امام کے پیچھے مقتدی سورہ فاتحہ کب پڑھے
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
مقتدی
کے لیے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا لازم ہے اسکے بغیر اسکی نماز باطل ہے ۔
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه
وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلٰوة لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأ بِفَاتِحَة الْکِتَابِ۔‘‘
کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہوتی
نماز اس شخص کی جس نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی۔‘‘
اس حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابودائود، نسائی اور ابن
ماجہ نے روایت کیا ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو نماز میں سورئہ فاتحہ
پڑھی ضروری ہے تنہا ہو یا امام یا مقتدی، بغیر سرئہ فاتحہ پڑھے کسی کی کوئی نماز
نہیں ہوتی خواہ فرض ہو یا نفل ہر ایک میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ حکم
عام ہے۔
فاتحہ خلف الامام کا محل کہاں ہے ، یعنی سورہ فاتحہ کب
پڑھی جائے تو اسکے لیے عرض ہے کہ مقتدی کوچاہئے کہ وہ اس وقت فاتحہ پڑھے جب امام
قرات کے درمیان سکوت کرے اوراگرامام قرات کے درمیان سکوت نہ کرے تومقتدی کو چاہئے
کہ فاتحہ کو اپنے جی میں پڑھ لے خواہ امام قرات ہی کیوں نہ کررہا ہواورپھر سورہ
فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہوجائے
الشیخ محمد عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں
اور امام کےسورہ فاتحہ ختم کرنے کےبعد بھی جوشخص جماعت
میں ملےاس کوبھی سورہ فاتحہ پڑھناچاہیے۔
افضل یہی ہے کہ مقتدی فاتحہ کو اس وقت پڑھے جب امام اس
کی قراءت کر چکا ہو تاکہ وہ اس قراءت کو سن سکے جو فرض اور نماز کا رکن ہے کیونکہ
اگر اس نے فاتحہ کو اس وقت پڑھا جب امام پڑھ رہا تھا تو یہ رکن کے لیے خاموش نہ
رہا بلکہ اس نے خاموشی فاتحہ کے بعد والی قراءت کے لیے اختیار کی جو نفل ہے لہذا
افضل یہ ہے کہ فاتحہ کی قراءت کے وقت خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ رکن قراءت کو
سننا اور سنت قراءت کے سننے سے افضل ہے۔ یہ تو ہے اس مسئلے کا ایک پہلو اور اس کا
دوسرا پہلو یہ ہے کہ امام جب "((وَلَا الضَّالِّينَ))" کہے اور آپ امام
کی متابعت میں آمین نہ کہیں تو آپ جماعت سے خارج ہو جائیں گے لہذا افضل یہ ہے کہ
امام کے قراءت فاتحہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ فاتحہ پڑھیں۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/نمازکےمسائل/صفحہ : ٢٧٧
حافظ ثناء اللہ مدنی کہتے ہیں :
یعنی ’’جب امام آمین کہے۔ پس تم بھی آمین کہو۔‘‘ پر عمل
ہو سکے۔ ثانیاً دیگر احادیث جن میں دعا کے اخیر میں (آمین) کی ترغیب وارد ہے، ان
کی بناء پر سورہ فاتحہ بھی چونکہ دعا ہے، اس لیے اس کے اختتام پر بھی (آمین) کہی
جائے۔ (مشکوٰۃ ،باب القراء ۃ فی الصلٰوۃ)
دیکھیے : فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی/کتاب الصلوٰۃ/صفحہ
: 426
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا
مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه
بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ
تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ
عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment