Thursday, December 17, 2020

 ظہار کیا ہے ؟


ایک مرد نے کسی معاملے میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ بہن بہن بہن کہ کے سر پر ہاتھ پھیر دیا
کیا وہ نکاح رہے گا یا نہی
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ظہار کیا ہے ؟
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌
ظہار یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو بحالتِ غصہ اور قصدًا کسی ایسے( نسوانی) رشتے سے مشابہت دے دے جس سے عقدِ نکاح حرام ہوتا ہے جیسے " تو میری ماں کی مثل ہے " یا " تو میری بہن جیسی ہے " وغیرہ وغیرہ ، تو مرد کا ایسا کہنا ظہار ہے ۔ جب ظہار ثابت ہو جائے تو مرد پر بیوی کو چھونے سے پہلے کفارہ دینا لازم ہے ۔
ظہار کی تین قسمیں
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌
اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ظہار کی تین قسمیں ہیں۔
1 منجز ‘
2 معلق اور
3 مؤقت۔
ان میں سے پہلے کی مثال جس طرح یہ کہے کہ ‘’ تو میری ماں کی پشت کی طرح ہے ‘‘ دوسرے کی مثال جس طرح یہ کہے کہ ‘’ جب رمضان یا شعبان شروع ہو گا یا فلاں شخص آئے گا تو میری کیلئے ماں کی پشت کی طرح ہے ‘‘ اور تیسرے کی مثال یہ ہے کہ یوں کہے کہ ‘’ تو ماہ رمضان میں میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہے‘‘ اس صورت میں اگر ماہ ختم ہو جائے اور وہ مقاربت نہ کرے تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہ ہو گا کیونکہ اس میں اس نے اپنی بات کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ظہار کی ان قسموں کو ابو محمد موفق الدین عبداللہ بد قدامہ ؒ نے اپنی کتاب ‘’ الغنی‘‘ میں ذکر کر کے ان کے بار میں اہل علم کا کلام ذکر فرمایا ہے ‘ علاوہ ازیں دیگر اہل علم نے بھی ان قسموں کو بیان کیا ہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : ٣ / صفحہ : ٣٣٢
ظہار کا کفارہ کیا ہے ؟
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌
ظہار کا کفارہ ادا کرنے کی تین صورتیں ہیں
- یہ ہے کہ مرد ایک غلام آزاد کرے ۔
- لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے ۔
- اور اگر وہ جسمانی استطاعت نہیں رکھتا تو ساٹھـ مسکینوں کو کھانا کھلائے ، ہر مسکین کو ملکی غذاء سے نصف صاع یعنی ڈیڑھ کلو کی خوراک دی جائیگی، لیکن کھانے کے عوض نقد رقم دینا کافی نہیں ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الّٰٓـِٔىۡ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ ذٰلِکُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۳﴾فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّیۡنَ مِسۡکِیۡنًا ؕذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕوَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴﴾
ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻇﮩﺎﺭ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﻛﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﻭﮦ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯿﮟ، ﺍﻥ ﻛﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻛﮯ ﺑﻄﻦ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ، ﯾﻘﯿﻨﺎﹰ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﻚ ﻧﺎﻣﻌﻘﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺑﺎﺕ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﯿﺸﻚ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻣﻌﺎﻑ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﴿۲﴾ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻇﮩﺎﺭ ﻛﺮﯾﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻛﮩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﻛﺮﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺫﻣﮧ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻛﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﻚ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﻛﺮﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺗﻢ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻛﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﮨﮯ۔﴿۳﴾ﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺫﻣﮧ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ ﺭﻭﺯﮮ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻛﮧ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ کو ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﻛﻮ ﯾﮧ ﻃﺎﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺎﭨﮫ ﻣﺴﻜﯿﻨﻮﮞ ﰷ ﻛﮭﺎﻧﺎ ﻛﮭﻼﻧﺎ ﮨﮯ﴿۴﴾
۔﴿ سورةالمجادلہ : آیات ٢ تا ۴ ﴾
کیا ظہار عورت کے لیے ہے ؟
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌
ظہار عورت کے لیے نہیں ہے ، اگر عورت اپنے آپ کو اپنے مرد کے لیے مثل محرم رشتوں حرام کرتی ہے تو اسے ظہار نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا اپنے آپ کو اپنے خاوند کےلیے حرام قرار دینا یا اپنے کسی محرم کےساتھ تشبیہہ دینا قسم کےحکم میں آتا ہے لیکن اس کاحکم ظہارکا نہیں ہے ، کیونکہ ظہار مردوں کا اپنی عورتوں کے لیے ہے ۔
اگر عورت اپنے مرد کے لیے اپنے آپ کو محرمات سے تشبیہ دے کر حرام کرتی ہے تو قسم کی اس صورت میں عورت پر قسم کا کفارہ ہے اور وہ کفارہ یہ ہے کہ دن یا رات کسی بھی وقت میں دس مساکین کو کھانا کھلائے ۔ کھانے کی مقدار نصف صاع فی مسکین کےحساب سے ہو ۔ اور کھانا وہی کھلائے جو شہر میں معروف خوراک ہو ۔
نوٹ : موجودہ مروجہ پیمانے کے لحاظ سے نصف صاع تقریبا ڈیڑھ کلو کے برابر ہے ( مقالات وفتاویٰ ابن باز/ صفحہ : ٣۴۵ ) ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَ‌تُهُ إِطْعَامُ عَشَرَ‌ةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَ‌ةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾ ﴿ المائدة : ۸۹﴾
اللہ تعالٰی تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کر نا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ۔﴿۸۹﴾
مرد کے لیے بھی قسموں کے احکام یہی ہیں کہ اگر کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام قرار دے لے تو قسم کا کفارہ ادا کرے ، ماسوائےاس کے کہ وہ اپنی بیوی کو حرام قرار دے لے یہ ظہار ہے ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْ‌ضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١﴾ قَدْ فَرَ‌ضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ ﴿ التحریم۱/۶۶۔۲ ﴾
‘‘اے نبی !جو چیز اللہ نےتمہارے لئےحلال کی ہے تم اسےحرام کیوں کرتے ہو ؟ (کیااس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے اللہ نےتم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ
مقرر کر دیا ہےاور اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہ دانا (اور) حکمت والاہے ۔
ازراہِ تمثیل یا خوش طبعئی کے طور پر بیوی کے لیے محرم رشتوں کے القاب :
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌
اگر مرد اپنی بیوی کو ازراہِ مثال یا محبت و مودت کے یا محض خوش طبعئی اور دل لگی کی نیت سے او میری ماں ، ارے میری بہن وغیرہ وغیرہ کہہ دے تو یہ بلا کراہت درست ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا آدمی کیلئے یہ جائز ہے کہ اپنی بیوی کو صرف محبت کے طور پر کہہ دے"او!میری بہن"یا محبت ہی کی وجہ سے کہہ دے: "او! میری ماں"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں! "میری بہن"یا "میری ماں"یا اسکے علاوہ پیار و محبت کا موجب بننے والے کلمات کہنا جائز ہے، اگرچہ کچھ اہل علم کے ہاں بیوی کو اس قسم کے جملوں سے مخاطب کرنا مکروہ ہے، لیکن حقیقت میں کراہت کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے،ا ور اس آدمی نے ان جملوں سے یہ نیت نہیں کی کہ اسکی بیوی بہن کی طرح اس پر حرام ہے، یا وہ اسکابہن کی طرح محرم ہے، بلکہ اس نے محبت اور پیار بڑھانے کیلئے ایسا کیا، اور ہر وہ چیز جو میاں بیوی کے مابین محبت کا سبب ہو چاہے وہ خاوند کی طرف سے ہو یا بیوی کی طرف سے تو وہ مطلوب ہے"
دیکھیے : فتاوى برنامج نور على الدرب
فتاوى اللجنة الدائمة کمیٹی سے پوچھا گیا کہ :
کچھ لوگ اپنی بیوی سے کہہ دیتے ہیں کہ میں تمہارا بھائی ہوں، اور تم میری بہن ہو، تو اسکا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب خاوند اپنی بیوی سے کہے کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میری بہن ہو، یا کہے کہ : تم میری ماں ہو، یا میری ماں جیسی ہو، یا پھر کہہ دے کہ: "تم میرے نزدیک میری ماں جیسی ہو، یا بہن جیسی ہو، تو اگر اس کی مذکورہ باتوں کی نیت صرف عزت افزائی، احترام ، صلہ رحمی اور اظہار محبت ہو ، یا سرے سے کوئی نیت تھی ہی نہیں ، اور نہ کوئی ارادہ ظہار کے شواہد پائے گئے ، تو یہ ظہار نہیں ہوگا اور نہ اسے کوئی کفارہ لازم آئے گا۔
فتاوى اللجنة الدائمة / (20/274)
۔┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅┅
🖋 سائل کے مسئلہ کی دو حالتیں ہیں
١- اگر تو ایسے کلمات بحالت غصہ کہے جائیں تو ظہار ہوگا ۔
٢- اگر پیار و محبت اور خوش طبعئی کے طور پر بلا کسی نیت کے ایسے کلمات کہہ دیے جائیں تو اسے ظہار قرار نہیں دیا جائے گا ، تاہم ان کلمات سے احتراز کرنا چاہیے مبادا زبان پر عام ہونے کی صورت میں کبھی کسی غصے کی حالت میں بقصد ظہار کے استعمال نا کر بیٹھے ۔
🖋🖋 : تحریر مسزانصاری

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

 

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search