غائبانہ نماز جنازہ کی شرعئی حیثیت/
قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کی شرعئی حیثیت
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
غائبانہ نماز جنازہ کی شرعئی حیثیت
۔┄┅═════════════┅┄
۔┄┅═════════════┅┄
بعض اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ
مشروع نہیں ہے الایہ کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی ہی نہ گئی ہو ۔ لیکن راجح قول یہ ہے
کہ غائبانہ نماز جنازہ درست ہے خواہ شہید کی ہو خواہ غیر شہید کی رسول اللہ ﷺ نے
نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور شہداء احد کی آٹھ سال بعد نماز جنازہ
پڑھی۔(بخاری۔کتاب المغازی۔باب غزوۃ احد) جو دونوں ہی غائبانہ ہیں ۔ تاہم علماءکرام
اس طرف گئے ہیں کہ غائبانہ نماز جنازہ ہر شخص کی مشروع نہیں ہے بلکہ امتیازی
علمی،ملی اورسیاسی خدمات کی حامل شخصیات کا نماز جنازہ مشروع ہے ۔
الشیخ محمد العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں
:
اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ
مشروع نہیں ہے الایہ کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی ہی نہ گئی ہو، جیسے کوئی شخص کسی
کافر ملک میں مر جائے اور اس کا کسی نے جنازہ نہ پڑھا ہو یا جیسے کوئی کسی سمندر
یا دریا یا کسی وادی میں غرق ہوگیا ہو اوراس کی لاش نہ ملی ہو تو اس کا غائبانہ
جنازہ پڑھنا واجب ہے۔ اور جس کی نماز جنازہ پڑھی گئی ہو تو صحیح بات یہ ہے کہ اس
کا غائبانہ جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ہے کیونکہ نجاشی کے واقعے کے سوا سنت سے دوسرا
کوئی واقعہ ثابت نہیں ہے اور نجاشی کا اس کے اپنے ملک میں جنازہ نہیں پڑھا گیا
تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اس کا جنازہ پڑھایا تھا۔صحیح
البخاری، مناقب الانصار، باب موت النجاشی، حدیث: ۳۸۷۷۔ اس کے علاوہ آپ نے کسی اور کا جنازہ غائبانہ نہیں پڑھایا،
حالانکہ آپ کے عہد میں بڑے بڑے لوگوں اور بہت عظیم شخصیتوں کا انتقال ہوا تھا۔ بعض
اہل علم نے یہ کہا ہے کہ جس کے مال، عمل یا علم سے دین کو فائدہ پہنچا ہو تو اس کا
جنازہ غائبانہ پڑھا جائے گا اور جو شخص ایسا نہ ہو تو اس کا غائبانہ جنازہ نہیں
پڑھا جائے گا او ر بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ مطلقاً جائز ہے
لیکن یہ سب سے ضعیف قول ہے۔
فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل:صفحہ339
فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل:صفحہ339
فتاوہ اسلامیہ میں مذکور فتوے کے مطابق
:
غائبانہ نماز جنازہ بھی حاضر میت کی نماز جنازہ کی طرح ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نجاشی کے انتقال کی خبر دی تو آپ نے
لوگوں کو حکم دیا کہ عید گاہ میں چلیں۔ وہاں آپ نے لوگوں کی صفیں بنا دیں اور پھر
اسی طرح چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی(صحیح بخاری، الجنائز، باب الصلاۃ علی
الجنائز الخ، حدیث:11327-1328 وصحیح مسلم، باب فی التکبیر علی الجنازۃ، حدیث:951)
جس طرح آپ حاضر میت کی نماز جنازہ پڑھا کرتے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر میت کی
غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے۔
بعض یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے حتیٰ کہ بعض
نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ہر شام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ
کرے کہ یہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے جو آج زمین کے مشرق یا مغرب میں فوت ہوا
ہے۔ کچھ دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ ہر ایک کی تو نہیں بلکہ صرف اس شخص کی
غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہو کہ اس کی نماز جنازہ
نہیں پڑھی گئی۔ ایک تیسرے گروہ کا یہ کہنا ہے کہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ غائبانہ
پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیا ہو۔ ان میں سے
راجح قول یہی ہے کہ صرف اسی شخص کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جائے جس کی نماز جنازہ
نہ پڑھی گئی ہو۔
خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے عہد میں بہت سی ایسی شخصیتیں فوت ہوئیں جن کے مسلمانوں پر بہت احسانات تھے لیکن ان میں سے کسی کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی۔ عبادات کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ توقف کیا جائے الا یہ کہ ان کی مشروعیت کی دلیل موجود ہو۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : 2
خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے عہد میں بہت سی ایسی شخصیتیں فوت ہوئیں جن کے مسلمانوں پر بہت احسانات تھے لیکن ان میں سے کسی کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی۔ عبادات کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ توقف کیا جائے الا یہ کہ ان کی مشروعیت کی دلیل موجود ہو۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/ جلد : 2
احکام و مسائل میں جنازے کے مسائل کے باب میں مذکور ہے :
نجاشی کے غائبانہ نماز جنازہ والی حدیث ثابت ہے بخاری ومسلم میں بھی موجود ہے اور اس سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہو رہی ہے تو عمل کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے ۔
نبی کریمﷺنے نجاشی کی وفات پہ فرمایا تھا تمہارا بھائی نجاشی فوت ہو گیا اس کی نماز جنازہ پڑھو پھر آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔(بخاری۔کتاب الجنائز۔باب الرجل ینعی الی اہل المیت بنفسہ) اگر منادی سے کوئی مخصوص قسم کی منادی مراد ہوتی تو پھر غور طلب یہ امر ہے کہ رسول اللہﷺ نے منادی کروا کر صحابہﷺ کو اکٹھے کر کے کوئی حاضرانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی ہے یا نہیں ؟ غائبانہ تو بعد کا مسئلہ ہے۔
دیکھیے :احکام و مسائل/جنازے کے مسائل/ جلد:1/صفحہ:٢۵٦
نجاشی کے غائبانہ نماز جنازہ والی حدیث ثابت ہے بخاری ومسلم میں بھی موجود ہے اور اس سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہو رہی ہے تو عمل کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے ۔
نبی کریمﷺنے نجاشی کی وفات پہ فرمایا تھا تمہارا بھائی نجاشی فوت ہو گیا اس کی نماز جنازہ پڑھو پھر آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔(بخاری۔کتاب الجنائز۔باب الرجل ینعی الی اہل المیت بنفسہ) اگر منادی سے کوئی مخصوص قسم کی منادی مراد ہوتی تو پھر غور طلب یہ امر ہے کہ رسول اللہﷺ نے منادی کروا کر صحابہﷺ کو اکٹھے کر کے کوئی حاضرانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی ہے یا نہیں ؟ غائبانہ تو بعد کا مسئلہ ہے۔
دیکھیے :احکام و مسائل/جنازے کے مسائل/ جلد:1/صفحہ:٢۵٦
مولانا محمد یونس قریشی دہلوی کہتے ہیں :
صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ حبشہ کا بادشاہ اصحمہ اپنے دیس میں فوت ہو گیا، اس کی وفات کی خبر جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کو میدنہ طیبہ میں دی، آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھو، پھر سب کو ساتھ لے کر میدان عید گاہ تشریف لے گئے، اور چار تکبیروں سے جنازہ غائبانہ پڑھا، یہ ظاہر ہے کہ اصحمہ حبش میں فوت ہوا، اُس کی میت وہی تھی، اور حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورجہ میں نماز جنازہ پڑھی، حبش اور مدینہ میں سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے، اس حدیث سے میت کے لیے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا سنت ثابت ہوئی، آ نحضرت ﷺ جس کام کو ایک دفعہ کریں، وہ امت کے واسطے قیامت تک سنت ہو جاتی ہے، ہاں اگر آپ صاف فرما دیں کہ یہ کام میرے لیے خاص ہے، تم نہ کرنا تو اور بات ہے، اس جگہ آپ ﷺ نے تخصیص نہیں فرمائی، فرض کرو کہ آپ ﷺ کے لیے جنازہ غائبانہ مخصوص تھا، تو صحابہ کرام نے آپ کے پیچھے کیسے پڑھی ؟
نماز جنازہ غائبانہ ادا کرنے کے اولہ نیل الاوطار وغیرہ میں بکثرت موجود ہیں و نیز احناف نے جو بے جا تاویلات کی ہیں، ان کا بھی اچھی طرح قلع قمع کردیا ہے، فی زمانہ بعض علمائے اہل حدیث و باوجودیکہ وہ امور مسنونہ میں بے حد اپنے کو متشدد کہتے ہیں، نماز جنازہ غائبانہ کے منکر ہو گئے ہیں
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد:05 /صفحات: 180-182
صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں ہے کہ حبشہ کا بادشاہ اصحمہ اپنے دیس میں فوت ہو گیا، اس کی وفات کی خبر جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کو میدنہ طیبہ میں دی، آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھو، پھر سب کو ساتھ لے کر میدان عید گاہ تشریف لے گئے، اور چار تکبیروں سے جنازہ غائبانہ پڑھا، یہ ظاہر ہے کہ اصحمہ حبش میں فوت ہوا، اُس کی میت وہی تھی، اور حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورجہ میں نماز جنازہ پڑھی، حبش اور مدینہ میں سینکڑوں میل کا فاصلہ ہے، اس حدیث سے میت کے لیے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا سنت ثابت ہوئی، آ نحضرت ﷺ جس کام کو ایک دفعہ کریں، وہ امت کے واسطے قیامت تک سنت ہو جاتی ہے، ہاں اگر آپ صاف فرما دیں کہ یہ کام میرے لیے خاص ہے، تم نہ کرنا تو اور بات ہے، اس جگہ آپ ﷺ نے تخصیص نہیں فرمائی، فرض کرو کہ آپ ﷺ کے لیے جنازہ غائبانہ مخصوص تھا، تو صحابہ کرام نے آپ کے پیچھے کیسے پڑھی ؟
نماز جنازہ غائبانہ ادا کرنے کے اولہ نیل الاوطار وغیرہ میں بکثرت موجود ہیں و نیز احناف نے جو بے جا تاویلات کی ہیں، ان کا بھی اچھی طرح قلع قمع کردیا ہے، فی زمانہ بعض علمائے اہل حدیث و باوجودیکہ وہ امور مسنونہ میں بے حد اپنے کو متشدد کہتے ہیں، نماز جنازہ غائبانہ کے منکر ہو گئے ہیں
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد:05 /صفحات: 180-182
"قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل" میں مذکور ہے
جس کی حاضرانہ نماز جنازہ درست ہے، اس کی غائبانہ نماز جنازہ بھی درست ہے۔ نیز اہل علم میں یہ مسئلہ چلا آرہا ہے کہ شہید کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ آیا پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے؟ قطع نظر اس سے کہ وہ حاضرانہ ہے یا غائبانہ۔ اس مسئلہ میں اس عبد فقیر إلی اللہ الصمد کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ شہید فی المعرکہ کی نماز جنازہ فرض نہیں نہ ہی حاضرانہ اور نہ ہی غائبانہ۔ اگر کوئی پڑھ لے تو اجرو ثواب ہے، خواہ حاضرانہ پڑھے، خواہ غائبانہ ۔ رہا سوال ’’ شہید کی نماز جنازہ غائبانہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ‘‘ تو یہ ایک جماعت میں خاص اختلاف کی پیداوار ہے۔ حقیقت وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں۔
دیکھیے:قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل/جلد:02:ص:369
جس کی حاضرانہ نماز جنازہ درست ہے، اس کی غائبانہ نماز جنازہ بھی درست ہے۔ نیز اہل علم میں یہ مسئلہ چلا آرہا ہے کہ شہید کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ آیا پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے؟ قطع نظر اس سے کہ وہ حاضرانہ ہے یا غائبانہ۔ اس مسئلہ میں اس عبد فقیر إلی اللہ الصمد کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ شہید فی المعرکہ کی نماز جنازہ فرض نہیں نہ ہی حاضرانہ اور نہ ہی غائبانہ۔ اگر کوئی پڑھ لے تو اجرو ثواب ہے، خواہ حاضرانہ پڑھے، خواہ غائبانہ ۔ رہا سوال ’’ شہید کی نماز جنازہ غائبانہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ‘‘ تو یہ ایک جماعت میں خاص اختلاف کی پیداوار ہے۔ حقیقت وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں۔
دیکھیے:قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل/جلد:02:ص:369
مفتی حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ کہتے ہیں
ایک میت کا دوبارہ جنازہ پڑھا جاسکتا ہے۔اس کے متعلق لواحقین اور غیر لواحقین کی تفریق خودساختہ ہے،چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد کی صفائی کیاکرتی تھی وہ فوت ہوگئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے رات کے وقت ہی جنازہ پڑھ کر دفن کردیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنازہ اداکیا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی جنازہ میں شامل تھا۔
[صحیح بخاری الجنائز:1321]
مذکورہ حدیث کے پیش نظر ایک میت کا دو مرتبہ جنازہ پڑھا جاسکتا ہے اور جو حضرات پہلے جنازہ پڑھ چکے ہیں،ان کے لیے دوبارہ جنازہ پڑھنے کی ممانعت احادیث میں مروی نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث (جلد3۔صفحہ نمبر 188)
ایک میت کا دوبارہ جنازہ پڑھا جاسکتا ہے۔اس کے متعلق لواحقین اور غیر لواحقین کی تفریق خودساختہ ہے،چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد کی صفائی کیاکرتی تھی وہ فوت ہوگئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے رات کے وقت ہی جنازہ پڑھ کر دفن کردیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنازہ اداکیا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی جنازہ میں شامل تھا۔
[صحیح بخاری الجنائز:1321]
مذکورہ حدیث کے پیش نظر ایک میت کا دو مرتبہ جنازہ پڑھا جاسکتا ہے اور جو حضرات پہلے جنازہ پڑھ چکے ہیں،ان کے لیے دوبارہ جنازہ پڑھنے کی ممانعت احادیث میں مروی نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث (جلد3۔صفحہ نمبر 188)
مزید ایک اور جگہ پر مفتی حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ کہتے
ہیں
غائبانہ نماز جنازہ کے متعلق محدثین نے چند شرائط کے ساتھ صرف جواز کی حد تک اجازت دی ہے ،چنانچہ امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ ہر غائبانہ میت کا نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہﷺ کا معمول نہ تھا آپ کے عہد مبارک میں بےشمار مسلمان مدینہ سے باہر فوت ہوئے، ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی ،صرف حبشہ کے سربراہ نجاشی کا آپ نے غائبانہ جنازہ پڑھا ہے۔ (زاد المعاد،ص:۲۰۵،ج۱)
تاہم ہمارے نزدیک اس کے متعلق موقف ہے کہ ہر مرنے والے کا غائبانہ جنازہ پڑھنا غیر مشروع ہے،ہاں،جس کی علمی،ملی اورسیاسی خدمات ہوں ،اس کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں ہے وہ بھی ضروری نہیں ہے۔دوسری قابل غور بات شہید کے جنازہ سےمتعلق ہے،شہید کا جنازہ بھی ضروری نہیں ہے،کیونکہ رسول اللہﷺ نے شہدائے احد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔(صحیح بخاری،الجنائز:۱۳۴۳)
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:2 /صفحہ:204
غائبانہ نماز جنازہ کے متعلق محدثین نے چند شرائط کے ساتھ صرف جواز کی حد تک اجازت دی ہے ،چنانچہ امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ ہر غائبانہ میت کا نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہﷺ کا معمول نہ تھا آپ کے عہد مبارک میں بےشمار مسلمان مدینہ سے باہر فوت ہوئے، ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی ،صرف حبشہ کے سربراہ نجاشی کا آپ نے غائبانہ جنازہ پڑھا ہے۔ (زاد المعاد،ص:۲۰۵،ج۱)
تاہم ہمارے نزدیک اس کے متعلق موقف ہے کہ ہر مرنے والے کا غائبانہ جنازہ پڑھنا غیر مشروع ہے،ہاں،جس کی علمی،ملی اورسیاسی خدمات ہوں ،اس کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں ہے وہ بھی ضروری نہیں ہے۔دوسری قابل غور بات شہید کے جنازہ سےمتعلق ہے،شہید کا جنازہ بھی ضروری نہیں ہے،کیونکہ رسول اللہﷺ نے شہدائے احد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا حکم دیا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔(صحیح بخاری،الجنائز:۱۳۴۳)
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:2 /صفحہ:204
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کہتے ہیں
نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شہدائے اُحد کا غائبانہ نماز جنازہ ثابت ہے۔(دیکھئے صحیح بخاری:1317،وصحیح مسلم:952)
حسب ضرورت غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔اسے معمو ل نہیں بنانا چاہیے جیسا کہ دیگر نصوص سے واضح ہوتا ہے
دیکھیے : فتاوی علمیہ/جلد1/كتاب الجنائز/صفحہ:534
نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شہدائے اُحد کا غائبانہ نماز جنازہ ثابت ہے۔(دیکھئے صحیح بخاری:1317،وصحیح مسلم:952)
حسب ضرورت غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔اسے معمو ل نہیں بنانا چاہیے جیسا کہ دیگر نصوص سے واضح ہوتا ہے
دیکھیے : فتاوی علمیہ/جلد1/كتاب الجنائز/صفحہ:534
مولانا عبداللہ غازی پوری کہتے ہیں
غائب پر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے ،اس لیے کہ جب نجاشی حبشہ کے بادشاہ نے حبشہ میں انتقال کیا تھا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں اُس پر جنازہ کی نماز پڑھی ہے جیسا کہ صحیح بخاری مع فتح الباری(س1/689 مطبوعہ دہلی) میں ہے:
غائب پر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے ،اس لیے کہ جب نجاشی حبشہ کے بادشاہ نے حبشہ میں انتقال کیا تھا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں اُس پر جنازہ کی نماز پڑھی ہے جیسا کہ صحیح بخاری مع فتح الباری(س1/689 مطبوعہ دہلی) میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي
الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ
بِهِمْ ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ
.
صحیح البخاری رقم الحدیث(268) صحیح مسلم رقم الحدیث(951)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے فوت ہونے کی خبر اس روز سنائی،جس روز وہ فوت ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو لے کر عید گاہ تشریف لے گئے ،آپﷺ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔
دیکھیے : مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری/کتاب الجنائز /صفحہ:325
صحیح البخاری رقم الحدیث(268) صحیح مسلم رقم الحدیث(951)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے فوت ہونے کی خبر اس روز سنائی،جس روز وہ فوت ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو لے کر عید گاہ تشریف لے گئے ،آپﷺ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔
دیکھیے : مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری/کتاب الجنائز /صفحہ:325
قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کی شرعئی حیثیت
۔┄┅═══════════════┅┄
۔┄┅═══════════════┅┄
قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے ، اس کے جواز میں کئی حدیثیں وارد
ہیں جن میں قبر پر نماز جنازہ کا ذکر ہے، اور بعض روایتوں میں مہینہ کی مدت بھی
آئی ہے، یعنی ایک ماہ بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھا، (منتقی فتح الباری جلد نمبر ۵) پس جب قبر پر نماز جنازہ ثابت ہو گیا
عن ابن عباس ان رسول الله ﷺ مربقبر دفن لیلا فقال متی دفن هذا قالواالبارحة قال افلا اذنتمونی قالوا دفناه فی ظلمة اللیل فکرهنا ان توقظک فقام و صففنا خلفه فصلی علیه۔
عن ابن عباس ان رسول الله ﷺ مربقبر دفن لیلا فقال متی دفن هذا قالواالبارحة قال افلا اذنتمونی قالوا دفناه فی ظلمة اللیل فکرهنا ان توقظک فقام و صففنا خلفه فصلی علیه۔
(فتح الباری ج ۳ کتاب الجنائز باب الاذان بالجنازة ص ۴۵۴ رقم الحدیث ۱۲۴۷)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہےکہ رسول اکرمﷺ ایک قبر کے پاس سے
گزرے جس میں ایک آدمی کو رات کے وقت دفن کیا گیا تھا ۔ آپ نے دریافت فرمایا: یہ
قبر والا کب دفن کیا گیا ؟ جواب دیا گیا کہ گزشتہ رات کو۔ آپ نے فرمایا تم نے اس
کے بارے میں مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ عرض کیا گیا ہم نے اسے رات کے اندھیرے میں دفن
کیا اور ہم نے اس وقت آپ کو جگا کر تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ پس آپ (نماز
کےلئے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں اور آپ نے نماز جنازہ پڑھی۔
(بخاری و مسلم)
اب اس حدیث سےدو باتیں بڑی واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ آپ نے پہلے نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی اور بعد میں قبر پر جا کر آپﷺ نے نماز پڑھی اس طرح ایک میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔
اب اس حدیث سےدو باتیں بڑی واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ آپ نے پہلے نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی اور بعد میں قبر پر جا کر آپﷺ نے نماز پڑھی اس طرح ایک میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔
الشیخ العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں
:
قبرستان میں بھی نمازجنازہ پڑھنا جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے قبرستان میں نماز دائیگی کی ممانعت سے نماز جنازہ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اوراس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح قبرستانوں میں نماز جنازہ کی ادائیگی جائز ہے۔ اسی طرح قبر پر بھی نماز جنازہ اداکرناجائز ہے، ثابت شدہ حدیث میں واردہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ہوایہ کہ وہ رات کو فوت ہوگئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے رات ہی میں آنافانا دفن کر دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
«دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِهِ» صحيح البخاری، الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحيح مسلم، الجنائز، باب الصلاة علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ له۔
’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو اس کی قبر کا پتہ بتلایا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکرادافرمائی۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل/صفحہ : 338
قبرستان میں بھی نمازجنازہ پڑھنا جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے قبرستان میں نماز دائیگی کی ممانعت سے نماز جنازہ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اوراس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح قبرستانوں میں نماز جنازہ کی ادائیگی جائز ہے۔ اسی طرح قبر پر بھی نماز جنازہ اداکرناجائز ہے، ثابت شدہ حدیث میں واردہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ہوایہ کہ وہ رات کو فوت ہوگئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے رات ہی میں آنافانا دفن کر دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
«دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِهِ» صحيح البخاری، الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحيح مسلم، الجنائز، باب الصلاة علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ له۔
’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو اس کی قبر کا پتہ بتلایا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکرادافرمائی۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل/صفحہ : 338
فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان نورپوریؒ کہتے ہیں :
وہ مائی جو مسجد نبویﷺ کی صفائی کرتی تھی وہ فوت ہو گئی تو صحابہ نے رات ورات جنازہ پڑھا کر دفن کر دیا تو پھر نبی کریمﷺ نے پوچھا تو آپﷺ نے کہا کہ مجھے اس کی قبر دکھاؤ تو نبی کریم ﷺ نے قبر پر نماز پڑھی ۔
مسجد کی صفائی کرنے والی مائی رضی اللہ عنہا کی قبر پر نبی کریمﷺ نے جو نماز پڑھی تھی وہ اس مائی کی نماز جنازہ تھی۔(بخاری۔الجنائز۔باب الصلاۃ علی القبربعدمایدفن۔مسلم۔الجنائز۔باب الصلاۃ علی القبر) اور نماز جنازہ قبر پر پڑھی جا سکتی ہے البتہ نماز جنازہ کے علاوہ دوسری نماز قبر پر پڑھنا منع ہے ۔
دیکھیے : احکام و مسائل / مساجد کا بیان/ جلد :1/صفحہ : 100
وہ مائی جو مسجد نبویﷺ کی صفائی کرتی تھی وہ فوت ہو گئی تو صحابہ نے رات ورات جنازہ پڑھا کر دفن کر دیا تو پھر نبی کریمﷺ نے پوچھا تو آپﷺ نے کہا کہ مجھے اس کی قبر دکھاؤ تو نبی کریم ﷺ نے قبر پر نماز پڑھی ۔
مسجد کی صفائی کرنے والی مائی رضی اللہ عنہا کی قبر پر نبی کریمﷺ نے جو نماز پڑھی تھی وہ اس مائی کی نماز جنازہ تھی۔(بخاری۔الجنائز۔باب الصلاۃ علی القبربعدمایدفن۔مسلم۔الجنائز۔باب الصلاۃ علی القبر) اور نماز جنازہ قبر پر پڑھی جا سکتی ہے البتہ نماز جنازہ کے علاوہ دوسری نماز قبر پر پڑھنا منع ہے ۔
دیکھیے : احکام و مسائل / مساجد کا بیان/ جلد :1/صفحہ : 100
مفتی مبشر احمد ربّانی حفظہ اللہ نے مفصلاً اس بارے میں وضاحت کی
ہے :
قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا بھی شرعاً جائز و درست ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ مروی ہیں ۔ چند ایک ذکر کرتاہوں۔
1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا بھی شرعاً جائز و درست ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ مروی ہیں ۔ چند ایک ذکر کرتاہوں۔
1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ ، أَوْ
امْرَأَةً سَوْدَاءَ ، كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ ؛ فَمَاتَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَقَالُوا : مَاتَ ، قَالَ : أَفَلَا
كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ ؟ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ ، أَوْ قَالَ :
قَبْرِهَا ، فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا "
(بخاری کتاب الصلاۃ (458،460۔و کتاب الجنائز (1327)ابو داؤد
کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی القبر (3203) مسلم کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی
القبر(956)ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی القبر(1527)
"ایک سیاہ فام آدمی یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا تو وہ فوت ہو گیا (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے معاملے کو ہلکا سمجھا اور جنازہ وغیرہ پڑھا کر دفن کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن) اس کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے اس کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی؟ اس کی قبر پر میری راہنمائی کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"
2۔ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
"ایک سیاہ فام آدمی یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا تو وہ فوت ہو گیا (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے معاملے کو ہلکا سمجھا اور جنازہ وغیرہ پڑھا کر دفن کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن) اس کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بتایا وہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے اس کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی؟ اس کی قبر پر میری راہنمائی کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"
2۔ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
" قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ، مَرَّ
مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ، فَأَمَّهُمْ
وَصَفُّوا عَلَيْهِ . فَقُلْتُ يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ فَقَالَ ابْنُ
عَبَّاسٍ ."
(بخاری کتاب الاذان (857)مسلم کتاب الجنائز (954)
"مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی قبر کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صاحب قبر کے جنازے کے لیے)صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی امامت کی اور قبر پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صفیں باندھیں (راوی حدیث سلیمان شیبانی کہتے ہیں)میں نے کہا اے ابو عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ !آپ کو کس نے یہ حدیث بیان کی ہے؟تو انھوں نے کہا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔"
3۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسرے مقام پر اس کی کچھ تفصیل یوں ہے۔
"مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی قبر کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صاحب قبر کے جنازے کے لیے)صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی امامت کی اور قبر پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صفیں باندھیں (راوی حدیث سلیمان شیبانی کہتے ہیں)میں نے کہا اے ابو عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ !آپ کو کس نے یہ حدیث بیان کی ہے؟تو انھوں نے کہا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔"
3۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسرے مقام پر اس کی کچھ تفصیل یوں ہے۔
"مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَمَاتَ بِاللَّيْلِ، فَدَفَنُوهُ لَيْلًا، فَلَمَّا
أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: «مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي؟» قَالُوا:
كَانَ اللَّيْلُ فَكَرِهْنَا، وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ فَأَتَى
قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ"
(بخاری کتاب الجنائز باب الاذان بالجنائز ۃ(1247)
"ایک ایسا انسان فوت ہو گیا جس کی عیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے وہ رات کے وقت فوت ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے رات کے وقت دفن کر دیا جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے اطلاع دینے میں تمھیں کون سی چیز مانع ہوئی؟ تو انھوں نے کہا اندھیری رات تھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشقت کو ناپسند کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"
(یہ حدیث نسائی کتاب الجنائز (2023)ابو داؤد کتاب الجنائز (3196)ترمذی کتاب الجنائز(1037)ابن ماجہ کتاب الجنائز (1530)مسند ابی یعلیٰ ( 2523) وغیرہ میں بھی موجود ہے)
4۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"ایک ایسا انسان فوت ہو گیا جس کی عیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے وہ رات کے وقت فوت ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے رات کے وقت دفن کر دیا جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے اطلاع دینے میں تمھیں کون سی چیز مانع ہوئی؟ تو انھوں نے کہا اندھیری رات تھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشقت کو ناپسند کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔"
(یہ حدیث نسائی کتاب الجنائز (2023)ابو داؤد کتاب الجنائز (3196)ترمذی کتاب الجنائز(1037)ابن ماجہ کتاب الجنائز (1530)مسند ابی یعلیٰ ( 2523) وغیرہ میں بھی موجود ہے)
4۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى قَبْرٍ"
(مسلم کتاب الجنائز (955)مسند ابی یعلیٰ (3454)مسند احمد
3/130ابن ماجہ (1531) بیہقی 4/46دارقطنی2/77)
"انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔"
5۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی۔"
5۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى عَلَى قَبْرٍ
بَعْدَ مَا دُفِنَ"
(نسائی کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی القبر(2024)
"یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی قبر پر اس کے دفن کر دئیے جانے کے بعد نماز جنازہ ادا کی۔"
6۔ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر فوت ہو گئے ہم انہیں اٹھا کر مکہ لائے انہیں دفنا دیا۔ اس کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پاس تشریف لائیں اور اس بات پر انھوں نے برا بھلا کہا۔ پھر فرمایا میرے بھائی کی قبر کہاں ہے؟ ہم نے اس پر راہنمائی کی۔ پھر وہ تشریف لائیں اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔
(عبد الرزاق باب الصلاۃ علی المیت بعد مایدفن3/518)ابن ابی شیہ 4/149،طبع ھند 3/361،التمہید لا بن عبدالبر6/261)
امام ابن عبد البررقمطراز ہیں۔
"وقال الشافعي وأصحابه من فاتته الصلاة على الجنازة صلى على القبر إن شاء الله وهو رأى عبد الله بن وهب ومحمد بن عبد الله بن عبد الحكم وهو قول احمد بن حنبل واسحاق بن راهوية وداود بن علي وسائر اصحاب الحديث قال احمد بن حنبل:رويت الصلاة علي القبر عن النبي صلي الله عليه وسلم من ستة وجوه حسان كلها"(التمہید لا بن عبد البر6/261۔الاوسط لا بن المنذر5/413)
"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب نے کہا جس کی نماز جنازہ فوت ہو جائے وہ قبر پر ادا کرے ان شاء اللہ ۔ یہی رائے ،عبداللہ بن وہب اور محمد بن عبداللہ بن عبد الحکیم کی ہے اور یہی قول امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ امام داؤد بن علی رحمۃ اللہ علیہ اور تمام اہل حدیث کا ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کے بارے میں چھ اچھی سندوں سے احادیث روایت کی گئی ہیں۔"
یہ چھ احادیث سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی گئی ہیں جن کی تفصیل "التمہید 6/263۔276۔میں موجود ہے ۔
امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"من صلى على قبر، أو على جنازة قد صلي عليها؛ فمباح له ذلك؛ لأنه قد فعل خيراً لم يحظره الله ولا رسوله، ولا اتفق الجميع على المنع منه، وقد قال الله تعالى:(( وَافْعَلُوا الْخَيْرَ)) [ الحج : 77] ، وقد صلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على قبر، ولم يأت عنه نسخه، ولا اتفق الجميع على المنع منه، فمن فعل فغير حرج ، ولا معنَّف، بل هو في حل وسعة وأجر جزيل إن شاء الله، إلا أنه ما قدم عَهْدُه فمكروه الصلاة عليه؛ لأنه لم يأت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا عن أصحابه أنهم صلوا على القبر إلا بحدثان ذلك، وأكثر ما روي فيه شهر" إن شاء الله"،
(التمہید لا بن عبد البر6/278،278)
" جس آدمی نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی یا ایسی میت پر جس کا جنازہ پڑھا جا چکا ہو تو اس کے لیے یہ مباح ہے۔ اس لیے کہ اس نے خیر کاکام کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ممانعت پر سب کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے(نیکی کے کام کرو)اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا نسخ ثابت نہیں۔ اور ہم متبع سنت ہیں ، بدعتی نہیں ۔ الحمد اللہ۔"
امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"ويصلي علي القبر لان النبي صلي الله عليه وسلم صلي عليه"
(الاقناع 1/158)
"اور قبر پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے۔"
علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔
"وفي الحديث ايضاً دليل علي صحة الصلاة علي القبر بعد دفن الميت سواء اُصلي عليه قبل الدفن ام لاوبه قال :أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم ، روي ذلك عن أبي موسى ، وابن عمر ، وعائشة رضي الله عنهم وإليه ذهب الأوزاعي ، والشافعي واحمد واسحاق وابن وهب وداود وسائر اصحاب الحديث ويدل لهم ايضاً احاديث من بين صحاح وحسان وردت في الباب عن جماعة من الصحابة اشار اليها الحافظ في التلخيص ص:١٦٢"
(مرعاۃ المفاتیح 5/390)
"اس حدیث میں دفن کے بعد قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کی صحت پر دلیل ہے۔ خواہ دفن سے قبل اس پر جنازہ پڑھا گیا ہو یا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وغیرہم کا یہی قول ہے۔ اور یہ بات ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی گئی ہے ۔اور اسی بات کی طرف امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام عبد اللہ بن وھب رحمۃ اللہ علیہ ، امام داؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور تمام اہلحدیث گئے ہیں۔اور ان کے مؤقف پر اسی طرح کئی ایک صحیح اور حسن احادیث دلالت کرتی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے اس مسئلہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں جن کی طرف حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص الخبیر1/162میں اشارہ کیا ہے۔"
حنفی علماء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل میں یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دفن کرنے کے بعد بھی بیس دن تک لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
(سیرۃ نعمان ص:42،مولانا شبلی بحوالہ مقام ابی حنیفہ ص: 99،مولوی سرفرازصفدر)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ متصلہ اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور آئمہ دین رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ قبر پر نمازجنازہ ادا کرنا بالکل صحیح و درست ہے۔ اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
دیکھیے :آپ کےمسائل اوران کاحل/جلد:2/كتاب الجنائز/صفحہ:237
"یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی قبر پر اس کے دفن کر دئیے جانے کے بعد نماز جنازہ ادا کی۔"
6۔ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر فوت ہو گئے ہم انہیں اٹھا کر مکہ لائے انہیں دفنا دیا۔ اس کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پاس تشریف لائیں اور اس بات پر انھوں نے برا بھلا کہا۔ پھر فرمایا میرے بھائی کی قبر کہاں ہے؟ ہم نے اس پر راہنمائی کی۔ پھر وہ تشریف لائیں اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔
(عبد الرزاق باب الصلاۃ علی المیت بعد مایدفن3/518)ابن ابی شیہ 4/149،طبع ھند 3/361،التمہید لا بن عبدالبر6/261)
امام ابن عبد البررقمطراز ہیں۔
"وقال الشافعي وأصحابه من فاتته الصلاة على الجنازة صلى على القبر إن شاء الله وهو رأى عبد الله بن وهب ومحمد بن عبد الله بن عبد الحكم وهو قول احمد بن حنبل واسحاق بن راهوية وداود بن علي وسائر اصحاب الحديث قال احمد بن حنبل:رويت الصلاة علي القبر عن النبي صلي الله عليه وسلم من ستة وجوه حسان كلها"(التمہید لا بن عبد البر6/261۔الاوسط لا بن المنذر5/413)
"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب نے کہا جس کی نماز جنازہ فوت ہو جائے وہ قبر پر ادا کرے ان شاء اللہ ۔ یہی رائے ،عبداللہ بن وہب اور محمد بن عبداللہ بن عبد الحکیم کی ہے اور یہی قول امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ امام داؤد بن علی رحمۃ اللہ علیہ اور تمام اہل حدیث کا ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کے بارے میں چھ اچھی سندوں سے احادیث روایت کی گئی ہیں۔"
یہ چھ احادیث سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی گئی ہیں جن کی تفصیل "التمہید 6/263۔276۔میں موجود ہے ۔
امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"من صلى على قبر، أو على جنازة قد صلي عليها؛ فمباح له ذلك؛ لأنه قد فعل خيراً لم يحظره الله ولا رسوله، ولا اتفق الجميع على المنع منه، وقد قال الله تعالى:(( وَافْعَلُوا الْخَيْرَ)) [ الحج : 77] ، وقد صلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على قبر، ولم يأت عنه نسخه، ولا اتفق الجميع على المنع منه، فمن فعل فغير حرج ، ولا معنَّف، بل هو في حل وسعة وأجر جزيل إن شاء الله، إلا أنه ما قدم عَهْدُه فمكروه الصلاة عليه؛ لأنه لم يأت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا عن أصحابه أنهم صلوا على القبر إلا بحدثان ذلك، وأكثر ما روي فيه شهر" إن شاء الله"،
(التمہید لا بن عبد البر6/278،278)
" جس آدمی نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی یا ایسی میت پر جس کا جنازہ پڑھا جا چکا ہو تو اس کے لیے یہ مباح ہے۔ اس لیے کہ اس نے خیر کاکام کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ممانعت پر سب کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے(نیکی کے کام کرو)اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا نسخ ثابت نہیں۔ اور ہم متبع سنت ہیں ، بدعتی نہیں ۔ الحمد اللہ۔"
امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"ويصلي علي القبر لان النبي صلي الله عليه وسلم صلي عليه"
(الاقناع 1/158)
"اور قبر پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی ہے۔"
علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔
"وفي الحديث ايضاً دليل علي صحة الصلاة علي القبر بعد دفن الميت سواء اُصلي عليه قبل الدفن ام لاوبه قال :أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم ، روي ذلك عن أبي موسى ، وابن عمر ، وعائشة رضي الله عنهم وإليه ذهب الأوزاعي ، والشافعي واحمد واسحاق وابن وهب وداود وسائر اصحاب الحديث ويدل لهم ايضاً احاديث من بين صحاح وحسان وردت في الباب عن جماعة من الصحابة اشار اليها الحافظ في التلخيص ص:١٦٢"
(مرعاۃ المفاتیح 5/390)
"اس حدیث میں دفن کے بعد قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کی صحت پر دلیل ہے۔ خواہ دفن سے قبل اس پر جنازہ پڑھا گیا ہو یا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وغیرہم کا یہی قول ہے۔ اور یہ بات ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی گئی ہے ۔اور اسی بات کی طرف امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام عبد اللہ بن وھب رحمۃ اللہ علیہ ، امام داؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور تمام اہلحدیث گئے ہیں۔اور ان کے مؤقف پر اسی طرح کئی ایک صحیح اور حسن احادیث دلالت کرتی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے اس مسئلہ میں احادیث وارد ہوئی ہیں جن کی طرف حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص الخبیر1/162میں اشارہ کیا ہے۔"
حنفی علماء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل میں یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دفن کرنے کے بعد بھی بیس دن تک لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
(سیرۃ نعمان ص:42،مولانا شبلی بحوالہ مقام ابی حنیفہ ص: 99،مولوی سرفرازصفدر)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ متصلہ اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور آئمہ دین رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ سے معلوم ہوا کہ قبر پر نمازجنازہ ادا کرنا بالکل صحیح و درست ہے۔ اس کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
دیکھیے :آپ کےمسائل اوران کاحل/جلد:2/كتاب الجنائز/صفحہ:237
Post a Comment