بچہ ذہنی معذور ہے ماں نماز کیسے پڑھے
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
تحریر : مسزانصاری
نماز سے نہی کے احکامات کا مقصد ایسی چیزوں سے روکنا ہے جو دل
کو شغل دے کر خشوع و خضوع سے دور کردیں ۔ جب انسان عبادت كے دوران اسے توڑنے كى
نيت كرے تو وہ باطل ہو جاتى ہے
مغنى ابن قدامہ ميں ہے:
" اور اگر وہ صحيح نيت كے ساتھ
اس ـ نماز ـ كو شروع كرے، پھر اسے توڑنے اور نماز سے باہر نكلنے كى نيت كى
نماز باطل ہو جاتى ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہى ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 278 ).
اگر دوران نماز اس ميں تردد
كيا تو شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس كى شرح ميں راجح يہ قرار ديا ہے كہ تردد سے
نماز باطل نہيں ہوتى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 486 ).
اس سے يہ ظاہر ہوا كہ جس نے
عبادت توڑنے كا عزم كر ليا تو اس كى عبادت باطل ہو جائيگى، ليكن اگر يہ فقط وسوسہ
ہو تو اس سے عبادت باطل نہيں ہو گى.
حدیث شریف میں رحمۃ للعالمینﷺ
کا نماز کے بارے میں طرز عمل یہ بتایا گیا :
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے ايك بچى كو
اٹھا كر نماز پڑھائى جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے، اور جب سجدہ كرتے تو اسے زمين
پر بٹھا ديتے.
جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں
ابو قتادہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم
نے اپنى نواسى امامہ بنت زينب كو اٹھا كر نماز پڑھائى جو ابوالعاص بن ربيعہ بن عبد
شمس كى بيٹى تھى، چنانچہ جب سجدہ كرتے تو اسے نيچے بٹھا ديتے اور جب كھڑے ہوتے تو
اسے اٹھا ليتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 486 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 844 ).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی بہت ہلکی اور بہت کامل نماز میں
نے کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی۔ جب آپ (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز
سنتے تو اس ڈر سے نماز ہلکی کر دیتے کہ اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔
(بخاری، الاذان باب من اخف الصلاۃ عند
بکاء الصبی، ۸۰۷، مسلم: ۹۶۴.)
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ
بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى
أُمِّهِ
(صحیح البخاری حدیث نمبر 707 )
ابوقتادہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں
کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا
ہوں کہ اس میں طول دوں لیکن چونکہ بچہ کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز میں
اختصار کردیتا ہوں اس امر کو برا سمجھ کر کہ میں اس کی ماں کی تکلیف کا باعث ہو
جاوں "
اور دوسری حدیث میں ہے :
" شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ
مَالِكٍ، يَقُولُ: «مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً، وَلاَ
أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ
بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ»
(صحیح البخاری حدیث نمبر 708 )
سیدنا انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز نہیں پڑھی اور بے
شک آپ بچہ کا گریہ سن کر اس خوف سے کہ اس کی ماں پریشان ہوجائے گی نماز کو ہلکا
کردیتے تھے "
اور اسى طرح يہ بھى ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم
نماز پڑھا رہے تھے كہ ايك بچہ ان كى كمر پر چڑھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ
وسلم نے اسى حالت ميں نماز مكمل كى.
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجَ
عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيِ
الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ فَصَلَّى
فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا، قَالَ أَبِي:
فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي، فَلَمَّا قَضَى
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ النَّاسُ: يَا
رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِكَ سَجْدَةً
أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّهُ يُوحَى
إِلَيْكَ، قَالَ: «كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي
فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ»
عبد اللہ بن شداد اپنے والد سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم
عشاء كى نمازوں ميں سے ايك نماز پڑھانے كے ليے ہمارے پاس آئے تو آپ صلى اللہ عليہ
وسلم نے حسن يا حسين رضى اللہ تعالى عنہما كو اٹھايا ہوا تھا، نبى كريم صلى اللہ
عليہ وسلم آگے آئے اور انہيں بٹھا كر نماز كے ليے تكبير كہہ دى اور نماز پڑھانے
لگے، اور اپنى نماز ميں سجدہ كيا تو اسے بہت لمبا كر ديا.
