بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
تحریر : مسزانصاری
سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کا نہایت وسیع حلقہ ہے اور لوگوں کی کثیر ترین تعداد اس سے متاثر بھی بہت ہے ۔ اس ابلاغی پلیٹ فارم سے جہاں معاشرے کی تعمیر کا کام لیا جاتا ہے تو اس سے کہیں زیادہ معاشرے کے بگاڑ کا کام لیا جاتا ہے ۔ کم فہم لوگ اپنے ادھورے علم پر اکتفاء کرتے ہوئے اپنے ناقص ذاتی خیالات عام کرتے ہیں اور بے بنیاد باتیں پھیلاتے ہیں تو کم فہم یا کج فہم لوگ کچھ کا کچھ سمجھ کر اسے عام کر دیتے ہیں ، یوں عوام الناس کی ایک کثیر تعداد اس کا بے دریغ استعمال کرتی ہے خصوصًا نسل نو ان کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتی اور اسکے نقائص کو جانے بغیر دنوں میں یہ ناقص مواد سوشل میڈیا پر سرکولیٹ کرنے لگتے ہیں ، یوں معاشرے میں دینی تعلیمات خلط ملط ہو جاتی ہیں ، لہذا اس طرح کے الفاظ کو استعمال کرنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔
تقدیر عقیدے سے متعلقہ ہے ، لہٰذا اس پر بحث و مباحثے یس سوالات سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہئیے۔ مسئلہ تقدیر باریک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں حصہ لینے اوراس میں موشگافیاں کرنے یا بحث کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے انسان کا کام اپنے فرائض کی انجام دہی ہے۔ نہ کہ موازنہ غور وخوذ کرنا۔ کام کرنے والوں کو تو موازنے سے غرض ہی نہیں ان کو صرف اپنے دستور العمل پرکاربند رہنا چاہیے۔
تقدیر دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک اندازہ ہے جو صحیح اور اٹل ہوتا ہے ۔ انسان کو جو کچھ بہ ہوش و حواس کام کرنے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ کے زور سے اسے قبل از وقت معلوم کر لیتا ہے کہ یہ انسان فلاں دن فلاں حرکتیں کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ کا انسان کے امور کا قبل از وقت معلوم کر لینا انسان پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ اگر انسان کو اپنی زندگی کفریہ طرز پر گزارنی ہوتی ہے اور وہ گزارتا ہے تو اللہ تعالیٰ محض اسکی زندگی کے تمام امور جنہیں وہ انجام دینے والا ہوتا ہے اپنے علم کے زور سے معلوم کر کے لوحِ محفوظ میں لکھ لیتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ کا انسان کی اس تقدیر کو لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ اب وہ انسان سچا مسلمان بن گیا ۔ لہٰذا یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا قبل از وقت انسان کی یہ سب حرکتیں اندازہ کر لینے سے انسان کی تقدیر پر کچھ اثر انہیں ڈالتا ، مختصرًا یوں سمجھئے کہ انسان نے اپنے اختیارات تفویضہ سے جو کچھ کرنا یا نہ کرنا ہے، اسے قبل از وقت معلوم کر لینا تقدیر الہی ہے ، اور بندہ اس مغالطے میں رہتا ہے کہ جو لکھا ہے وہ ہی میں نے کرنا ہے، بس الٹ پلٹ کے اس چکر میں لوگوں نے مسئلہ تقدیر کو مشکل بنا کر رکھ دیا ۔ حالانکہ قیامت کو اسی تقدیر کے بنانے یا بگاڑنے پر سوال و جواب ہو گا ۔
البتہ تقدیر کی دوسری قسم جو اختیار انسانیہ سے باہر ہے اس کا کوئی حساب نہ ہو گا، مثلاً یہ کہ اے بندے تم بیمار ہوئے تھے تو علاج کرنے پر بھی تم صحت مند کیوں نہ ہو سکے، باوجود روزگار کے تم مال کثیر کیوں نہ جمع کر کسے، نکاح کے بعد تم صاحب اولاد کیوں نہ بن سکے وغیر۔
زیرِ نظر پوسٹ میں دو قابل گرفت باتیں ہیں
⓵- راقم کہتا ہے کہ میری تقدیر غلط ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ میری تقدیر میرے رب نے لکھی ہے ۔ یہ جملہ دو حال سے خالی نہیں :
- اگر تو لکھنے والے کی مراد اللہ تعالیٰ کے لکھنے پر بھروسہ کرنا ہے تو درست ہے ، جبکہ یہ مراد خارج از امکان ہے ۔
- اور اگر راقم کی مراد یہ ہے کہ اسکی تقدیر اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے تو خراب ہو ہی نہیں سکتی ، اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ گناہوں ، غلطیوں ، کوتاہیوں اور تمام دینی و دنیاوی لغزشوں سے پاک ہے کیونکہ اللہ نے تقدیر لکھی ۔ تو یہاں جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا انسان کی تقدیر لکھنا اور انسان کے حق میں یا اسکے خلاف تقدیر لکھنا علیحدہ علیحدہ بات ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرتِ کاملہ کے زور سے اسکی زندگی کے تمام معاملات لکھے ہیں ، اپنی زندگی کو وہ غلط طرز پر گزارتا ہے یا درست طرز پر ، اس کا اللہ تعالیٰ کے لکھنے سے کوئی تعلق نہیں ۔
اسے ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک کلاس میں بیس طالبعلم ہیں جن میں ہر سال ایک ہی طالبعلم زید فرسٹ پوزیشن لیتا ہے ۔ جب امتحان ہوتا ہے تو ٹیچر پہلے سے اندازہ کر لیتا ہے کہ زید فرسٹ پوزیشن لے گا تو زید یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فرسٹ پوزیشن سے محروم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ میرے ٹیچر کا خیال ہے ، جبکہ زید تو اپنے اسبابِ محنت سے ہی فرسٹ پوزیشن لے گا نا کہ استاد کے اندازے سے ۔ لہٰذا ٹیچر کے اندازہ کرنے سے مراد یہ نہیں کہ ٹیچر اس کے امتحان میں اسے پیپر بھی حل کرائے گا ۔ اسی طرح انسان اپنی زندگی کیسی گزارے گا یہ انسان پر منحصر ہوتا ہے ، اور جو کچھ وہ زندگی میں کرنے والا ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ قبل از وقت جان لیتا ہے ۔
⓶- راقم کی دوسری بات کہ " اللہ تعالیٰ بندے سے ستر ماوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے ، بے بنیاد اور معرفتِ الہی کے منافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بندے پر رحم کی تحدید ہی غلط ہے ۔ لہٰذا عدد کی تخصیص کہ ستر ماوں کی محبت مجھے تلاش بسیار کے باوجود ذخیرہ احادیث میں نہیں ملی،البتہ اتنی بات ضرور ملتی ہےکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر ماں کی محبت اور رحم دلی سے زیادہ محبت کرنے والا اورماں سے زیادہ مہربان ہے
چنانچہ بخاری ومسلم میں روایت ہے:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قدم على النبي صلى الله عليه وسلم سبي، فإذا امراة من السبي قد تحلب ثديها تسقي، إذا وجدت صبيا في السبي اخذته فالصقته ببطنها وارضعته، فقال لنا النبي صلى الله عليه وسلم:" اترون هذه طارحة ولدها في النار" قلنا: لا، وهي تقدر على ان لا تطرحه فقال:" لله ارحم بعباده من هذه بولدها".(صحیح بخاری: حدیث نمبر:5999، صحیح مسلم: حدیث نمبر:6978 )
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺکے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہو تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
لہٰذا ستر ماوں کی تحدید کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت ناپنا صریحًا غیر درست ہے ، البتہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کل رحمت کا ایک حصہ مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ، اور اس بارے میں صحیحین کی درج ذیل روایات میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے :
❶ أَنَّ أَبَا هرَیْرَة قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲ صلى الله عليه و سلم یَقُولُ جَعَلَ اﷲُ الرَّحْمَة مِائَة جُزْئٍ فَأَمْسَکَ عِنْدَه تِسْعَة وَتِسْعِینَ جُزْئًا وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْئًا وَاحِدًا فَمِنْ ذَلِکَ الْجُزْئِ یَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ حَتَّی تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَها عَنْ وَلَدِها خَشْیَة أَنْ تُصِیبَه۔
بخاري، الصحیح، 5: 2234، رقم: 5954، دار ابن کثیر، الیمامة، بیروت/مسلم، الصحیح، 4: 2108، رقم: 2752، دار احیاء التراث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے ہیں۔ چنانچہ ننانوے حصے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا۔ مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہ اسی ایک حصے سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے اس کے اوپر سے جو اپنا کھرا اٹھائے وہ بھی اسی ایک حصے سے ہے۔
❷ عَنْ أَبِي هرَیْرَة قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲ صلى الله عليه و سلم یَقُولُ إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الرَّحْمَة یَوْمَ خَلَقَها مِائَة رَحْمَة فَأَمْسَکَ عِنْدَه تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَة وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِه کُلِّهمْ رَحْمَة وَاحِدَة فَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اﷲِ مِنَ الرَّحْمَة لَمْ یَیْئَسْ مِنَ الْجَنَّة وَلَوْ یَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اﷲِ مِنَ الْعَذَابِ لَمْ یَأْمَنْ مِنَ النَّار
بخاري / الصحیح، 5: 2234، رقم:5454
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس روز اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کیے اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ اپنی ساری مخلوق کے لیے بھیج دیا۔ پس اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ اس کے پاس کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ رہے‘‘
❸ عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِي هرَيرَة أَنَّ رَسُولَ اﷲ صلى الله عليه و سلم قَالَ خَلَقَ اﷲُ مِائَة رَحْمَة فَوَضَعَ وَاحِدَة بَیْنَ خَلْقِهِ وَخَبَأَ عِنْدَهُ مِائَة إِلَّا وَاحِدَ
مسلم، الصحیح، 4: 2108، رقم: 2752
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں، ایک رحمت اس نے اپنی مخلوق میں رکھی اور ننانوے رحمتیں اس نے اپنے پاس رکھیں۔
❹ عَنْ أَبِي هرَیْرَة عَنِ النَّبِيِ قَالَ إِنَّ لِلّٰهِ مِائَة رَحْمَة أَنْزَلَ مِنْها رَحْمَة وَاحِدَة بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَهائِمِ وَالْهوَامِّ فَبِها یَتَعَاطَفُونَ وَبِها یَتَرَاحَمُونَ وَبِها تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِها وَأَخَّرَ اﷲُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَة یَرْحَمُ بِها عِبَادَهُ یَوْمَ الْقِیَامَة۔
مسلم، الصحیح، 4: 2108، رقم: 2752 /احمد بن حنبل، المسند، 2: 434، رقم: 9607، مؤسسة قرطبة مصر/
ابن حبان، الصحیح، 14: 15، رقم: 6147، مؤسسة الرسالة بیروت / أبو یعلی، المسند، 11: 258، رقم: 6372، دار المأمون للتراث دمشق
’’حضرت ابو ہریرہ رضی للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں اس نے ان میں سے ایک رحمت جن، انس، حیوانات اور حشرات الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا‘‘۔
❺ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲ صلی الله علیه وسلم إِنَّ لِلّٰهِ مِائَة رَحْمَة فَمِنْها رَحْمَة بِها یَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ بَیْنَهمْ وَتِسْعَة وَتِسْعُونَ لِیَوْمِ الْقِیَامَة۔
مسلم / الصحیح، 4: 2108، رقم: 2753
’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت سے مخلوق پس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور ننانوے رحمتیں روز قیامت کے لیے ہیں‘‘۔
❻ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲ صلى الله عليه و سلم إِنَّ اﷲَ خَلَقَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِائَة رَحْمَة کُلُّ رَحْمَة طِبَاقَ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ فَجَعَلَ مِنْها فِي الْأَرْضِ رَحْمَة فَبِها تَعْطِفُ الْوَالِدَة عَلَی وَلَدِها وَالْوَحْشُ وَالطَّیْرُ بَعْضُها عَلَی بَعْضٍ فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَة أَکْمَلَها بِهذِهِ الرَّحْمَة۔
مسلم، الصحیح، 4: 2109، رقم: 2753
’’حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے جس دن سمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اس دن اس نے سو رحمتیں پیدا کیں، ہر رحمت سمان اور زمین کے بھراؤ کے برابر ہے، اس نے ان میں سے ایک رحمت زمین پر نازل کی، اسی رحمت کی وجہ سے والدہ اپنی اولاد پر رحمت کرتی ہے اوردرندے اور پرندے ایک دوسرے پر رحمت کرتے ہیں، جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس رحمت کے ساتھ اپنی رحمتوں کو مکمل فرمائے گا‘‘
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
Post a Comment