کن شرعئی عذر پر نماز کو توڑا جاسکتا ہے?
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر مسزانصاری
کسی سنگین اور جانی نقصان سے بچنے کے لیے یا کسی شخص کو ایسے نقصان
سے بچانے کے لیے جس میں اسے ناقابل تلافی نقصان ہونے کا احتمال ہو نماز توڑنا جائز
بلکہ واجب ہے۔
نماز کا اعادہ بحرحال ممکن ہے ، تاہم کسی مریض یا خطرے میں موجود شخص کی مدد میں تاخیر سے اسکی جان جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ نیز دورانِ نماز کسی کی موت واقع ہو جانے کا گمان ہو ، تو نماز توڑ دینا جائز ہے ، مبادا ابھی وہ زندہ ہواور بروقت حفاظتی تدابیر دینا اسکی جان بچالے ۔
لہٰذا اس بات پر علماء كرام اتفاق کرتے ہیں کہ بعذر شرعئی نماز توڑنکوئی حرج نہیں رکھتا ، تاہم بغير كسى شرعى عذر جان بوجھ كر فرضى نماز توڑنا حرام ہے.
فرضى يا نفلى دونوں نمازوں کو جن شرعئی عذر کی بنا پر توڑنا جائز ہے ان میں سانپ كو ہلاک كرنا، مال کے ضائع ہونے كے باعث ، كسى كی جان بچانے كے مقصد سے ، يا کسی ڈوبتے شخص کو بچانے کی غرض سے ، يا آگ لگ جانے کی صورت میں ، قدرتی آفات جیسے زلزلہ وغیرہ اور يا بڑھتے ہوئے خطرے سے غافل کسی شخص كو خطرے سے آگاہ کرنا شامل ہے ۔
نماز کا اعادہ بحرحال ممکن ہے ، تاہم کسی مریض یا خطرے میں موجود شخص کی مدد میں تاخیر سے اسکی جان جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ نیز دورانِ نماز کسی کی موت واقع ہو جانے کا گمان ہو ، تو نماز توڑ دینا جائز ہے ، مبادا ابھی وہ زندہ ہواور بروقت حفاظتی تدابیر دینا اسکی جان بچالے ۔
لہٰذا اس بات پر علماء كرام اتفاق کرتے ہیں کہ بعذر شرعئی نماز توڑنکوئی حرج نہیں رکھتا ، تاہم بغير كسى شرعى عذر جان بوجھ كر فرضى نماز توڑنا حرام ہے.
فرضى يا نفلى دونوں نمازوں کو جن شرعئی عذر کی بنا پر توڑنا جائز ہے ان میں سانپ كو ہلاک كرنا، مال کے ضائع ہونے كے باعث ، كسى كی جان بچانے كے مقصد سے ، يا کسی ڈوبتے شخص کو بچانے کی غرض سے ، يا آگ لگ جانے کی صورت میں ، قدرتی آفات جیسے زلزلہ وغیرہ اور يا بڑھتے ہوئے خطرے سے غافل کسی شخص كو خطرے سے آگاہ کرنا شامل ہے ۔
مفتی عبید اللہ عفیف صاحب حفظہ اللہ سے سوال پوچھا گیا کہ :
ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے، اسی حال میں گاڑی آ گئی جس پر اس نے سوار ہونا ہے، کیا وہ شخص نماز چھوڑ سکتا ہے ااور وہ دوبارہ پوری نماز پڑھے گا یا جتنی باقی رہ گئی ہے اتنی ہی پڑھے گا۔
ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے، اسی حال میں گاڑی آ گئی جس پر اس نے سوار ہونا ہے، کیا وہ شخص نماز چھوڑ سکتا ہے ااور وہ دوبارہ پوری نماز پڑھے گا یا جتنی باقی رہ گئی ہے اتنی ہی پڑھے گا۔
مفتی عبید اللہ عفیف صاحب حفظہ اللہ نے اس پر فتوی دیا کہ :
جی ہاں نماز چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اکیلا فرض پڑھ رہا ہو اور جماعت کے لئے اقامت ہو جائے تو فرض چھوڑ کر نماز میں شامل ہونے کا حکم۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اکیلے کی نماز سے جماعت کی نماز افضل ہے۔ ایسے ہی گاڑی آنے کے وقت جو نماز پڑھے گا وہ بے قراری اور بے چینی کی نماز ہوگی اور جو گاڑی سوار ہونے کے بعد پڑھے گا وہ تسلی اور اطمینان کی نماز ہوگی جو افراتفری کی نماز سے بہرحال افضل ہے۔ اس بنا پر نماز توڑ کر گاڑی پر سوار ہو کر تسلی اور اطمینان سے نماز پڑھے۔ پہلی نماز پر بنا کرنا ثابت نہیں، لہٰذا از سر نو پوری نماز پڑھے۔
نوٹ : محدث عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ فتویٰ ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ محمدیہ/ جلد : 1 / صفحہ : 555
جی ہاں نماز چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اکیلا فرض پڑھ رہا ہو اور جماعت کے لئے اقامت ہو جائے تو فرض چھوڑ کر نماز میں شامل ہونے کا حکم۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اکیلے کی نماز سے جماعت کی نماز افضل ہے۔ ایسے ہی گاڑی آنے کے وقت جو نماز پڑھے گا وہ بے قراری اور بے چینی کی نماز ہوگی اور جو گاڑی سوار ہونے کے بعد پڑھے گا وہ تسلی اور اطمینان کی نماز ہوگی جو افراتفری کی نماز سے بہرحال افضل ہے۔ اس بنا پر نماز توڑ کر گاڑی پر سوار ہو کر تسلی اور اطمینان سے نماز پڑھے۔ پہلی نماز پر بنا کرنا ثابت نہیں، لہٰذا از سر نو پوری نماز پڑھے۔
نوٹ : محدث عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ فتویٰ ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ محمدیہ/ جلد : 1 / صفحہ : 555
الشیخ محترم محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں :
كسى غافل شخص كو ہلاكت سے بچانے كے ليے نماز توڑنى واجب ہے اس كا
معنى يہ ہے كہ: اگر آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ نے ديكھا كہ ايك بيٹھے ہوئے شخص كى
طرف سانپ آ رہا ہے اور شخص كو علم بھى نہيں اور وہ سانپ اس كى طرف ہى جا رہا ہے تو
آپ پر نماز توڑ كر اسے بتانا واجب ہے تا كہ وہ اسے ڈس نہ لے اور اس وجہ سے اس كى
وفات ہو جائے.
يا آپ كسى نابينے اور كمزور نظر شخص كو ديكھيں كہ وہ آپ كے آگے چل رہا ہے، اور آپ نماز ادا كر رہے ہيں، اور وہ شخص كنويں كى طرف جا نكلے اور آپ كو خدشہ ہو كہ وہ نابينا شخص كہيں اس ميں نہ گر پڑے، تو آپ كے ليے اسے متنبہ كرنا اور اسے اس ہلاكت سے بچانا واجب ہے، چاہے اس كى بنا پر آپ كو نماز توڑنى بھى پڑے، يا اسى طرح آگ وغيرہ كى بنا پر.
يا آپ كسى نابينے اور كمزور نظر شخص كو ديكھيں كہ وہ آپ كے آگے چل رہا ہے، اور آپ نماز ادا كر رہے ہيں، اور وہ شخص كنويں كى طرف جا نكلے اور آپ كو خدشہ ہو كہ وہ نابينا شخص كہيں اس ميں نہ گر پڑے، تو آپ كے ليے اسے متنبہ كرنا اور اسے اس ہلاكت سے بچانا واجب ہے، چاہے اس كى بنا پر آپ كو نماز توڑنى بھى پڑے، يا اسى طرح آگ وغيرہ كى بنا پر.
اس بارے میں اسلامی ویب پر عربی متن میں فتویٰ ملاحظہ فرمائیے :
السؤال
ماذا أفعل عندما يسقط المصلي بجواري نتيجة مرض أو صرع أثناء تأدية الصلاة
ماذا أفعل عندما يسقط المصلي بجواري نتيجة مرض أو صرع أثناء تأدية الصلاة
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فالأصل أن المصلي إذا دخل في صلاته يحرم عليه قطعها اختياراً، أما
إذا قطعها لضرورة كحفظ نفس محترمة من تلف أو ضرر، أو قطعها لإحراز مال يخاف ضياعه،
فيجوز له ذلك، وقد يجب في بعض الحالات كإغاثة ملهوف وإنقاذ غريق أو إطفاء حريق، أو
قطعها لطفل أو أعمى يقعان في بئر أو نار.
جاء في قواعد الأحكام للعز بن عبد السلام: قاعدة في الموازنة بين المصالح والمفاسد... المثال الثامن: (تقديم إنقاذ الغرقى المعصومين على أداء الصلاة لأن إنقاذ الغرقى المعصومين عند الله أفضل من أداء الصلاة، والجمع بين المصلحتين ممكن بأن ينقذ الغريق ثم يقضي الصلاة. ومعلوم أن ما فاته من مصلحة أداء الصلاة لا يقارب إنقاذ نفس مسلمة من الهلاك). انتهى
وجاء في كشاف القناع: (ويجب رد كافر معصوم بذمة أو هدنة أو أمان عن بئر ونحوه كحية تقصده كرد مسلم عن ذلك بجامع العصمة، ويجب إنقاذ غريق ونحوه كحريق فيقطع الصلاة لذلك فرضاً كانت أو نفلاً، وظاهره ولو ضاق وقتها لأنه يمكن تداركها بالقضاء بخلاف الغريق ونحوه، فإن أبى قطعها لإنقاذ الغريق ونحوه أثم وصحت صلاته). انتهى
فالواجب في مثل هذه الحالة التي ذكرها السائل أن يقطع الصلاة ويقوم بإسعاف هذا المريض إلا أن يكفيه غيره ذلك، فإذا فرغ من إسعاف المريض استأنف صلاته من جديد.
https://www.islamweb.net/ar/fatwa/26303/
جاء في قواعد الأحكام للعز بن عبد السلام: قاعدة في الموازنة بين المصالح والمفاسد... المثال الثامن: (تقديم إنقاذ الغرقى المعصومين على أداء الصلاة لأن إنقاذ الغرقى المعصومين عند الله أفضل من أداء الصلاة، والجمع بين المصلحتين ممكن بأن ينقذ الغريق ثم يقضي الصلاة. ومعلوم أن ما فاته من مصلحة أداء الصلاة لا يقارب إنقاذ نفس مسلمة من الهلاك). انتهى
وجاء في كشاف القناع: (ويجب رد كافر معصوم بذمة أو هدنة أو أمان عن بئر ونحوه كحية تقصده كرد مسلم عن ذلك بجامع العصمة، ويجب إنقاذ غريق ونحوه كحريق فيقطع الصلاة لذلك فرضاً كانت أو نفلاً، وظاهره ولو ضاق وقتها لأنه يمكن تداركها بالقضاء بخلاف الغريق ونحوه، فإن أبى قطعها لإنقاذ الغريق ونحوه أثم وصحت صلاته). انتهى
فالواجب في مثل هذه الحالة التي ذكرها السائل أن يقطع الصلاة ويقوم بإسعاف هذا المريض إلا أن يكفيه غيره ذلك، فإذا فرغ من إسعاف المريض استأنف صلاته من جديد.
https://www.islamweb.net/ar/fatwa/26303/
وَبِاللّٰہِ
التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment