BAHOO PER SUSRALIO KA HAQ
تحریر : مسزانصاری
بہو پر سسرالیوں کا حق;
سسرال کی دنیا عورت کے لیے ایک نئی دنیا ہوتی ہے جہاں اسے متبادل رشتے ملتے ہیں ۔ اور سسرال کے نئے قواعد و ضوابط جھیلنا تو بحرحال ایک طبع سلیم عورت برداشت کر ہی لیتی ہے ، ازدواجی زندگی خوشحالی اور بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اخلاق اورسینے کھلے اوروسیع ہوں ، اورہمارے اندر ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادہ بھی ہونا چاہیے ، اورآپس میں ایک دوسرے کے عزت و احترام اور فضیلت کو نہیں بھولنا چاہیے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی ایکدوسرے کو گناہ سے روکتے رہیں اور نیکی کا حکم دیتے رہیں اور کبھی کڑا وقت سر پر آن پہنچے تو ایکدوسرے کو صبر وتحمل کی تعلیم دیں ۔
واضح رہے کہ علماءکرام کی کثیر تعداد اس بات کے حق میں ہے کہ ”شرعًا اور قانونًا بہو پر سسرال کی خدمت لازمی نہیں ہے“ یہ جدید دنیا کا اپنا بنایا ہوا اصول ہے جو گزشتہ صدی کے اواخر سے رائج پا رہا ہے۔
سسرالیوں کے کچھ قواعد ایسے ہیں جو عورت پر فرائض کی شکل میں تھوپے جاتے ہیں ان کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ شریعت مرد کو حکم دیتی ہے کہ وہ والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری تمام رشتوں پر مقدم رکھے اور والدین کی ساتھ حسن سلوک اورنیکی کرے ۔ اور شریعت عورت کو حکم دیتی ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے اور اسکے حقوق کی بجا آوری میں ذرا کوتاہی نا کرے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سےاللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔۔ النساء ( ٣۴ )
لیکن دورِ حاضر میں اکثریت گھروں میں نئی آنے والی بہو جو اسی طرح اپنے ماں باپ کی آغوش کو چھوڑ کسی مرد کی حاکمیت کے تحت سسرال میں آنے والی بیٹی ہوتی ہے جس طرح ساس سسر کی لختِ جگر اپنے ماں باپ کی پدرانہ شفقت اور ماں کی ممتا سے دور کسی مرد کی حاکمیت قبول کر کے اسکے گھر یعنی اپنے سسرال کی بہو بنے والی بیٹی ہوتی ہے ، جب سسرال میں آتی ہے تو اس سے وہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو دراصل اس پر سسرال کے شرعئی حقوق میں شامل نہیں ہوتے ۔
عمومًا جب بیٹے کی شادی کی جاتی ہے تو اسکی رہائش جوائینٹ فیملی کے ساتھ ہی ہوتی ہے ، اور یہ سسرالی توقعات دراصل جوائینٹ فیملی ہی میں پیدا ہوتی ہیں ۔ بہو کو شوہر کی ماں کی صورت میں ایک سسرالی ماں یعنی ساس ملتی ہے اور باپ کی صورت میں سسر ملتا ہے ۔ اور سسرال کے دوسرے رشتہ دار مثلاً دیور جیٹھ اور نندوں سے بھی اس کا سابقہ پڑتا ہے ۔ تو یہاں سسرالیوں کا آنے والی سے بے جا توقعات وابستہ کرنا دراصل فساد اور لڑائی جھگڑوں کا دروازہ کھول دیتا ہے ، یوں بیوی کے نیک جذبات اور محبت و الفت سے شوہر ابھی نا آشنا ہوتا ہے کہ بیوی سسرال کی توقعات پر عدم ادائیگی کے باعث ساس سسر اور نندوں کی نفرت اور بدگمانیوں کا لقمہ بن جاتی ہے ، اور پھر نا ختم ہونے والا سلسلہ امن کے کبوتر کے ایک ایک پر کو یوں نوچ ڈالتا ہے کہ امن و امان کا گھر سے ہر روز جنازہ اٹھتا ہے ۔
درج ذیل میں ، میں بہو پر سسرالیوں کے ان حقوق کا ذکر کروں گی جنہیں سسرالی ازروئے شریعت واجبات سمجھتے ہیں ۔
- بیوی پر اپنے سسرالیوں یعنی شوہر کے رشتہ داروں (ساس ، سسر ، نندیں ، دیور ، جیٹھ وغیرہ ) کی خدمت و اطاعت کرنا واجب نہیں ہے ۔ سسرالیوں کی اطاعت کرنے یا انکی خدمت کرنے کے لیے شریعت نے عورت پر کوئی حکم نہیں لگایا ۔ تاہم سسرالیوں میں سے کوئی بہو کے غیر شرعئی عمل پر اسے نصیحت کرے تو نصیحت پر عمل کرنا سعادتمندی ہے ۔ غیر شرعئی اور حرام امور سے روکنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ سے خوف کی علامت ہوتی ہے ۔ اور معروف کے حکم دینے والے کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے جبکہ اطاعت سے منہ موڑنا تکبر ہے ۔
- الشیخ محمد صالح المنجد کہتے ہیں :
اپنے میکے جانے کے لیے بھی عورت پر یہ لازم نہیں کہ عورت سسرالیوں میں سے کسی ایک سے اجازت طلب کریں اورنہ ہی ان کا یہ حق ہے کہ بہو کو اگر اسکے شوہر نے اجازت دے دی تو وہ اسے روکیں ، بلکہ بہو پر واجب یہ ہے کہ اپنے خاوند سے اجازت لے اگر وہ اجازت دیتا ہے توپھر ان میں سےکسی ایک سےبھی اجازت لینی واجب نہیں ۔
- بہو پر پورے گھر کا کھانا بنانا ، کپڑے دھونا بھی واجب نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اخلاقِ حسنہ کے تحت گھر کے کام کرے ۔
- بہو کے سسرالیوں میں نا محرم مردوں مثلاً جیٹھ ، دیور وغیرہ کو اسکی اجازت کے بغیر اسکے کمرے میں آنا جائز نہیں ۔ اور اگر ایسا ناگزیر ہو کہ نا محرم کو بہو کے کمرے میں آنا ہے تو بہو کسی محرم یا اپنے شوہر کی موجودگی میں ہی انہیں اجازت دے سکتی ہے ، نیز بہو کو بھی سسرال میں نا محرموں کی موجودگی میں ان سے شرعئی پردہ کرنا واجب ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اے ایمان والو ! تم اپنے گھروں کے علاوہ کسی اور کے گھر میں اس وقت تک نہ جاؤ جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اوروہاں کے رہنے والوں کوسلام نہ کرلو ، یہی تمہارے لیے بہتر اور اچھا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو
[ النور( ٢٧ ) ]
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو توپردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارے اوران کے دلوں کے لے کامل پاکیزگی یہی ہے الاحزاب ( ۵٣ ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو ، ایک انصاری آدمی کہنے لگا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ دیور کے بارہ میں توبتائيں ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیور تو موت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( ۵٢٣٢ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( ٢١٧٢ )
- بہو کے ازدواجی معاملات کی معرفت حاصل کرنا سسرالیوں کا حق نہیں کہ وہ جانیں کہ بہو کے اپنے شوہر کے ساتھ کیا معاملات ہیں ؟ شوہر اپنی بیوی کے لیے کیا لایا ؟ دونوں میں تعلقات کیسے ہیں ؟ دونوں ایکدوسرے سے محبت و الفت کے کن طریقوں کو اپناتے ہیں ؟ کس نے کس کو کیا تحفہ دیا ؟ وغیرہ وغیرہ ، نیز بہو کے اپنے شوہر سے معاملات میں سسرالیوں کو دخل اندازی کرنا جائز نہیں ۔
- ساس سسر کو بہو اور بیٹے پر ہر وقت مسلط رہنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ہر بات پر نظر رکھنا بے جا تنقید کرنا چھوٹے چھوٹے معاملات کو طول دیتے ہیں ۔
- اگر بہو کا اپنے سسرالیوں کے ساتھ اكٹھا رہنا مستقل طور پر بيوى كے ليے اذيت كا باعث ہو ، اور اس حد تک کہ بہو کے خاندان والوں پر بھی لعن طعن کا سلسلہ سرگرم ہو تو یہ نہایت قابل مذمت بات ہے اور اس معاملہ میں شوہر کی خاموشى اختيار كرنا بھی ظلم کے مترادف ہوگا ۔ اسلام لوگوں کو لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے ۔ مسلمان کا مسلمان کو ناحق اذیت دینا ظلم عظیم ہے جو بروز محشر ظالم کے لیے خسارا لائے گا ۔ لوگوں كے حقوق كا احترام كرنا چاہيے، اور پھر جو كوئى شخص بھى كسى دوسرے مسلمان كو ناحق اذيت ديتا ہے قيامت كے روز اسے اس كا حساب دينا ہوگا.
- بیوی پر شوہر اور سسرالیوں کے غیر شرعئی حکم کو ماننا ہر گز جائز نہیں ، مثلاً عقائد بد کے تحت عملیات میں شتکت ، شرک و بدعت کے کھانے ، رسوماتِ بدعت کے کھانے وغیرہ کھانے پر شوہر یا سسرالیوں کا بہو کو مجبور کرنا جائز نہیں اور ایسے کسی حکم کو بہو ماننے کی پابند نہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے خلاف ہوں ۔ بلا شک بیوی پر شوہر کے حقوق بہت ہیں ، شوہر کے سامنے بیوی کا چیخ کر بولنا بھی شریعت اجازت نہیں کرتی ، لیکن ان حقوق سے اوپر اللہ تعالیٰ کے حقوق انسان پر اولین حیثیت رکھتے ہیں کہ بجا لایا جائے ۔ انسان کو لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پر بندوں کی اطاعت و فرمانبرداری کو فوقیت دے ۔ اولاد کے لئے والدین کی فرمانبرداری کرنا اور بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ وہ خلاف شریعت کسی کام کا حکم نہ دیں ، یا کسی شرعئی کام کو کرنے سے دستبردار ہوجائیں اور اولاد ، بیوی یا بہو کو بھی حکم دیں ۔ نبی کریمﷺ نے نافرمانی او رمعصیت میں مخلوق کی اطاعت کرنے سے منع فرمایاہے
السمع والطاعة على المرء المسلم فيما احب وكره، ما لم
يؤمر بمعصية، فإن امر بمعصية، فلا سمع عليه ولا طاعة
صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، والأحکام ۴ (۷۱۴۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۹)
جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا“
اور اگرخاوند یہ دیکھے کہ اسکی بیوی کو شریعت کے خلاف امور پر مجبور کیا جا رہا ہے تو والدین كو اس عظيم خطرہ سے متنبہ کرے اور انہیں نرم اور لطيف الفاظ اور لہجہ ميں وعظ و نصيحت كے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كا خوف بھى دلائے ۔ اسکے باوجود شوہر کے رشتہ دار بہو کو غیر شرعئی اعمال کرنے پر مجبور کریں تو شرعی مصلحت اس بات کی متقاضی ہے کہ شوہر اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں کے درمیان دوری پیدا کرنے کے لیے ہر جائز طریقہ استعمال کرے ۔ اگر بیوی کے لیے علیحدہ گھر کا انتظام کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئي حرج اورنقصان نہیں بلکہ اسے ایسا کرنا چاہیے تاکہ شریعت کی حدود پامال نا ہوں ، نیز ایک ازدواجی زندگی برباد ہونے سے رک جائے ۔
۔━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━
دوسری طرف میں بہو کے لیے بھی کچھ کہنا چاہوں گی کہ بلا شک سسرالیوں کی خدمت کرنا آپ پر واجب نہیں ، لیکن اسلام کے حسنِ سلوک کی تعلیم ہر شخص کو ہر شخص کے ساتھ واجب ہے ۔ اگر آپ اپنے شوہر کے ماں باپ کی خدمت کریں گی ، خصوصًا جبکہ ساس سسر بوڑھے ہوں اور آپکی توجہ کے محتاج ہوں تو انکی خدمت کرنا نا صرف آپ کے اللہ کو راضی کرے گی بلکہ اس حسن سلوک اوراحسان سے آپ اپنے شوہر کا بھی دل جیت سکتی ہیں ، اور یقینًا ایسا کرنا آپ کے ازدواجی تعلقات کو مضبوط اور دوام بخشنے کے مترادف ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عمر بہت نہیں ہوتی لیکن اس مختصر زندگی میں اجر اور نعمتیں لوٹنے کے مواقعہ بہت ہوتے ہیں ، ضرورت اپنے نفس امارہ کو سلانے کی ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ نفس ہی ہوتا ہے جو انسان کو انسان سے دور کرتا ہے ، حقوق العباد سے غافل کرتا ہے ۔ باہمی محبت اور احترام میں جو مزہ ہوتا ہے وہ کج روی اور فتنہ و فساد میں نہیں ہوتا ۔
آج اگر ایک عورت اپنے ساس سسر کی خدمت کو اپنے اللہ اور اپنے شوہر کی رضا کے لیے قبول کر لے تو ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ اسکے جنم دینے والے ماں باپ کو بھی ایک خدمتگزار بہو عطا فرما دے ۔
پیاری بہنوں ساس سسر کی کچھ زیادتیوں کو اگر آپ اپنے تک محدود رکھیں اور برداشت کر جائیں تو اس سے بہت ساری گھریلو رنجشوں سے بھی نجات مل جائے گی ۔ ماں باپ کے لیے انکے بیٹے کا دوسری رہائش اختیار کرنا یقینًا اذیت ناک ہوتا ہے ، سو آپ ایسا کرنے کی نوبت نا آنے دیں اِلاّٙ کہ آپکے ایمان اور عزت کو خطرہ ہو ۔ اپنے ساس سسر کی جب بھی کوئی کڑوی بات سنیں تو اسے اپنے سگے ماں باپ کی روش تصور کریں ۔ اگر آپ اپنے شوہر سے سچی محبت کرتی ہیں تو اس محبت میں صداقت اسی وقت ہوگی جب آپ اپنے شوہر کی ہر چیز سے محبت کریں ، آپ کا شوہر اپنے ماں باپ سے محبت کرتا ہے تو آپ بھی کیجیے ، جس بات سے شوہر کو تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ چیزآپ کو بھی تکلیف دے اور جس بات سے آپکے شوہر کو خوشی اور راحت پہنچے اس میں آپ کو بھی خوشی اور راحت محسوس ہو ۔ اور یاد رکھیے مرد کی خوشی اسکے ماں باپ کی مسکراہٹ میں ہوتی ہے ، سو آپ اپنے شوہر کی خوشی کی خاطر سسرال کی ناانصافی کو برداشت کریں گی اور جھگڑوں میں اضافہ کے بجائے انہیں سمیٹنے کا کام کریں گی تو یقینًا اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو آسودگی اور راحت سے بھر دے گا ۔
اپنے سسرالیوں کو اپنی ذات سے نقصان نا پہنچائیے ۔ آپ اگر شوہر کی طاقت کے بل بوتے پر اپنے سسرالیوں پر ظلم اور زیادتی کریں گی تو آپ کو ایک دن اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہونا ہے جہاں آپ کے کیے گئے ہر ظلم کی باز پرس کی جائے گی ، جہاں آپ کے ظلم پر جہنم جیسی ہولناک اور دردناک جگہ سے نا آپکی سگی ماں کی ممتا بچا سکتی ہے اور نا درہم بچا سکتا ہے اور نا ہی دینار
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «أتدرون من المفلس؟» قالوا: المُفْلِس فينا من لا دِرهَمَ له ولا مَتَاع، فقال: «إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شَتَمَ هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسَفَكَ دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يُقْضَى ما عليه، أخذ من خطاياهم فَطُرِحتْ عليه، ثم طُرِحَ في النار».
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ کچھ سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ (کی صورت میں اعمال) لے کر آئے گا لیکن اس نے دنیا میں کسی شخص کو گالی دی ہوگی، کسی پر بدکاری کی تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال نا حق کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا ہوگا) اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں اس پر آنے والے ہرجانہ کی ادائیگی سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
[ صحیح المسلم / رقم الحدیث : ٢۵٨١ ]
اس کے ساتھ ساتھ خاوندوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ گھریلو معاملات پر جب ماں باپ کو غلطی پر دیکھیں تو احسن انداز میں مجادلہ اورگفتگو کریں ، انکے عزت اور احترام میں ہر گز کمی نا آنے دیں اور انہیں حق کے بارے میں جرآت مندی سے ماں باپ کی محبت نا روکے بلکہ اس جرآت میں وہ اعتدال لائیں کہ والدین کو اپنی ہتک بھی محسوس نا ہو اور وہ حق بات کو بخوشی قبول کر لیں ۔ یہی نہیں بلکہ جو گھر سے باہر کے لوگ ان کے گھروں میں ازروئے شریعت حقوق کی بجا آوری میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں انہیں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے ، اس لیے کے مسلمان قرآن اورسنت کے علاوہ کسی بات پر اپنے گھر والوں حکم نہیں دے سکتا ۔
اسی طرح بیوی کا قصور ہو تو بلا جھجک اسے اسکی غلطی پیار و محبت سے بتائیں ۔ حکمت اختیار کر کے آدمی اپنے گھریلو جھگڑوں کو بڑی حد تک بلکہ مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے ، لیکن مرد کا شوہر کے روپ میں بھی بیوی پر بے جا ظلم منع ہے اور ماں باپ کے سامنے بھی آمرانہ طرز عمل اسے گناہگار کر سکتا ہے۔
مزید کے لیے ملاحظہ فرمائیے
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
جزاک اللہ خیر وبارک فیک ونفع بک الکثیر الکثیر
تقبل الله منا ومنكم، وأعاده علينا وعليكم في خير وعافية
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment