کیا عورت کی نماز پاؤں ڈھکے بغیر ہو جاتی ہے؟ یعنی پاؤں ڈھکے ہوئے ہونا ضروری ہے؟
۔----------------------------
نماز میں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں ؛
ایک قول قدم ڈھانپنے کے وجوب کا ہے ، اور دوسرا عدم وجوب کا ۔۔۔۔
نماز میں پاؤں ڈھانپنے کے وجوب کے قائلین میں سعودی عرب کے مشہور محقق عالم علامہ عبدالعزیز بن بازؒ بھی شامل ہیں ، ان کا فتویٰ ہے کہ :
سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں ،آزاد ، مکلف عورت پر نماز میں اپنا تمام جسم سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ڈھانپنا واجب ہے ،
اور اگر نماز میں اس کے جسم کا کوئی قابل ستر حصہ جیسے پنڈلی ، قدم ، یا سر وغیرہ میں سے کچھ ننگا رہ گیا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی ۔
کیونکہ ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا“۔ (سنن ابوداود ۶۴۱ ،سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۰ (۳۷۷)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۱۳۲ (۶۵۵)
اور امام ابوداود نے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل فرمائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پڑھ سکتی ہے ، جبکہ اس کا ستر مکمل ہو) اور عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے “۔
اور (دوران نماز ) چہرے کو کھلا رکھنا سنت سے ثابت ہے ، اگر وہاں کوئی غیر مرد نہ ہو ۔ اور جمہور کے نزدیک دونوں قدموں کو ڈھانپنا واجب ہے ، جبکہ بعض اہل علم ستر قدم میں نرمی کا رویہ رکھتے ہیں ( یعنی واجب نہیں کہتے )
لیکن جمہور نماز میں عورت کے پاؤں ننگے کرنے سے روکتے ہیں ، اور انکے ستر کو ضروری سمجھتے ہیں ، اور اس قول کی دلیل سنن ابوداود کی وہ روایت ہے جس میں :
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے“۔
سو بہتر اور احتیاط والا عمل یہی ہے کہ قدموں کو ہر حال میں ڈھانپا جائے ، اور ہتھیلیوں کے بارے میں آسانی ہے اگر بےپردہ ہوں تب بھی ٹھیک ہے اور اگر پردہ میں ہوں تو بھی جائز ہے ۔ انتہی
( لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ ::
امام ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، محمد بن زید نے اپنی والدہ سے، اور محمد بن زید کی والدہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر ہی اسے موقوف کر دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۹۱) (ضعیف) (مذکورہ سبب سے یہ مرفوع حدیث بھی ضعیف ہے
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أم محمد مجھولة الحال ، انظر الحديث السابق : 639
۔-----------------------------
علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
تحقیق از الشیخ اسحاق سلفی رحمہ اللہ
دیکھیے :فتاویٰ اسلامیہ/جلد :1/صفحہ : ٣٨١
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment