Wednesday, July 22, 2020

Jihad ki Shirayat

جہاد کے واجب ہونے کی شرائط

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ
تم پہ قتال (جہاد فی سبیل اللہ) فرض کر دیا گیا ہے ‘ جبکہ وہ تمہیں ناپسند ہے۔
[البقرة : 216]
اور یہ کبھی فرض عین ہوتا ہے اور کبھی فرض کفایہ۔ جب کچھ مسلمان کفار کے خلاف برسر پیکار ہوں‘ ا ور انکی تعداد کفار کے مقابلہ کے کافی ہو تو باقیوں پہ کوئی گناہ نہیں ہوتا ‘ کیونکہ ایسی حالت میں قتال فرض کفایہ بن جا تا ہے۔
اللہ عز وجل کا فرمان ہے:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً
اور مؤمنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ سبھی نکل کھڑے ہوں۔
[التوبة : 122]
اور جب کفار مسلمانوں کے کسی خطہ ارضی پہ دھاوا بول دیں خوہ وہ زمین ٹکڑا چھوٹا ہو یا بڑا‘ تو اسکے تمام تر رہنے والوں پہ قتال کرنا فرض عین ہوجاتا ہے۔اور اگر وہاں کے رہنے والے کفار سے مقابلہ نہ کرسکتے ہوں تو پھر انکے قریب والوں پہ انکی مناصرت میں جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔حتى کہ یہ واجب تمام تر مسلمانوں پر بالعموم لاگو ہوجاتا ہے۔ کیونکہ سلطنت اسلام مشرق سے مغرب تک ایک ہی ہے‘ خواہ موجودہ تقسمیات میں وہ کئی ملکوں میں منقسم ہیں۔ اور اسی طرح جب مسلم حکمران تمام تر رعایہ کو نکلنے کا حکم دے تب بھی سب کے لیے جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ کافرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ اے اہل ایمان تمہیں کیا ہے کہ جب تمہیں کہا جائے اللہ کے راستہ میں نکلو تو تم زمین کے ساتھ چمٹ جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے بجائے دنیوی زندگی پہ ہی راضی ہوگئے ہو؟ حیات دنیوی کا ساز وسامان آخرت کے مقابلہ میں نہایت ہی تھوڑا ہے۔
[التوبة : 38]
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ، فَانْفِرُوا
اور جب تمہیں (جہاد کے لیے) نکلنے کا کہا جائے تو نکل پڑو۔
صحیح البخاری: 1834
اور اسی طرح جب کوئی عرصہ جنگ گاہ میں پہنچ جائے اور میدان میں لڑائی شروع ہو جائے تو اس پہ بھی جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت جہاد چھوڑ کر میدان سے جانا بڑے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
«اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: «الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ»
سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون کون سی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ کسی جان کو ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا۔ میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا۔ اور غافل مؤمنہ پاکدامن عورتوں پہ تہمت لگانا۔
صحیح البخاری:2766
اور جہاد کے واجب ہونے کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں:
1- اسلام:
۔
┄┅═══════┅┄
جہاد مسلمان پر فرض ہوتا ہے ‘ جیسا کہ باقی فرائض ہیں۔ کسی غیر مسلم پہ نہ تو جہاد فرض ہے اور نہ ہی اس کا جہاد قبول ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں بھی آپکے ساتھ جہاد پہ جانا چاہتا ہوں اور وہ شخص جرأت وبہادری میں بہت مشہور تھا۔ اس وجہ سے صحابہ کرام بہت خوش ہوئے۔ نبی مکرم ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تو اللہ اور اسکے رسو ل پہ ایمان رکھتا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: «فَارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ» تو لوٹ جا..! میں کسی مشرک سے مدد نہیں لیتا۔ صحیح مسلم:1817
2- عقلمند ہونا:
۔
┄┅═══════┅┄
کیونکہ مجنون یا پاگل شخص احکامات شریعت کا مکلف نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذی شان ہے: " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ المُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبُرَ " تین افراد مرفوع القلم ہیں: سویا ہوا شخص ‘ حتى کہ بیدار ہو جائے, دیوانہ, حتى کہ صحیح ہوجائے, اور بچہ ‘ حتى کہ وہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔ سنن أبی داود: 4398
3- بالغ ہونا:
۔
┄┅═══════┅┄
نابالغ پہ جہاد فرض نہیں ہے۔ جیسا کہ سابقہ حدیث سے واضح ہے۔ اور اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے احد کے موقع پر جہاد کے لیے نبی کریم ﷺ پہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت نہ دی, اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ اور پھر خندق کے موقع پہ مجھے پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی ‘ اس وقت میں پندرہ سال کا تھا۔ صحیح مسلم: 1868
4- مرد ہونا:
۔
┄┅═══════┅┄
عورتوں پہ بھی جہاد واجب نہیں ہوتا۔ ام ا لمؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا عورتوں پہ بھی جہاد فرض ہےتو آپ ﷺ نے فرمایا: " نَعَمْ، عَلَيْهِنَّ جِهَادٌ، لَا قِتَالَ فِيهِ: الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ " ہاں ان پہ بھی ایسا جہاد فرض ہے جس میں قتال نہیں ہے‘ یعنی حج اور عمرہ سنن ابن ماجہ: 2901 ۔ واصلہ فی الصحیح : 2875
5- قدرت واستطاعت:
۔
┄┅═══════┅┄
جو شخص آلات جہاد خریدنے یا حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا, یا کسی بیماری , یا جسمانی کمزوری کی بناء پر جہاد پہ جانے سے قاصر ہو اس پہ بھی جہاد فرض نہیں ہوتا۔
اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے:
لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَى الْمَرْضَى وَلاَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ * وَلاَ عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّواْ وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَ
کمزوروں, بیماروں, اور ان لوگوں پر جنہیں (راہ جہاد میں) خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں ہے, کوئی حرج نہیں‘ جب وہ اللہ اور اسکے رسول کے لیے خیرخواہی کریں۔ اور نیکی کرنے والوں پر (سرزنش کرنے کا ) کوئی جواز نہیں ہے۔ اور اللہ تعالى نہایت بخشنے والے نہایت مہربان ہیں۔اور نہ ہی ان لوگوں پہ کوئی حرج ہے جو آپ کے پاس آتے ہیں تاکہ آپ انہیں (جہاد پہ جانے کے لیے) سواری فراہم کریں اور آپ انہیں بتاتے ہیں کہ میرے پاس تمہارے لیے کوئی سواری میسر نہیں ہے۔ تو وہ پرنم آنکھوں کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں کہ انکے پاس ( راہ جہاد میں) خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
[التوبة : 91-92]
نیز فرمایا:
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَاباً أَلِيماً
نابینا پہ کوئی حرج نہیں, اور نہ ہی لنگڑے پہ کوئی حرج ہے, اور نہ ہی مریض پہ کوئی حرج ہے۔ اور جو اللہ اور اسکے رسول
کی اطاعت کرے گا تو اللہ تعالى اسے ایسے باغات میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے دریا بہتے ہیں۔ اور جو روگردانی کرے گا اسے دردناک عذاب سے دوچار کریں گے۔
[الفتح : 17]
یہ شروط جہاد کی فرضیت کی ہیں۔ لیکن اگر کسی میں یہ شروط پوری نہ ہوتی ہوں اور وہ پھر بھی جہادکرنا چاہے اور جہاد پہ جاسکتا ہو , تو وہ نفلی طور پہ امیر کی اجازت سے جہاد کر سکتا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں عورتوں کا میدان جہاد میں اترنا, کفار کو قتل کرنا, اور کچھ معذور لوگوں کا جہاد پہ جانا بھی مذکور ہے۔ تو یہ سب نفلی جہاد کرنے والے ہیں۔ کیونکہ جہاد کی عظمت و فضیلت اس قدر ہے کہ کوئی بھی صاحب ایمان کسی بھی صورت اسے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه



Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search