Used in clear and two words, it's called divorce clear.
اک بہن شوہر کے شوہر جو کہ نشے کے عادی اور سخت بد مزاج ہیں اکثر چھوڑنے کی بات کرتے ہیں کل کام پر تھے تو وہ بہن اپنی دیورانی گھر کسی کام سے چلی گئیں گھر واپس آئیں تو شوہر گھر آ چکے تھے اس بہن کو صحن میں پہلے تو بہت گالی دی اور ذلیل کیا پھر کہا کہا تجھے میری طرف سے طلاق ہے اک طلاق دے دی ہے اب اک گھر سے باہر قدم بھی نکلا کبھی بھی تو اور دو طلاق ہو جائے گی ۔۔۔۔۔
اللّه نہ کرے کسی ایمرجنسی میں اگر وہ خاتون باہر نکلتی ہیں تو کیا طلاق ہو جائے گی ؟؟ دینی رہنمائی درکار ہے
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ طلاق کے الفاظ کہنے کے اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں:
✦طلاق صریح:
واضح اور دو ٹوک الفاظ میں استعمال کی جائے، اسے طلاق صریح کہتے ہیں۔ اس میں انسان کے عزم اور ارادہ کو دیکھا جاتاہے اور اس نے جانتے بوجھتےہوئے اپنے ارادہ اختیار سے لفظ طلاق کو استعمال کیا ہے اگراس نے ہنسی مذاق میں یہ لفظ کہہ دیا تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس میں انسان کی نیت کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہاں،ا گر بھول کر یا غیر ارادی طور پر اس کےمنہ سے یہ لفظ نکل گیا ہے تو ایسا کہنے سے طلاق نہیں پڑتی۔
✦*طلاق کنائی: لفظ طلاق واضح طورپر استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس کی جگہ اشارے اور کنایہ وغیرہ سے کام لیاگیا ہو ، شاید تو میری طرف سے فارغ ہے۔ تیری میری بس تو پکی پکی اپنے گھر چلی جا، میں نے تمہیں اپنے پاس نہیں رکھنا وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے وقت انسان کی نیت کو دیکھاجاتا ہے اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہوگی ۔ بصورت دیگر نہیں کیونکہ بعض اوقات مذکورہ الفاظ بطور دھمکی استعمال ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نےایک دفعہ اپنی منکوحہ ‘‘ اہنۃ جون’’ کو بایں الفاظ طلاق دی تھی تو اپنے گھر چلی جا۔’’ (صحیح بخاری ،الطلاق:۵۲۵۴)
لیکن مذکورہ الفاظ حضرت کعب بن مالک ؓ نے اپنی بیوی کو کہے تھے اور ان کا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا لہٰذا وہ طلاق میں شمار نہیں ہوئے۔ (صحیح بخاری ،ا لمغازی :۴۴۱۸)
اسی طرح طلاق کے نافذ ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی دو اقسام ہیں:
⓵ منجر: اس سے مراد ایسی طلاق ہے جو فی الفور نافذ ہوجائے، مثلاً :یوں کہا جائے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔
⓶ معلق:جو فی الفور نافذ العمل نہ ہوبلکہ اسے کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے پر معلق کیا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ اگر تو نے گھر سے باہر قدم رکھا تو تجھے طلاق ہے ۔ اس صورت میں جب بھی عورت گھر سے باہر قدم رکھے گی تو اسے طلاق ہوجائے گی لیکن اس سلسلہ میں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ خاوند اپنی بیوی پر جو پابندی عائد کرتا ہے۔ ذہنی طور پر اس کی حد بندی کہاں تک ہے۔ بظاہر زندگی بھر کےلئے اس پر یہ پابندی عائد کرنا اس کا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کہنا کسی عقلمند آدمی کو زیب دیتا ہے۔ اگر ذہن میں طے شدہ وقت کے بعد پابندی کی خلاف ورزی ہوتو طلاق غیر مؤثر ہوگی۔ کیونکہ پابندی کا وقت گزرچکا ہے اسی طرح معلق طلاق میں اگر پابندی کی خلاف ورزی سے پہلے پہلے اس شرط کوختم کردیا جائے تو بھی خلاف ورزی کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ پابندی عائد کرنے والے نے خود ہی اس پابندی کو ختم کردیا ہے
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:٢ /صفحہ: ٣۴٢
اگر شرط کےمطابق کام کرلیا توایک رجعی طلاق واقع ہوگی اوراس طرح اللہ کی قسم کھاکر بیوی سےکہا: اگرتم نےفلاں کام کیا توتمہیں طلاق۔ایسی طلاق بھی جمہور کےنزدیک طلاق معلق ہی کی ایک قسم ہے،اس لیے اگر وہ کام کرلیا گیا توبیوی کوطلاق ہوجائےگی۔لیکن امام ابن تیمیہ نےبعض علماء سلف یہ رائے نقل کی ہےکہ ایسی طلاق اسی صورت میں واقع ہوگی جبکہ شوہر نےواقعی طلاق کی نیت کی ہوگی۔ انہوں نےاس رائے کوراجح قرار دیا ہے اس کےدلائل بھی دئیےہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی قسم کھانے سےشوہر کا مطلب یہ تھا کہ بیوی یہ کام نہ کرے،طلاق دینا قطعاً مقصود نہ تھا۔ایسی صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی بلکہ قسم کاکفارہ ثابت ہوگا(اگربیوی نےوہ کام کرلیاتو۔) اکثر علماء نےامام ابن تیمیہ کی اس رائے کوقبول کیا ہے اورکئی بلاداسلامیہ کےقانون میں بھی اس رائے پرعمل ہوتاہےیہ رائے مشہور حدیث(انما الاعمال بالنیات) کےمطابق بھی ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ صراط مستقیم/نکاح و طلاق کےمسائل/صفحہ:385
فتاوی محمدیہ کی جلد نمبر ١ میں معلق طلاق کے بارے میں ہے کہ طلاق معلق کی دو قسمیں ہیں :
- ایک وہ جس سے وہی کچھ مقصود اورمطلب ہوتاہے۔ جو مقصد قسم کے ساتھ حاصل ہوتاہے ،یعنی قسم کے ساتھ یا تو کسی کام پر اکسانا اور آمادہ کرنا ہوتا ہے یاکسی فعل سےباز رکھنا ہوتا ہے یاکسی خبر کی تاکید مراد ہوتی ہے ۔ ایسی طلاق کو التعلیق القسمی کہا جاتا ہے ۔مثل أن یقول الزوج زوجته أن خرجت فأنت طالق مگر ارادہ طلاق نہ ہو بلکہ خروج سےمنع کرنا مقصد ہو ۔
- دو سری قسم وہ ہے کہ جس میں حصول شرط پر ایقاع طلاق مقصود ہوتاہے ۔ اس قسم کو التعلیق الشرطی کہتےہیں ۔ جیسے کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اگر تو نےمجھے اپنا بقایا مہر معاف نہ کیا تو تجھ کو طلاق
دیکھیے : فتاویٰ محمدیہ/جلد :١/صفحہ : ٨٣٠
اکثر اہل علم طلاق معلق کو کسی حالت میں بھی قسم کے حکم میں نہیں مانتے ‘ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی وہ شرط پائی جائیگی جس پر طلاق کو معلق کیا گیا ہو تو طلاق ہو جائیگی خواہ شرط سے مقصود قسم ہو یا محض شرط۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : ٣/صفحہ : ٣١۴
درج بالا بحث کے مطابق ، مذکورہ مسئلہ طلاق معلق کا مسئلہ ہے ۔ اگر تو سائلہ کے سوال میں مذکورہ مرد نے ایک بار طلاق دی تو وہ ایک طلاق نافذ ہوگئی ، نیز مرد کا یہ کہنا کہ " اب گھر سے باہر ایک قدم بھی نکلا کبھی بھی تو اور دو طلاق ہو جائے گی " اگر تو اس شرط کی نیت طلاق کی تھی تو یہ طلاق معلق اسکی عورت کے گھر سے باہر قدم نکالنے پر دوسری طلاق نافذ کر دے گی اور مرد عدت میں رجوع کر سکتا ہے ۔ اور اگر مرد کی نیت محض ڈرانے دھمکانے کی تھی طلاق کی نا تھی تو یہ قسم میں شمار ہوگا تب اگر بیوی گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شوہر کو قسم کا کفارہ دینا ہوگا ۔
فتویٰ کمیٹی کے پاس ایک سوال آیا کہ :
ميں نے اپنى بيوى سے كہا كہ اگر تم نے ميرا موبائل فون چيك كيا تو تمہيں طلاق، مجھے خدشہ تھا كہ بيوى ميرا موبائل فون چيك كريگى، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اس كا حل كيا ہے ؟
کمیٹی نے جواب دیا :
آدمى كا اپنى بيوى سے كہنا: " اگر تم نے ميرا موبائل فون چيك كيا تو تمہيں طلاق " اصل ميں يہى ہے كہ اگر بيوى نے موبائل فون چيك كيا تو ايك رجعى طلاق ہو جائيگى، اور اسے اس طلاق ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے۔
اس بنا پر بيوى كو موبائل فون چيك كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے تا كہ طلاق واقع نہ ہو، اور اگر وہ موبائل فون چيك كر ليتى ہے تو ايك طلاق ہو جائيگى، اور خاوند دوران عدت بيوى سے رجوع كر سكتا ہے۔
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ ،اصل مسئلہ، اگر اس سے خاوند اپنى بيوى كو موبائل فون چيك كرنے سے روكنا چاہتا تھا اور طلاق دينا مقصود نہ تھى تو يہ قسم كے حكم ميں ہوگا، اور اگر وہ موبائل فون چيك كرتى ہے تو خاوند كو قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور اہل علم كى ايك جماعت نے يہى اختيار كيا ہے، اور راجح بھى يہى ہے۔
ہر انسان اپنى نيت كا بخوبى علم ركھتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى بھى اس پر مطلع ہے، چنانچہ اسے كوئى فائدہ نہيں ہو گا كہ وہ اپنے آپ كو دھوكہ ديتا ہوا يہ دعوى كرے كہ وہ طلاق نہيں دينا چاہتا جبكہ وہ اپنى كلام سے طلاق كا مقصد ركھتا تھا۔
مذکورہ بالا صورت میں موبائل اٹھانے والے کی نیت طلاق کی نہیں تھی لہٰذاشیخ الاسلام کے راجح قول کے مطابق یہ طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار ہے اگرچہ موبائل اٹھانے والا گناہ گار ضرور ہے اور اس پر توبہ واستغفار لازم ہے۔البتہ جمہور اہل علم کے نزدیک یہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے اور دوران عدت رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت کے بعد تجدید نکاح ہو گا۔
دیکھیے : فتوی کمیٹی
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment