وباء
کے باعث مساجد بند کرنے پر باجماعت نماز سے محرومی ؟
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر :
مسزانصاری
آدمی
کے اوپر واجب ہے کہ وہ ہر نماز میں مسجد میں حاضر ہو اور نماز باجماعت ادا کرے ۔
ہر وہ شخص جس کے قرب و جوار میں مسجد موجود ہو، اس کے لیے واجب ہے کہ وہ مسجد میں
ہی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے ۔
سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ وہ حدیث ہے،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ
لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں ،پھر نماز کی تکبیر کا حکم دوں،پھر کسی شخص کو نماز
پڑھانے کا حکم دے کر ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو نماز کے لئے حاضر
نہیں ہوئے۔
(أخرجه البخاري برقم:618)، ومسلم:651)
(أخرجه البخاري برقم:618)، ومسلم:651)
سیدنا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ
کو دیکھا کہ منافق اور مریض کے علاوہ کوئی نماز سے پیچھے نہ رہتا تھا۔
(أخرجه مسلم برقم (654)
کو دیکھا کہ منافق اور مریض کے علاوہ کوئی نماز سے پیچھے نہ رہتا تھا۔
(أخرجه مسلم برقم (654)
اسی
طرح حالتِ جنگ میں جبکہ مجاہدین میں دشمن کا خوف ہو تو اللہ سبحانہ وتعالى كا
فرمان ہے:
﴿اور جب آپ ان ميں ہوں اور
ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو آپ كے ساتھ ايك گروہ نماز ادا كرے، اور چاہيے كہ وہ
اپنا اسلحہ ساتھ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر ليں تو وہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں،
اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے
﴾النساء ( 102 ).
امام
مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور
عرض كى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى
شخص نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے
كى رخصت دے دى، اور جب وہ جانے كے ليے پلٹا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے
اسے بلايا اور فرمانے لگے:
كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "
كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "
يہ
نابينا صحابى ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ تھے.
اور
مسند احمد اور سنن ابو داود ميں عمرو بن ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى
ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نابينا ہوں، ميرا گھر دور ہے، اور مجھے لانے والا ميرى موافقت نہيں كرتا، كيا آپ مجھے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں تيرے ليے رخصت نہيں پاتا "
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نابينا ہوں، ميرا گھر دور ہے، اور مجھے لانے والا ميرى موافقت نہيں كرتا، كيا آپ مجھے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں تيرے ليے رخصت نہيں پاتا "
اور
ابو دائود شریف کی ایک روایت میں ہے:۔
وَ مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحْدٍ الّا وَ لَه مَسْجِدٌ فِیْ بَیْتِہٖ وَ لَو صَلَّیْتُمْ فِیْ بُیُوتِکُمْ وَ تَرَکْتُمْ مَسَاجِدَ کُمْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ وَ لَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ لَکَفَرْ تُمْ
(ص ۸۸ باب التشدید فی ترک الجماعۃ)
تم میں سے ہر فرد نے اپنے گھر میں مسجد بنا رکھی ہے اگر اسی طرح تم گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدوں میں آنا چھوڑ دیا تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے اور اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گچھوڑ دی تو کافر ہو جائو گے۔
وَ مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحْدٍ الّا وَ لَه مَسْجِدٌ فِیْ بَیْتِہٖ وَ لَو صَلَّیْتُمْ فِیْ بُیُوتِکُمْ وَ تَرَکْتُمْ مَسَاجِدَ کُمْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ وَ لَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ لَکَفَرْ تُمْ
(ص ۸۸ باب التشدید فی ترک الجماعۃ)
تم میں سے ہر فرد نے اپنے گھر میں مسجد بنا رکھی ہے اگر اسی طرح تم گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدوں میں آنا چھوڑ دیا تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے اور اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گچھوڑ دی تو کافر ہو جائو گے۔
لیکن
اگر عذر حقیقتًا معقول ہو تو شریعت اسلام نے ادتثنائی صورتیں یا مراعات دینے میں
کبھی بخل سے کام نہیں لیا ۔ اسلام بے جا سختی کا نام نہیں ہے بلکہ نہایت نرم اور
اللہ تعالیٰ کے بندوں پر سہل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عام ہے۔
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا ( البقرہ )
اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی طاقت سے باہر تکلیف نہیں دیتا۔
چنانچہ بحالتِ عذر شدید شریعت نے جماعت سے متعلقہ احکامات میں تخفیف سے کام لیا ہے اور صاحبِ عذر کے لیے سہولت کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا ( البقرہ )
اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی طاقت سے باہر تکلیف نہیں دیتا۔
چنانچہ بحالتِ عذر شدید شریعت نے جماعت سے متعلقہ احکامات میں تخفیف سے کام لیا ہے اور صاحبِ عذر کے لیے سہولت کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
صورتِ
مسئولہ میں اگر حالت ایسی ہے کہ تمام دور دور اور نزدیک کی مساجد مکمل طور پر ہر
نماز کے لیے بند کر دی گئی ہیں ، تو اس صورت میں مساجد کی باجماعت نماز سے محرومی
ایک بے اختیاری بات ہے ، لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے کہ مساجد کھلوا کر باجماعت
نماز کا اہتمام کریں ، لہٰذا مجبوری کی حالت میں آدمی گناہ گار نہیں ہوتا
حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ
مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ
ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ،
وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ .
نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور
زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیئے ہیں ۔
- سنن ابن ماجه
- كتاب الطلاق
- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
- بَابُ : طَلاَقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي
- باب: زبردستی یا بھول سے دی گئی طلاق کے حکم کا بیان۔
- حدیث نمبر: 2045
- تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5905، ومصباح الزجاجة: 722) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 82)»
- قال الشيخ الألباني: صحيح
- سنن ابن ماجه
- كتاب الطلاق
- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
- بَابُ : طَلاَقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي
- باب: زبردستی یا بھول سے دی گئی طلاق کے حکم کا بیان۔
- حدیث نمبر: 2045
- تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5905، ومصباح الزجاجة: 722) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 82)»
- قال الشيخ الألباني: صحيح
تاہم
باجماعت کی دوسری صورتیں شریعت میں موجود ہیں جن پر عمل کر کے آدمی کو جماعت کی
فضیلت مل سکتی ہے ۔ یہ کہ وہ اپنے اہل خانہ ، یا احباب اور یا متعلقین کے ساتھ
باجماعت نماز ادا کر سکتا ہے ۔
ایک
بدری صحابی حضرت عتبان بن مالک جو مسجد میں نماز باجماعت کے پابند ہی نہ تھے، بلکہ
اپنی قوم کے امام بھی تھے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اور کہا! یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں میری نظر کمزور ہو گئی
ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان واقعہ ہونے والی وادی بہنے
لگتی ہے۔ اس وقت میرے لیے مسجد میں آنا جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یا حضرتؐ!
میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر کے ایک کونے میں نماز
پڑھیں۔ میں اس کو نماز کے لیے مخصوص کر لوں گا۔ اور ہنگامی حالات میںوہاں نماز ادا
کر لیا کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرمایا کہ بہتر! میں کسی روز
انشاء اللہ تمہارے گھر آئوں گا۔ حضرت عتبانؓ کا بیان ہے کہ ایک دن سورج نکل کر
کچھ اونچا ہی آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب وعدہ تشریف لائے۔ حضرت
ابو بکر صدیقؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ آتے ہی آپؐ نے اجازت طلب کی، میں نے اجازت
دے دی، بجائے اس کے کہ آپؐ ذرا آرام فرماتے، گمکان کے اندر داخل ہو کر پوچھا
’’کہاں نماز پڑھوں؟ میں نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، آپؐ نے وہاں قبلہ رو ہو کر
تکبیر کہی، ہم نے بھی آپؐ کے پیچھے صف باندھ لی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
دو رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد صحن میں تشریف لائے، کھانا
تناول فرمایا اور دیر تک گفتگو کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔ (صحیح مسلم ص ۲۳۲)
واضح
ہو کہ جماعت ایک مقتدی سے بھی کفایت کرتی ہے ۔ اگر ایک ہی مقتدی کے ساتھ جماعت بنا
کر نماز ادا کی جائے تو ان شاءاللہ جماعت ہی کی فضیلت ملے گی ۔ اللہ تعالیٰ کی
مہربانیاں ، رحمتیں اور کرم کی کوئی حد نہیں ہوتی ، وہ غفور و رحیم ہے ، اپنے بندے
کی مجبوری پر قلم کو ساکت فرمادیتا ہے ، گناہ پر کاتبین کو توقف کا حکم فرماتا ہے
۔
لہٰذا آپ اپنی سکونت پر جماعت کا اہتمام کیجیے اور اللہ تعالیٰ سے حسن زن کے ساتھ باجماعت نماز کے اجر کی امید رکھیے ۔
یاد رہے یہ استثنائی صورت اسی وقت تک اختیار کی جائے جب مساجد باجماعت نماز کے لیے کھول دی جائیں ۔ کیونکہ مسجد کو چھوڑ کر گھر یا دکان میں نماز پڑھنے کا معمول بنا لینا اگرچہ جماعت کے ساتھ ہی ہو، خلاف سنّت ہے ۔
لہٰذا آپ اپنی سکونت پر جماعت کا اہتمام کیجیے اور اللہ تعالیٰ سے حسن زن کے ساتھ باجماعت نماز کے اجر کی امید رکھیے ۔
یاد رہے یہ استثنائی صورت اسی وقت تک اختیار کی جائے جب مساجد باجماعت نماز کے لیے کھول دی جائیں ۔ کیونکہ مسجد کو چھوڑ کر گھر یا دکان میں نماز پڑھنے کا معمول بنا لینا اگرچہ جماعت کے ساتھ ہی ہو، خلاف سنّت ہے ۔
☝ اس موضوع پر
ہمارے گروپ کی چند پوسٹس ملاحظہ فرمائیے ↡↡↡
اِنْ اُرِیْدُ
اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment