Those
who take bribe and give are the inmates of hell.. What is it like to
make an intercession and intercession for a person who is eligible for
this job or post??ہمارے
سرکاری اداروں میں بغیر رشوت کے کوئی کام نہیں ہوتا. رشوت لینے اوردینے
والے تو جہنمی ہوئے.. سفارش کرانا کیسا ہے اور سفارش بھی ایسے بندے کیلئے
جو اس کام یا عہدے کا اہل ہو؟؟رشوت لینا اور دینا كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے اور رشوت یہ ہے کہ مال یا کسی چیز کے ذریعے حق کو ناحق بنا دیا جائے یا نا حق کو حق بنا دیا جائے ۔رشوت لینے کی جائز صورت یہ ہے کہ آدمی کو اگر اپنے جائز حق کے لئے شدید مجبوری کی صورت میں کچھ دینا پڑے تو دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ لینے والا دہرے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ایک رشوت لینے کا اور دوسرے صاحب کو ایک حرام کام پر مجبور کرنے کا ۔عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:” بلا شبہ ان ميں سے كوئى ايک كچھ مانگتا ہے تو ميں اسے دے ديتا ہوں، تو وہ اسے بغل ميں دبا كر نكل جاتا ہے، ان كے ليے تو يہ آگ ہى ہے.عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:” وہ مانگے بغير جانے سے انكار كر ديتے ہيں، اور اللہ تعالى نے ميرے ليے بخل سے انكار كيا ہے ”(مسند احمد حديث نمبر _10739 )علامہ البانى رحمہ اللہ نے(صحيح الترغيب حديث نمبر_ 844 )ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں يہ مال ديتے حالانكہ يہ ان كے ليے حرام ہوتا تھا، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے آپ سے بخل كی نفى كر سكيں.شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:” اگر کسی نے اپنے آپ سے دوسرے كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق اسکو ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے،جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:” بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں …. الحديث ” (دیکھیے : مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 )اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:” ظلم دور كرنے كے ليےرشوت دينى جائز ہے،نہ كہ حق روكنے كے ليے، اور ان دونوں ميں رشوت لينى حرام ہے”ديكھيے : مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 252 )اور جہاں تک سفارش کا معاملہ ہے تو ہر سفارش ناجائز نہیں ہوتی ۔ جائز و مستحب سفارش کرنے والا اجر کا مستحق ہے ۔فرمان الہی میں ہے : [مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا]{النساء:855} ” جو شخص بھلائی کی شفارش کرےگا تو اسے اس کا حصہ ملے گا اور جو برائی کی شفارش کرے گا اس سے بھی وہ حصہ پائے گا اور اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔- ناجائز سفارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے منہ موڑا جائے اور حدود اور سزاؤں کو ٹالا جائے ، نااہلوں سے غلط کام کرایا جائے اور حق کے بطلان کی سعی کی جائے ۔ - اور جائز سفارش یہ ہے کہ حقدار کو حق دلایا جائے،کسی مسلمان کو جائز حق دلانے کے لیے سفارش کرنا جائز ہےعَنْ أَبِى مُوسَى قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا أَتَاهُ طَالِبُ حَاجَةٍ أَقْبَلَ عَلَى جُلَسَائِهِ فَقَالَ « اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا أَحَبَّ ».( صحيح البخاري :1432، الزكاة – صحيح مسلم :2627 ، البر والصلة ) .ترجمہ :حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حاجت مند آتا [ اور کسی چیز کا طالب ہوتا ] تو آپ اپنے اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے : [اس کے لئے ] شفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالی اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ کردیتا ہے ۔[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ] ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصوابALQURAN
O HADITHS♥➤WITH
MRS. ANSARI
اِنْ
اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
رشوت لینا اور دینا كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے اور رشوت یہ ہے کہ مال یا کسی چیز کے ذریعے حق کو ناحق بنا دیا جائے یا نا حق کو حق بنا دیا جائے ۔
رشوت لینے کی جائز صورت یہ ہے کہ آدمی کو اگر اپنے جائز حق کے لئے شدید مجبوری کی صورت میں کچھ دینا پڑے تو دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ لینے والا دہرے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ایک رشوت لینے کا اور دوسرے صاحب کو ایک حرام کام پر مجبور کرنے کا ۔
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بلا شبہ ان ميں سے كوئى ايک كچھ مانگتا ہے تو ميں اسے دے ديتا ہوں، تو وہ اسے بغل ميں دبا كر نكل جاتا ہے، ان كے ليے تو يہ آگ ہى ہے.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو آپ انہيں ديتے كيوں ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” وہ مانگے بغير جانے سے انكار كر ديتے ہيں، اور اللہ تعالى نے ميرے ليے بخل سے انكار كيا ہے ”
(مسند احمد حديث نمبر _10739 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے
(صحيح الترغيب حديث نمبر_ 844 )
ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں يہ مال ديتے حالانكہ يہ ان كے ليے حرام ہوتا تھا، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے آپ سے بخل كی نفى كر سكيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر کسی نے اپنے آپ سے دوسرے كا ظلم روكنے كے ليے كوئى ہديہ ديا، يا اس ليے ديا كہ وہ اس كا واجب حق اسکو ادا كرے تو يہ ہديہ لينے والے پر حرام ہو گا اور دينے والے كے ليے ہديہ دينا جائز ہے،
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” بلا شبہ ميں ان ميں سے كسى ايك كو عطيہ ديتا ہوں …. الحديث ”
(دیکھیے : مجموع الفتاوى الكبرى ( 4 / 174 )
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:
” ظلم دور كرنے كے ليےرشوت دينى جائز ہے،نہ كہ حق روكنے كے ليے، اور ان دونوں ميں رشوت لينى حرام ہے”
ديكھيے : مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 252 )
اور جہاں تک سفارش کا معاملہ ہے تو ہر سفارش ناجائز نہیں ہوتی ۔ جائز و مستحب سفارش کرنے والا اجر کا مستحق ہے ۔
فرمان الہی میں ہے :
[مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا]{النساء:855} ” جو شخص بھلائی کی شفارش کرےگا تو اسے اس کا حصہ ملے گا اور جو برائی کی شفارش کرے گا اس سے بھی وہ حصہ پائے گا اور اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔
- ناجائز سفارش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے منہ موڑا جائے اور حدود اور سزاؤں کو ٹالا جائے ، نااہلوں سے غلط کام کرایا جائے اور حق کے بطلان کی سعی کی جائے ۔
- اور جائز سفارش یہ ہے کہ حقدار کو حق دلایا جائے،کسی مسلمان کو جائز حق دلانے کے لیے سفارش کرنا جائز ہے
عَنْ أَبِى مُوسَى قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا أَتَاهُ طَالِبُ حَاجَةٍ أَقْبَلَ عَلَى جُلَسَائِهِ فَقَالَ « اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا أَحَبَّ ».
( صحيح البخاري :1432، الزكاة – صحيح مسلم :2627 ، البر والصلة ) .
ترجمہ :حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حاجت مند آتا [ اور کسی چیز کا طالب ہوتا ] تو آپ اپنے اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے : [اس کے لئے ] شفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالی اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ کردیتا ہے ۔
[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ] ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment