Thursday, May 28, 2020

TADFEEN K BAD CHARO KONO MAIN TILAWAT


تدفین کے بعد چاروں کونوں میں تلاوت


سوال: جنازہ دفنانے کے فوراً بعد قبر کے 4 کونوں میں جو تلاوت کی جاتی ہے، اس کا تعلق قرآن اور حدیث سے ثابت ہے؟

ہمارے ہاں میت کو دفنانے کے بعد ایک ایسا عمل کیا جاتا ہے جسے یہاں احناف (بریلوی، دیوبندی) تلقین کہتے ہی۔ مسلک بریلوی دفنانے کے بعد قبر کے چاروں کونوں پے کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں یعنی چار قاری ہوتے ہیں جو باری باری پڑھتے ہیں ، یہی طریقہ تلقینِ میت کہلاتا ہے ۔
بعض لوگ تلقین المیت ثابت کرنے کے لئے حدیث پیش کرتے ہیں:
"حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ أَنَسُ بْنُ سَلْمٍ الْخَوْلَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الْحِمْصِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا أُمَامَةَ وَهُوَ فِي النَّزْعِ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مُتُّ، فَاصْنَعُوا بِي كَمَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نصْنَعَ بِمَوْتَانَا، أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِكُمْ، فَسَوَّيْتُمِ التُّرَابَ عَلَى قَبْرِهِ، فَلْيَقُمْ أَحَدُكُمْ عَلَى رَأْسِ قَبْرِهِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْمَعُهُ وَلَا يُجِيبُ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْتَوِي قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَقُولُ: أَرْشِدْنَا رَحِمَكَ اللهُ، وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ. فَلْيَقُلْ: اذْكُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّكَ رَضِيتَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا، فَإِنَّ مُنْكَرًا وَنَكِيرًا يَأْخُذُ وَاحِدٌ مِنْهُمْا بِيَدِ صَاحِبِهِ وَيَقُولُ: انْطَلِقْ بِنَا مَا نَقْعُدُ عِنْدَ مَنْ قَدْ لُقِّنَ حُجَّتَهُ، فَيَكُونُ اللهُ حَجِيجَهُ دُونَهُمَا ". فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنْ لَمْ يَعْرِفْ أُمَّهُ؟ قَالَ: «فَيَنْسُبُهُ إِلَى حَوَّاءَ، يَا فُلَانَ بْنَ حَوَّاءَ»"
کہ سعید بن عبداللہ الاودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا،جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے،وہ فرمانے لگے: جب میں فوت ہو جاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرنا،جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے اور تم اسکی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے ایک شکص اسکی قبر کے سرہانے کی جانب کھڑا ہو کر کہے،اے فلاں عورت کے فلاں بیٹے! جب وہ یہ کہے گا تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا،مردہ یہ بات سنے گا،لیکن جواب نہیں دیگا
ـ پھر وہ کہے:اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں!وہ کہے گا اللہ تجھ پر رحم کرے! ہماری رحنمائی کر،لیکن تم اسکا شعور نہیں رکھتےـ پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر،جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہےـ اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ـ تو اللہ کے رب ہونے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے،اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر تھاـ منکر اور نکیر میں سے ایک،دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے،چلو! جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو،اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتےـ چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالی اسکا حامی بن جائے گاـ ایک آدمی نے عرض کی،اللہ کے رسول!اگر وہ (تلقین کرنے والا) اس کی (مرنے والے کی) ماں کو نہ جانتا ہو تو (کیا کرے؟) فرمایا: وہ اسے حواء علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے ـ (المعجم الکبیر للطبرانی ج ۸ ص ۲۵۰،الدعاء للطبرانی ج ۳ ص ۲۹۸،وصایا علماء عند حضور الموت لابن زبیر ص ۴۶-۴۷،الشافی لعبدالعزیر نقلاً عن تلخیص الحبیر لابن حجر ج ۲ ص ۱۳۶،اتباع الاموات للابراھیم الحربی نقلاً عن المقاصد الحسنہ للسخاوی ص ۲۶۵،الاحکام لضیاء المقدسی نقلاً عن المقاصد الحسنہ لسخاوی ص ۲۶۵)
یہ سند سخت ترین ضعیف ہے کینکہ
- اسماعیل بن عیاش کی اہل حجاز سے بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے
مزکورہ روایت بھی اہل حجاز سے ہے لہذا ضعیف ہے
- اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد القرشی مجہول ہے اسکی توثیق کہیں دستیاب نہیں ،چنانچہ امام ذہبی رح (متوفی ۷۴۸ ھ) فرماتے ہیں:
"عبدالله،لا يدرى من هو"
کہ یہ عبداللہ نامی راوی، معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہے
ـ (میزان الاعتدال ج ۳ ص ۲۴۴ تحقیق عمران بن ھارون)
- یحیی بن ابی کثیر مدلس ہیں
امام دارقطنی رح (متوفی ۳۸۵ ھ) فرماتے ہیں:
"ويحيى بن أبي كثير معروف بالتدليس"
کہ اور یحی بن ابی کثیر تدلیس میں مشہور ہیں. (علل الدارقطنی ج
۱۱ ص ۱۲۴)
- اس کے ایک راوی سعید بن عبداللہ اودی کی توثیق نہیں مل سکی
تلقین المیت کو ثابت کرنے کے لئے سنن ابن ماجہ سے یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے:
"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا أبو عامر قال: حدثنا كثير بن زيد، عن إسحاق بن عبد الله بن جعفر، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقنوا موتاكم: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين " قالوا: يا رسول الله كيف للأحياء؟ قال: «أجود، وأجود»"
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو ان الفاظ کی تلقین کرو ": لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين" "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حلیم و کریم ہے ،پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے.سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے"صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! زندوں کے لئے یہ ذکر کیسا ہے؟ فرمایا: "زیادہ اچھا زیادہ عمدہ". (سنن ابن ماجہ ج
۲ ص ۴۲۸)
 یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں
۱- إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ مجہول ہے کسی ایک بھی امام نے اس کی توثیق نہیں کی ہے
۲- کثیر بن زید بھی ضعیف ہے
امام علی بن مدینی رح (متوفی
۲۳۴ ھ) فرماتے ہیں:
"صَالح وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ"
کہ نیک و صالح تھا مگر قوی نہیں تھا. (سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني ص
۵ و شاملہ ص ۹۵)
امام ابو زرعہ الرازی رح (متوفی ۲۶۴ ھ) فرماتے ہیں:
"هو صدوق فيه لين"
کہ وہ سچا تھا لیکن حدیث میں کمزور تھا. (الجرح و تعدیل ج
۷ ص ۱۵۱ و سند صحیح)
امام ابو حاتم الرازی رح (متوفی ۲۷۷ ھ) فرماتے ہیں:
"صالح ليس بالقوى"
کہ نیک و صالح تھا مگر قوی نہیں تھا. (الجرح و تعدیل ج
۷ ص ۱۵۱)
امام نسائی رح (متوفی ۳۰۳ ھ) فرماتے ہیں:
"كثير بن زيد ضَعِيف"
کہ کثیر بن زید ضعیف ہے. (کتاب الضعفاء والمتروکین ص
۲۰۶)
امام ابن معین رح (متوفی ۳۲۷ ھ) فرماتے ہیں:
"ليس بذاك القوى"
کہ یہ قوی نہیں تھا. (الجرح و تعدیل ج
۷ ص ۱۵۱ وسند صحیح)
نیز فرماتے ہیں:
"ليس بشيء"
کہ یہ کچھ بھی نہیں تھا. (تاريخ ابن ابى خيثمة ج
۲ ص ۳۳۶)
امام ابن جوزی رح (متوفی ۵۹۷ ھ) نے کثیر بن زید کو ضعفاء میں نقل کیا ہے. (الضعفاء والمتروکین ج ۳ ص ۲۲)
امام ذھبی رح (متوفی ۸۴۸ ھ) فرماتے ہیں:
"كُثَيْرُ بْنُ زَيْدٍ صُوَيْلِحُ فِيهِ لِينٌ"
کہ کثیر بن زید صالح ہے مگر اس میں کچھ کمزوری ہے. (معجم الشيوخ ج
۱ ص ۳۰۰)
امام ابن حجر عسقلانی رح (متوفی ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں:
"وَكثير بن زيد مُخْتَلف فِيهِ"
کہ اور کثیر بن زید مختلف فیہ راوی ہے. (تغلیق التعلیق ج
۳ ص ۲۴۹)
شیخ زبیر علی زئی رح نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے. (سنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۴۲۸)
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه


Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search