نكاح صحيح ہونے كے ليے ولی اور دو عادل مسلمان گواہوں كا ہونا شرط ہے ۔ عورت چاہے کنواری ہو ، مطلقہ ہو یا بیوہ ، ہر صورت میں ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ جو لوگ بیوہ اور مطلقہ کو ولایت کی قید سے بری سمجھتے ہیں وہ درست نہیں سمجھتے ۔
الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ کہتے ہیں :
دین اسلام میں کوئی بھی مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ ازخود طے نہیں کر سکتی خواہ وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس کے نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت ہی سے انجام پائے گا۔ احادیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت ابو موسٰی اشعری، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔" (ابوداؤد،النکاح:2085)
جن روایات میں بیوہ کو خود مختار کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کا انتخاب کرنے میں خودمختار ہے، اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے میں خودمختار ہے
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد4/صفحہ : ٣١۵
بخاری رحمہ اللہ کی فقہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے کہ "باب من قال: لا نكاح إلا بولي" ’’بغیر ولی کے نکاح نہ ہونے کے قول کے بارے میں باب۔‘‘
اور حدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
(صحيح: صحيح أبو داؤد: 1836، كتاب النكاح: باب في الولي، أبودؤاد: 2085، ترمذي: 1101، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح إلا بولي، دارمي، 137/2، أحمد: 394/4، ابن ماجة: 1881، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 701، أبو يعلى: 195/13، ابن حبان: 1243- الموارد، دار قطني: 218/3، حاكم: 170/2، بيهقي: 7/107)
اور حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ ﷺ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ (پھر اس ممنوع نکاح کے بعد) اگر مرد اس عورت کے ساتھ ہمبستری کر لے تو اس پر مہر کی ادائیگی واجب ہے کہ جس کے بدلے اس نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا۔ اگر اولیاء کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہے۔‘‘
(صحيح: صحيح ابو داؤد: 1835، كتاب النكاح، باب في الولي، أبوداؤد: 2083، أحمد: 47/6، ترمذي: 1102، كتاب النكاح: باب ما جاء لا نكاح الا بولي، ابن ماجة: 1879، كتاب النكاح: باب لا نكاح إلا بولي، ابن الجارود: 700، دارمي: 7/3، دارقطني: 3/221، حاكم: 168/2، بيهقي:7/105، أبو يعلى: 147/8)
لڑکی کے ولی کی بنیاد قرابت و رشتہ داری پر ہے ، مثلاً باپ اور بھائی وغیرہ ۔ اور ولایت کا اصول یہ بھی ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار ولی نہیں بن سکتا ، وہ اس لیے کہ باعتبار رشتہ ولی جتنا قریب ہوگا اتنا ہی اس کے دل میں اپنے زیر سرپرست کے لئے شفقت و ہمدردی زیادہ ہوگی ۔
پس اس اعتبار سے عورت کا ولایت بالترتیب ہو گی ۔
عورت کی بالترتیب ولایت کے بارے میں المغنی میں ہے کہ :
والد، دادا، بیٹا[اگر اس کی اولاد ہو تو]، پوتا، سگا بھائی، باپ کی طرف سے بھائی، ان دونوں کے بیٹے، چچا اور تایا، چچا اور تایا کے بیٹے، پھر باپ کے چچا اور تایا، آخر میں حکمران والی بنیں گے۔
دیکھیے : المغني / (7/ 14)
۔┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅
صورتِ مسئولہ میں اگر ولی باپ حیات نہیں ہے تو ولایت دادا کی طرف منتقل ہوجائے گی ، اگر دادا بھی حیات نا ہو تو باترتیب بیٹا[اگر اس کی اولاد ہو تو]، پوتا، سگا بھائی، باپ کی طرف سے بھائی، ان دونوں کے بیٹے، چچا اور تایا، چچا اور تایا کے بیٹے، پھر باپ کے چچا اور تایا، آخر میں حکمران والی بنیں گے ۔
رہی بات گواہان کی تو عقد نکاح کے لیے دو عادل مسلمان گواہان کی موجودگی ضروری ہے ، وہ اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا )
رواہ الطبرانی ۔ دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7558 )
۔┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅
الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں :
سوال :::::
ایک عورت نے کسی شخص سے کہا کہ میں نے تجھے بطور خاوند قبول کیا اوراسی طرح وہ شخص بھی اسے کہنے لگا کہ میں اس پر اللہ تعالی کو گواہ بناتا ہوں ، لیکن اس میں کوئي گواہ وغیرہ موجود نہیں تھا ، بعد میں ان دونوں نے ایک تقریب کا انعقاد کرکے لوگوں کو بتایا کہ انہوں نے شادی کرلی ہے ، لھذا اس شادی کا کیا حکم ہوگا ؟
الجواب ::::::
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) یہ حدیث دوسرے شواہد کے ساتھ صحیح ہے دیکھیں ارواء الغلیل حدیث نمبر ( 1858 ) ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
صحیح تویہی ہے جوابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : نکاح گواہی کے بغیر نہیں ہوتا ۔
صحابہ کرام اورتابعین عظام اوران کے بعد والے اہل علم کے ہاں عمل بھی اسی پر ہے اوران کا کہنا ہے کہ : گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔ دیکھیں جامع الترمذی ( 4 / 253 ) ۔
اگرتو سوال کرنے والوں نے اس چيز کا التزام نہيں کیا یعنی انہوں نے بغیر گواہوں کے ہی شادی کرلی ہے تو انہيں چاہیے کہ وہ لڑکی کے ولی اوردو گواہوں کی موجودگی میں نکاح دوبارہ کریں ۔
از : الاسلام سوال و جواب
۔┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅
تاہم بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ گواہ شرط نہيں بلكہ اعلان نكاح ہى كافى ہے، اس ليے اگر نكاح مشہور ہو گيا ہے اور اس كا اعلان كر ديا گيا جائے تو صحيح ہے، امام مالک اور امام زہرى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے
(ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 94 )
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں شک و شبہ نہيں كہ نكاح كا اعلان كرنے سے نكاح صحيح ہو جاتا ہے، چاہے دو گواہ گواہى نہ بھى ديں، ليكن پوشيدہ نكاح اور گواہى ميں كچھ نظر ہے.
جب گواہى اور اعلان دونوں جمع ہوں تو اس نكاح كے صحيح ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
اور جب گواہى اور اعلان نہ پايا جائے تو پھر عام علماء كے ہاں يہ نكاح باطل ہے، اگر اس ميں اختلاف فرض كيا جائے تو يہ بہت كم ہے "
(ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 177 )
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/کتاب الطہارہ جلد
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment