Saturday, February 8, 2020

نکاح شغار (وٹہ سٹہ) شادی کی شرعی حثیت

  
 
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
░▒▓█ ن̳ک̳ا̳ح̳ ش̳غ̳ا̳ر̳ 【̳ و̳ٹ̳ہ̳ س̳ٹ̳ہ̳ ک̳ی̳ ش̳ا̳د̳ی̳】̳ █▓▒░
ہمارے ہاں معاشرہ میں شریعت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض لوگ جاہلانہ رسم و رواج کی بڑی سختی سے تھامے ہوتے ہیں ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ ہے جسے عربی زبان میں نکاح شغار کہا جاتاہے۔ بلاشبہ یہ نکاح دور جاہلیت کی یادگار ہے اور اسلام نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
‘‘دین اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کا کوئی وجود نہیں ہے ۔’’
(صحیح مسلم ، النکاح:۱۴۱۵)
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے نکاح وٹہ سٹہ سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح بخاری ، النکاح :۵۱۱۲)
واضح رہے کہ نکاح وٹہ سٹہ ہر صورت میں حرام ہے، خواہ حق مہر رکھا گیا ہو یا تبادلہ نکاح کو ہی حق مہر قرار دیا گیا ہو۔ ان احادیث کےپیش نظر اصولی طورپر صورت مسئولہ میں دونوں نکاح باطل ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے ایک لڑکی کی رخصتی ہوچکی ہے اور اس کےبطن سے اولاد بھی پیدا ہوئی ہے ، نیز اس کا خاوند بھی فوت ہوچکا ہے اس بنا پر احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے متعلق گنجائش نکالی جائے ، البتہ چھوٹی لڑکی کس کا صرف نکاح ہوا ہے ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی ۔ اس کے نکاح کو کالعدم اور باطل قرار دیا جائے ، اس لئے بچی کے والدین فریق ثانی سے طلاق لئے بغیر آگے نکاح کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بڑی لڑکی کے والدین کا ان سے چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا صریح ظلم ہے جس کےمتعلق شریعت اجازت نہیں دیتی ہے، نیز ایک حدیث کے مطابق جو شرط کتاب اللہ سے ٹکراتی ہو اوراس کا ثبوت شریعت میں نہ ملتا ہو وہ سرے سے باطل ہوتی ہے۔ اس لئے نکاح کے ساتھ یہ شرط بھی کالعدم قرار پائے گی اگر چھوٹی لڑکی والے طلاق لینے پر اصرار کرتے ہیں تو بڑی لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ اسے اپنی عزت کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اپنی لڑکی کو بالغ ہونے کےبعد یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ چاہیے تو بچپن میں ہونے والے نکاح کو مسترد کردےلیکن یہ خیار بلوغ صرف اس صورت میں استعمال کیا جاسکتاہے کہ وہ بلوغت کےفوراً بعد نکاح کےمتعلق اپنی ناگواری کا اظہار کردے۔ یہ اختیار عرصہ دراز تک کےلئے حاصل نہیں رہتا ۔ الغرض چھوٹی بچی کا نکاح شغار ہونے کی بنا پر کالعدم ہے اور اس کے سرپرست آگے نکاح کرنے کےمجاز ہیں۔ اسی طرح کسی فریق کا دوسرے سے رقم وغیرہ کامطالبہ کرنا بھی شرعاً صحیح نہیں ہے۔
دیکھیے : فتاوی اصحاب الحدیث/جلد:2 /صفحہ:347
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں
نکاح شغار حرام وباطل ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ"
"نکاح شغار اسلام میں نہیں۔"
مسلم۔(1415) کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ /نسائی(2335) کتاب النکاح /ابی داود (2581) کتاب الجھاد /ترمذی(1123) کتاب النکاح /مسند احمد(4/429)
عورت کے ولی پر واجب ہے کہ وہ اس کی رضا مندی کے بغیر اس کانکاح نہ کرے اور کامل مہر کے ساتھ اس کا نکاح کرے جو صرف اس عورت کا حق ہو ،نہ اس کے بھائی کو دیا جائے اور نہ ہی اس کے والد کو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
"وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا"
"اور عورتوں کو ان کی مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھالو۔"
[النساء / 4]
اللہ تعالیٰ نے(اس آیت میں ) مہر عورتوں کے لیے مقرر فرمایا ہے اور انہیں ہی اس میں تصرف کا حق دیا ہے۔اور بعض قبائل میں رواج ہے جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے وہ انتہائی قبیح عادت اور حرام ہے،اس طریقے سے عقد نکاح صحیح نہیں ہوتا اوردونوں عورتیں دونوں مردوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی حلال نہیں ہوتیں کیونکہ نکاح ہی صحیح نہیں۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والاہے۔
(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ/شیخ محمد بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسطرح کا فتویٰ دیا ہے )
اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کا کیا تصور ہے اگر طرفین سے عام حالات میں رضا مندی کے ساتھ وٹہ سٹہ کی شادی ہو جائے تو پھر بھی یہ سلسلہ شریعت کی گرفت میں ہے؟
وٹہ سٹہ کی شادی کو شریعت میں شغار کہا جاتا ہے شغار کی ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا شغار فى الإسلام اسلام میں شغار نہیں ہے۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ 1415)
شغار کی ممانعت والی حدیث ابوہریرہ، انس بن مالک، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے کتب احادیث میں مروی ہے اور شغار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت کسی بھی لڑکی کی شادی اس شرط پر کرے کہ دوسرا آدمی اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت لڑکی کا نکاح اس کے کسی فرد سے کر دے اور یہ شرط شرعی طور پر درست نہیں کیونکہ نکاح کے بارے میں شریعت میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ " كل شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل " ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے (صحیح البخاری کتاب البیوع 2168 صحیح مسلم کتاب العتق 1504)
امام ابن حزم نے محلی 9/118 میں لکھا ہے کہ وٹہ سٹہ کا نکاح حلال نہیں ہے اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی زیر ولایت لڑکی سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ دوسرا آدمی اپنی زیر ولایت لڑکی کو اس طرح اس کے ساتھ بیاہ دے کہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ انہوں نے دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مہر ذکر کیا ہو یا ایک کا مہر ذکر کیا ہو دوسری کا نہ کیا ہو یا دونوں میں سے کسی کا بھی حق مہر ذکر نہ کیا ہو یہ تمام صورتیں برابر ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن الحکم کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور عبدالرحمین بن الحکم نے عباس کو اپنی بیٹی نکاح میں دے دی اور ان دونوں نے مہر بھی مقرر کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے (امیر مدینہ) مروان کو خط لکھ کر حکم دیا کہ دونوں نکاحوں میں جدائی کر دی جائے اور اپنے خط میں لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی الشغار 2075 مسند احمد 4/94)
امام ابن حزم رحمۃ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں یہ معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس نکاح شغار کو فسخ کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ان کی مخالفت کرنے والا نہیں ہے اگرچہ اس میں دونوں نے مہر کا ذکر بھی کیا ہے تو انہوں نے نکاح کو فسخ کر دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ وہ نکاح ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے تمام اشکال رفع ہو جاتے ہیں۔ (المحلی 9/122)
لہذا وٹہ سٹہ کی شادی جو مشروط طور پر سر انجام دی جاتی ہے وہ شرعی طور پر درست نہیں خواہ اس میں مہر رکھا گیا ہو یا نہ رکھا گیا ہو یہ اتفاقی چیز ہے ایسے نکاح سے اجتناب کرنا چاہیے۔
دیکھیے :تفہیمِ دین/کتاب النکاح/صفحہ:311
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح بھی مروی ہے کہ:
"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الشِّغَارِ "
(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ 2/1034،(1415) مؤطا الامام مالک ،باب جامع مالا یجوز من النکاح (124)کتاب الام للشافعی 5/76صحیح بخاری ، کتاب النکاح باب الشغار (5112) و کتاب الحیل (6960)ابو داؤد کتاب النکاح باب الشغار (2074) ابن ماجہ (1883) ٍٍٍٍمسند احمد 6/197،35،62)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار (وٹہ سٹہ) سے منع فرمایا۔"
نیز یہی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم سنن نسائی، ابن ماجہ ، ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں بھی مروی ہےاور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن ماجہ ، ابن حبان اور مسند احمد میں، عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترمذی ، ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ وابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ مسند طیالسی اور مسند احمد میں، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسلم ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور مسند وغیرہ میں موجود ہے۔
غرض اس صحیح ترین حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی شرعی طور پر ناجائز و حرام ہے اور نکاح شغار کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کی زیر ولایت ہو اس شرط پر کسی سے بیاہ دے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن یا کسی بھی عورت کو جو اس کی زیر ولایت ہو۔ اس کے خاندان کے کسی مرد سے بیاہ دے۔ اور یہ شرط شرعاً ناجائز ہے کیونکہ ایسی کوئی شرط کتاب وسنت میں موجود نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَهُوَ بَاطِلٌ"
"ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے"
مسند احمد 2/213،183 نیز بخاری ، کتاب البیوع ، باب اذااشتراط فی البیع شرطا لا تحل (2168) صحیح مسلم کتاب العتق (1504) وغیرہ میں یہ حدیث اس طرح مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ ، وَإِنْ كَانَ مِائَةُ شَرْطٍ"
"ایسے لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔؟ایسی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں وہ باطل ہے اگرچہ وہ سو(100)شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔"
"لا يحل نكاح الشغار: وهو أن يتزوج هذا ولية هذا على أن. يزوجه الآخر وليته أيضا، سواء ذكرا في كل ذلك صداقا لكل واحدة منهما اولاحداهما دون الاخريٰ اولم يذكرافي شئي من ذلك صداقا كل ذلك سواء" (المحلیٰ9/118)
"نکاح وٹہ سٹہ حلال نہیں اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی زیر ولایت لڑکی سے اس شرط پر شادی کرے کہ دوسرا آدمی بھی اپنی زیر ولایت لڑکی کو اسی طرح اس کے ساتھ بیاہ دے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ انھوں نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مہر ذکر کیا ہویا نہ کیا ہو یا ایک کامہر ذکر کیا ہواور دوسری کا نہ کیا ہو۔ یا دونوں میں سے کسی کا بھی حق مہر ذکر نہ کیا ہو۔ یہ تمام صورتیں برابر ہیں۔"
دیکھیے :آپ کے مسائل اور ان کا حل/جلد2/كتاب الاضحیۃ/صفحہ نمبر 403
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه


Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search