ميرے والد كہتے ہيں: ميں نے اپنا سر اٹھايا تو بچہ رسول كريم
صلى اللہ وسلم كى كمر پر سوار تھا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سجدہ ميں تھے
لہذا ميں بھى دوبارہ سجدہ ميں چلا گيا، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز
مكمل كى تو لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے اپنى نماز ميں
سجدہ اتنا لمبا كر ديا كہ ہم گمان كرنے لگے كہ كوئى واقع اور حادثہ پيش آ گيا ہے،
يا پھر آپ پر وحى نازل ہو رہى ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: ايسا تو كچھ بھى
نہيں تھا، بلكہ ميرا بيٹا ميرى كمر پر سوار ہوا تو ميں نے اسے اپنى حاجت اور ضرورت
پورى كيے بغير جلد اتارنا مناسب نہ سمجھا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1141 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے
صحيح سنن نسائى ( 1 / 246 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
درج بالا احادیث کی روشنی میں ، جن سائلہ کے لیے یہ مسئلہ پوچھا
گیا ہے ان سائلہ کے لیے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گی ۔ یہ کہ دو تین سال کا بچہ اور
چھ سال کا ذہنی معذور بچہ قریبًا ایک جیسے ہی طالبِ توجہ ہوتے ہیں ، ہم خواتین
اپنے بچوں کی عادات و سکنات ، انکا رجحان پسند اور ناپسند بخوبی جانتے ہیں ، ایک
ماں کو بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بچہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے ، یہاں تک کہ
ذہنی معذور بچہ کے بارے میں بھی اسکی ماں کو زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ اسکا ہیجان
کیسے کم ہوتا ہے ؟ کب ، کتنی دیر تک اور کس چیز کی مشغولیت اسے اپنی طرف مائل
رکھتی ہے ، نیز کئی ایسے طریقے ہوتے ہیں کہ ماں کو زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا
صحیح العقل یا ذہنی طور پر کمزور بچہ کس طرح مشغول کیا جاسکتا ہے ، نماز کا
دورانیہ زیادہ نہیں ہوتا ، تاہم بچے کو اسکے من پسند شغل میں مشغول کر کے نماز کو
تخفیف کر کے پڑھا جا سکتا ہے ، نماز سے پہلے آس پاس سے تمام ایسی چیزیں ہٹا دی
جائیں جو بچے کی جان کے لیے ہلاکت کا باعث بن سکتی ہوں ، ہر نماز میں اگر یہ معمول
بنا لیا جائے کہ بچے کا ایک پاوں اپنے قریب کی چیز سے باندھ دیں تو شروع میں بچہ
بے چین ہوگا لیکن ایک وقت آئے گا کہ بچے کو پاوں باندھنے کا مقصد سمجھ آجائے گا ،
تب وہ اس کام کا عادی ہو جائے گا ، کوشش کی جائے کہ پاوں باندھتے وقت اتنی دوری
رکھی جائے کہ بچہ اپنی ماں کو ہاتھ لگا سکے ۔
درج بالا احتیاطوں میں اگر سائلہ معذوری محسوس کرتی ہے ، نیز یہ
تمام احتیاطیں وہ تجربہ کر چکی ہیں اور بے سود پائیں تو دورانِ نماز ان کا صرف
اپنے سر کی ہلکی جنبش سے بچے پر نظر رکھنے میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں ہوگا ،
کیونکہ یہ انکی طاقت اور استطاعت سے بڑھ کر ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو
اسکی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ۔ چنانچہ قرآن میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
: لا يكلف الله نفسا إلا وسعها ﴿البقرہ / ۲۸۶﴾٪
اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا
نیز اگر آپ اپنے بچے كو نماز
ميں اٹھا ليں يا اسے بٹھا ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور آپ كى نماز كو كچھ
نقصان اور ضرر نہيں ہو گا، آپ بروقت نماز ادا كرنے كى حرص ركھيں اور كوشش كرتی
رہیں ، بے شک اللہ تعالیٰ شرعئی عذر پر آسانی اختیار کرنے والے سے درگزر فرماتا ہے
۔
مولانا ابو محمد
عبدالستارالحماد
اگر کسی حرکت پر نمازی کا کوئی فعل واجب موقوف ہو تو ایسی حرکت
ضروری ہے مثلاً دوران نماز اگر پتہ چل جائے کہ اس کے رومال پر نجاست لگی ہے تو
نمازی کے لئے اس طرح کے نجاست آلود رومال کو اتارنا ضروری ہے ، اس کے لئے حرکت
کرنا ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز نجاست آلود جوتا اتار
دیا تھا جبکہ آپ نماز جاری رکھے ہوئے تھے
دیکھیے : احکام و مسائل
ہم اپنے تمام قارئین کے ساتھ
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بچے پر خصوصی رحم فرمائے اور اسے ایک صحت مند
جسم کے ساتھ صحت مند دماغ عطا فرمائے ، انسان کو جو مشکلات پہنچتی ہیں دراصل وہ
اسکے اپنے اعمال کے ثمرات ہوتی ہیں ورنہ وہ پروردگا ہمارے بیشتر گناہوں سے درگزر
فرما کر ہم پر رحم فرماتا ہے ، ہمارے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت عطا فرمائے
اور صبر و تحمل کے ساتھ استغفار کی طرف مائل رہنے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ
تعالیٰ کبھی آپکے صبر کے پیمانے کو ٹوٹنے نا دے ، آپ کی تمام مشکلات کو آسان فرما
دے
اللهم آمین ثم آمیــــــــــــــن یارب العالمین يارب انت الحي
الذي لا يموت أبداً
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ
وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment