Saturday, December 12, 2020

The debt of Allah Almighty


سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس نے عرض کی: میری ماں مر گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ بھلا دیکھ تو اگر اس کا کچھ قرض ہوتا تو تو ادا کرتی؟۔“ اس نے عرض کی کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ کا قرض سب سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔“ (صحيح المسلم :2693)
۔----------------------------

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ، اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرۃ:184)
اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
اس آیت کا مطلب ہے کہ جب آدمی کو چھوٹے روزے کی مہلت (ایام اخر) ملے تو قضا کرے اور مہلت ملنے کی باجود قضا نہ کرسکا تو میت کا ولی قضا کرے ۔
یہ مسئلہ منصوص اور جائزو مشروع ہے اور نبی ﷺ نے اسے میت کا قرض قرار دیا ہے ۔
مذکورہ حدیث کے علاوہ مسند احمد کی بھی ایک روایت میں صاف لفظ میں رمضان کے روزوں کی قضا کا ذکر ہے ۔
أتتهُ امرأةٌ فقالت : إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرِ رمضانَ أَفَأَقْضِيهِ عنها قال : أرأيتُكِ لو كان عليها دَيْنٌ كنتِ تقضيهِ قالت : نعم قال : فَدَيْنُ اللهِ عزَّ وجلَّ أَحَقُّ أن يُقْضَى( مسند أحمد)
ترجمہ: ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی، میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پررمضان کے ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضاکروں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ تو انہوں نے کہا ۔ہاں ۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.
( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
یہاں ولی سے مراد میت کا سرپرست و وارث یعنی باپ ، بھائی ، بیٹا، چچا زاد بھائی یا قریبی رشتہ دارمیں سے کوئی بھی ہے۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اگر رمضان میں روزہ چھوڑنے والے کی طرف سے کوئی کوتاہی نہيں تھی بلکہ اس نے کسی مرض یا دودھ پلانے یا حمل کی وجہ سے روزے چھوڑے ہوں پھر وہ مریض یا حاملہ یا دودھ پلانے والی فوت ہوجائے اور اس کی قضاء نہ رکھ پائی تو پھر اس کے ورثاء پر کوئی ذمہ داری نہيں، نہ قضاء کی نہ ہی کھانا کھلانے (فدیہ) کی، کیونکہ اس کےروزے چھوڑنے کا شرعی عذر تھا جو کہ مرض وغیرہ تھا۔
البتہ اگر کوئی اپنے مرض سے شفایاب ہوگیا ہو اور اس کے لیے روزے رکھنا ممکن تھا مگر اس نے سستی سے کام لیا تو ایسے کی طرف سے قضاء دی جائے گی، اسی طرح سے دودھ پلانے والی یا حاملہ اگر یہ اس حالت کے بعد استطاعت رکھتی تھیں کہ قضاء رکھیں مگر سستی سے کام لیا تو ان دونوں کی طرف سے بھی قضاء رکھے جائيں گے۔ واللہ ولی التوفیق۔
[نور على الدرب الشريط رقم 17. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 25/ 208)]
واللہ تعالیٰ اعلم

  اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مٙا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ  وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔  ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه‎

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search