کا اعتکاف بھی ثابت ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی عشرے کا بھی اعتکاف کیا ہے لیکن افضل آخری عشرے کا اعتکاف ہے اسلیے کہ نبی کریمؐ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے جا ملے ۔سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرےکا اعتکاف کرتے تھے
حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت کردیا ۔ پھر آپؐ کے
بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں ۔
( بخاری ، ابواب الاعتکاف ، باب الاعتکاف فی العشر الآخر ،
٢٠٢٦ )
جو شخص رمضان کے آخری دہے میں اعتکاف کرنا چاہتا ہو اسے بیسویں رمضان کو دن کے آخری حصے میں آفتاب غروب ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جانا چاہئے اور اکیسویں تاریخ کی رات مسجد میں گزارنی چاہئے، مرد، عورتیں، نابالغ بچے بھی اعتکاف کر سکتے ہیں، لیکن عورتوں کو شوہر کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔
''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری دس دن اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔'' (بخاری۱۲۷۱)
(( عن أبى بن كعب أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف الأواخر من رمضان فسافر عاما فلم يعكتف فلما كان العام المقبل اعتكف عشرين .))
''سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا ، اعتکاف نہ کیا تو آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔'' (نسائی، ابو دائود، ابن حبان، فتح الباری۱/۳۳۲)
مسنون اعتکاف یہ ہے کہ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا جائے البتہ اس سے کم وقت یعنی ایک دن یا رات وغیرہ کے لئے اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروہی ہے:
(( أن عمر سأل النبى صلى الله عليه وسلم قال كنت نذرت فى الجاهلية أن أعتكف ليلة فى المسجد الحرام فقال فأوف بنذرك.))
''سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی نذر پوری کر۔ ''(بخاری۱/۲۷۲)
یہی حدیث امام ابنِ ماجہ رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں باب فی اعتکاف یوم اولیلة (یعنی ایک دن یا رات کا اعتکاف کرنا ) میں لائے ہیں۔ (
۱/۵۲۳۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دن رات یا کچھ حصے کی نذر مان لیتا ہے کہ میں اتنا وقت اعتکاف کروں گا تو اسے نذر پوری کرنی چاہیے۔
علاوہ ازیں رمضان کے مہینے کے علاوہ بھی دیگر مہینوں میں اعتکاف ہو سکتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ (بخاری
۴/۲۲۶، مسلم۱۱۳۷)
شرائط: اعتکاف مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ مشروع و جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ...
١٨٧﴾... البقرۃ
''اور تم ان سے مباشرت نہ کرو، اس حال میں کہ تم مساجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہو۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہی بات شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:
(( السنة لا اعتكاف إلا بصوم ولا اعتكاف إلا فى مسجد جامع ))
''سنت یہ ہے کہ اعتکاف روزہ کی ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہے''۔ (ابو دائود
۱/۳۳۵)
دیکھیے : آپ کے مسائل اور ان کا حل/ج 1
کیا اعتکاف واجب ہے :
اعتکاف میں اصل تویہ ہے کہ اعتکاف کرنا واجب نہيں بلکہ سنت ہے ، لیکن جب کوئي اعتکاف کی نذر مانے تویہ واجب ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی نذر مانی اسے اطاعت کرنی چاہیے ، اورجس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6696 ) ۔
اور اس لیے بھی کہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا : اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دور جاہلیت میں مسجد حرام کے اندر ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6697 ) ۔
اورابن منذر نے اپنی کتاب " الاجماع " میں کہا ہے :
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ اعتکاف کرنا سنت ہے ، لوگوں پر واجب وفرض نہیں ، لیکن اگر کوئي نذر مان کر اپنے آپ پر واجب کرلے تواس پرواجب ہوجائے گا ۔ اھـ
دیکھیں الاجماع لابن المنذر ( 53 ) ۔
دیکھیں کتاب " فقہ الاعتکاف ، تالیف ڈاکٹر خالد المشیقع صفحہ نمبر ( 31 ) ۔
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
کیا اعتکاف کی نیت کے مخصوص الفاظ ہیں؟
تمام عملوں کا دارومدار نیت پرہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ:تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث کی رو سے نیت دل کے ارادے کا نام ہے ۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا درست نہیں ہے
کچھ لوگوں نے اعتکاف کی نیت کے لئے خود ساختہ الفاظ بنائے ہوئے ہیں جیسے
* نویت سنۃ الاعتکاف(میں نے مسنون اعتکاف کی نیت کی)۔
*
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺩﺧﻠﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﺗﻮﻛﻠﺖ ﻧﻮﻳﺖ ﺳﻨﺔ ﺍﻻﻋﺘﻜﺎﻑ( اللہ کے نام سے داخل ہوا اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں اور سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں )۔
اس قسم کے الفاظ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت نہیں ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوی میں نیت کے متعلق ذکر کرتے ہیں :
النية هي القصد والإرادة والقصد والإرادة محلهما القلب دون اللسان باتفاق العقلاء۔
نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں ،اس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔
مزید لکھتے ہیں :
فلو نوى بقلبه صحت نيته عند الأئمة الأربعة وسائر أئمة المسلمين من الأولين والآخرين۔
اگر کسی نے دل سے نیت کرلی تو اس کی نیت چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل) اور مسلمانوں کے اگلے پچھلے تمام اماموں کے نزدیک صحیح ہے ۔
لہٰذا اعتکاف کی نیت کے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ، ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل) کا بھی یہی مسلک ہے، لہذا اعتکاف کے لئے نیت کے مقصد سے مخصوص الفاظ میں زبان سے ادا کرنا بدعت کا ارتکاب ہے ، بدعت سے بچنا ضروری ہے کیونکہ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کے فرامین ہیں :
من عملَ عملا ليسَ عليهِ أمرُنا فهو ردٌّ
(صحيح مسلم:1718)
جس نے ایسا عمل کیا جو میرا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے ۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ أصدقَ الحديثِ كتابُ اللَّهِ ، وأحسنَ الْهديِ هديُ محمَّدٍ وشرَّ الأمورِ محدثاتُها وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ
(صحيح النسائي:1577)
یقینا سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے،کاموں میں سے بد ترین کام وہ ہیں جنہیں ایجاد کرلیا گایا ہو اور ہرنو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعت کرنے یا بدعت پر عمل کرنے سے دور رکھے ۔ آمین
مستحبات ، ممنوعات اور مباحاتِ اعتکاف
مستحبات اعتکاف
اس پراجماع ہےکہ اعتکاف کےدوران نفل نماز ،تلاوت کلام پاک اورامام ابواللہ کا ذکر کرنے میں مستغرق ومنہمک رہنا مستحب ہے۔امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک اعتکاف کے دوران حدیث و فقہ کی کتب پڑھنا مستحب ہے۔جبکہ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک حدیث و فقہ کی کتابوں کے پڑھنے میں مشغولیت مستحب نہیں ہے۔کیونکہ اعتکاف کا مقصداللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا اور لو لگائے رکھنا ہے۔لہٰذا ہر وہ چیزجس سے اس میں کمی آ جائے مستحب نہیں ہے۔( دیکھیے الفتح الربانی ٢٥٥٬٢٥٤/١٠ )
ممنوعاتِ اعتکاف
(1) جماع
(البقرہ
١٨٧ ۔ ابن ابی شیبہ ٢٩/٣ ۔عبدالرزاق ٣٦٣/٤ )
(2) بیمار پرسی کو نہ جائے
(3) جنازے میں شریک نہ ہو
(4) ضروری حاجت کے بغیر نہ نکلے
( ابو داؤد
٢٤٧٣ ۔ بیہقی ٣١٧/٤ )
مباحاتِ اعتکاف
(1) حاجات ضروریہ کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے ۔
(بخاری ،باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد ،ص
٤٠٠ )
(2) مسجد میں خیمہ لگانا
( بخاری ،باب الاخبیة فی المسجد ،ص
٤٠٠ )
(3) اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کرنے مسجد میں آسکتی ہے۔اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں یا رات زیادہ ہونے یا کسی دوسرے خطرے کی بنا پربیوی کو گھرچھوڑنے جا سکتا ہے ۔
(بخاری ،باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد ،ص
٤٠٠ )
(4) استحاضہ والی عورت اعتکاف کر سکتی ہے ۔
( بخاری باب اعتکاف المستحاضہ ، ص
٤٠١ )
(5) معتک مسجد سے اپنا سر باہر نکال سکتا ہے اور اسکی بیوی حالت حیض میں بھی ہو تواس کو کنگھی کرسکتی ہے ۔اوراس کا
سر بھی دھو سکتی ہے ۔
( بخاری ،
٢٠٣١٬٢٠٢٨)
معتكف (اعتکاف کرنے والے) کو جن امور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع کیا کرتے تھے، ان کے بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
السنة على المعتكف ان لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امرأة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة الا لما لابد منه ولا اعتكاف الا بصوم ولا اعتكاف الا فى مسجد جامع
(ابوداؤد، الصیام، المعتکف یعود المریض، ح: 2473، اسے امام زہری (مدلس) نے عنعن سے بیان کیا ہے۔)
"اعتکاف کرنے والے کے لیے یہ سنت ہے کہ عیادت نہ کرے مریض کی اور نہ جنازہ کی نماز کے واسطے حاضر ہو (یعنی باہر مسجد کے) اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ عورت سے مباشرت کرے اور نہ کسی کام کے لیے نکلے سوائے ضرورت کے کام (قضائے حاجت وغیرہ) کے لیے اور بغیر روزہ کے اعتکاف درست نہیں ہوتا اور نہ بغیر جامع مسجد کے۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب لفظ "سنت" بولتے ہیں تو اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مراد ہوتی ہے۔
(ولا يخرج لحاجة الا لما لابد منه) سے معلوم ہوتا ہے کہ معتکف قضائے حاجت کے لیے مسجد کی حدود سے باہر نکل سکتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے:
وكان لا يدخل البيت الا لحاجة اذا كان معتكفا
(بخاری، الاعتکاف، المعتکف لا یدخل البیت الالحاجۃ، ح: 2029)
"جب آپ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اعتکاف کر رہے ہوتے تو بلا حاجت گھر داخل نہ ہوتے۔"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کو عبادت کی خاطر جگاتے بھی تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا دخل العشر شد مئزره و احيا ليله و ايقظ اهله
(ایضا، فضل لیلۃ القدر، العمل فی العشر الاواخر من رمضان، ح: 2024)
"جب (ماہ رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (اپنی کمر کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔"
جہاں تک معتکف کے گفتگو کرنے کا تعلق ہے تو وہ مسجد کی حدود میں دین و شریعت سے متعلق ہر طرح کی گفتگو کر سکتا ہے، وہ کسی شرعی مسئلے کی افہام و تفہیم کی بات کر سکتا ہے، درس و تدریس کر سکتا ہے اور جمعہ پڑھا سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں وعظ و نصیحت بھی کیا کرتے تھے اور جمعہ کے اجتماع سے بھی خطاب فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ سے مسجد میں آ کر گفتگو بھی کر لیتی تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم فى المسجد و عنده ازواجه فرحن، فقال لصفية بنت حيى: «لا تعجلى حتى انصرف معك»، وكان بيتها فى دار اسامة، فخرج النبى صلى الله عليه وسلم معها فلقيه رجلان من الانصار، فنظرا الى النبى صلى الله عليه وسلم ثم اجازا، وقال لهما النبى صلى الله عليه وسلم:«تعاليا انها صفية بنت حيى»، قالا: سبحان الله يا رسول الله، قال: «ان الشيطان يجرى من الانسان مجرى الدم وانى خشيت ان يلقى فى انفسكما شيئا»
(الاعتکاف، زیارۃ المراۃ زوجھا فی اعتکافہ، ح: 2038)
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں (اعتکاف کر رہے) تھے، آپ کے پاس آپ کی ازواج بیٹھی ہوئی تھیں، جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی سے فرمایا: جلدی نہ کرو، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ اُن کا حجرہ دارِ اُسامہ میں تھا۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو انصار کے دو آدمی آپ سے ملے۔ ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ آپ نے فرمایا: ٹھہرو! دھر آؤ! یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہیں۔ انہوں نے عرض کی: سبحان اللہ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمای: شیطان خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔"
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث سے بہت سے نکات نکلتے ہیں۔ مثلا یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر انہیں رخصت کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بات بھی کر سکتا ہے اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے۔ اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آ سکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقتِ نبوی کا بھی ثبوت ملتا ہے اور آپ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے ازالے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بےحد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماء کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کر سکیں، اگرچہ اس کام میں ان میں اخلاص ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم سے استفادہ کرنا ختم ہو جانے کا احتمال ہے۔اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اُس نے فیصلہ دیا ہے اس کی ساری وجوہات اس کے سامنے بیان کر دے تاکہ وہ حاکم پر کوئی غلط تہمت نہ لگا سکے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برا مظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت (نسبت) کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہوتا ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ (فتح الباری)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انصار کے آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد سے باہر ملے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر اُن سے ضروری بات کر لی۔ لہذا معلوم ہوا کہ معتکف اگر مسجد کی حدود سے باہر بھی جائز اور ضروری بات کر لے تو اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ (واللہ اعلم)
اوپر بیان ہوا ہے کہ معتکف کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کی بیمار پرسی کرے، البتہ اگر وہ کسی جائز ضروری کام کے لیے معتكف (جائے اعتکاف) سے باہر نکلا ہوا ہو حتی کہ مسجد کی حدود سے بھی باہر ہو تو وہ چلتے چلتے (رُکے بغیر) مریض کا حال پوچھ سکتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يمر بالمريض وهو معتكف فيمر كما هو ولا يعرج يسأل عنه
(ابوداؤد، الصیام، المعتکف یعود المریض، ح: 2472، یہ روایت ضعیف ہے۔)
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں جب بیمار کے پاس سے گزرتے تو ٹھہرے بغیر آپ اس کا حال دریافت کر لیتے۔"
دیکھیے : فتاویٰ افکارِ اسلامی/رمضان المبارک اور روزہ/صفحہ:450
اعتکاف گاہ میں کب داخل ہوں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پہلے عشرے میں صحابہ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے ، پہلا عشرہ گز ر گیا تو جبریل نے بتایا کہ لیلۃ القدر تو ابھی آگے ہے، نبی کریمﷺدوسرے عشرے میں بھی بیٹھ گئے، بیسیویں روزے کی صبح صحابہ اپنے گھروں میں چلے گئے، بخاری(813) میں ہے کہ:
فقام النبي صلى الله عليه وسلم [ص:163] خطيبا صبيحةعشرين من رمضان فقال: «من كان اعتكف مع النبي صلى الله عليه وسلم، فليرجع، فإني أريت ليلة القدر، وإني نسيتها، وإنها في العشر الأواخر، في وتر۔۔۔
''نبی کریمﷺبیسیویں روزے کی صبح خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، فرمایا: جنہوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ معتکف میں واپس آجائیں، مجھے لیلۃالقدر دکھائی گئی ، لیکن پھر بھلا دی گئی، لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔۔۔''
بخاری (2041) میں ہے کہ نبی کریمﷺ نماز فجر کے بعد اعتکاف گاہ میں جاتے تھے ۔
ان دوروایات کو ملا کر بعض احباب نے یہ استدلال کیا کہ اعتکاف بیسیویں کی صبح کوبیٹھا جائے، نبی کریمﷺنے چوں کہ بیسیویں کی صبح کو اعلان کیا کہ اعتکاف کو لوٹ آئیں، پھر دوسری روایت میں ہے کہ آپ صبح کو اعتکاف گاہ میں داخل ہوتے لہذا اعتکاف بیسیویں روزے کی صبح ہی بیٹھ جانا چاہئے۔
استدلال کی کمزوری:
یہ استدلال کمزور ہے۔
صحیح بخاری (2027)ہی کی روایت ہے کہ :
حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه، قال: «من كان اعتكف معي، فليعتكف العشر الأواخر۔۔۔
''جب اکیسیویں رات ہوئی ،وہی رات جس کی صبح آپ نے اعتکاف ختم کیا تھا، آپﷺ نے فرمایا: جنہوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ آخری عشرے کو بھی اعتکاف کریں۔''
معلوم ہوا کہ بیسیویں روزے کی رات کو آپﷺاعتکاف بیٹھے تھے۔
روایات کا درست مفہوم :
ان تینوں روایات کا معنی یہ ہوگا کہ نبی کریمﷺ نے خطبہ بیسیویں کی صبح کو دیا تھا اور اعتکاف میں بیٹھنے کا حکم بھی دیا تھا،اس حکم سے مراد ، رات کو بیٹھنا تھا ، کیوں کہ نبی کریمﷺرات ہی کو بیٹھے تھے۔
جیسا کہ اس روایت میں ذکر ہے ، اعتکاف گاہ میں اگلی صبح یعنی اکیسیویں کی صبح داخل ہوئے۔
دوسرے یہ کہ آخری عشرہ شروع بھی بیسیویں روزے کی رات یعنی اکیسیویں رات کو ہوتا ہے۔
اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی راجح ہے ۔ واللہ اعلم

شیخ الحدیث ، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
اعتکاف کا طریقہ :
اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث تو اوپر گزر چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ دوسری حدیث یہ ہے:
(( عن عائشة قالت كان صلى الله عليه وسلم قالت كان صلى الله علیه وسلم إذا أراد أن يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفه.))
''سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔''
(صحیح مسلم، ابو دائود
۳۳۴)
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہل علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آجائے۔ رات بھر تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
جبکہ دوسرا موقف جو ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف بیٹھتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز نماز صبح کے بعد کرتے اکیس یا بیس کی صبح کو اس کا تعین واضح نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تا کہ اکیس کی رات معتکف میں آئے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں دو عشرے اعتکاف کیا۔ نہ ملی تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اور آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ تسلسل بھی جاری رکھا حتیٰ کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کر رہے تھے ۔ ان میں سے بعض بیسویں کی صبح اپنا بوریا بستر اٹھا کر گھر میں بھی پہنچا چکے تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔ بیسویں رمضان تھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔ (بخاری)
ذرا غور فرمائیں کہ آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از غروبِ آفتاب شروع ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات کو ہی بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ معتکف میں داخل ہو جا نا تا کہ تمہارا آخری عشرے کا اعتکاف پورا ہو جائے۔ ملاحظہ ہو مولانا عبدالسلام بستوی کے ''اسلامی خطبات''۔ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر
٢٠ کی صبح کو مسجد میں آجائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لئے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزاری اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے لہٰذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آجائے اور نماز کی ادائیگی اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا۔ صر ف آخری عشرہ سے١٢گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمة اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔
دیکھیے : آپ کے مسائل اور ان کا حل/ جلد : 1
کیا اعتکاف کے لۓ روزہ شرط ہے
اعتکاف کیلئے روزہ شرط نہیں ؛ کیونکہ اس کی کوئی صحیح اور صریح شرعی دلیل نہیں،
روزہ اور اعتکاف مستقل علیحدہ ،علیحدہ دو عبادتیں ہیں ،اور ایک کو دوسری کیلئے شرط بنانے کی مستقل صریح دلیل موجود نہیں ،
قال ابن باز: (ولا يشترط أن يكون معه صومٌ على الصحيح فلو اعتكف الرجل أو المرأة وهما مفطران فلا بأس في غير رمضان) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 441). وقال أيضاً: (ولا يشترط له الصوم ولكن مع الصوم أفضل)
((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442)
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ ابن باز فرماتے ہیں :صحیح بات یہ ہے کہ اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ، لہذا اگر غیر رمضان کوئی مرد و عورت بغیر روزہ اعتکاف کرے تو درست ہے ،
قال ابن عثيمين: (القول الثاني: أنه لا يشترط له الصوم .. وهذا القول هو الصحيح) ((الشرح الممتع)) (6/ 507)
علامہ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں :اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ،صحیح قول یہی ہے "
کیا اعتکاف صرف اس مسجدمیں کیا جائے جہاں جمعہ منعقد ہوتا ہے
اس پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ کریم کا ارشاد ہے :
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} جب تم مساجد میں اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو "البقرہ 187 )
اور اس لئے بھی نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف کیا ،
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ " شرعاً اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ کچھ وقت کیلئے مسجد میں ٹھہرنا ، رکنا
شرعا: اللبث في المسجد على صفة مخصوصة بنية "
تو واضح ہے کہ مسجد میں مخصوص نیت سے کچھ وقت پابند ہونے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ،
اگر اس وقت کے دوران مسجد سے نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
لیکن چونکہ انسان کی کچھ ضرورتیں ایسی جن کے بغیر اس کا گزارہ مشکل ہے جیسے کھانا ،پینا اور حوائج ضروریہ تو ان کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے ،
جسمانی ضرورتوں کی طرح کچھ دینی ضرورتیں بھی ایسی ہیں جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ،مثلاً فرض نماز ،نماز جمعہ وغیرہ
اسی لئے علماء کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے ،تاہم افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے ؛
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز فرماتے ہیں :
وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك."
" اگر دوران اعتکاف جمعہ آتا ہو تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے "
اور
علامہ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں :(والأفضل أن يكون في المسجد الذي تقام فيه الجمعة، لئلا يحتاج إلى الخروج إليها )
(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين 20/ 157 )
یعنی افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے "
مزید لکھتے ہیں :
(فإن اعتكف في غيره فلا بأس أن يبكر إلى صلاة الجمعة )
اگر جامع مسجد اعتکاف نہ کرے ، تو جامع مسجد نماز جمعہ کیلئے جا سکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھی جاتی ،تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے
لیکن اگر اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
امام محی السنہ أبو محمد الحسين بن مسعود الفراء البغوي (المتوفى: 516 ھ ) فرماتے ہیں :
" أما الخروج للجمعة، فواجب عليه، لا يجوز له تركه.
واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قوم إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة.
وذهب بعضهم إلى أنه يبطل اعتكافه، وهو قول مالك، والشافعي، وإسحاق، وأبي ثور، قالوا: إذا كان اعتكافه أكثر من ستة أيام، يجب أن يعتكف في المسجد الجامع، لأنه إذا اعتكف في غيره يجب عليه الخروج لصلاة الجمعة، وفيه قطع لاعتكافه، فإن كان أقل من ذلك، أو كان المعتكف ممن لا جمعة عليه، اعتكف في أي مسجد شاء "
(شرح السنۃ ج6 ص401 )
یعنی :
نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے، جس کو ترک نہیں کیا جاسکتا ،
لیکن اگر (اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے ) نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
اس پر دو قول ہیں : ایک یہ اس نکلنے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ،امام سفیان الثوریؒ ،امام عبد اللہ بن مبارکؒ اور اہل رائے کا یہی قول کہنا ہے ، کیونکہ (نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکلنا ) جسمانی حوائج ضروریہ کی طرح (ایک حاجت ضروریہ ) ہی تو ہے ،
لیکن کچھ دیگر ائمہ و علماء کے کہنا ہے کہ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
امام مالکؒ امام شافعی ؒ ،امام اسحاق ؒاور امام ابو ثورؒ کا یہی قول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھ دن سے زائد کا اعتکاف کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے ، کیونکہ اگر جامع مسجد اعتکاف نہیں بیٹھے گا تو جمعہ کیلئے نکلنا ہوگا ، جس سے اعتکاف ختم ہوجائے گا ،
ہاں اگر چھ دن سے کم کا اعتکاف کرے ( اور ان چھ دنوں میں جمعہ نہ آتا ہو ) تو جس مسجد میں چاہے اعتکاف کرسکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ:
افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے ،
لیکن اگر جامع مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد جاسکتا ہے ، جس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جواز کی تفصیل درج ذیل ہے ،جو " الموسوعة الفقهية الدرر السنیہ ) سے ماخوذ ہے
من وجبت عليه الجمعة، وكانت تتخلَّل اعتكافه، فإنه لا يشترط لصحة استمرار الاعتكاف أن يكون اعتكافه في الجامع - وعليه أن يخرج لحضور الجمعة ثم يرجع إلى المسجد الذي يعتكف فيه - ولكنَّ الأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع، وهو قول الحنفية (7)، والحنابلة (8)، وقولٌ لبعض السلف (9)، وهو اختيار ابن العربي المالكي (10)، وابن باز (11)، وابن عثيمين (12).
الدليل:
عموم قوله تعالى: وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ [البقرة: 187]
فلفظ المساجد عامٌّ لجميع المساجد، وتخصيصه ببعض المساجد دون بعضٍ يحتاج إلى دليل.
وأما خروجه إلى الجمعة فهو ضرورةٌ من الضرورات، لا يبطل بها الاعتكاف.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشية:
↡↡↡
(7) ((المبسوط للسرخسي)) (3/ 108)، ((بدائع الصنائع للكاساني)) (2/ 114).
(8) ((الفروع لابن مفلح)) (5/ 140)، ((شرح منتهى الإرادات للبهوتي)) (1/ 501).
(9) قال البغوي: (أما الخروج للجمعة، فواجبٌ عليه، لا يجوز له تركه. واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قومٌ إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة) ((شرح السنة)) (6/ 401).
(10) قال ابن العربي: (إذا اعتكف في مسجدٍ لا جمعة فيه للجمعة، فمن علمائنا من قال: يبطل اعتكافه، ولا نقول به; بل يشرف الاعتكاف ويعظم. ولو خرج من الاعتكاف من مسجدٍ إلى مسجد لجاز له; لأنه يخرج لحاجة الإنسان إجماعاً، فأي فرقٍ بين أن يرجع إلى ذلك المسجد أو إلى سواه؟) ((أحكام القرآن)) (1/ 180).
(11) وقال ابن باز: (ومحل الاعتكاف المساجد التي تقام فيها صلاة الجماعة، وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442).
(12) وقال ابن عثيمين: (وهو في كل مسجدٍ، سواء كان في مسجدٍ تقام فيه الجمعة، أو في مسجدٍ لا تقام فيه، ولكن الأفضل أن يكون في مسجدٍ تقام فيه، حتى لا يضطر إلى الخروج لصلاة الجمعة) ((مجموع فتاوى ورسائل العثيمين)) (20/ 155).
مسجد سے عليحدہ كمرہ ميں اعتكاف كرنے كا حكم
اعتكاف يہ ہے كہ اللہ كى اطاعت كے ليے مسجد كا التزام كيا جائے، اور يہ صرف مساجد كے ساتھ خاص ہے، اور كسى جگہ اعتكاف كرنا صحيح نہيں ہوگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر مرد اعتكاف كرنا چاہے تو يہ مسجد كے علاوہ كہيں صحيح نہيں گا، ہمارے علم كے مطابق اس ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
{ اور تم ان عورتوں سے مباشرت نہ كرو اس حال ميں كہ تم مساجد ميں اعتكاف كر رہے ہو }.
چنانچہ يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے مساجد كو ہى اعتكاف كے ليے خاص كيا ہے، اور اگر مساجد كے علاوہ كہيں دوسرى جگہ اعتكاف صحيح ہوتا تو اس ميں مباشرت كرنے كى حرمت كى تختيصيص نہ ہوتى؛ كيونكہ اعتكاف ميں تو مباشرت مطلفا حرام ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں رہتے ہوئے اپنا سر ميرى طرف كرتے تو ميں آپ كو كنگھى كيا كرتى تھى، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم جب اعتكاف ميں ہوتے تو بغير كسى ضرورت كے گھر ميں داخل نہيں ہوتے تھے "
اور دارقطنى ميں امام زہرى عن عروۃ و سعيد بن المسيب سے مروى ہے وہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" اعتكاف كرنے والے شخص كے ليے سنت يہ ہے كہ وہ انسانى ضرورت كے بغير باہر نہ نكلے، اور جماعت والى مسجد كے علاوہ كہيں اعتكاف صحيح نہيں ہے "
ديكھيں: المغنى ( 3 / 65 ).
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ عليحدہ جگہ مسجد ميں شمار نہيں ہوتى اس ليے اس ميں اعتكاف كرنا صحيح نہيں ہوگا.
مسجد ميں كيا داخل ہوگا اس قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
ـ اگر كمرہ مسجد سے متصل تيار كيا گيا ہو اور اس ليے بنايا گيا ہو كہ يہ مسجد ہو، يعنى مسجد كو تيار كرنے والے شخص كى نيت ہو كہ يہ كمرہ مسجد كا حصہ ہو جہاں نماز كى جائے، تو اسے مسجد كے احكام ديے جائينگے، اس طرح اس ميں اعتكاف كرنا جائز ہوگا، اور وہاں حائضہ اور نفاس والى عورت نہيں جائيگا.
ليكن اگر يہ نيت ہو كہ يہ كمرہ تعليم وغيرہ كے ليے يا پھر ميٹنگ وغيرہ كے ليے استعمال كيا جائے، يا پھر امام يا مؤذن كى رہائش كے ليے ہو تو يہ نماز كى جگہ نہيں، اس ليے اس وقت يہ مسجد كے حكم ميں نہيں ہوگا.
ـ اور اگر مسجد كے بانى كى نيت كا علم نہ ہو، تو پھر اصل يہى ہے كہ جو مسجد كى چارديوارى ميں ہو اور اس كا مسجد ميں دروازہ ہو تو اسے مسجد كا حكم حاصل ہوگا.
روزہ اور اعتکاف کے اجماعی مسائل :
اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔
اجماع ہے کہ سحری کھانا مستحب ہے۔
اجماع ہے کہ روزہ دار کو بے اختیار قے آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
اجماع ہے کہ جو روزہ دار قصدا قے کرے اس کا روزہ باطل ہے۔
اجماع ہے کہ روزہ دار (اپنی) رال اور (اپنا) تھوک نگل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
اجماع ہے کہ عورت کو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں اور درمیان میں ایام شروع ہو جائیں تو پاکی کے بعد پچھلے روزہ پر بنا کرے گی۔
اجماع ہے کہ ادھیڑ عمر، بوڑھے جو روزہ کی استطاعت نہیں رکھتے روزہ نہیں رکھیں گے (بلکہ فدیہ ادا کریں گے)۔
اجماع ہے کہ اعتکاف لوگوں پر فرض نہیں، ہاں اگر کوئی اپنے اوپر لازم کر لے تو اس پر واجب ہے۔
اجماع ہے کہ اعتکاف مسجد حرام، مسجد رسول، اور بیت المقدس میں جائز ہے۔
[ ان تینوں مساجد میں بالاتفاق اعتکاف جائز ہے ان کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف اگرچہ اختلافی مسئلہ ہے لیکن راجح یہی ہے کہ تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے۔]
اجماع ہے کہ معتکف اعتکاف گاہ سے پیشاب، پاخانہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔
اجماع ہے کہ معتکف کے لئے مباشرت (بیوی سے بوس و کنار) ممنوع ہے۔
اجماع ہے کہ معتکف نے اپنی بیوی سے عمداً حقیقی مجامعت کر لی تو اس نے اعتکاف فاسد کر دیا۔ [الاجماع لابن المنذر ص 47، 48]
کیا عورت گھر میں اعتکاف کرسکتی ہے ؟
علماء کرام اس پرمتفق ہیں کہ مرد کا مسجد کے علاوہ کہیں اوراعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 187 ) ۔
مندرجہ بالاآیت میں اعتکاف کومسجد کےساتھ خاص کیا گیا ہے لھذا یہ ثابت ہوا کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا صحیح نہيں ہوگا ۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 4 / 461 ) ۔
عورت کے بارہ میں جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے مرد کی طرح عورت کا اعتکاف بھی مسجد کے علاوہ کسی جگہ صحیح نہیں ، جس کی دلیل بھی مندرجہ بالا آیت ہے :
{ اورعورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 187 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجدمیں اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں اجازت دے دی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔
اوراگر عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی راہنمائي فرماتے کیونکہ مسجدمیں جانے سے اس کے اپنے گھرمیں پردہ زيادہ ہے ، اس کے باوجود آپ نے مسجد میں ہی اعتکاف کی اجازت دی ۔
بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ : عورت گھرمیں اپنی نماز والی جگہ پر اعتکاف کرسکتی ہے ، لیکن جمہور علماء کرام نے ایسا کرنے سے منع کرتےہوئے کہا ہے :
اس کے گھرمیں نماز والی جگہ کو مسجد نہيں کہا جاسکتا صرف مجازی طورپر اسے مسجد کا نام دیا جاسکتا اورحقیقتا وہ مسجد کانام حاصل نہیں کرسکتی اس لیے اس کے احکام بھی مسجد والے نہیں ہونگے ، اسی لیے وہاں یعنی گھرمیں نماز والی جگہ پر جنبی اورحائضہ عورت داخل ہوسکتی ہے ۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 464 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہيں :
عورت اورمرد کا مسجد کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ، نہ توعورت کا گھرکی مسجد میں اورنہ ہی مرد کا اپنی گھرمیں نمازوالی جگہ پر اعتکاف کرنا صحیح ہے ، یعنی اس جگہ جو گھر کے ایک کونے میں نماز کے لیے تیار کی گئي ہو اسے گھرکی مسجد کہا جاتا ہے ۔
دیکھیں المجموع ( 6 / 505 ) ۔
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال پوچھا گيا :
اگرعورت اعتکاف کرنا چاہے تو وہ کس جگہ اعتکاف کرے گی 
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب کوئي عورت اعتکاف کرنا چاہے تو اگر اس میں کوئي شرعی محذور نہ پایاجائے تووہ مسجد میں اعتکاف کرے گی ، اوراگراس میں کوئي شرعی محذور ہوتو پھر عورت اعتکاف نہیں کرے گی ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع الفتاوی ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی ( 20 / 264 )
اورالموسوعیۃ الفقھیۃ میں ہے کہ :
عورت کے اعتکاف کی جگہ میں اختلاف ہے ، جمہورعلماء کرام اسے مرد کی طرح قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی عورت کا اعتکاف صحیح نہیں ، تواس بنا پر عورت کا اپنے گھرمیں اعتکاف کرنا صحیح نہیں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے جب عورت کا اپنے گھرکی مسجدمیں اعتکاف کے بارہ میں سوال کیا گيا تووہ کہنے لگے :
گھرمیں عورت کا اعتکاف کرنا بدعت ہے ، اوراللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں ، اس لیے نماز باجماعت والی مسجد کےعلاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ گھرمیں نمازوالی جگہ نہ تو حقیقتا مسجد ہے اورنہ ہی حکما اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز ہے ، اوراگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس پر عمل پیرا ہوتیں ، اس کے جواز کے لیے اگرچہ وہ ایک بارہی عمل کرتیں ۔ا ھـ
دیکھیے الموسوعۃ الفقھیۃ ( 5 / 212 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
علامہ نووی ؒ (أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)
شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں :
وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ الِاعْتِكَافَ لَا يَصِحُّ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجَهُ وَأَصْحَابَهُ إِنَّمَا اعْتَكَفُوا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ الْمَشَقَّةِ فِي مُلَازَمَتِهِ فَلَوْ جَازَ فِي الْبَيْتِ لفعلوه ولو مرة لاسيما النِّسَاءُ لِأَنَّ حَاجَتَهُنَّ إِلَيْهِ فِي الْبُيُوتِ أَكْثَرُ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مِنَ اخْتِصَاصِهِ بِالْمَسْجِدِ وَأَنَّهُ لَا يَصِحُّ فِي غَيْرِهِ هُوَ مَذْهَبُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَدَاوُدَ وَالْجُمْهُورِ سَوَاءٌ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يَصِحُّ اعْتِكَافُ الْمَرْأَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَهُوَ الْمَوْضِعُ الْمُهَيَّأُ مِنْ بَيْتِهَا لِصَلَاتِهَا ‘‘
ان احادیث ( جو صحیح مسلم کے باب الاعتکاف میں وارد ہیں )سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں صحیح ہوگا ،کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ اور انکی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ؓ نے مسجد میں ہی اعتکاف کیا ہے؛ باوجود اس مشقت کے جو مسجد میں اپنے آپ کو پابند کرنے میں تھی تو اگر گھر میں اعتکاف جائز ہوتا ،تو یقیناً
وہ گھر میں کرتے ۔
خاص کر ازواج مطہرات تو جواز کی صورت میں اپنے گھروں میں اعتکاف کرتیں ،کیونکہ انکی ضروریات اپنے گھر سے وابستہ ہیں؛
اور یہ اعتکاف کا مسجد سے خاص ہونا،مسجد کے علاوہ کہیں اور نہ ہونا ۔۔جو ہم نے بیان کیا،یہ امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد ،امام داود ظاہری۔۔اور جمہور کا قول و مذہب ہے
کہ اعتکاف کرنے والا مرد ہو یا عورت اعتکاف صرف مسجد میں شرعاً صحیح ہوگا ؛
۔|
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
فقہ حنفی اور عورت کا اعتکاف :
اس مسئلہ میں سب سے مختلف مذہب ابو حنیفہ کا ہے جو فرماتے ہیں کہ:کہ عورت اپنے گھر ،نماز پڑھنے والی جگہ پر ہی اعتکاف کر سکتی ہے ، حالانکہ فقہ حنفی کے علماء سے عورت کا اعتکاف مسجد میں ثابت ہے ۔
فتح القدیر کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں؛
( قَوْلُهُ أَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَعْتَكِفُ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا ) أَيْ الْأَفْضَلُ ذَلِكَ ، وَلَوْ اعْتَكَفَتْ فِي الْجَامِعِ أَوْ فِي مَسْجِدِ حَيِّهَا وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ الْجَامِعِ فِي حَقِّهَا جَازَ
ابن حمام رحمۃ اللہ علیہ افضلیت کی ترتیب بتا رہے ہیں کہ عورت کے لئے گھر کی مسجد میں اعتکاف بہتر ہے پھر محلہ کی مسجد میں پھر ۔۔۔۔عورت کی نماز کی ترتیب کے لحاظ سے جو احادیث سے ثابت ہے۔
وہ فقہ حنفی نہیں بتا رہے۔ فقہ حنفی میں تو یہی ہے کہ ”أَمَّا الْمَرْأَةُ فَتَعْتَكِفُ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا“ اگر عورت اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنی گھر کی مسجد میں کرے۔
برصغیر کے حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکهتے ہیں :
لو اعتکفت فی مسجد جماعة فی خباء ضرب لها فيه ، لا بأس به ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی الله علیه وسلم فی عهدہ کما ثبت فی صحيح البخارى ۔
''اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔''
(عمدۃ الرعایۃ :
١/٢٥٥)
شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا اعتکاف
بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف کرے ۔امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہیں کر سکتی ۔لہٰذا اگر خاوند نے اسے (پہلے) اجازت دے دی اور پھر دوران اعتکاف وہ بیوی کو اعتکاف سے نکالنا چاہے تو اسے یہ حق حاصل ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں لیکن اگر اس نے کسی نذر والی چیز میں اجازت دی(جو اس پر نذر کی وجہ سے فرض تھی) تو پھر اسے دوران عمر ختم کرانے کا حق حاصل نہیں کیونکہ اس عمل کی ابتدا کرنے سے ہی تعیین ہوجاتی ہے جس کا مکمل کرنا واجب ہے تو یہ حج کی طرح ہی ہو جائےگا کہ جب عورت نے حج کا احرام باندھ لیا تو پھر اسے وہ مکمل کرنا ہی ہو گا۔ (المغنی لابن قدامۃ 485/4)
حدیث نبوی بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تونماز فجر ادا کرنے کے بعد معتکف میں داخل ہوجاتے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا چاہا تو خیمہ لگانے کا حکم دیا تو خیمہ لگادیا گیا۔ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا خیمہ لگانے کا حکم دیا تو ان کا خیمہ بھی لگادیا گیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے بھی اپنے خیمے لگانے کا حکم دیا تو ان کے خیمے بھی لگادئیے گئے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کر لی توبہت سے خیمے دیکھے اور فرمایا کیا یہ نیکی چاہتی ہیں؟ پھر ان کے خیمےاکھاڑنے کا حکم دیا اور اعتکاف چھوڑ دیا اور پھر شوال کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا۔( بخاری 2033،کتاب الاعتکاف باب اعتکاف النساء مسلم 1173۔کتاب الاعتکاف باب متی یدخل من ارادہ الاعتکاف فی معتکفہ)
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے اس فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کا سبب یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے اعتکاف میں مخلص نہ ہوں۔
بلکہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنا چاہتی ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیرت کھاتے ہوئے یا جنہیں اجازت ملی تھی ان پر غیرت کھاتے ہوئے اعتکاف بیٹھ رہی ہوں۔
اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی اعتکاف نہیں کر سکتی ،سب علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے اور اگر خاوند بیوی کو اعتکاف کی اجازت دے دے تو کیا بعد میں (دوران اعتکاف ) بیوی کو اعتکاف سے روک سکتاہے؟اس میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اور داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اسے بیوی کو نفلی اعتکاف سے نکالنے کا حق حاصل ہے اور امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے کہ حدیث میں ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی اعتکاف نہیں کر سکتی اور اگر اجازت کے بغیر اعتکاف کرے تو خاوند کو اسے اعتکاف سے نکالنے کا حق حاصل ہے اور اگر اجازت سے اعتکاف کرے تو پھر بھی خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اجازت واپس لیتے ہوئے اسے اعتکاف سے روک دے۔اور اہل الرائے کہتے ہیں کہ اگر خاوند نے اجازت دے دی اور پھر اس سے منع کردیا تو اس سے وہ گناہگارہو گا لیکن عورت اعتکاف سے رک جائے گی (واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
دیکھیے : فتاویٰ نکاح و طلاق/صفحہ : 355
اعتکاف کرنے والے کامسجد سے نکلنا :
اعتکاف کرنے والے کا مسجدسے نکلنا صحیح نہیں کیونکہ مسجد سے خروج کی وجہ سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، کیونکہ مسجدمیں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے ٹھرنے کا نام ہی اعتکاف ہے ۔
لیکن جب کوئي ضرورت ہوتو مسجد سے نکلا جاسکتا ہے مثلا قضائے حاجت ، وضوء ، غسل ، اوراگرکوئي کھانا لانے والا نہ ہوتو کھانے لانے کے لیے نکلنا جائز ہے اوراسی طرح دوسرے امور جن کے بغیر کوئي چارہ نہیں اوروہ مسجد میں سرانجام نہیں دیے جاسکتے ۔
امام بخاری اور امام مسلم نے عا‏‏ئشہ رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ :
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو گھرمیں قضائے حاجت کے بغیر داخل نہيں ہوتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2092 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 297 )
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی المغنی میں کہتے ہیں :
حاجۃ الانسان سے بول براز مراد ہے اوریہ الفاظ ان دونوں سے کنایۃ بولے گئے ہیں ، کیونکہ ہر انسان قضائے حاجت کا محتاج ہے ، اوراسی کے معنی میں کھانا پینا بھی آتا ہے کہ اگر کھانا لانے والا کوئي نہ ہو تو وہ مسجدسے نکل کر کھانا لاسکتا ہے ۔
اورہر وہ چيز جس کے بغیر کوئي چارہ نہ ہو اس کے لیے بھی مسجد سے نکلا جاسکتا ہے ، اس سے اعتکاف فاسد نہيں ہوگا اورجب تک وہ اس میں طویل عرصہ صرف نہيں کرتا اعتکاف صحیح ہے ۔ ا ھـ
اورملازمت یا کام پر جانے کے لیے مسجد سے نکلنا اعتکاف کے منافی ہے اس سے اعتکاف صحیح نہیں رہتا ۔
مستقل فتوی کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ سے مندجہ ذیل سوال کیا گيا :
کیا اعتکاف کرنے والے کے لیے مریض کی عیادت کے لیے جانا یا دعوت قبول کرکے مسجد سے نکلنا یا گھرکی ضروریات پوری کرنا یا جنازہ کے ساتھ جانا یا کام پر جانا جائز ہے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
اعتکاف کرنے والے کےلیے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف نہ تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اورنہ ہی کسی کی دعوت کھانے مسجد سے باہر جائے ، اور نہ ہی اپنی گھریلوضروریات پوری کرنے کے لیے مسجدسے نکلے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے اوراسی طرح ڈیوٹی پرجانےکےلیے مسجد سے باہر نہ نکلے کیونکہ حدیث میں ہے کہ :
عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے ، اورنہ عورت کو چھو‎‎‎ئے اورنہ ہی اس سے مباشرت کرے ، اور نہ ہی کسی کام کے لیے نکلے ، لیکن جس کام کے بغیر گزارہ نہ ہو وہ کرسکتا ہے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2473 ) ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 410 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
کتنے دن کا اعتکاف جائز ہے
اعتکاف کم از کم ایک رات کا بھی ہوسکتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ، قَالَ: «أَوْفِ بِنَذْرِكَ» سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اپنی نذر پوری کر لے'' صحیح البخاری: 6697
جب کوئي مسلمان شخص پورا عشرہ اعتکاف نہ کرسکے تواس کےلیے جائز ہے کہ اس کے لیے جتنے ایام بھی میسر ہوں اعتکاف کرے ، دو دن یا تین یا اس سے بھی زيادہ دن چاہے ایک ہی رات کا اعتکاف کرے یہ سب جائز ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
مسجد میں اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے رکنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ، چاہ وہ زيادہ مدت کے لیے ہو یا کم مدت کے لیے ، کیونکہ میرے علم کے مطابق اس کے بارہ میں کوئي حدیث وارد نہیں ، جس میں ایک یا دو دن یا اس سے زیادہ کی تحدید کی گئي ہو ۔ ا ھـ
دیکھیے : فتاوی الشيح ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 15 / 441 ) ۔
اعتکاف کی قضاء کا حکم
راجح مسلک کے مطابق مسنون (نفلی )اعتکاف کی قضاء واجب نہیں ہے،خواہ وہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر کے توڑا ہو۔کیونکہ جب اعتکاف بذات خود ہی واجب نہیں تھا تو اس کی قضاء کیسے واجب ہو سکتی ہے۔ہاں البتہ اگر کوئی قضاء کرنا چاہے تو ایک مستحب عمل ہے۔جیسا کہ نبی کریم نے ایک سال رمضان کے اعتکاف کی قضاء شوال میں کی تھی۔جمہور اہل علم اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا یہی موقف ہے۔
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔
ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ(موطاامام مالک:683)
آپ نے رمضان میں اعتکاف نہ کیا اور پھر شوال کے دس دن اعتکاف کیا۔
اس سےثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے مسنون اعتکاف کی قضاء بعد میں دی جاسکتی ہے۔لیکن یہ مستحب ہے ،واجب نہیں ہے۔
ہاں البتہ اگر فرضی اعتکاف ہو مثلا کسی نے اعتکاف کی نذر مانی ہو تو پھر اس کی قضاء کرنا لازم ہے۔کیونکہ نذر والے دن مکمل کئے بغیر نذر پوری نہ ہو گی۔اور پھر اگر کسی نے مسلسل دس دنوں کے اعتکاف کی نذر مانی ہو اور پانچ دنوں کے بعد اٹھ جائے تو اس پر نذر کے مطابق دوبارہ سے دس دن کا اعتکاف لاز م ہے،اور اگر اس نے مطلقا دس دن کی مانی نذر مانی ہو اور پانچ دنوں بعد اٹھ جائے تو اس پر باقی پانچ دنوں کا اعتکاف لازم ہے۔
للجنةالدائمہ فتوی کمیٹی
اختتامِ اعتکاف اور معتکف کے استقبال کی شرعئی حیثیت
آخری عشرہ چونکہ شوال کا چاند دیکھنے کے ساتھ یا رمضان کے تیس دن پورے ہونے کےساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اسکے ساتھ ہی اعتکاف بھی ختم ہو جاتا ہے ۔معتکف آخری عشرہ ختم ہوتے ہی اعتکاف ختم کر کے باہر آجائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مدینہ میں رہے ،رمضان المبارک میں اعتکاف فرماتے رہے ۔آپ کے بعد آپکی ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں ۔کتب حدیث میں کوئی حدیث تو دور کی بات ہے اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ اعتکاف سے فراغت کے بعد معتکف کو اعتکاف گاہ سے پروٹوکول کے ساتھ نکالا جائے ، اسکے گلے میں ہار پہنائے جائیں اور جلوس کی شکل میں اسے گھر پہنچایا جائے۔شنید ہےکہ بعض مقامات پر معتکف حضرات کی یادگاری کےطور پر تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں۔
دین اسلام میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اعتکاف کا مقصد دل کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ اوراسکے ذریعہ سکون وطمانیت کا حصول ہے ،معتکف کو گناہوں سے نفرت اور امورِ خیر سے محبت ہو ۔اگر دورانِ اعتکاف یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو ایسے انسان کو بالکل ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ گلے میں پھولوں کے ہار پہنے یا لوگوں کی مبارک باد اور داد وصول کرے۔بلکہ اسے چاہیے کہ فراغتِ اعتکاف کے بعد خاموشی سے اپنا بسترکندھے پررکھے اور سادگی کے ساتھ گھر روانہ ہو جائے ۔گلے میں ہار پہنانے اورمبارک باد وتصاویر بنانے سے ریاکاری اور نمائش کا اندیشہ ہوتا ہے ۔جس سے اعتکاف کا اجر و ثواب جاتے رہنے کا احتمال ہے ۔پھر اس طرح کے کام اسلاف سے بھی ثابت نہیں ہیں۔
⇦⇦⇦⇦⇦⇦ اعتکاف کے بعض احکام ⇨⇨⇨⇨⇨⇨
⇦⇦⇦ ۔ ŘỮŁƗŇǤ ŘǤΔŘĐƗŇǤ Ɨ'ŦƗҜΔF ⇨⇨⇨
❶⇚ اعتکاف ایک عبادت ہے اس کے مشابہ کسی مزار وغیرہ پر فوت شدگان کے تقرب کے لیے مجاور بن کر بیٹھنا شرک ہے۔
(البقرۃ: 125)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❷⇚ کم سے کم اعتکاف کی حد نہیں جو کہ ایک ہفتہ، ایک دن، ایک گھنٹے کا بھی ہوسکتا ہے۔
(صحیح بخاری 2032، صحیح مسلم 1657)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❸⇚ رمضان کا مسنون اعتکاف رمضان کے آخری عشرے (10 دن) میں کرنا چاہیے۔
(صحیح بخاری 2026، صحیح مسلم 1175)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❹⇚ مرد ہوں خواہ عورتیں اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے ۔
(البقرۃ: 187)
امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن بھی مسجد میں ہی اعتکاف فرمایا کرتی تھیں
(صحیح بخاری 2033)
خواتین کا گھروں پر اعتکاف کرنا غیر ثابت ہے اور بدعت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❺⇚ اعتکاف کے لیے جامع مسجد ہو تاکہ جن پر جمعہ پڑھنا فرض ہے انہيں جمعہ کی ادائیگی کے لیے باہر نہ نکلنا نہ پڑے۔
(صحیح ابی داود 2473)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❻⇚ خواتین اپنے محرم کے ساتھ اعتکاف کرے
(صحیح بخاری 2033)
یا پھر محرم کی اجازت سے فتنے سے دور اور پرامن مسجد جہاں مردوزن کے اختلاط کا اندیشہ نہ ہو وہاں اعتکاف کرے
(مفہوم حدیث صحیح بخاری2026، صحیح مسلم 1175)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❼⇚ رمضان کے اعتکاف میں روزے سے ہونا شرط نہيں لیکن سنت ضرور ہے۔
( صحیح بخاری 2032، صحیح ابی داود 2473)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❽⇚ اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ لگانا مسنون ہے۔
(صحیح بخاری 2034)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❾⇚ اعتکاف میں بیوی سے مباشرت یا شہوت سے متعلق باتیں حرام ہیں
(صحیح ابی داود 2473)۔
البتہ تھوڑی دیر کی مباح باتیں جا‏ئز ہیں۔
(صحیح بخاری 2038)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❿⇚ جماع کرنے سے اعتکاف ختم ہوجاتا ہے البتہ اس کاکفارہ ثابت نہیں(البقرۃ: 187)۔
لیکن احتلام ہوجانے سے اعتکاف ختم نہيں ہوتا اسے غسل کرلینا چاہیے
(صحیح ابی داود 4403)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓫⇚ مسجد سے بدن کا کچھ حصہ نکل جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ البتہ مکمل طورپر مسجد سے باہر نکلنا اگر طبعی شرعی ضرورت کے تحت ہو جیسے استنجاء وغیرہ تو جائز ہے
(صحیح بخاری 2029)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓬⇚ معتکف نہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ جنازے کے ساتھ چلے
(صحیح ابی داود 2473)
الا یہ کہ اعتکاف سے پہلے شرط لگائی ہو فلاں کی عیادت کو جاؤں گا تو جاسکتا ہے، لیکن خریدوفروخت اور اس جیسے منافئ اعتکاف کام بالکل بھی جائز نہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓭⇚ اعتکاف کرنے والا اعتکاف ختم بھی کرسکتا ہےاسکی قضاء واجب نہیں البتہ کرلی جائے تو افضل ہے
(صحیح بخاری 2033)۔
لیکن نذر کا اعتکاف واجب ہے
(الانسان: 7، صحیح بخاری 6696)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓮⇚ اعتکاف تین مساجد (مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی) میں سب سے افضل ہے
(السلسلة الصحيحة 2786)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⓯⇚ اعتکاف کے فضائل پر کوئی صحیح حدیث ثابت نہيں۔
التوحیدخالص ڈاٹ کام / مختلف علماءکرام
⇦⇦⇦⇦⇦⇦ اعتکاف کی فضیلت میں ضعیف اور موضوع روایات ⇨⇨⇨⇨⇨⇨
۔
┄┅═════════════════════════════
اعتکاف بلا شک تقرب الہٰی کے حصول کا مسنون عمل ہے ۔ یہ مشروع عبادت ہے ۔
لیکن اعتکاف کی فضیلت اور اجر و ثواب کے بارے میں جو بھی احادیث وارد ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موضوع ( منگھڑت ) ہیں ۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوال کے جوامیں کہا
سوال : کیا آپ اعتکاف کی فضیلت کے بارے میں کوئی چیز جانتے ہیں؟
آپ نے فرمایا:
"نہیں،سوائے چند ضعیف روایات کے"
دیکھیے :
الغنی ج3 ص183
ان ضعیف روایات کی تفصیل درج ذیل ہے ⇓⇓⇓
 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: هُوَ يَعْكُفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنْ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَات كُلِّهَا»
سنن ابن ماجہ نمبر 1781۔
"اعتکاف کرنے والا ایک طرف تو گناہوں سے بچا رہتا ہے اور دوسری طرف اس عمل کی جزا کے طور پر اسے اتنی نیکیاں ملتی ہیں جتنی ساری کی ساری نیکیاں کرنے والوں کو مل سکتی ہیں"
- یہ حدیث ضعیف ہے۔
- اس کی اسناد میں ایک راوی فرقد السنجی ہے جوصدوق عابد مگر لین الحدیث اور کثیر الخطاء تھا۔
- امام نسائی اور دارقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے
- ایوب فرماتے ہیں:
لیس بشئی امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:"
كانت فيه غفلة ورداءةحفظ فكان يرفع المرسل وهو لايعلم ويسند الوقوف من حديث لايفهم فبطل الاحتجاج به
- امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"وہ صالح مرد تھا لیکن حدیث کے معاملہ میں قوی نہ تھا"
- امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں کوئی حرج نہیں بتایا ہے اور یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ وہ ضعیف تھا۔
تاریخ ابن معین ۔ج3 ص513 ج4 ص44۔95۔علل لابن حنبل ج1 ص123۔التاریخ الکبیر للبخاری ج4،ص
- علامہ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے بھی سنن ابن ماجہ کی اس حدیث کو"ضعیف" قرار دیا ہے۔
مشکواۃ نمبر2108۔ضعیف ابن ماجہ ص137 التعلیق علی ابن ماجہ فی ضعیف الجامع نمبر 5940۔
 اس سلسلہ کی دوسری روایت قطعاً من گھڑت(موضوع) ہے اور ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
من اعتكف عشرا في رمضان كان كحجتين وعمرتين
یعنی جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا تو گویا وہ دوحج اور دو عمروں کے(ثواب) جیسا ہے
- بیھقی رحمہ اللہ نے اسے روایت کرنے کے بعد اسے ضعیف کہا ہے
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسۃ الضعیفۃ ( 518 ) میں اسے ذکر کرنے کے بعد اسے موضوع کہا ہے ۔
- صد افسوس کہ تبلیغی جماعت کے سرخیل جناب محمد زکریا کاندھلوی صاحب نے اس حدیث کو بایں الفاظ نقل کیا ہے:
"علامہ شعرانی نے کشف الغمۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص عشرہ رمضان کا اعتکاف کرے ،اس کو دو حج اور دو عمروں کا اجر ہے۔۔۔۔الخ"
تبلیغی نصاب ص 491۔ طبع ملتان(فضائل رمضان فصل ثالث)
- مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں راقم کا مضمون؛"کیا اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے مساوی ہے؟"طبع در جریدہ"ترجمان"دہلی مجریہ 13 اپریل 1991ء اور ضمیمہ کتاب"روزہ" وغیرہ(58)
 طبرانی اورامام حاکم اور بیھقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس نے بھی اللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تواللہ تعالی اس کے اورجہنم کے مابین تین خندق بنا دی ہیں ان کی دوری مشرق ومغرب سے بھی زيادہ ہے
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الضعیفۃ ( 5345 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ خافقان کا معنی مشرق ومغرب ہے ۔
 دیلمی نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیےجاتے ہیں ) ۔
- علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف الجامع ( 5442 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
عن ابن عباس رضياللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ"وَمَنِ اعْتَكَفَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ تَعَالَى جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلاثَ خَنَادِقَ أَبَعْدَ مَا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ "
(طبرانی اوسط بیہقی الترغیب
۱۵۰/۲)
یعنی جو شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں تیار کرادے گا ہر خندق کی چوڑائی مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی۔"
- سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت المعجم الاوسط للطبرانی (۱۶۰/۸ ح ۷۳۲۲) شعب الإیمان للبیہقی (۴۲۴/۳ ح ۳۹۶۵) اخبار اصبھان لأبی نعیم الاصبھانی (۹۰،۸۹/۱) وتاریخ بغداد للخطیب البغدادی (۱۲۶/۴ ، ۱۲۷ ترجمہ:۱۸۰۲)میں بشر بن سلم البجلی عن عبدالعزیز بن ابی رواد عن عطاء عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے ۔
- بشر البجلی کے بارے میں حافظ ابو حاتم الرازی نے کہا :”ھو المنکر الحدیث” (الجرح و التعدیل ۳۵۸/۲) اس شدید جرح کے مقابلے مین حافظ ابن حبان کا اس راوی کو کتاب الثقات (۱۴۴،۱۴۳/۸) میں ذکر کرنا مردود ہے۔
- خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۵۶۶/۱۱ ح ۵۳۴۵) وضعیف الترغیب و الترھیب (۱۷۷/۲)اس روایت کی باطل تائید مستدرک الحاکم (۲۷۰/۴ ح ۷۷۰۶) میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن معاویہ کذاب اور ہشام بن زیاد متروک ہے ۔
- اس بارے میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا مفصل کلام السلسلۃ الضعیفۃ (ج11ص566۔569)میں ہے انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس روایت کی بعض سندوں میں "وَحُرْمَةِ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ" کے الفاظ بھی ہیں جنھیں البانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حلب بغیر اللہ اور شرک کہا ہے۔
خطباء اورواعظ حضرات کو ایسی ضعیف و مردود روایت کو عوام کے سامنے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے جس سے شرک کا "اثبات"ہو رہا ہے۔
لٙآ اِعتِکٙاف والی روایت کی تحقیق از قلم : شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
۔
┄┅═════════════════════════════
جن لوگوں کا یہ موقف ہے کہ صرف تین مساجد ہی میں اعتکاف جائز ہے ، ۱-مسجد حرام ، ۲- مسجد نبوی ، ۳- مسجد اقصی ، دیگر مساجد میں جائز نہیں ہے ، وہ اپنے دعوی پر ایک روایت پیش کرتے ہیں ” سفیان بن عیینہ عن جامع بن ابی راشد عن ابی وائل عن حذیفۃ عن رسول اللہ ﷺ قال : لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثۃ
{ المعجم للاسماعیلی /2، 3 /720 ، ح :336 ، سیر اعلام النبلاء للذہبی ،ج:15 ، ص: 81 ، وقال : صحیح غریب عال / السنن الکبری للبیہقی ، ج:
۴ ،ص: 316 / مشکل الآثار للطحاوی ،ج:۴،ص: 30 / المحلی لابن حزم ،ج:5 ،ص: 195 ، مسئلہ : 633 }
آپ ﷺ نے فرمایا ” اعتکاف نہیں ہے صرف تین مسجدوں میں ہے
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے ، اس لئے کہ اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں ، جو عن سے روایت کررہے ہیں ، کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے ، جب کہ ان کی اسانید روایت میں سمع کی تصریح ہونا محدثیں کے ہاں ہونا ضروری ہے ، کیونکہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ اور حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور مدلس تھے ، حافظ ابن حبان لکھتے ہیں :
وھذا لیس فی الدنیا الا سفیان بن عیینہ وحدہ فانہ کان یدلس ولا یدلس الا عن ثقہ متقن
{ الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ،ج:
۱،ص: 90 }
دنیا میں اس کی مثال سفیان بن عیینہ اکیلے ہی ہیں ، کیونکہ آپ تدلیس تو کرتے تھے مگر ثقہ متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے تدلیس نہیں کرتے تھے ۔
امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے { سوالات الحاکم للدارقطنی ،ص: 175 وغیرہ } امام سفیان بن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے :
Ûعلی بن المدینی Û ابو عاصم Û ابو جریج الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ،ص: 362 ، نعمۃ الاثاثۃ لتخصیص الاعتکاف فی المساجد الثلاثۃ ،ص: 79 وغیرہ ۔
تدلیس کی دومثالیں :
Û ایک دفعہ سفیان رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ :
لم اسمعہ من الزہری ولا ممن سمعہ من الزہری حدثنی عبد الرزاق عن معمر عن الزھری
میں نے یہ زہری سے نہیں سنا اور نہ اس سے سنا ہے ، جس نے زہری رحمہ اللہ سے سنا ہے { بلکہ } مجھے عبد الزاق نے عن معمر عن الزھری یہ حدیث سنائی ” ۔
{ علوم الحدیث للحاکم ص: 105 ، الکفایۃ ،ص: 359، مقدمہ ابن الصلاح ،ص:95، 96 / اختصار علوم الحدیث ،ص: 51 / تدریب الراوی ،ج:1 ،ص: 224 / فتح المغیث ،ج:
۱،ص: 183 ،وغیرہ }
Û ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار {ثقہ } سے ایک حدیث بیان کی پوچھنے پر بتایا :
حدثنی علی بن المدینی عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو بن دینار
{ فتح المغیث ،ج:
۱ ،ص: 185 ، وغیرہ }
مجھے علی بن مدینی نے عن الضحاک بن مخلد عن ابی جریج عن عمرو بن دینا ر کی سند سے یہ حدیث سنائی ” ۔
حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابن جریج کے ” عنعنہ ” کی وجہ سے ضعیف ہے ، ابن جریج کا ضعفا سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے ۔
{ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر رحمہ اللہ ،ص: 95 وغیرہ }
نتیجہ :
اس سے معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے تدلیس کرتے تھے ان میں سے بعض بذات خود مدلس تھے مثلا ابن جریج وغیرہ ، ابن عیینہ کے اساتذہ میں سے امام زہری رحمہ اللہ امام عجلان رحمہ اللہ الاعمش اور وغیرھم تدلیس کرتے تھے ، لہذا سفیان بن عیینہ کا عنعنہ بھی مشکوک ہے ، رہا یہ مسئلہ کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتے تھے ، محل نظر ہے ۔
سفیان رحمہ اللہ نے بن محمد اسحاق کے بارے میں امام زہری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا کہ : ” اما انہ لا یزال فی الناس علم مابقی ھذا
لوگوں میں اس وقت تک علم باقی رہے گا جب تک یہ { محمد بن اسحاق } زندہ ہے “۔
{ تاریخ یحی بن معین ،ج:
۲،ص: 504 ،ت : 979 ، من زوائد عباس الدوری الکامل للبخاری ،ج:۲،ص:2119 ، میزان الاعتدال ،ج:۳،ص:472 }
اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے ، اور حقیقت یہ ہے کہ سفیان نے یہ قول ابو بکر الھذلی سے سنا تھا { الجرح والتعدیل ،ج:
۷،ص:191 } وغیرہ
اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ سفیان نے الہذلی سے تدلیس کی ہے ، یہ الہذلی متروک الحدیث ہے ، { تقریب ،ص:397 ،وغیرہ } ۔
سفیان نے حسن بن عمارہ {متروک /تقریب التھذیب ،ص:71 } سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ سفیان کا صرف ثقہ سے تدلیس کرنا محل نظر ہے ، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہوسکتا ہے ، کلی قاعدہ نہیں ہوسکتا ۔
محدثین کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کردی ہے کہ ہوسکتا ہے اس نے صحابی سےسنا ہو یا غیر صحابی سے سنا ہو ، اگر غیرہ صحابی { یعنی تابعی وغیرہ } سے سنا ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف ، لہذا مرسل روایت ضعیف ہوسکتی ہے ، بعینہ ” لااعتکاف — الخ ” والی روایت دو وجہوں سے ضعیف ہے :
۱ہوسکتا ہے کہ سفیان بن عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی ہو یا غیر ثقہ سے اگر غیر ثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے ۔
۲اگر ثقہ سے سنی ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ ثقہ بھی مدلس ہو ، جیساکہ اوپر واضح کردیا گیا ہے ، جب سفیان کا استاذ بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بضرور یہ روایت اپنے استاذ سے ہی سنی ہے ؟ جب اس کے سماع کی تصریح کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاذ کی وجہ سے ضعیف ہو، لہذا اس روایت کو شیخ ابو عمر عبد العزیز نورستانی حفظہ اللہ کا امام ذہبی رحمہ اللہ کی پیروی کرتے ہوئے ” صحیح عندی ” کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے ۔
مختصرا سفیان بن عیینہ بیان کردہ حدیث ” لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثۃ” بلحاظ سند ضعیف ہے
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه


Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search