Wednesday, March 18, 2020

APNY FIRKAY KI MASJID KY DRWAZY DOSRY FIRKAY PAR BAND KRANA


اپنے فرقے کی مسجد کے دروازے دوسرے فرقے پر بند کرنا

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
مساجد سراسر اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لینے کے محل ہیں ،
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿الجن،١٨﴾
"اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو"
یقیناً مساجد میں اللہ کے ذکر و عبادت سے روکنے والا حد درجہ ظالم ہے ۔ کیونکہ اسکا یہ عمل مساجد کی بربادی کے مترادفمجموعہ مقالات، و فتاویٰ میں صفحہ نمبر 136 پر مذکور ہے
جو شخص خانہ خدا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت سے منع کرے، وہ بہت بڑا ظالم ہے اور دنیا میں اُن لوگوں کے واسطے رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ اللہ جل شانہ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے:
﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسـٰجِدَ اللَّـهِ أَن يُذكَرَ فيهَا اسمُهُ وَسَعىٰ فى خَرابِها ۚ أُولـٰئِكَ ما كانَ لَهُم أَن يَدخُلوها إِلّا خائِفينَ ۚ لَهُم فِى الدُّنيا خِزىٌ وَلَهُم فِى الـٔاخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١١٤﴾...البقرة
’’ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے ۔‘‘
علامہ ابو سعود بن محمد العمادی حنفی اپنی تفسیر ابو سعود میں اس آیت کے تحت میں فرماتے ہیں:
’’ وھذا الحکم عام لکل من فعل ذلک فى أى مسجد کان، وإن کان سبب النزول فعل طائفة معینة فى مسجد مخصوص۔‘‘ انتھی (تفسیر أبى السعود
۱ ؍ ۱۴۹)
یہ کلمہ عام ہے، جو شخص جس مسجد سے منع کرے، وہ اس آیت کی وعید شدید میں داخل ہوگا۔
تفسیر مظہری میں ہے:
’’ إنما أورد لفظ الجمع، وإن کان المنع واقعا علی مسجد واحد، لأن الحکم عام، وإن کان المورد خاصا۔‘‘ انتھی (تفسیر المظھرى
۱؍ ۲۱۱)
’’ اگرچہ یہ ممانعت ایک مسجد سے ہوئی تھی، لیکن اس کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیوں کہ اس کا حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے۔‘‘
خاتم المفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر ’’ فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ وامام اعظم رحمہ اللہ میگویند کہ درآمدن کا فر در ہمہ مساجد درست است زیرا کہ در زمان سعادت نشان آنحضرت ﷺ مہمان را گو کافر بودند در مسجد فروکش میکنانیدند چنانچہ وفد ثقیف را و دگر وفود را و نیز بتواتر معلوم ست کہ برائے ملاقات آنحضرت علیہ السلام یہودیان و نصاریٰ و مشرکی بے طلب اذن و پروانگی در مسجد می آمدند ومی نشستند و ثمامہ ابن اثال حنفی را آنحضرت علیہ السلام حالت کفر بستونے از ستونہائے مسجد بستہ گزاشتہ بودند و ناسخ ایں عمل مستمر آنحضرت علیہ السلام ہم وارد نشدہ۔‘‘ انتھی
’’ امام اعظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کا ہر مسجد میں آنا درست ہے، کیوں کہ آنحضرتﷺ کے دورِ سعادت نشان میں مہمان کو، اگرچہ وہ کافر ہی ہوتا ہے، مسجد میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ چناں چہ وفدِ ثقیف اور دیگر وجود مسجد ہی میں فروکش ہوئے تھے۔ نیز تواتر کے ساتھ یہ معلوم ہوا ہے کہ یہودی، نصرانی اور مشرکین آنحضرتﷺ کی ملاقات کے لیے اذن و اجازت طلب کیے بغیر مسجد میں آتے اور بیٹھتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے ثمامہ بن اثال حنفی کو حالتِ کفر میں مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ آنحضرتﷺ کی اس متواتر سنت اور طریقے کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز بھی وارد نہیں ہوتی ہے۔‘‘
عجیب امر ہے کہ حضرت رسول اللہﷺ تو غیر مذہب والوں کو بھی اپنی مقدس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں اور اب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور منع کرتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں؟ یہ تعصب اور نفسانیت ہے۔ اللہ جل شانہ سب مسلمانوں کو نیکی کی توفیق دے اور نفسانیت اور ضد سے بچاوے۔
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ) سے سوال پوچھا گیا کہ " اہل بدعت کی مساجد میں دروس دینے کا کیا حکم ہے؟ "
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ نے جواب دیا
اولاً: یہ بات جان لیں کہ اہل بدعت دو اقسام کے ہیں:
- پہلی قسم: منصف جو حق قبول کرتے ہیں، اگرچہ ان کا حق قبول کرنا مکمل طور پر نہیں ہوتا، لیکن اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اعراض نہیں کرتے، اور جو مجلس میں حاضر ہوتےہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ ہی عمومی مساجد کے مسئولین ہوتے ہیں جس میں وہ اور ان کے علاوہ سب آتے جاتے ہیں۔ اس قسم کی مساجد کی دعوت قبول کرلینی چاہیے تاکہ حاضرین کو اہل سنت سے فائدہ ہو، اس میں ان کی حمایت وحوصلہ افزائی ہے، اور اس سےان کے عزم میں تقویت اور سنت پر ثابت قدمی حاصل ہوگی۔
- دوسری قسم خود دو مزید اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
- ایسی مساجد جس کے دروازے دوسروں پر بند ہوں جہاں ان کے علاوہ کوئی آتا ہی نہیں، اور نہ یہ لوگ کسی ایسے کو موقع ہی دیتے ہیں کہ جو ان کے نہج پر نہ ہو۔ لہذا اس حال میں جب کوئی صاحب سنت آئے تو اس کا ان کی مساجد اور ان کی خاص کانفرنسوں میں شرکت کرنا ان کی سب سے شدید ترین حمایت کی صورت ہے اور اہل سنت کے عزم کی توہین ہے۔ ایسوں کی دعوت قبول کرنا باطل ہے، غلطی ہے، اور اہل سنت کے لیے ضرررساں ہے۔
- جو تقریر یا درس کے بعد اپنی بات کرتے ہیں درس دینے والے کی موجودگی میں یا اس کے بعد اور اس کے کلام پر تعلیقات کرتے ہیں جس کے ذریعے سے حاضرین کے دل میں شبہات ڈالتے ہیں۔ ان کی بھی مساجد میں درس نہ دیے جائیں۔
مستقل فتوى كميٹى كے کبار علماء كرام كا كہنا ہے:
بدعتيوں كے پيچھے نماز ادا كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر تو ان كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا، اور لغير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا اور ان كا كمال علم اور غيب يا كائنات ميں اثر انداز ہونے كے متعلق اپنے مشائخ اور بزرگوں كے متعلق وہ اعتقاد ركھنا جو اللہ تعالى كے علاوہ كسى كے بارہ ميں نہيں ركھا جا سكتا، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں.
اور اگر ان كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماثور ذكر كرنا، ليكن يہ ذكر اجتماعى اور جھوم جھوم كر كيا جائے، تو ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے، ليكن امام كو كسى غير بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے؛ تا كہ يہ اس كے اجروثواب ميں زيادتى اور برائى اور منكر سے دورى كا باعث ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ديكھيے : فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العملميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search