Saturday, December 19, 2020

   میت دفنانے کے بعد قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی


1.(نماز جنازہ پڑھنے کے بعد) میت دفنانے کے بعد قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی چاہئے کہ نہیں؟ (اگر حدیث کا حوالہ بھی دے دیں تو مہربانی ہوگی)
2.قبر کے سرہانے اور پاؤں کی طرف سورۃ بقرہ کی پہلی اور آخری آیات پڑھنا کسی حدیث سےثابت ہے کہ نہیں ؟
۔-------------------------------
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
دعا ایک عبادت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو مختار کل مان کر اخلاص اور یقین کے ساتھ پکارنا عبادت ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ ﴿٦٠﴾... سورۃ المؤمن
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا، بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍِﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﺍﻟﺪُّﻋﺎﺀُ ﻫُﻮَ ﺍﻟﻌِﺒَﺎﺩَﺓ ، ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺑُّﮑُﻢ ﺍﺩْﻋُﻮﻧِﯽ ﺃَﺳﺘَﺠِﺐ ﻟَﮑُﻢ
ﺩُﻋﺎ ﻋﯿﻦ ﻋِﺒﺎﺩﺕ ﻫﮯ)ﺍِﺳﯽ ﻟﯿﮯ(ﺗﻤﻬﺎﺭﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻫﮯ ، ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩُﻋﺎ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﻬﺎﺭﯼ ﺩُﻋﺎﺋﯿﮟ ﻗُﺒُﻮﻝ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ
ﺳُﻨﻦ ﺃﺑﯽ ﺩﺍﺅﺩ /ﺣﺪﯾﺚ /1476ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼﺓ/ﺗﻔﺮﯾﺢ ﺃﺑﻮﺍﺏ ﺍﻟﻮﺗﺮ /ﺑﺎﺏ354 ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺪُﻋﺎﺀ، ﺻﺤﯿﺢ ﺳُﻨﻦ ﺃﺑﯽ ﺩﺍﺅﺩ / ﺣﺪﯾﺚ ،1329
اور دعا میں ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب سے ہے ، آسمان کی طرف یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف دونوں ہاتھوں کا اٹھانا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور اللہ کی طرف ہاتھ پھیلانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے ۔
جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے:
«اِنَّ اللّٰهَ حَیٌّ کَرِيْمٌ يَسْتَحْيِیْ من عبده اذارفع اليه يديه أن يردهما صفرا
مسند احمد: ۵/ ۴۳۸ وجامع الترمذی، الدعوات، باب ان الله حی کریم، ح: ۳۵۵۶، وسنن ابن ماجه، الدعاء، باب رفع الیدین فی الدعاء، ح: ۳۸۶۵۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ صاحب حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اس بات سے عار محسوس کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھائے تو وہ انہیں خالی او ر نامراد واپس لوٹا دے۔‘‘
تاہم جن جگہوں پر پیارے نبیﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہمارے لیے اسے حجت مان کر عمل کرنا واجب ہے ۔ اور دعاوں کی جن جگہوں پر آپﷺ نے ہاتھ نہیں اٹھائے ہمارے لیے وہ بھی حجت اور عمل کے وجوب سے ہے ۔ اور جن جگہوں پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا یا نا اٹھانا کچھ بھی بیان نہیں ہوا تو وہاں ہم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتے ہیں اور اس کے لیے ان احادیث کو دلیل بنایا جائے گا جن میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا قبولیت کا سبب قرار دیا گیا ۔
چنانچہ تدفین کے بعد دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھانا یا نا اٹھانا اس بارے میں دونوں طرح گنجائش ہے
الشیخ عبداللہ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا گیا کہ :
کیا میت کی قبر کے پاس دعا ہاتھ اٹھا کر کی جا سکتی ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر ہاتھ اٹھا لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عائشہ رضی اللہ عنہانقل کرتی ہیں کہ :
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے، اور وہاں پر مدفون لوگوں کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی" مسلم۔
دیکھیے : مجموع الفتاوى ١٣/٣٣٧
شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:
"دفن کرنے کے بعد میت کیلئے دعا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ ابو داود کی روایت کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا: (اپنے بھائی کیلئے استغفار ، اور ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ اس سے اب سوالات کیے جائیں گے) چنانچہ جس شخص نے میت کیلئے استغفار مانگنے کی غرض سے ہاتھ اٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور جس شخص نے ہاتھ اٹھائے بغیر ہی یہ کہہ دیا: "یا اللہ! اس کی بخشش فرما، یا اللہ! اس کی بخشش فرما ، یا اللہ! اس کی بخشش فرما ، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا، یا اللہ! اسے ثابت قدم بنا" اور پھر چلا جائے۔۔۔"
دیکھیے : لقاء الباب المفتوح مجلس نمبر: ٨٢
۔-----------------
قبر کے سرہانے اور پاؤں کی طرف سورۃ بقرہ کی پہلی اور آخری آیات پڑھنا کسی بھی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search