The dead body is ordered to bath more than once.
یت کو ایک سے زیادہ بار غسل دینے کا حکم ہے. کیا ہر بار غسل وضو سے ہی شروع کرنا ہوگا یا صرف 3 یا 5 بار سارے جسم پر صرف پانی بہا دینا کافی ہے.
۔--------------------------------
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
طریقہ غسل
غسل دینے والا شخص اولاً میت کا سر اس قدر اٹھائے کہ وہ بیٹھنے کی حالت کے قریب ہو جائے پھر اس کے پیٹ پر آہستہ آہستہ اور دبا کر ہاتھ پھیرے تاکہ جسم سے نکلنے والی نجاست نکل جائے اور ساتھ ساتھ پانی بھی خوب بہائے تاکہ وہاں نجاست ٹھہرنہ سکے۔پھر غسل دینے والا اپنے ہاتھوں پر سوتی وغیرہ کپڑے کی تھلیاں چڑھا کر میت کو استنجا ء کروائے۔
پھر غسل کی نیت کرے۔ بسم اللہ پڑھے نماز کی طرح اسے وضو کرائے البتہ کلی کے لیے منہ میں اور اسی طرح ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں بلکہ تر ہاتھوں یا گیلے کپڑے کے ساتھ اس کے دانت منہ اور ناک کو صاف کرلینا کافی ہے۔پھر اس کا سراور داڑھی بیری کے پتوں والے پانی یا صابن سے دھوئے۔ پھر اس کے جسم کی داہنی جانب یوں دھوئے کہ گردن سے شروع کرے پھر کندھا اور پھر بازو اور ہاتھ دھوئے پھر جسم کی داہنی جانب پاؤں تک دھوئے پھر اسے بائیں پہلو پر اٹھائے اور اس کی کمر اور پشت کی داہنی جانب دھوئے ۔ اسی طرح بائیں جانب دھوئی جائے پھر داہنی جانب اٹھا کر اس کی کمر اور پشت کی بائیں جانب دھوئے۔ غسل کے ساتھ بیری کے پتے یا صابن استعمال کیاجائے۔ بہتر یہ ہے کہ بوقت غسل ہاتھ پر کپڑے کی تھیلی چڑھائی جائے۔
اگر صفائی حاصل ہو جائے تو ایک ہی بار پانی کا استعمال کافی ہے البتہ تین تین بار پانی بہانا مستحب ہے۔ اگر اس سے بھی صفائی حاصل نہ ہو تو سات بارتک اعضاء دھوئے جا سکتے ہیں۔ آخری باری پانی بہاتے وقت پانی میں کافور شامل کر لیا جائے۔ کیونکہ وہ میت کے بدن کو اچھا خوشبو دار اور ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ نیز آخر میں کافور کا استعمال کرنے سے اس کا اثر زیادہ دیر تک باقی رہے گا۔
غسل دینے کے بعد میت کے بدن کو کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کیا جائے۔ اس کی مونچھیں کاٹی جائیں ناخن لمبے ہوں تو تراش دیے جائیں بغلوں کے بال صاف کر دیے جائیں۔
المغنی الکبیر2/324۔325
اگر میت عورت ہو تو اس کے سر کی تین لٹیں بنائی جائیں اور انھیں پیچھے کی طرف ڈال دیا جائے۔
اگر میت کو غسل دینے کے لیے پانی میسر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے اس کا جسم خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً:میت کا وجود آگ سے جلا ہوا ہو یا اسے کوڑھ وغیرہ کا مرض ہو۔ یا مردوں میں کسی عورت کی میت ہو جس کا خاوند وہاں موجود نہ ہو(اور اسے غسل دینے کے لیے کوئی عورت بھی موجود نہ ہو )یا عورتوں میں مرد میت ہو جسے غسل دینے کے لیے اس کی بیوی نہ ہو(نہ وہاں کوئی اور مرد ہو) تو ان احوال میں میت کو مٹی کے ساتھ تیمم کروادیا جائے جس کی صورت یہ ہو کہ مسح کروانے والا اپنے ہاتھ پر کوئی چیز لپیٹ لے اور میت کے چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرے۔
اگر میت کے بعض اعضاء دھونے مشکل ہوں تو جن اعضاء کو دھونا ممکن ہو دھو دیا جائے اور باقی اعضاء پر مسح کر دیا جائے۔
جو شخص میت کو غسل دے اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے واجب نہیں
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
دیکھیے : قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل/نماز کے احکام ومسائل/جلد :01/صفحہ : ب
O HADITHS♥➤WITH ALQURANMRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
Post a Comment