SHIRK (Definiation-Types-Losses)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه



📚 شرك كیا ہے ??? :۔
لغوی طور پر شرک کا معنیٰ ہے کسی دوسرے کو اپنے کام یا حصہ میں شریک کر لینا ۔جبکہ اصطلاحاًشرک کہتے ہیں اللہ کی ربوبیّت‘الوہیّت‘اسماء وصفات میں ‘یا ان میں سے کسی ایک میں کسی غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنانا۔
پس جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے سا تھ کو ئی اور بھی خالق یا مدد گار ہے‘یا اللہ کے سوا کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے‘ یا اسماء وصفات میں اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔
. شرک کی اقسام 📚

شرک کی چار قسمیں ہیں۔

(۱)شرک فی العلم:۔  🔘

اللہ ربّ العزّت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔یعنی اس کا علم ہر چیز کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر چیز سے با خبر رہتا ہے۔خواہ وہ چیز دور ہو یا قریب‘پوشیدہ ہو یا ظاہر‘آسمانوں میں ہو یا زمینوں میں‘پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو یا سمندروں کی تہہ میں۔یہ اللہ ہی کی شان ہے اور کسی کی نہیں۔اگر کوئی شخص کسی غیر اللہ کے اندر یہ صفات پائے جانے کا عقیدہ رکھے کہ غیر اللہ بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہے‘ہر چیز سے باخبر ہے خواہ وہ غیر اللہ نبی ہو یا ولی ‘جن ہو یا فرشتہ۔تو ایسا عقیدہ رکھنے والا مشرک ہے۔

(۲)شرک فی التصرّف: 🔘

کائنات میں ارادے سے تصرّف و اختیار کرنا ‘حکم چلانا‘خواہش سے مارنا اور زندہ کرنا‘رزق میں تنگدستی و فراخی کرنا‘تندرستی وبیماری سے دوچار کرنا‘فتح و شکست دینا‘عزّت وذلّت سے دوچار کرنا‘اقبال وادبارکا لانا‘مرادیں بر لانا‘مشکل میں دستگیری کرنا‘اوربر وقت مدد کرنا۔یہ سب کچھ اللہ ہی کی شان ہے کسی اور کی نہیں‘خواہ وہ کتنا بڑا انسان یا مقرّب فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔پس جو شخص کسی غیر اللہ سے مرادیں مانگے اور اس کو تصرّف کا مالک سمجھے تو وہ آدمی مشرک ہے۔

(۳)شرک فی العبادات: 🔘

اللہ تعالیٰ نے بعض کام اپنی عبادت کے لئے مخصوص فرما دیئے ہیں۔جن کو عبادات کہا جاتا ہے۔مثلاً سجدہ کرنا‘رکوع کرنا‘ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا‘صدقہ وخیرات کرنا‘روزہ رکھنا‘دور دور سے اس کے مقدّس گھر کی زیارت کیلئے جانا‘بیت اللہ کا طواف کرنا‘اس کی طرف منہ کر کے سجدہ کرنا‘قربانی کرنا اور منتیں ماننا‘کعبہ پر غلاف چڑھانا‘حجر اسود کو چومنا‘اس میں خادم بن کر رہنا‘جھاڑو دینا اور صفائی کرنا‘آب زمزم پینا۔یہ سب کام اللہ نے مسلمانوں پر اپنی عبادت کے طور پر فرض کئے ہیں۔یہ سب عبادات اللہ ہی کی شان کے لائق ہیں اور کسی کے نہیں۔
پس جو شخص کسی نبی کویا ولی کو‘جن کو یا فرشتے کو‘کسی سچی یا جھوٹی قبر کوسجدہ کرے ‘چڑھاوا چڑھائے‘تبرک حاصل کرے‘مجاور بن کر بیٹھے‘اس قبر یا آستانے کی عزّت کرے اور اس کو مقدّس جانے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مشرک ہے۔

(۴)شرک فی العادات: 🔘

اللہ نے اپنے بندوں کو یہ ادب سکھلایا ہے کہ وہ عام دنیوی کاموں میں بھی اللہ کو یاد رکھیں‘ اور اس کی تعظیم بجا لائیں۔جیسے کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ‘اولاد کی نعمت پر بطور شکریہ جانور ذبح کرنا ‘بچوں کے نام عبد اللہ ‘عبد الرحمن رکھنا ‘کھیتی سے کچھ حصہ اللہ کے نام پر صدقہ کرنا ‘ہر کام کا ارادہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا ‘ضرورت کے موقع پر صرف اللہ کے نام کی قسم کھانا وغیرہ وغیرہ۔اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم کھاتا ہے ‘دنیوی کاموں میں اللہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگتا ہے ‘کام شروع کرتے وقت بسم اللہ کی بجائے کسی اور کا نام لیتا ہے ‘مثلاّ یا علی مدد ‘اولاد کا نام پیروں کے نام پر رکھتا ہے جیسے۔پیر بخش‘عبد النّبی ‘غلام رسول ‘امام بخش وغیرہ تو ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص مشرک ہے۔[تقویۃ الایمان]

 شرك كے مظاہر : 📚

عالم اسلام میں پھیلے ہوئے شرک کے مختلف انداز ہیں۔جو ہر علاقہ کے اعتبار سے مختلف ہیں۔یہاں شرک کی چند صورتوں کو بیان کیا گیا ہے ‘تا کہ انسان شرک جیسی گمراہی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔
مثلاًغیر اللہ سے دعائیں مانگنا ‘ قبروں پر جا کر نذر و نیاز تقسیم کرنا اور منّتیں ماننا ‘ مزاروں پر شرینی تقسیم کرنا یا چڑھاوے چڑھانا ‘ قبروں یا آستانوں کے پاس جانور ذبح کرنا ‘ قبروں کا طواف کرنا یاپیشانیاںٹیکنا اور رکوع کی حالت میں جھکنا ‘ قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا یا سجدہ کرنا ‘ قبروں کی طرف ثواب اور تبرّک کی نیت سے کجاوے کسنا اور سفر کرنا ‘ اولیاء اور نیک لوگو ں کو مسجد میں دفن کرنا ‘ غیر اللہ سے مدد مانگنا جیسے یا علی مدد کہنا ‘ بیماری یا مصیبت سے بچنے کے لئے کڑا پہننا ‘دھاگہ لٹکانا یا انگوٹھی پہننا جیسے مخصوص پتھروں والی انگو ٹھیاں پہنی جاتی جاتی ہیں ‘ نظر بد سے بچنے کے لئے بچوں کے گلے میں تعویزلٹکانا ‘ پرندوں یا آدمیوں سے فال لینا ‘ درختوں پتھروں اور اصنام سے برکت حاصل کرنا ‘ جادو کے ذریعہ شفا حاصل کرنا ‘ نجومیوں کے پاس جا کر اپنی قسمت معلوم کروانا اور ان کی تصدیق کرنا ‘ علم فلکی سے زمینی حوادثات کی خبریں دینا ‘ ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا ‘ جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر چھوڑ دینا ‘ قرآن وسنّت کے مخالف امور میںحکا م کی اطاعت اس نیت سے کرنا کہ یہ جائز ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ شرک کی چند ایک مثالیں ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف انداز سے رائج ہیں۔اس کے علاوہ بھی شرک کی کئی ایک صورتیں ہیں جو اس مختصر پمفلٹ پر بیا ن کرنا مشکل ہے ۔اللہ ہم سب کو شرک سے محفوظ فرمائے۔آمین۔

 شرک کے نقصانات : 📚

ذیل میں شرک کے وہ نقصانات بیان کئے جا رہے ہیں ۔جو مشرک کی زندگی پر دنیا و آخرت میں مرتّب ہوتے ہیں۔

 (۱) نکاح کی حرمت: 🔘

اور شرک کرنے والی عورتوں سے تا وقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو۔ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے‘گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو۔ اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو‘جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے‘گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔یہ لوگ جہنّم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنی بخشش اور جنّت کی طرف بلاتا ہے۔
[البقرۃ:۲۲۱]

 (۲)نماز جنازہ کی ممانعت: 🔘

ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازہ کی ہر گز نماز نہ پڑھیں‘اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔یہ اللہ اورا س کے رسول کے منکر ہیں‘اور مرتے دم تک بد کار بے اطاعت رہے۔
[التوبۃ:۸۴]

 (۳) دعاء مغفرت کی ممانعت: 🔘

پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیںاگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں۔اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ مشرک ہیں۔
[التوبۃ:۱۱۳]

🔘 (۴)اعمال کا ضیاع:

اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے ہیںان کے سب اکارت ہو جاتے۔
[الانعام:۸۸]

🔘 (۵)جنّت کا حرام ہونا:

یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے‘اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔اس کا ٹھکانہ جہنّم ہی ہے‘اور گناہ گاروں کی مددکرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔[المائدۃ:۷۲]

🔘 (۶)نجس ہونے کی وجہ سے حرم میں داخلہ ممنوع ہونا:۔

اے ایمان والو!بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔[التوبۃ:۲۸]

🔘 (۷)تفرقہ بازی کا سبب:۔

لوگو! مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے۔[الروم:۳۱‘۳۲]

🔘 (۸) انسانیت کی توہین:۔

کیونکہ مشرک آدمی اللہ رب العزت جو اعلیٰ و برتر ہے اس کو چھوڑ کر گھٹیا پر یقین رکھتا ہے۔اللہ فرماتے ہیں۔ سنو!اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا ‘اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور درازکی جگہ پھینک دے گی۔
[الحج:۳۱]

🔘 (۹)خوف و اوہام کا مرکز:۔

مشرک آدمی کی عقل ہر طرح کی خرافات کو قبول کر لیتی ہے اور وہ باطل کی تصدیق پر تیار ہو جاتا ہے۔اور وہ کئی جہت سے خوف کھاتا ہے کیونکہ وہ کئی معبودوں پر یقین رکھتا ہے۔اللہ فرماتے ہیں :ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے اس وجہ سے کہ وہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک بناتے ہیںجس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ان ظالموں کی بری جگہ ہے۔[آل عمران:۱۵۱]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو شرک و بدعات سے محفوظ فرمائے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

📚 کیا امت محمدیہ شرک نہیں کرسکتی ??

جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ} (الانعام:۸۱،۸۲)

''تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزاوار کون ہے اگر تم جانتے ہو، وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، اُنہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔'' (ترجمہ از مولانا احمدرضا خان بریلوی ، کنزالایمان)

اس آیت ِمبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث ِمبارکہ میں آپ1 نے وضاحت فرما دی ہے:

عن عبد اﷲ قال لمّا نزلت {الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} شق ذلك علی أصحاب رسول اﷲ ! وقالوا أینا لایظلم نفسه؟ فقال رسول اﷲ!:لیس ھو کما تظنون إنّما ھو کما قال لقمان لابنه {لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ}(صحیح بخاری:۳۴۲۹، صحیح مسلم:۱۲۴ واللفظ لہ)

''عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی [ترجمہ: جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ بالکل ظلم نہیں کیا (انہی کو نجات ہوگی)]تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول1 سے عرض کیا ہم میں سے کون شخص (معصیت کرکے) ظلم نہیں کرتا! رسول1 نے فرمایا: اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ظلم یعنی شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی ،شرح صحیح مسلم:۱؍۵۸۶)

(ا) اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: ''وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہیں کی۔'' اس بارے میں نص صریح ہے کہ اہل ایمان،ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور یہاں اس سے شرکِ اکبر مراد ہے جیسا کہ تفصیل آرہی ہے۔

(ب) یہ آیت ِکریمہ اہل ایمان، مسلمانوں یعنی کلمہ پڑھنے والے اُمتیوں کے بارے میں ہے کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے امن کی گارنٹی اور ہدایت یافتہ ہونے کی سعادت ہے۔

(ج) کلمہ نہ پڑھ کر اُمتی نہ بننے والوں کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ تو اگر بالفرض شرک نہ بھی کریں تو پھر بھی ان کے لیے نہ امن ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ کلمہ نہ پڑھنے اور انکارِ نبوت کی وجہ سے ہی وہ کافر اور ابدی جہنمی ہیں۔

(د) صحابہ کرامؓ نے اس آیت ِکریمہ کو، ہمارے اس دور کے اصحابِ جبہ ودستار کی طرح یہ کہہ کر ردّ نہیں کردیا کہ یہ تو کفار، یہود و نصاریٰ یا بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق ہے اور پھر نبی پاک1 نے بھی ایسا نہیں کیا۔

(ہ) صحابہ کرام ؓ نے اس آیت ِکریمہ کواپنے بارے میں سمجھا، اس سے استدلال کیا اور اپنے بارے میں پریشانی کا اظہار بھی کیا تو نبی کریم1 نے بھی اس کو ردّ نہیں کیابلکہ باقی رکھا لہٰذا یہاں یہ بہانہ بھی کارگر نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت تو صرف قربِ قیامت کے لوگوں کے متعلق ہے۔

(و) البتہ لفظ 'ظلم' کوسمجھنے میں جو دشواری ہوئی تھی، آپ1 نے اس کی اصلاح فرما دی کہ یہاں ظلم سے مراد ایک خاص ظلم یعنی شرک ہے، عام معصیت وغیرہ نہیں ہے۔

(ح) صحابہ کرامؓ نے زمانۂ جاہلیت کو قریب سے دیکھا تھا، اور پھر نبی پاک1 کی صحبت اور تعلیم و تربیت کا بھی اثر تھا کہ ان سے شرک کا وقوع نہیں ہوا۔ البتہ جہاں اُنہیں دوسرے لوگوں کے پھسل جانے کا خطرہ محسوس ہواتو اُنہوں نے اس کا سدباب بھی کیا۔

(ط) اس آیت ِکریمہ میں ظلم سے مراد شرک اکبر ہے، کیونکہ یہاںشرک ِاکبر کے مرتکب کافر اور مؤمن کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے کہ ان ''دونوں گروہوں میں سے امن کا سزاوار کون ہے؟'' توفرمایاکہ ''جو لوگ ایمان لائے اور اُنہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔''

(ی) سوال یہ ہے کہ کیا ان جدید مفکرین کے نزدیک کافر شرکِ اکبر کا مرتکب ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر اس آیت ِکریمہ کی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کابہانہ نہیں چل سکتا اور حق بھی یہی ہے کہ یہاں شرکِ اکبر مراد ہے۔

اور اگر نہیں تو پھر ان اصحاب کو اب یہ دعویٰ بھی کردینا چاہئے کہ'' ان کفار میں بھی شرکِ اکبر نابود تھا اور کوئی کافر بھی شرکِ اکبر میں مبتلا نہیں تھا'' تاکہ مزعومہ خیالات کے دفاع کا صحیح حق ادا ہوسکے۔

(ک) اگر اس آیت ِکریمہ کے سیاق و سباق کی طرف جائیں تو اس میں بھی شرکِ اکبر کا ہی تذکرہ ہے۔

معلوم ہوا کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور مسلمان بھی شرکِ اکبر میںمبتلا ہوسکتے ہیں، الامن رحم ربی اور یہ مذکورہ آیت ِکریمہ اس بارے میں نص صریح ہے اور اُمت ِ مسلمہ میں شرک نہ پائے جانے کادعویٰ سراسر باطل ہے اور قرآن کے خلاف ہے۔

۲ جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} (الحج:۳۰،۳۱)

''اور تمہارے لیے حلال کیے گئے ہیں بے زبان چوپائے سو ا ان کے جن کی ممانعت تم پرپڑھی جاتی ہے تو دور رہو بتوں کی گندگی سے، اور بچو جھوٹی بات سے ایک اللہ کے ہوکر کہ اس کا ساجھی کسی کونہ کرو اور جو اللہ کا شریک کرے، وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

(ا) اس آیت ِکریمہ میں بھی مخاطب مسلمان ہیں۔

جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری بھیروی راقم ہیں:

''مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ یہ بت جن کو مشرکین نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے یہ تو سراسر نجاست اور غلاظت ہیں،ان سے دور بھاگو۔''

نیز فرماتے ہیں: ''شرک سے منہ موڑ کر کمال یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاؤکسی کواس کا شریک نہ بناؤ، نہ ذات میں اور نہ صفات میں''

(ضیاء القرآن :۳؍۲۱۲،۲۱۳)

(ب) امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:

وَثن بت ہے خواہ سونے، چاندی کی مورتی ہویا کسی اور چیز کا مجسمہ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے وہ وثن ہے خواہ بت ہو یا کوئی اور چیز۔ (التمہید:۵؍۴۵)

(ج) کیا ان اصحاب کے نزدیک وثن کی عبادت بھی شرکِ اکبر نہیںہے؟

(د)کیامسلمانوں کو ایسی چیز سے بچنے کا پابندو مکلف بنایا جارہا ہے جس کے وجود کا ان میں امکان بھی نہیں؟ جیسا کہ فرشتوں کو مکلف بنانا کہ وہ نہ کھائیں، نہ پئیں اور نہ قضاے حاجت کریں۔

۳ انبیاء علیہم السلام سے شرک کا صدور ناممکن ہے، وہ اس سے پاک ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک کی قباحت و برائی کوبیان کرنے اور اُمتیوں کو سمجھانے کے لیے اٹھارہ انبیا وورُسل علیہم السلام کاذکر کرکے فرمایا:

{وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} (الانعام:۸۸)

''اور اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کا کیا اکارت جاتا۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب رقم طراز ہیں:

''پھر فرمایا (بہ فرضِ محال) اگر ان نبیوں اور رسولوں نے بھی شرک کیا تو ان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کی آمیزش کے ساتھ کسی نیک عمل کو قبول نہیں فرماتا اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی اُمتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اگر اُنہوں نے بالفرض شرک کیا تو ان کے نیک عمل ضائع ہوجائیں گے تو ان کی اُمتیں کس گنتی ، شمار میں ہیں۔'' (تبیان القرآن:۳؍۵۷۹)

۴ اسی طرح ایک اور مقام پر نبی پاک1سے فرمایا:

{وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}(الزمر:۶۵)

''اور بیشک وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر (بفرضِ محال) آپ نے بھی شرک کیاتو ضائع ہوجائیں گے آپ کے اعمال اور آپ بھی خاسرین میںسے ہوجائیں گے۔'' (ترجمہ از جسٹس (ر) پیرکرم شاہ ازہری، ضیاء القرآن:۴؍۲۸۱)

غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اس آیت میں تعریض ہے۔ ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی اُمت ہے یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے تو اگر آپ کی اُمت کے کسی شخص نے شرک کیاتو اس کے اعمال تو بطریق اولیٰ ضائع ہوجائیں گے۔ (تبیان القرآن:۱۰؍۲۹۳)

۵ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}

''تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔'' (ترجمہ از کنزالایمان ،سورۃ الکہف:۱۱۰)

(ا) نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اس آیت کے تحت راقم ہیں:

''شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریا سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں۔'' (خزائن العرفان، سورۃ الکہف، آیت نمبر ۱۱۰ حاشیہ نمبر ۲۲۴)

(ب) اس آیت ِکریمہ کی ریا یعنی شرکِ اصغر کے ساتھ تخصیص کرنے والوں کو نعیم الدین مراد آبادی کا مندرجہ بالا بیان اور اپنادرج ذیل اُصول یاد رہنا چاہئے۔

احمدرضا خان صاحب بریلوی راقم ہیں:

''اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے، بے دلیلِ شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اُٹھ جائے۔ نہ اَحادیث ِآحاد اگرچہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کی ہوں، عمومِ قرآن کی تخصیص کرسکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائیں گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۹؍۴۸۸)

مزید فرماتے ہیں: ''عموم آیاتِ قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبارِ آحاد سے استناد محض غلط ہے۔ '' (فتاوی رضویہ:۲۹؍۴۸۹)

(ج) یہ آیت ِکریمہ اُمت ِمحمدیہ کے مسلمانوں کے بارے میں ہے، کیونکہ مشرکین عرب تو یوم آخرت اور حشرونشر پر ایمان رکھتے ہی نہیں تھے۔

۶ اللہ تبارک ارشاد فرماتے ہیں:

{وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ} ( یوسف:۱۰۶)

''اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔'' (ترجمہ: از مولانا غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن:۵؍۸۷۵)

(ا) یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ

''لوگ ایمان لانے کے باوجود بھی شرک کاارتکاب کرتے ہیں۔''

(ب) حالانکہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانتا ہے نہ اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ اس کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے اور کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔

(ج) علامہ سید محمود آلوسی حنفی، اس آیت ِکریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ومن أولئك عبدة القبور الناذرون لھا،المعتقدون للنفع والضرّ ممن اﷲ تعالیٰ أعلم بحاله فیھا وھم الیوم أکثر من الدود(روح المعاني:۱۳؍۶۷)

''اور انہی میں سے ایک گروہ قبر پرست لوگوں کا ہے جو ان کیلئے نذر مانتے ہیں اور ایسے لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ قبروں میں ان کی کیا حالت ہے اور ایسا کرنے والے لوگ تو آج کل کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ ہیں۔''

یاد رہے کہ اگر قبرپرستی بھی شرک ِاکبر نہیں ہے تو پھر کیا اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ بت کو کھڑا کرکے پوجتے ہیں اس لیے شرک اکبر کے مرتکب ٹھہرے اوریہ دفن کرکے پوجنے سے شرک اکبر کی تعریف سے نکل جائیں۔سبحان اللہ! اور آستانوں اور مزارات پر اس کامشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔

(د) علامہ آلوسی حنفی تو قبروں کے لیے نذر و نیاز ماننے والوں اور قبروں والوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسی آیت کریمہ کے تحت قبرپرست قرار دے کر ایسی آیت ان پر فٹ کرتے ہیں۔ (اور ان کو مشرک سمجھ رہے ہیں اور مشرک کہہ رہے ہیں)

(ہ) اور اس دور کی جاہلیت ِجدیدہ کے ان جدید مفکرین کی طرح اس آیت ِکریمہ کو بتوں، ریا کاری یا قربِ قیامت کے متعلق کہہ کر ردّ نہیںکرتے اور نہ ہی اس کو کفار کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔

(ح) پیر سید نصیرالدین گولڑوی سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف فرماتے ہیں :

{وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ} (الروم :۳۳)

''اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ اُنہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی اُن میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔'' (ترجمہ کنزالایمان)

کیا یہ دونوں آیتیں ہم میں سے اکثر سنی کہلوانے والے محبانِ بزرگانِ دین کے نظریہ و فکر اور طرزِ عمل کی نشاندہی نہیں کررہیں؟ بارہا مشاہدہ میں آیا کہ جب کسی خوش عقیدہ اور زائد از ضرورت عقیدت مند کو کوئی فائدہ پہنچتا یاخوشی نصیب ہوتی ہے تو فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ یہ میرے مرشد کاکام ہے، لیکن جب کوئی مصیبت اور تکلیف آدبوچتی ہے توکہنے لگتا ہے: اللہ کی مرضی... (مزید لکھتے ہیں)

''دیکھیں یہی باتیں مشرکین اصنام میں تھیں اور یہی آج کے اکثر عقیدت مند مسلمان کہلوانے والوں میں ہیں تو کیا ان پر وہ آیات خود فٹ نہیں آرہیں؟'' (اعانت و استعانت:ص ۹۵،۹۶)

۷ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} (الانعام:۱۲۱)

''بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳؍۶۳۶)

(ا) اس آیت ِکریمہ میںمسلمانوں، کلمہ پڑھنے والوں، آپ کے امتیوں سے خطاب ہے۔

(ب) یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور یہ کہ مسلمان بھی مشرک ہوسکتے ہیں۔

(ج) اور اسے قرب ِقیامت کے ساتھ خاص بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی ریاکاری کے ساتھ تاویل ہوسکتی ہے۔

(د) اگر اُمت ِمسلمہ میں شرک نہیں پایا جاسکتا یا مسلمان شرک نہیں کرسکتے تو پھر إنکم لمشرکون اور وہ بھی تاکیداً کیوں کہا گیا؟

(ہـ)جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں:

''اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔'' (ضیاء القرآن:۱؍۵۹۷)

(و) نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

''کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔'' (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)

(ز) کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (الانعام:۱۲۱)

تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔

۸ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60) وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ} (یس:۶۰،۶۱)

''اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری بندگی کرنا، یہ سیدھی راہ ہے۔'' (ترجمہ: از احمد رضا خان بریلوی، کنزالایمان)

نعیم الدین مراد آبادی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اس کی فرمانبرداری نہ کرنا اور کسی کو عبادت میں میراشریک نہ کرنا۔'' (خزائن العرفان، سورئہ یس: حاشیہ نمبر۷۷،۷۸)

غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:

''اور شیطان کی عبادت سے مراد ہے، شیطان کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے قدم بہ قدم چلنا۔'' (تبیان القرآن:۹؍۸۰۳)

کیاکوئی بھی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ شیطان کی عبادت بھی شرک نہیں ہے اور لوگوں میں اس کا وجود نہیں ہے؟ حالانکہ کوئی بھی شیطان کو واجب الوجود، اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات اور اس کو مستحق عبادت قرار دینے والا نہیں ۔

معلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے اس سے تو شیطان کی عبادت بھی شرک ثابت نہیں ہوگی۔

۹ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} (التوبہ:۳۱)

''اُنہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا اورمسیح ابن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، اُسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔'' (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)

جسٹس (ر) پیر کرم شاہ ازہری سجادہ نشین بھیرہ شریف اسی آیت ِکریمہ کے تحت راقم ہیں:

''حضرت عدی بن حاتم پہلے عیسائی تھے۔ اب اُنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ1 ہم تو انہیں ربّ نہیںمانتے توقرآن کی اس آیت کا کیامطلب ہے؟ حضورِ کریم1 نے فرمایا کہ اگر وہ حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیتے تو کیا تم ان کی ان باتوں کونہیں مانتے تھے۔ عدی نے عرض کی کہ ایسا تو ہم کرتے تھے۔ حضور1 نے فرمایا یہی ان کو ربّ ٹھہرانا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اگر کوئی حرام کردے یا ان کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے تو اس نے گویا تشریع قانون سازی جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جن لوگوں نے اس کی ان باتوں کو مان لیا، گویا انہوں نے اس کی خدائی کو تسلیم کرلیا۔'' (ضیاء القرآن:۲؍۱۹۸)

اور غلام رسول سعیدی صاحب بھی اسی آیت کریمہ کے تحت حضرت عدیؓ والی مذکورہ بالا حدیث کو بحوالہ سنن ترمذی :۳۰۹۵ درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:

''قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ1 کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔''

نیز فرماتے ہیں:

''لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کومعلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔'' (تبیان القرآن:۵؍۱۲۲)

(ا)قرآن و سنت کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا اس کو ربّ قرار دینا ہے یہی بات پیرکرم شاہ ازہری اور مولانا غلام رسول سعیدی نے بھی بیان کی ہے، حالانکہ کوئی بھی انہیں واجب الوجود یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات یا ان کو مستحق عبادت قرار نہیں دیتا، لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔

(ب) پیر صاحب اورمولانا صاحب نے اس آیت ِکریمہ اور حدیث ِمبارکہ کو یہود و نصاریٰ کفار تک محدود کرنے یا قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دے کر ردّ کردینے کا موقف نہیں اپنایا تھا جو آج کے ان جدید مفکرین کی زبان پر گردان کی طرح جاری وساری ہے۔

(ج) کیامسلمان اس معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پرنہیں چل سکتے؟جب کہ رسول اللہ1 تو فرماتے ہیں کہ

تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول1، یہود و نصاریٰ؟آپ1 نے فرمایا اور کون؟

(صحیح بخاری: ۷۳۲۰، صحیح مسلم:۲۶۶۹)

(د) اور غلام رسول سعیدی صاحب نے تو اس زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھ لیا ہے جو اپنے بزرگوں کو ربّ بنائے بیٹھے ہیں لیکن شاید آج کے ان جدید مفکرین کے نزدیک اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہ ہو؟ یا ممکن ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں بھی شرک ِاکبر نابود ہو؟

j اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا} (النساء :۴۸)

''بلا شبہ اللہ شرک کو کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک بنایا اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔''

(ا) ایسے گناہ جن سے مؤمن توبہ کیے بغیر ہی مرجائیں، لیکن شرک پرموت نہ آئی ہو، تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا، سزا دیئے بغیر اس کو معاف فرما دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دینے کے بعد اور بعض کو نبی کریم1کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔

(ب) لیکن اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا بلکہ ایک اور مقام پر فرمایا کہ

{إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ} (المائدۃ:۷۲)

''بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کاٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔''

(ج) یہود و نصاریٰ اگربالفرض شرک نہ کریں تو پھر بھی آپ1کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہی کافر اور اَبدی جہنمی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم:۱۵۳میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث اس پر نص قطعی ہے۔ لہٰذا جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت میں مذکور معافی کی سعادت و خوشخبری ان کے لیے نہیں ہے۔

(د) معلوم ہوا کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت ِکریمہ میںمذکور معافی کی سعادت و خوشخبری، آپ1 کی بعثت کے بعد صرف آپ1 کی اُمت کے موحدین کے ساتھ ہی خاص ہے اور آپ1 کی اُمت میں سے شرک کے مرتکب لوگ اس سے محروم رہیں گے اور یہ کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاتا ہے۔

اور مندرجہ ذیل احادیث بھی اس پرنص قطعی ہیں:

é حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ1 نے فرمایا کہ ہرنبی کے لیے ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ہر نبی نے اپنی یہ دعا اس دنیامیں جلد مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کرنے کے لیے اس دعا کو محفوظ رکھا ہے:

فھي نائلة إن شاء اﷲ من مات من أمتي لا یشرك باﷲ شیئا

''اور ان شاء اللہ میری یہ شفاعت میری اُمت کے ہر اس فرد کو شامل ہوگی جو شرک سے بچا رہے گا۔''(صحیح مسلم:۱۹۹)

é اور ایک اور حدیث میں حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ1 نے فرمایا کہ

أتاني جبرائیل علیه السلام فبشرني أنه من مات من أمتك لا یشرك باﷲ شیئًا دخل الجنة

(صحیح بخاری:۱۲۳۷، صحیح مسلم:۹۴ واللفظ لہ)

''میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اورمجھے بشارت دی کہ جوشخص آپ کی اُمت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔''

مجددِ بریلویت جناب احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں:

''اللہ عزوجل، ابلیس کے مکر سے پناہ دے، دنیامیں بت پرستی کی ابتدا یوں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بناکر گھروں اور مسجدوں میں تبرکا ً رکھیں اور ان سے لذت، عبادت کی تائید سمجھی، شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں۔'' (فتاویٰ رضویہ:۲۴؍۵۷۳)

é حضرت جندبؓ فرماتے ہیںکہ میں نے نبی 1 کی وفات سے پانچ روز پہلے آپ1 کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور اس کے آخر میں ہے :

ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور أنبیائھم وصالحھم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنھاکم عن ذلكك (صحیح مسلم:۵۳۲)

''سنو! تم میں سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ سنو! میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، شرح صحیح مسلم:۲؍۷۶ )

امام ابن الجوزیؒ راقم ہیں:

''إن أصل عبادة الأوثان والأصنام من تعظیم قبور الأولیاء والصالحین ولھٰذا نھی الشارع ! عن تعظیم القبور والصلاة عندھا والعکوف علیھا فإن ذلك ھوالذي أوقع الأمم الماضیة بالشرك الأکبر (تذکرة أولي البصائر في معرفة الکبائر،ص ۲۱)

''بلاشبہ بتوں کی عبادت کی اصل وجہ ولیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم ہے اس لیے شارع 1 نے قبروں کی تعظیم کرنے، اُن کے پاس نماز پڑھنے اور ان پر مجاور بن کربیٹھنے سے منع فرمایا ہے، بلا شبہ یہی وہ چیز ہے جس نے سابقہ امتوں کوشرک اکبر میں مبتلا کردیا تھا۔''

é حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ1 نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے آپ1 صحت یاب نہیں ہوئے:

لعن اﷲ الیھود والنصارٰی إتخذوا قبور أنبیائھم مساجد لولا ذلك أُبرز قبرہ غیر أنه خشي أو خشی أن یتخذ مسجدًا (صحیح بخاری:۱۳۹۰، مسلم :۵۲۹)

''اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ1 کی قبر کو ظاہر کردیا جاتا، لیکن آپ کو ڈر تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔''

غلام رسول سعیدی بریلوی ''نبیوں کی قبروں کی عبادت کی ابتدا کیسے ہوئی اور کسی ممنوع کام کا ذریعہ اور اس کا دروازہ بند کرنا'' کی موٹی سرخی کے تحت علامہ ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی (متوفی ۶۵۶ھ) سے ایک طویل عبارت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے کہ

''اسی وجہ سے مسلمانوں نے رسول اللہ1 کی قبر انور پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے میں بہت مبالغہ کیا اور آپ کی قبر کی دیواروں کو بہت اونچا کردیا اور ان میں داخلہ کو مسدود کردیا۔ پھر ان کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنالیا جائے تو اُنہوں نے قبر کے دو رکنوں پر دو دیواریں بنا دیں حتیٰ کہ کسی شخص کے لیے نماز میں عین قبر کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہوا۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو ظاہرکردیا جاتا۔'' (المفھم: ۲؍۱۲۸،نعمۃ الباري:۲؍۱۹۰)

é حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

لما نَزَل برسول اﷲ ﷺ طفق یطرح خمیصة له علی وجھه فإذا اغتم بھا کشفھا عن وجھه فقال وھو کذلك لعنة اﷲ علی الیهود والنصارٰی اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد یحذر ما صنعوا (بخاری:۴۳۵، مسلم:۵۳۱)

''جب رسول اللہ پر مرض الموت نازل ہوا تو رسول اللہ1 نے اپنے چہرے پر سیاہ منقش چادر ڈالی۔ پھر جب آپ اس چادر سے تنگی محسوس کرتے تو آپ اس چادر کو چہرے سے ہٹا دیتے۔ پھر اسی حالت میں آپ1 نے فرمایا:یہود و نصاریٰ پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنا دیا آپ ان کے کیے ہوئے کاموں سے ڈرا رہے تھے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، نعمۃ الباري:۲؍۲۰۳)

جناب غلام رسول سعیدی بریلوی راقم ہیں کہ

''بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاریخ میں اس کا ثبوت نہیں ہے کہ یہودیوں نے کسی نبی کی قبر کی پرستش کی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ کتب ِتاریخ میں کسی واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی نفی لازم نہیں آتی جب کہ ہمارے نزدیک کتب ِتاریخ کی بہ نسبت کتب ِاحادیث معتبر ہیں۔'' (نعمۃ الباري:۲؍۲۰۴)

دیکھیں پہلی اُمتوں کے لوگوں نے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، ان کو قبلہ قرار دیا، ان کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کی پرستش کی جبکہ آپ1 نے مسلمانوں کو ایسے کاموں سے ڈرایا، روکا اور صحابہؓ نے اسی خطرے کے پیش نظر آپ1 کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا بلکہ مسلمانوں نے آپ1 کی قبر پر آپ کی عبادت کاذریعہ قطع کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقدامات کئے۔

معلوم ہواکہ آپ1 اور صحابہؓ اس اُمت کے مسلمانوں کے شرک میںمبتلا ہونے سے بے خوف نہیں تھے، غور کریں۔ کیا یہود و نصاریٰ قبروں میںمدفون بزرگوں کو واجب الوجود مان کر یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان کر یا ان کومستحق عبادت سمجھ کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے؟ اور کیا ان قوموں میں بھی صرف شرکِ اصغر (ریاکاری) ہی پایا جاتا تھا ان میں شرکِ اکبر کے مرتکب لوگ نہیں تھے؟ اور کیا ان قوموں کے مشرکانہ عقائد و افعال اور شرکِ اکبر میں مبتلا ہونے کے اسباب و دواعی ان ہی کے ساتھ خاص تھے؟ اور کیا اس امت کے لوگ ان کے نقش قدم پرایسا نہیں کرسکتے؟ جبکہ حدیث مبارکہ میں تو نبی پاک1 کا فرمانِ مبارک بڑا ہی واضح ہے کہ

لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتی لو دخلوا جحر ضبّ لاتبعتموھم قلنا: یارسول اﷲ! الیھود والنصارٰی؟قال:فمن؟ (صحیح بخاری:۷۳۲۰ واللفظ لہ، مسلم:۲۶۶۹)

''تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جیسا کہ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایااور کون؟''
جناب عبداللہ طارق صاحب

📚 مشرک کے لیے دعائے مغفرت :

شرک ، بدعت اور ارتدادِ اسلام وہ گناہِ عظیم ہیں کہ بجز تائب ہونے کے کوئی راہِ نجات نہیں اور بغیر توبہ کیے دارالبقاء میں کوچ کر جانا ابدی جہنمی ہونے کا ثبوت ہے ۔ایسے شخص کی کوئی مغفرت نہیں کیونکہ سورةالنساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly fabricated a tremendous sin.
یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔

اور سورة النساء ہی میں اللہ تعالیٰ سخت وعید فرمارہا ہے
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾

Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly gone far astray.
اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑ

اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عجب نہیں کہ اللہ تعالٰی تمہارے گناہ معاف فرمادے ، لیکن وہ شرک کو اور ناحق کسی مومن کو قتل کرنے والے کو معاف نہ فرمائے گا ۔(ابوداؤد)

ثابت ہوا کہ منافقین اور مشرکین وغیرہ کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جا سکتی !

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو ۔ اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرچکے ہیں ‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
(التوبہ -80)

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)

اس حکم کے بعد الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ استغفار کریں مشرکین کے لیے خواہ وہ ان کے قرابت دارہی ہوں اس کے بعد جبکہ ان پر واضح ہوچکا کہ وہ لوگ جہنمی ہیں
(التوبہ -١١٣ )

📚 للّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء :

سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:

"'جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوںاور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ''شرک اکبر'' ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر موحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔''
[فتوی نمبر6972]

"'جو شخص اللہ کی توحید اور نبیﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے ان کی تعظیم میں قربانی کرتا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ''
[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]

اسی طرح جو شخص پانچ وقت کی نماز ،رمضان کے روزوں، عشر، زکوٰۃ یا حج وغیرہ میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو گا ۔
(( للّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء ))

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search