Saturday, December 19, 2020

 


✍ تحریر : مسزانصاری
اخی الاسلام ! یہ کسی ROAD PHILOSPHER کی اپنی ذاتی سوچ ہے جو انتہائی عامیانہ اور احمقانہ ذہنیت کی غمازی کرتی ہے جس کا انسانیت سے صرف اتنا تعلق ہے کہ کافر کے علاوہ کسی مسلمان کے لیے یہ کلمات استعمال کرنا نہایت غلط ہے ۔ سوشل میڈیا پر آپ کو یہ اسٹیٹس ہر جگہ ملے گا ۔ ملاحظہ کیجیے درج ذیل لنک پر کہ کتنے عقل سے پیدل لوگوں نے بلا تحقیق اور بلا تدبر و فکر کے ان احمقانہ لائینز کو اختیار کیا :
کسی کو فرعون یا یزید یا ابوجہل کے القاب نوازنا کہاں تک درست ہیں تو اسکے لیے ان کرداروں کا جائزہ لینا چاہیے ۔ جیسے ابوجہل کی شخصیت تبلیغِ اسلام کے لیے جاہلانہ سوچ و فکر اور اسکی جہالت سے بھرپور سرگرمیوں سے جانی جاتی ہے ۔
اسی طرح فرعون کی فطرت اور اسکے اندازِ حکومت کو فرعونیت کہا جا تا ہے ، اور چونکہ اس کی فطرت میں رعونت اور ظلم تھا تو انہیں فطرتوں نے اسکی شخصیت کو ظلم و بربریت اور خدائی دعویدار کا تصور دے دیا ۔ میری معلومات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں غرق ہونے والا فرعون رعمسیس دوم کا فرزند تھا اور فرعون اس کا خاندانی لقب تھا لیکن اصل نام مرنفتاح تھا ۔ اب جو حکمران ظالمانہ اقدار پر حکومت کرتے ہیں تو انہیں فرعون کا لقب نواز دیا جاتا ہے ، نیز جو شخص بھی فرعون جیسی ظالمانہ سوچ رکھتا ہو اسے فرعونی کا لقب دے دیا جاتا ہے ۔ اب یہ لقب دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ فرعون یا ابوجہل بن گیا ، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اسی رویہ کے مالک ہیں جو فرعون یا ابوجہل کا تھا ۔ لیکن اس سے قطع نظر تعلیماتِ اسلام میں یہ بات ناپسندیدہ ہے ، اسلام میں سبّ و شتم، گالی گفتار ، دشنام طرازی یا کسی فرد کی اس چیز سے توصیف کرنا جس سے وہ شخص ذلیل و خوار ہو جائے سخت منع ہے اِلاّٙ کہ مظلوم اپنا ظلم بیان کرے ۔ قرآنِ مجید نے بھی ہمیں یہی اصول سکھایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
النِّسَآء، 4: 148
مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کا اکرام واجب ہے ۔ مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق یہ ہے کہ وہ اسکے بارے میں ان عیوب کو بیان کرنے سے بچے جن پر محض اس کا گمان ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ذكرُكَ أخاكَ بما يكرهُ " [ صحيح مسلم: 2589] اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات بیان کرنا غیبت ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہو ۔
مسلمان کے اکرام کی اہمیت اس روایت سے لگائی جا سکتی ہے
قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ
[صحیح ترمذی: 2023 البانی نے حسن کہا ہے]
راوی (نافع)کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا:کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو ! اورتمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظرمیں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔
لہٰذا مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کے لیے فرعون یا ابوجہل جیسےالفاظ کہنا گناہ اورموجب فسق ہے ، کیونکہ یہ القاب کسی فرعونی ذہنیت کے مالک کے لیے بھی بولنا درست نہیں پھر ان لائینز میں اللہ تعالیٰ کے متقی اور پرہیزگار صالحین عابدین بھی داخل کیے جارہے ہیں تو یہ ان برگزیدہ بندوں کو گالی دینے کے مترادف ہے اور اللہ کے رسول نے اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینا فسق قرار دیا ہے
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُوْ لُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ [متفق علیه]
’’ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مسلمان کو گالی دینا فسوق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘
ہاں کافر کو گالی دی سکتی ہے ، خصوصًا حالتِ جنگ میں یا اس وقت جب کافر شعائرِ اسلام کی توہین کرے تو ایسے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے، جیسا کہ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کے اردگرد ادھر ادھر لوگ جمع ہیں، جب جنگ ہوئی تو یہ سب بھاگ جائیں گے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:
امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ [ بخاری: 15]
’’ (جاؤ جا کر) لات کی شرم گاہ کو چوسو، کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔؟‘‘
الخلاصہ : مرد مومن کو اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لیے خیر و عافیت کی سوچ رکھنا چاہیے اور ایسے قبیح جملوں سے مسلمان کی شان نہیں گرانی چاہیے جن کا تصور کفر و شرک کی ذہنیت کے حامل کرداروں کا ہو ، ایسے القاب اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ہر گز درست نہیں ہیں ان سے باز رہنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی باریکیاں سمجھنے کی اور ایکدوسرے سے حسن ظن اور دینی اخوت کی توفیق عطا فرمائے ۔

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب


Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search