اگر امام رفع الیدین یا دوسرے مسنون عمل نہیں کرتا
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے امام كى متابعت كرنے كا حكم ديا
ہے.اور مقتدی کا امام کی متابعت کرنے سے مراد يہ ہوتا ہے كہ امام كے افعال شروع
كرنے كے فورا بعد مقتدى بھى وہ افعال کرنے کا پابند ہے نہ تو امام سے موافقت کرے
اور نہ ہی امام سے سبقت لے جائے ۔
ادائیگی صلاة میں اگر امام کی اقتدا کرنے میں کوئی حرج
نہ ہو رہا ہو تو ہر وہ عمل کرنا چاہیے جو سنت سے ثابت شدہ ہو ۔ یعنی اگر کسی مسنون
عمل کرنے سے امام سے پیچھے رہ جانے یا آگے نکل جانے کا حرج لازم آرہا ہو تو اس عمل
سے باز رہنا چاہیے ، بصورتِ دیگر کوئی مسنون عمل اگر امام کی اقتدا کرنے میں کوئی
حرج پیدا نہیں کر رہا ہو تو اس مسنون عمل کو کرنا چاہیے ، چاہے امام اس مسنون عمل
کو نہیں کر رہا ہو ۔
کچھ اعمال جن سے امام کی اقتداء میں حرج ہوتا ہے کیونکہ مقتدی اسے
مستحب سمجھتا ہے لیکن امام کے نزدیک وہ استحباب والا عمل نہیں ہوتا تو مقتدی اسے
چھوڑ دے ، مثلاً جلسہ استراحت ( دو سجدوں کے بعد دوبارہ اگلی رکعت کے قیام سے پہلے
تھوڑی دیر بیٹھنا) کی ادائیگی سے مقتدی امام سے پیچھے رہ جائے گا ، اس صورت میں وہ
جلسہ استراحت چھوڑ دے ۔
جلسہ استراحت کا استحباب اللجنة الدائمة في فتاوى إسلامية 1/268 کے
فتوے میں مذکور ہے :
امام شافعی اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ
جلسہ استراحت سنت ہے، اور امام احمد سے مروی دو روایتوں میں سے ایک روایت یہی ہے،
اس لئے کہ امام بخاری اور دیگر اصحابِ سنن نے مالک بن حويرث رضی اللہ عنہ سے روایت
کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، تو آپ طاق رکعت
سے اس وقت تک نہ کھڑے ہوتے جب تک ٹھیک سے بیٹھ نہ جاتے ۔
اس روایت کو امام بخاری نے کتاب الاذان (818) میں ذکر کیا ہے۔
جلسہ استراحت کا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث
میں تذکرہ ہے، ان کی روایت کو امام احمد اور ابو داود نے جید سند کے ساتھ روایت
کیا ہے، اس حدیث میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے درمیان آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کیا، اور پھر تمام صحابہ کرام نے ان کی
تصدیق کی ۔ ( اللجنة الدائمة في فتاوى إسلامية 1/268 )
اگر مقتدی کے نزدیک جلسہ استراحت مستحب ہو تو وہ جلسہ استراحت میں
بیٹھے یا امام کی اقتدا کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے ، اس بارے میں شيخ ابن عثيمين رحمہ
اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
اگر كوئى قائل كہے كہ:
اس چھوٹے سے جلسہ استراحت سے امام سے پيچھے رہنا نہيں ہے.
اس كا جواب يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب سجدہ كرے تو
تم سجدہ كرو، اور جب تكبير كہے تو تم تكبير كہو "
يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاء كا استعمال كيا
ہے جو ترتيب اور بغير كسى مہلت كے تعقيب پر دلالت كرتى ہے، جو اس بات كى دليل ہے
كہ مقتدى كے حق ميں افضل يہ ہے كہ وہ امام سے تھوڑى سى بھى تاخير نہ كرے، بلكہ
متابعت كرنے ميں جلدى كرے، نہ تو امام كى موافقت كرے، اور نہ ہى اس سے سبقت لے
جائے، اور نہ ہى تاخير كرے، اقتدا اور پيروى كى حقيقت يہى ہے. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 192 ).
لیکن رفیع الیدین سے امام کی اقتداء میں خلل پیدا نہیں ہوسکتا ،
لہٰذا مقتدی رفیع الیدین کرے گا ، چاہے امام کا اس پر عمل ہو یا نہ ہو ۔ مسئلہ
رفیع الیدین ایسی سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت شدہ ہے ۔ متواتر
احادیث میں کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رفیع
الیدین کو چھوڑ اہو ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا
كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا
كَذَلِكَ
'' تحقیق رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں
ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے۔ اور جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے
سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ا سی طرح اٹھاتے تھے ''۔
(بخاری (۷۳۵) مسلم ۹۳،۹۳:۴،
مسند احمد ۱۴۷،۶۲،۱۸:۲،۸:۲ ۔مؤطا امام مالک ۷۵:۱، مصنف عبدالرزاق (۲۵۱۸،۲۵۱۷)ابن
ماجہ(۸۵۸)
لہٰذا مقتدی رفیع الیدین کی سنت کو چھوڑنے والے امام کی اقتداء میں
رفیع الیدین کرے گا ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ادائیگی صلاة میں اگر امام کی اقتدا کرنے میں کوئی حرج نہ ہو رہا ہو تو ہر وہ عمل کرنا چاہیے جو سنت سے ثابت شدہ ہو ۔ یعنی اگر کسی مسنون عمل کرنے سے امام سے پیچھے رہ جانے یا آگے نکل جانے کا حرج لازم آرہا ہو تو اس عمل سے باز رہنا چاہیے ، بصورتِ دیگر کوئی مسنون عمل اگر امام کی اقتدا کرنے میں کوئی حرج پیدا نہیں کر رہا ہو تو اس مسنون عمل کو کرنا چاہیے ، چاہے امام اس مسنون عمل کو نہیں کر رہا ہو ۔
امام شافعی اور محدثین کی ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ جلسہ استراحت سنت ہے، اور امام احمد سے مروی دو روایتوں میں سے ایک روایت یہی ہے، اس لئے کہ امام بخاری اور دیگر اصحابِ سنن نے مالک بن حويرث رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، تو آپ طاق رکعت سے اس وقت تک نہ کھڑے ہوتے جب تک ٹھیک سے بیٹھ نہ جاتے ۔
جلسہ استراحت کا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تذکرہ ہے، ان کی روایت کو امام احمد اور ابو داود نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے، اس حدیث میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کیا، اور پھر تمام صحابہ کرام نے ان کی تصدیق کی ۔ ( اللجنة الدائمة في فتاوى إسلامية 1/268 )
اس چھوٹے سے جلسہ استراحت سے امام سے پيچھے رہنا نہيں ہے.
اس كا جواب يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب سجدہ كرے تو تم سجدہ كرو، اور جب تكبير كہے تو تم تكبير كہو "
يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاء كا استعمال كيا ہے جو ترتيب اور بغير كسى مہلت كے تعقيب پر دلالت كرتى ہے، جو اس بات كى دليل ہے كہ مقتدى كے حق ميں افضل يہ ہے كہ وہ امام سے تھوڑى سى بھى تاخير نہ كرے، بلكہ متابعت كرنے ميں جلدى كرے، نہ تو امام كى موافقت كرے، اور نہ ہى اس سے سبقت لے جائے، اور نہ ہى تاخير كرے، اقتدا اور پيروى كى حقيقت يہى ہے. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 192 ).
'' تحقیق رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے۔ اور جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ا سی طرح اٹھاتے تھے ''۔
(بخاری (۷۳۵) مسلم ۹۳،۹۳:۴، مسند احمد ۱۴۷،۶۲،۱۸:۲،۸:۲ ۔مؤطا امام مالک ۷۵:۱، مصنف عبدالرزاق (۲۵۱۸،۲۵۱۷)ابن ماجہ(۸۵۸)
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment