قرضہ پر لی ہوئی رقم کی زکاۃ قرضہ دینے والے کے ذمہ ہوتی ہے ، اور مقروض زندہ نا ہو تو اگر وارث قرض ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کریں تو وہ میت کے قائم مقام ہیں
شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ ؒ نے مجموع الفتاوی {۲۵/۸۰} میں اس آیت کی تعلیل کرتے ہوئے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (والغارمین ولم یقل للغارمین) یعنی یہ نہیں کہا کہ قرضدار کے لئے بلکہ یوں کہا کہ قرضدار، اس لئے کہ قرضدار اس کا مالک نہیں ہوتا اسی پر قیاس کرتے ہوئے میت کے ورثاء اور باقی لوگوں کے لئے میت کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی جائز ہے ۔
فتاوی ثنائیہ اور فتاوی علمائے حدیث میں سوال مذکور ہے کہ :
اگر کسی شخص پرکسی کا کچھ روپیہ بطور قرض واجب ہو۔اور وہ شخص کا روپیہ قرض ہے۔مر گیا یا لاپتہ ہے۔کیا وہ شخص دیندار اس روپے کو خیرات کر دے تاکہ اس کا مواخذہ ہو یا کیا کرے کیونکہ قرض خواہ کے وارثوں کا بھی پتہ نہیں ۔؟
الجواب :
میرے خیال میں یہ لقطہ گری پڑی چیز کے حکم میں جس کی بابت حکم ہے۔کہ ایک سال تک مالک کا انتظار کرے۔ازاں بعد استعمال کر کے اصل مالک کا انتظار کرے۔ آئے تو دیدے ورنہ نیت ادا کی رکھے۔اور بس
دیکھیے : فتاوی ثنائیہ جلد2 صفحہ 405
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 14: صفحہ : 115
واللہ تعالیٰ اعلم
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment