Wednesday, July 22, 2020

Aulad ko Aaq Karna


اولاد کو عاق کرنا


بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
 تحریر : مسزانصاری
معاشرے میں عاق کرنا ایک رواج کی صورت اختیار کر گیا ہے ، رواج کی صورت اس لیے اختیار کر گیا کیوں کہ اسکی وجوہات بڑھ گئی ہیں ، یعنی اولاد کی نافرمانیاں آج عام بات ہے ، ہر گھر میں کسی نہ کسی صورت میں اولاد کی سرکشی موجود ہے ، کہیں نیک تابعدار اولاد نکاح کے مسئلہ میں نفس پرستی کا شکار ہو جاتی ہے تو کہیں جان چھڑکنے والی اولاد زندگی کے کسی معاملے میں والدین کی مخالفت پر اپنی محبت و مودت بھول بیٹھتی ہے ، عشقِ زن ہو یا ہوسِ زر ، بیوی کی تابعداری میں مبالغہ ہو یا من پسند نیٹ ایکٙیویٹیز پر روک ٹوک ہو ، اولاد بہت جلد بھول جاتی ہے کہ ماں باپ کا کیا مقام ہے ۔
شریعت میں کثرت سے ماں باپ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔ والدین کی نافرمانی حرام اور اکبر الکبائر گناہوں میں شمار ہوتی ہے،اور اللہ تعالی نے اس کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔
ۛ
﴿وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا o وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ﴾الاسراء: ۲۳۔ ۲۴
’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور شفقت و محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟ … ثَلَاثًا… قُلْنَا بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللہ علیه وسلم، قَالَ أَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰهِ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ… وَکَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: أَ لَا وَقَوْلُ الزُّوْرِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ، أَ لَا وَقَوْلُ الزَّوْرِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ فَمَا زَالَ یَقُوْلُھَا حَتَّی ثُلْثُ: لَا یَسْکُتُ»
راجع: الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ص: ۱۰/۱۵۵۔۱۶۰، ۱۴/۴۴، ۵/۱۲۰، وفتح الباري للعسقلاني، ص: ۱۰/۴۰۳۔۴۰۶، ۵/۶۸، وفیض القدیر للمناوي، ص: ۲/۲۲۷، ۴/۳۳۔
’’ کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں سے میں سے زیادہ بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟ (آپ نے اس بات کو تین بار دہرایا) ہم نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ یہ ہیں) اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ بیٹھ گئے فرمایا خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی خبردار! اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ فرمائی اور خاموش نہیں ہوتے تھے۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« رَغِمَ أَنْفُه ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُه ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُه قِیلَ: مَنْ یَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْه عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ کِلَیْهمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّة))
أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب رغم من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر… رقم : ۶۵۱۱۔
’’ اس شخص کی ناک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کس کی؟ جواب دیا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو بوڑھا پایا پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں نہ گیا۔ ‘‘
تاہم ان شرعئی نصوص کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے ۔ جو والدین قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے آئے دن اخبارات میں اپنی اولاد میں کسی کے متعلق''عاق نامہ'' کے اشتہارات دیتے ہیں ۔ انہیں ضرور بالضرور جاننا چاہیے کہ ان کے یہ اقدام خطرناک اور ظلم عظیم ہیں ۔
اسلام عدل و مساوات کا دین ہے ، اور اس دین میں کوئی سطحیت نہیں ہے ۔ بلکہ دینِ اسلام تو عقل صلاح اور اصلاح پر مبنی ہے اس کے تمام مسائل اصول وفروع میں تقسیم ہیں ، ان اوامر کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے بڑے خوفناک عذابوں کی دھمکیاں دی ہیں ۔
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے قوانین میں رشتہ داروں کے فقر و احتیاج اور ان کی بے چارگی یا اولاد کی سرکشی کو بنیاد نہیں بنایا ، بلکہ وارثوں کی نامزدگی اوروراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے عائد کردہ ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ...﴿١١﴾... سورة النساء
"اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہونا چاہیے۔"
والدین کو اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اولاد پر ظلم کریں اور اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے کسی نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے محروم کردے، اخبارات میں ‘‘ عاق نامہ’’ کے اشتہارات اللہ تعالیٰ کے ضابطہ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ اگر بیٹا نافرمان ہے تووہ اس نافرمانی کے سزا قیامت کےدن اللہ کے ہاں ضرور پائے گا لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے، ایسا کرنے سے انسان کی عاقبت کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس ضمن میں کہ وارث جائیداد سے کن صورتوں میں بے دخل کیا جاسکتا ہے الشیخ عبدالستار الحماد کہتے ہیں
ماہرین وراثت نے ان وجوہات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔و وراثت سے محرومی کا باعث ہیں۔ عام طور پر اس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ موانع شامل ہیں۔ جو فی نفسہ وراثت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ان میں غلامی قتل ناحق اور اختلاف ملت یعنی کفر وارتداد و غیرہ ہیں۔ دوسری قسم میں وہ موانع ہیں جو فی نفسہ تو روکاوٹ کا باعث نہیں البتہ بالتبع محرومی کا زریعہ ہوتے ہیں۔ان میں وارث اور مورث کا اشتباہ برسر فہرست ہے جیسے ایک ساتھ غرق ہونے والے آگ میں جل کر اس دنیا سے ر خصت ہونے والے ہیں اگر ان کے درمیان وراثت کا رشتہ قائم ہوتو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔بشرط یہ کہ پتہ نہ چل سکےکہ ان میں پہلے اور بعد کون فوت ہوا ہے۔ (دیکھیے: فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:1 صفحہ:71)

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه


 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search