والدین کا زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے ایک قریبی بھائی ہے عہنو نے ایک وضاحت طلب کی ہے کے اُن کے گھر پر اُن کے والدین ہے دو بھہان اور دو بھائی بی رہتے ہے اور اُن کے سر پر قرضہ ہو گیا ہے 7 لاکھ کا اب ادگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیو کی بھائیوں کی بی شادی ہوگئی ہے اور بہنو کی بی شادی ہوگئی ہے ولید کا کہنا یہ ہے کی گھر بھیج کر قرضہ ادا کرنہ چھٹا ہو میں اور سب کہ حصہ بی دینا چاہتا ہو تو میں یہ جان نہ چھٹا ہو کے بھائی دو ہے بھہاں دو ہے اور ہم سبکی شادیاں بی ہو گئی ہے تو ھمارے والدین کیسے حصہ تقسیم کرے سریت کا اس میں کیا حکم ہے بڑا ہی مہربانی ہوگی وضاحت کرے والدین کا بی حصہ میں کیسے تقسیم ہو ولید کا کہنا یہ کے مسی حالات ٹھیک نہیں ہے اس لیے گھر بھیج کر ہم حصہ تقسیم کر لے تے ہے تو مجھے یہ جان نہ ہے کے والدین اور بیٹوں اور بیٹیوں کہ حصہ کیسا تقسیم ہوگا حدیث کی روشنی میں وضاحت کرے
جیسے کی 7 لاکھ قرضہ ہے اس میں 5 افراد کو دینا ہے جیسے 7 لاکھ دینا ہے اور گھر کی قیمت آج کے حساب سے انڈین کرنسی 20 لاکھ ہوتے ہے اب مجھے یہ جان نہ ہے کے سرییتات کے حساب سے والدین کا اور بیٹوں کہ اور بہنو کا کیسے حصہ ہوگا ۔۔۔۔
۔----------------------------
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
آپ کا سوال اب تک ناکافی ہے محمدسلیم برادر
اگر تو آپ کی مراد یہ ہے کہ :
ایک گھر 20 لاکھ مالیت کا ہے ، صاحبِ مکان یعنی جس کے نام یہ گھر ہے وہ والد ہے ، والد کے ذمہ 7 لاکھ کا قرض ہے اور وہ قرض ادا کرنا چاہتا ہے لیکن اسکے پاس نقد نہیں کہ قرض لوٹا سکے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اس مکان کو بیچ کر قرض اتار دے ، نیز وہ بقیہ رقم یعنی گھر کی مالیت 20 لاکھ سے قرض کے 7 لاکھ نفی کر کے 13 لاکھ کی رقم اولاد کے مابین تقسیم کرنا چاہتا ہے تو بقول آپکے سوال کے حصے کیسے کیے جائیں ؟؟
تو عرض ہے معزز بھائی کہ :
وراثت کی تقسیم تو اصلاً بعد الممات کا مسئلہ ہے ، اسے موت سے قبل ہی تقسیم کرنے سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے ۔ بحرحال والدین کی جائیداد کی تقسیم کی دو حالتیں ہیں یعنی (1) اپنی زندگی میں (2) مرنے کے بعد
1 - اول الذکر حالت میں آدمی اپنی اولاد کو جو جائیداد تقسیم کرتا ہے اسے وراثت نہیں بلکہ ھبہ کرنا یا عطیہ دینا کہا جاتا ہے ۔ اس حالت میں اولاد کے درمیان برابری و مساوات ہو گی ۔
2 - مئوخرالذکر حالت میں والدین کی وفات کے بعد جو مال چھوڑا جاتا ہے اسے ورثہ یا ترکہ کہتے ہیں جس کی تقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم کردہ اصول و قاعدہ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ( لڑکے کو دو لڑکیوں کی مثل حصہ ملے گا) کے تحت کیا جائے گا
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" إذا أعطى الوالد بعض ولده شيئاً لم يجز حتى يعدل بينهم ويعطي الآخر مثله " (بخاری، کتاب الهبة، باب الهبة للولد)
جب کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز عطا کرے تو یہ اس کے لئے اتنی دیر تک جائز نہیں جب تک وہ ساری اولاد کے درمیان عدل نہ کرے، اور دوسرے کو بھی اس کی مثل دے۔ اس کی دلیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔
"عن عامر قال سمعت النعمان ابن بشير رضى الله عنهما وهو على المنبر يقول اعطانى أبى عطية فقالت عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال انى اعطيت ابنى من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتنى أن اشهدك يا رسول الله قال أعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين اولادكم قال فرجع فرد عطيته"
(بخاری، کتاب الھبة، باب الاشهاد فی الهبة 2587)
"عامر شعبی نے کہا میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا۔ میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو عمرہ بنت رواحۃ نے کہا۔ میں اتنی دیر تک راضی نہیں یہاں تک کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا میں نے عمرہ بنت رواحہ میں سے اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دیا ہے اے اللہ کے رسول اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح عطیہ دیا ہے تو انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو تو وہ واپس لوٹے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔"
اگر تو مکان باپ کے نام ہے اور قرض بھی باپ کی گردن پر ہے ، مزید یہ کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد میں کسی قسم کا نزاع اور جھگڑا پیدا نہ ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے ، تاہم میں یہی مشورہ دوں گی کہ باپ اپنی زندگی میں ہر گز ہر گز جائیداد ہبہ نا کرے ۔ میں اس والد كو نصيحت كرتی ہوں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس تقسیم كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو جائے ، تب وہ اپنی اولاد سے واپس نہیں لے سکے گا ۔
رہی بات قرض اتارنے کی تو میرے رجحان کے مطابق اسکی بھی دو صورتیں ہیں
1- یہ کہ باپ اپنے دونوں بیٹوں سے بات کرے کہ سب لوگ مل کر قرض اتارنے کی سعی کریں ۔
2- یہ کہ اگر بیٹے قرض کی ادائیگی میں معاونت کرنے پر راضی نا ہوں اور باپ کے پاس اگر ذریعہ معاش بھی اتنا اچھا نا ہو کہ وہ قرض اتار سکے اور وہ گھر کو بیچ کر قرض اتارنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے گھر کو بیچ کر قرض کی رقم نکال کر باقی رقم اولاد میں تقسیم کرنے کے بجائے اس رقم سے کوئی چھوٹا گھر خرید لے تاکہ وہ اولاد میں رقم تقسیم کر کے دربدر نا ہو ۔
اوپر مذکورہ دوسری حالت میں باپ عقل سلیم سے سوچے کہ آج اگر بیٹے قرض کی ادائیگی میں اپنے باپ سے تعاون نہیں کر رہے تو کل اس وقت یہ میرے کس کام آئیں گے جب میں گھر کی بقیہ رقم تقسیم کر کے خالی ہاتھ اور بغیر چھت اور زمین کے روڈ پر آجاوں گا ۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ لیکن سلیمی عقل بھی آدمی کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔
اور اگر بیٹے قرض اتارنے میں مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہیں تو قرض کی رقم ہر سر پر تقسیم کر کے اس بات کو تحریر میں لائی جائے ، یعنی باپ اپنے بیٹوں سے یہ عہد لے کہ اتنی اتنی رقم دونوں کے ذمہ ہے کہ وہ اس قرض خواہ کو ادا کریں گے ۔ ورنہ بیٹوں کے عدم تعاون کی صورت میں وہ مذکورہ بالا حالت ہی اختیار کرے ۔
Post a Comment