بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
تحقیق روایت :
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس ہاتھ سے تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا، اور مجھے خوشبو لگانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس پہنچا کر تدفین کے لیے اجازت طلب کرنا، اگر دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا، ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا، تاوقت کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی، میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو بکر آپ سے داخلے کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی
حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو، بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔
یہ قصہ تین کتابوں میں موجود ہے ۔
السيرة الحلبية، 3 : 493
الخصائص الکبریٰ، للسيوطی، 2 : 492
تاريخ دمشق الکبير، ابن عساکر، 30 : 436
دیوبندیوں کے نزدیک یہ قصہ سچا ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ قصہ امام أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360 ھ) نے اپنی کتاب " الشریعہ " میں بغیر کسی سند کے ( صیغہ تمریض کے ساتھ ) یعنی "بیان کیا جاتا ہے " کے الفاظ سے لکھا ہے ،(قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ )
اور مشہور مؤرخ علامہ ابن عساکر (المتوفى: 571 ھ)نے " تاریخ دمشق " میں بالاسناد نقل کیا ہے ،
تاریخ دمشق سے سند کے ساتھ درج ذیل ہے :
أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق " ( تاریخ دمشق ، جلد 30 ، صفحہ 437 )
ترجمہ :
جناب علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھا کر مجھے فرمایا اے علی ! کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل وغیرہ دے کر روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور اجازت طلب کرنا ، تو اگر درازہ کھول دیا جائے ، تو مجھے اندر لے جانا ، بصورت دیگر مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان لے جانا ،
جناب علی فرماتے ہیں کہ ( وصیت کے مطابق ) انہیں غسل ،کفن دینے کے بعد ہم انہیں لے کر روزہ شریفہ کے پاس پہنچے اور سب سے پہلے میں عرض کی ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ابوبکر ہیں جو آپ کی اجازت کے طلب گار ہیں ،
تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا ، اور کہنے والے کا کہنا سنا کہ محب کو حبیب کے پاس پہنچا دو ، کیونکہ آقا اس محب کی (ملاقات ) کے مشتاق ہیں ۔ "
- امام ابن عساکر یہ روایت نقل کرکے فرماتے ہیں :
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول
والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس "
ترجمہ یہ روایت منکر ہے ، اور اس کے دو راوی موسی بن محمد اور عبدالجلیل مجھول ہیں ،
اور ثابت بات یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کو انکی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیا تھا ( نہ کہ جناب علی نے )
تحقیق از : مولانا اسحاق سلفی رحمہ اللہ ( اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ وَ اخْلُفْهُ فِیْ عَقِبِهِ فِی الْغَابِرِیْنَ وَ اغْفِرْلَنَا وَلَهُ یَا رَبَّ لْعَالَمِیْنَ وَ افْسَحْ لَهُ فِیْ قَبْرِهِ وَ نَوِّرْ لَهُ
آمین ثم آمین برحمتک یارب العالمین)
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment