Thursday, December 10, 2020


 
و لہُ الحمدُ فی اُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ

اونٹ کے باڑوں میں نماز؟

اونٹ کے باڑوں سے مراد تین چیزیں ہیں:
1۔اونٹ کی باڑیں۔
2۔اس کے رہنے کی جگہیں۔
3۔کنویں کے نزدیک پہنچتے وقت اس کا بیٹھنا یا وہاں اس کا پانی کے لئے انتظار کرنا۔
لہٰذا ان تین جگہوں پر نماز ادا کرنا درست نہیں ہے،جس کی دلیل یہ حدیث ہے:
جابر بن سمرۃ: أن رجلاً سال رسول اللہ ﷺ : أأتوضأ من لحوم الغنم؟ قال : ان شئت فتوضا، وان شئت فلا توضا: قال أتوضا من لحوم الابل؟ قال: نعم ، فتوضا من لحوم الابل، قال: أصلی فی مرابض الغنم؟ قال: نعم ، قال أصلی فی مبارک الابل؟ قال: لا.
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ، کیا میں بکری کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا :" چاہو تو وضو کر لو اور چاہو تو نہ کرو"، اس نے عرض کیا ، کیا میں اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا :"ہاں ، اونٹ کے گوشت ( کو کھانے ) سے وضو کر"، دریافت کیا ، کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا :"ہاں" ، میں نے عرض کی ، کیا میں اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لوں ؟ فرمایا ،"نہیں"
[ صحیح مسلم ،حدیث نمبر:360 ]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس ممانعت کی حکمت ذکر کرتے ہوئے فرمایا:"اونٹ کے باڑوں کے بارے میں نبی ﷺ نے وجہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ "بانھا من الشیاطین" (کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے)
[سنن ابی داؤد/کتاب:طہارت کےمسائل/باب:اونٹ کا گوشت کھانے سےوضو(ٹوٹ جانے)کابیان/حدیث:١٨۴]
نیز آپ ﷺ نے اس کی یہ وجہ بھی فرمائی "بانھا خلقت من الشاطین" (ان کی تخلیق، شیاطین سے ہوئی ہے) اور "شیطان" ایک ایسا لفظ ہے جو ہر قسم کے سرکش عادات کا حامل ہو۔۔۔ اور ان کی باڑیں، شیاطین کی آماجگاہ ہوتی ہیں یعنی ان میں سے بعض جن اور شیاطین صفات کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ دونوں میں سخت دشمنی اور سرکشی کی مشترکہ صفات پائی جاتی ہیں۔۔۔ اسی بناء پر شارع نے یہاں نماز ادا کرنے سے روک دیا۔
[ شرح العمدۃ (2/159) ]
- ترجمہ از عربی کتاب "صلوا کما رایتمونی اصلی، عامۃ مسائل الطہارۃ و الصلاۃ مقرونۃ من الکتاب و السنۃ مع بیان الراجح فیھا وذکر اختیارات الائمۃ لھا"
- تالیف از سلیمان بن محمد النصیان،
- تقدیم از فضیلۃ الشیخ خالد بن علی المشیقح،
- مترجم : ڈاکٹر حافظ محمد عبدالواسع العمری
سنن ابن ماجه/ بَابُ : الصَّلاَةِ فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ وَمُرَاحِ الْغَنَمِ کے تحت بھی احادیث آئی ہیں جنکے مطابق اونٹ کے باڑے میں نماز کی ممانعت اور اسکے گوشت سے تجدید وضو ثابت ہے ۔ اور تیسری اور چوتھی صدی کے نامور محدث اور فقیہ امام أبو بكرؒ بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) فرماتے ہیں:
✹عن جابر بن سمرة، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فقال: أتوضأ من لحوم الغنم؟ قال: «إن شئت فتوضأه وإن شئت فلا توضأه» قال: أفنتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: «نعم تتوضأ من لحوم الإبل» قال: أفأصلي في مبارك الإبل؟ قال: «لا» قال: أصلي في مرابض الغنم؟ قال: «نعم» . قال أبو بكر: والوضوء من لحوم الإبل يجب لثبوت هذين الحديثين وجودة إسنادهما. "
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف ج1ص138 )
یعنی سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا ،کہ ایک آدمی آیا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ:
" کیا میں بکری کا گوشت کھانے پر وضو کروں ؟ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اگر چاہو تو وضوء کرلو ،اور اگر چاہو تو نہ کرو (ضروری نہیں)۔ سائل نے کہا: "کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟" تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اونٹ کا گوشت کھانے پر وضوء کرنا ہوگا" سائل نے پوچھا : کہ میں اونتوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ فرمایا : نہیں (اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھ سکتے )
اس نے سوال کیا کہ کیا بکڑیوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ فرمایا ہاں (پڑھ سکتے ہو )
یہ حدیث مبارک نقل کرکے امام ابن المنذرؒ فرماتے ہیں : اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء واجب ہے کیونکہ اس کے وجوب پر یہ دو حدیثیں عمدہ سندوں سےثابت ہیں "
اس حدیث کی شرح یوں ہوگی کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا واجب ، پھر چاہے وہ گوشت جانور کے جسم کے کسی بھی حصے یا عضو کا ہو ناقص وضو ہے ۔ لیکن ہر حلال جانور کا گوشت ناقص وضو نہیں ہوتا ۔ اونٹ کے گوشت کے لیے تجدید وضو کا حکم اونٹ کے لیے ہی خاص ہے ۔
✹حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا عبد الملك بن ربيع بن سبرة بن معبد الجهني ، اخبرني ابي ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يصلى في اعطان الإبل، ويصلى في مراح الغنم".
معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھی جائے، اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لی جائے“۔
سنن الترمذی / رقم الحدیث : ٧٧٠
اونٹ کے باڑے میں عدم ادائیگی صلاة ، نیز اونٹ کے گوشت سے اعادہ وضو اور بکری کے باڑے میں نماز کی عدم ممانعت ، نیز بکری کے گوشت اعادہ وضو کی نفی کی حکمت تعبدی احکامات ہیں جنکی توجیہات جاننا ضروری بھی نہیں ، شارع اسلام کے نزدیک اس میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور پوشیدہ ہوگی جو ہمارے عقل و شعور سے دور ہے ۔ تاہم بعض اہل علم کے نزدیک اونٹ کے گوشت سے اعادہ وضو کی حکمت اونٹ کے مزاج میں ہیجان ، حدت اور غصہ پر محمول ہے جو انسانی اعصاب میں ہیجان پیدا کرتا ہے ، جب وضو کیا جاتا ہے تو انسانی اعصاب میں تسکین اور ٹہیراو پیدا ہوتا ہے ، اسی لیے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا اعادہ کرنا چاہیے ۔ نیز اونٹ میں شیطانیت بھی حدیث میں وارد ہے
✹ حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا هشيم ، عن يونس ، عن الحسن ، عن عبد الله بن مغفل المزني ، قال، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" صلوا في مرابض الغنم، ولا تصلوا في اعطان الإبل، فإنها خلقت من الشياطين".
عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو، اور اونٹوں کے باڑ میں نماز نہ پڑھو، کیونکہ ان کی خلقت میں شیطنت ہے“۔
- سنن الترمذی / رقم الحدیث : ٨٦٩
- قال الشيخ الألباني: صحيح
- تراجع الألبانی: رقم: 298)
شیطنت سے مراد وہ شیطانیت نہیں کہ اونٹ کی پیدائش شیطان سے ہوئی یا اونٹ شیطان ہے ۔ ورنہ اونٹ کا گوشت حلال نہ ہوتا ، نیز نبی کریمﷺ اونٹ پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھتے ۔
✹اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا إسماعيل بن عمر، قال: حدثنا داود بن قيس، عن محمد بن عجلان، عن يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على حمار وهو راكب إلى خيبر والقبلة خلفه". قال ابو عبد الرحمن: لا نعلم احدا تابع عمرو بن يحيى على قوله يصلي على حمار، وحديث يحيى بن سعيد، عن انس الصواب، موقوف والله سبحانه وتعالى اعلم.
[ سنن نسائي/كتاب المساجد/بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الْحِمَارِ/رقم الحدیث : ٧۴٢ ]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول «يصلي على حمار» میں متابعت کی ہو ۱؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎
۱؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے «حمار» کی جگہ مطلق سواری ( «راحلتہ») کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں ”اونٹ“ کی صراحت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاً کہا: ”اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا“ اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
نیز اونت کی فطرت میں شرارت ہے ۔
✹ابو امامہ باہلی ، حضرت خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ 'تم نے نبی صلّ اللّٰہ علیہ وسلّم سے جو آسانی سے آسانی والی حدیث سنی ہواور اسے مجھے سنا'۔۔تو آپ نے فرمایا 'میں نے حضور صلّ اللّٰہ علیہ وسلّم سے سنا ہے کہ "تم میں سے ہر ایک جنت میں جائے گا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے
تفسیر ابن کثیر / سورۂ الغاشیہ (مسند احمد)
سعودی عرب کے مشہور جید عالم ، محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں :
شیخ ابن عثیمینؒ تو (الشرح الممتع علی زادالمستقنع ) میں صاف لکھتے ہیں :
"وإِذا دلَّت السُّنَّة على الوُضُوء من ألبان الإِبل، فإِن هذه الأجزاء التي لا تنفصل عن الحيوان من باب أَوْلَى. وعلى هذا يكون الصَّحيحُ أنّ أكل لحم الإِبل ناقضٌ للوُضُوء مطلقاً " (الشرح الممتع على زاد المستقنع ۔جلد 1 ص 302 )
“اونٹ کا گوشت کا اعصاب پر بہت زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے اور یہ انہیں مشتعل کرتا ہے۔ اسی بنا پر جدید میڈیکل سائنس گرم مزاج رکھنے والے افراد کو اونٹ کا گوشت زیادہ مقدار میں کھانے سے منع کرتی ہے۔ وضو کر لینے سے اعصاب کو سکون اور راحت ملتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی پاک ﷺ نے غصے کے وقت میں وضو کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ہمارے اعصاب پرسکون ہو جائیں۔”
[ الممتع ج۱ ص۳۰۸۔ تالیف۔ محمد بن صالح العثیمین ]
مفتی اعظم علامہ عبد العزيز بن باز رحمہ الله کا بھی یہی فتوی ہے ؛
فتاوی اسلامیہ ہی میں ان کا فتوی موجود ہے فرماتے ہیں
اونٹ کے گوشت کے شوربے یا اونٹ کے دودھ پینے سے وضوء باطل نہیں ہوتا بلکہ خاص طور پر گوشت کھانے سے باطل ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
✹توضؤوا من لحوم الإبل ولا تتوضؤوا من لحوم الغنم (جامع الترمذي، كتاب الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من لحوم الأبل، ح: ۸۱، وسنن أبي داود، كتاب الطهارة، باب الوضوء من لحوم الابل، ح: ۱۸)
اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کرو اور بکری کا گوشت کھانے سے وضوء نہ کرو۔“ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ!:
أنتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: نعم، قال: أنتوضأ من لحم الغنم؟ قال: إن شئت»
(صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء من لحوم الأبل، ح:۳۸۰)|
کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں“ اس نے عرض کیا کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضوء کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر چاہو تو کرلو یہ دونوں حدیثیں صحیح اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ / فتاوی اسلامیہ
الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اس کے بعد حقیقی وضو کرناہوگا ۔
حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک آدمی نے سوال کیا: آیا میں اونٹ کے گوشت سے وضو کروں ،آپ نے فرمایا :‘‘ہاں اونٹ کے گوشت سے وضو کرو۔’’
اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے،وہ گوشت جسم کے حصے کے کسی حصے یا عضو کا ہونا قض وضو ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی حلال جانور کا گوشت ناقض وضو نہیں ۔
[ صحیح مسلم ،الحیض :۳۶۰]
[ فتاویٰ اصحاب الحدیثج 2 ص87 ]
اسکے برعکس بکریوں کی فطرت میں شرارت نہیں ہے ۔ امام مسلم جابر بن سمرہؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
’’أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أأتوضأ من لحوم الغنم؟ قال: «إن شئت فتوضأ، وإن شئت فلا توضأ» قال أتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: «نعم فتوضأ من لحوم الإبل»‘‘ [صحیح مسلم]
’’کیا میں بکری کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر چاہے تو وضو کرلے اوراگر نہ چاہے تو نہ کر‘‘ اس نے عرض کیا ’’کیا میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’ہاں‘‘
اس حدیث کی شرح میں امام نوویؒ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہ ٹوٹنے کے بارے میں جمہور کا مسلک بیان کرنے کے بعد، فرماتے ہیں:
’’وذھب الیٰ انتقاض الوضوء بہ احمد بن حنبل و اسحاق بن راھویہ و یحییٰ بن یحییٰ و ابوبکر ابن المنذر و ابن خزیمۃ و اختارہ الحافظ ابوبکر البیہقی و حکیٰ عن اصحاب الحدیث مطلقا‘‘(شرح النووی )
’’اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کا مذھب امام احمدؒ بن حنبل، امام اسحاقؒ بن راہویہ، امام یحییٰؒ بن یحییٰ، امام ابوبکر ابن المنذر، امام ابن خزیمہؒ کا ہے ، حافظ ابوبکر بیہقیؒ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے اورانہوں نے تمام اہل حدیث کا علی الاطلاق یہی مسلک بیان کیا ہے۔‘‘
آگے چل کر امام نووی ان الفاظ میں اس مسلک کی تصویب کرتے ہیں "
" وهذا المذهب أقوى دليلا " یہی مذھب دلیل کے لحاظ سے قوی ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :​
( وأما من نقل عن الخلفاء الراشدين أو جمهور الصحابة خلاف هذه المسائل، وأنهم لم يكونوا يتوضئون من لحوم الإبل: فقد غلط عليهم، وإنما توهم ذلك لما نقل عنهم
“تو جس آدمی نے خلفائے راشدین یا جمہور صحابہ کرام سے اونٹ کے گوشت سے وضو نہ کرنا نقل کیا ہے ، اس نے ان کی طرف غلط بات منسوب کی ہے ” (القواعد النورانیۃ:۹)​
امام ابن حزمؒ اندلسی (م۴۵۶) لکھتے ہیں :​
(واکل لحوم الابل نیئۃ و مطبوخۃ أو مشویۃ وھو یدری أنہ لحم جمل أو ناقۃ فانہ ینقض الوضوء)​
اونٹ کا گوشت کھانا ، خواہ کچا ہو یا پکا یا بھونا ہوا ہو ، وضو توڑ دیتا ہے، بشرطیکہ کھانے والا جانتا ہو کہ یہ اونٹ یا اونٹنی کا گوشت ہے ۔ ( المحلی لابن حزم ۲۴۱/۱ )
٭ امام بیہقی (م۴۵۸) کی تبویب حسب ذیل ہے : باب التوضی من لحوم الابل.
اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان ( السنن الکبری للبیہقی ۱۵۹/۱ )
نیز مخالفین کے بودے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:​
وبمثل ھٰذا لا یترک ماثبت عن رسول اللہ ﷺ.​
“اس جیسے ( غیر معتبر دلائل) کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ سے ثابت شدہ حدیث کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔” ( السنن الکبری للبیہقی ۱۵۸/۱ ، ۱۵۹)
اونٹ کے گوشت کے شوربے یا اونٹ کے دودھ پینے سے وضوء باطل نہیں ہوتا :
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌
اونٹ کے گوشت کے شوربے یا اونٹ کے دودھ پینے سے وضوء باطل نہیں ہوتا بلکہ خاص طور پر گوشت کھانے سے باطل ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
توضؤوا من لحوم الإبل ولا تتوضؤوا من لحوم الغنم (جامع الترمذي، كتاب الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من لحوم الأبل، ح: ۸۱، وسنن أبي داود، كتاب الطهارة، باب الوضوء من لحوم الابل، ح: ۱۸)
اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کرو اور بکری کا گوشت کھانے سے وضوء نہ کرو۔“ ایک آوی نے عرض کیا یا رسول اللہ!:
أنتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: نعم، قال: أنتوضأ من لحم الغنم؟ قال: إن شئت»(صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء من لحوم الأبل، ح:۳۸۰)|
کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے سے وضوء کریں؟ آپ ﷺ ٹیم نے فرمایا ہاں“ اس نے عرض کیا کیا بکری کا گوشت کھانے سے وضوء کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر چاہو تو کرلو یہ دونوں حدیثیں صحیح اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ / فتاویٰ اسلامیہ
مزید تفصیل کے لیے الشیخ محمد صالح المنجد کا درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیے ۔

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مٙا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ  وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔  ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه‎

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search