Tuesday, March 10, 2020

Gumshuda Shohar

لاپتہ شوہر کی بیوی کب تک انتظار کرے

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
تمام ائمہ سلف لاپتہ شوہر کی بیوی کو نکاح ثانی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان میں اختلاف صرف انتظار کی مدت کی تعیین میں ہے۔فقہ الواقع کے حوالے سے جس کے سامنے جس پہلو کی اہمیت تھی، اس نے اسے ملحوظ رکھا۔اس لئے ائمہ کے اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہئے
الشیخ محمد صالح کہتے ہیں
اگرتو سوال کا مقصد یہ ہے کہ وہ عورت اپنے خاوند کے بارہ میں کچھ بھی نہیں جانتی یعنی وہ مفقود ہے تواس مسئلہ کوفقھاء کرام رحمہ اللہ نے مفقود کی بیوی کا نام دیا ہے یعنی جس عورت کے خاوند کا علم تک نہ ہو ۔
اس مسئلہ میں فقھاء کرام کے کئي ایک اقوال ہیں کہ عورت کتنی مدت انتظار کرے تا کہ خاوند پر موت کا حکم لگایا جاسکے :
محقق علماء کرام نے راجح یہ قرار دیا ہے کہ اس مدت کی تقدیر حاکم کے اجتھاد پر منحصر ہے ، اوراس میں حالات و اوقات اورقرائن کے اعتبار سے اختلاف ہوسکتا ہے تواس طرح قاضی اپنے اجتھاد سے اس مدت کو مقرر کرے گا جواس کے ظن غالب میں ہوکہ اس دوران اس کی موت واقع ہوسکتی ہے
الشیخ مقبول احمد حفظہ اللہ کہتے ہیں
ایسی عورت شرعی عدالت میں اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کی خبر درج کرائے ۔ عدالت حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے لئے شوہر فوت ہونے کا حکم لگائے گی ۔
٭عدالت میں خبر دینے کے بعد بیوی کب تک انتظار کرے ؟ اس سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے جسے امام بخاری ؒ نے اور امام شافعی ؒ وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔
أنَّ عمرَ بنَ الخطَّابِ قالَ : أيُّما امرأةٍ فقدت زوجَها ، فلم تدرِ أينَ هوَ فإنَّها تنتظِرُ أربعَ سنينَ ثمَّ تنتظرُ أربعةَ أشهرٍ وعشرًا۔( کتاب الام للشافعی 8/657)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اس کاپتہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہا ں ہے۔ تو وہ عورت چار سال تک انتظار کرے پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے۔
امام مالک ؒ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ یہ قول راحج نظر آتا ہے۔ یہاں چار سال کی مدت سے اختلاف کیا جاتا ہے خصوصا آج کے ترقی یافتہ زمانے میں کسی خبر کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانا نہایت آسان ہوگیا ہے ۔ اس لحاظ سے ایک سال کی مدت زیادہ معقول نظر آتی ہے ۔ اور اس بات کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی جس میں گم شدہ سامان کو ایک سال تک پہچان کرانے کا ذکر ہے ۔
سُئل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الُّلقطةِ ، الذهبُ أو الورِقُ ؟ فقال : اعرَفْ وكاءَها وعفاصَها . ثم عرِّفها سنةً . فإن لم تعرف فاستنفقْها . ( مسلم :1722)
ترجمہ : زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) سونا یا چاندی کے بارے میں پوچھا، توآپ نے فرمایا:اس کا سربند اور اس کی تھیلی پہچان لو،پھرسال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، اگر تمہیں معلوم نہ ہوسکے تو پھراسے خرچ کرلو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَقَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: «إِذَا فُقِدَ فِي الصَّفِّ عِنْدَ القِتَالِ تَرَبَّصُ امْرَأَتُهُ سَنَةً» وَاشْتَرَى ابْنُ مَسْعُودٍ جَارِيَةً، وَالتَمَسَ صَاحِبَهَا سَنَةً، فَلَمْ يَجِدْهُ، وَفُقِدَ، فَأَخَذَ يُعْطِي الدِّرْهَمَ وَالدِّرْهَمَيْنِ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ عَنْ فُلاَنٍ فَإِنْ أَتَى فُلاَنٌ فَلِي وَعَلَيَّ، وَقَالَ: هَكَذَا فَافْعَلُوا بِاللُّقَطَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَحْوَهُ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: فِي الأَسِيرِ يُعْلَمُ مَكَانُهُ: " لاَ تَتَزَوَّجُ امْرَأَتُهُ، وَلاَ يُقْسَمُ مَالُهُ، فَإِذَا انْقَطَعَ خَبَرُهُ فَسُنَّتُهُ سُنَّةُ المَفْقُودِ
بَابُ حُكْمِ المَفْقُودِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ
باب: مفقود الخبر کے اہل وعیال اور مال ومتاع کے متعلق کیا حکم ہے؟
امام بخاری﷫/ الجامع الصحیح
اور ابن المسیب﷫ نے کہا: جب جنگ کے وقت صف سے کوئی شخص گم ہوجائے تو اس کی بیوی ایک سال تک اس کا انتظار کرے۔سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷜ نے کسی سے ایک لونڈی خریدی(اس کا مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہو گیا) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا، پھرجب وہ نہیں ملا تو غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور دعا کرتے: اے اللہ ! یہ فلاں کی طرف سے ہے ۔اگر وہ آ گیا تو لونڈی میری رہے گی اور اس کی قیمت مجھ پر واجب ہو گی۔اور فرماتے کہ گری پڑی چیز کے بارے میں ایساہی کرنا چاہئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس﷜ نے بھی اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے۔ امام زہری ﷫نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو ، کہاکہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے ، پھرجب اس کی خبر ملنی بند ہوجائے تو اس کا معاملہ بھی مفقود الخبر کی طرح ہوجاتا ہے ۔‘‘
امام بخاری نے مذکورہ باب کے تحت یہ حدیث بیان کر کے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مفقود الخبر شوہر کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے گی اور اگر ایک سال تک اس کے شوہر کا کوئی پتہ نہ چل سکے تو وہ آگے نکاح کر سکتی ہے۔
لاپتہ شوہر اگر انتظار کے وقت یا عدت گذارتے وقت لوٹ آئے تو وہی عورت اس کی بیوی ہوگی ۔ اسے نکاح کرنے یا دوسرے سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ۔
٭ لاپتہ شوہر اگر بیوی کا دوسرے مرد سے شادی کے بعد واپس آیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو وہ دوسرے شوہر کے نکاح پہ باقی رکھے یا پھر اپنی زوجیت میں رکھے ۔
٭ لاپتہ شخص نے اگر مال چھوڑا ہے تو قاضی جس وقت اس کی موت کا حکم لگائے گا ، اس کے بعد میراث تقسیم کرسکتے ہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه


Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search