قسم اٹھانے کے ساتھ استثناء(ان شاء اللہ) کفارے کو ساقط کر دیتا ہے
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
قسم
اٹھانے کے ساتھ استثناء(إِنْ شَاءَ اللّٰہُ ) کفارے کو ساقط کر دیتا ہے ┄┅════════════════════════┅┄
✍ تحریر :
مسزانصاری
جب انسان مستقبل میں کسی کام کے ارادے کے ساتھ قسم کھا لے کہ اللہ
کی قسم میں یہ کام کروں گا ، پھر اگر وہ اس کام کو قسم کے باوجود نا کر پائے تو اس
کا کفارہ ادا کرے ۔
اللہ سبحانہ وتعالى نے قسم كا كفارہ بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى نے قسم كا كفارہ بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ
اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ ؕ وَ احۡفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ
لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿اٙلمٙائِدٙہ/۸۹﴾
﴿ اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو كپڑا دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو ﴾المآئدۃ ( 89 ).
﴿ اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو كپڑا دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو ﴾المآئدۃ ( 89 ).
یعنی قسم کے کفارے میں
- یا تو دس مسكينوں كو كھانا دے جو وہ اپنے اہل و عيال كو كھلاتا ہے ۔
- یا دس مسكينوں كو لباس ديے ۔
- اور یا پھر ايك مومن غلام آزاد كرے ۔
اور جو شخص ان تينوں اشياء ميں سے كوئى ایک بھی نا کر پائے تو وہ تين يوم كے مسلسل روزے ركھے.
- یا تو دس مسكينوں كو كھانا دے جو وہ اپنے اہل و عيال كو كھلاتا ہے ۔
- یا دس مسكينوں كو لباس ديے ۔
- اور یا پھر ايك مومن غلام آزاد كرے ۔
اور جو شخص ان تينوں اشياء ميں سے كوئى ایک بھی نا کر پائے تو وہ تين يوم كے مسلسل روزے ركھے.
تاہم اگر انسان کسی کام کے ارادے کے لیے قسم کے ساتھ استثناء کی
صورت بیان کر دے یعنی کہے اللہ کی قسم ان شاءاللہ میں فلاں کام کروں گا ، تب وہ
اپنی قسم کو پوری نا کر پائے تو اس پر سے استثناء ( ان شاء الله ) کہنے کے باعث
قسم کا کفارہ ساقط ہو جائے گا ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
من حلف علی یمین، فقال : إن شاء اللّٰہ فقد استثنی .
''ان شاء اللہ کہہ کر اٹھائی جانے والی قسم پر کفارہ نہیں ہوتا۔''
مسندالإمام أحمد/ 2/10/سنن أبي داود/3261/سنن النسائي:3860
سنن الترمذي :1531 /سنن ابن ماجۃ : 2105 / وسندہ، صحیحٌ
- امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا
- امام ابن الجارود (٩٢٨)، امام ابو عوانہ (٥٩٩١)اور امام ابن حبان رحمہم اللہ (٤٣٣٩)نے ''صحیح''کہا ہے۔
من حلف علی یمین، فقال : إن شاء اللّٰہ فقد استثنی .
''ان شاء اللہ کہہ کر اٹھائی جانے والی قسم پر کفارہ نہیں ہوتا۔''
مسندالإمام أحمد/ 2/10/سنن أبي داود/3261/سنن النسائي:3860
سنن الترمذي :1531 /سنن ابن ماجۃ : 2105 / وسندہ، صحیحٌ
- امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا
- امام ابن الجارود (٩٢٨)، امام ابو عوانہ (٥٩٩١)اور امام ابن حبان رحمہم اللہ (٤٣٣٩)نے ''صحیح''کہا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
''اللہ کےنبی سیدناسلیمان بن داود علیھما السلام نے قسم اٹھائی کہ آج رات ستربیویوں کے پاس جاوں گا ،سبھی بیٹا جنم دیں گی اور وہ سب بیٹے اللہ کے رستے میں قتال کریں گے،ساتھی یا فرشتے نے کہا : ان شاء اللہ کہہ لیجئے، سیدنا سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہنا بھول گئے، تو ایک ہی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ بھی معذور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی اور ان شاء اللہ سے ان کی حاجت برآوری ہو جاتی۔''
(صحیح مسلم : 1654)
''اللہ کےنبی سیدناسلیمان بن داود علیھما السلام نے قسم اٹھائی کہ آج رات ستربیویوں کے پاس جاوں گا ،سبھی بیٹا جنم دیں گی اور وہ سب بیٹے اللہ کے رستے میں قتال کریں گے،ساتھی یا فرشتے نے کہا : ان شاء اللہ کہہ لیجئے، سیدنا سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہنا بھول گئے، تو ایک ہی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ بھی معذور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی اور ان شاء اللہ سے ان کی حاجت برآوری ہو جاتی۔''
(صحیح مسلم : 1654)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں؛
مَنْ قَالَ : وَاللّٰہ! ثُمَّ قَالَ : إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، ثُمَّ لَمْ یَفْعَلِ الَّذِي حَلَفَ عَلَیْہِ، لَمْ یَحْنَثْ .
''جس نے یو ں قسم اٹھائی کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ میں یہ کام کروں گا، پھر وہ کام نہیں کیا، کفارہ نہیں ہو گا۔''
موطا الإمام مالک : 2/477، (وسندہ، صحیحٌ)
- نیز فرماتے ہیں؛
کُلُّ اسْتِثْنَاءٍ مَوْصُولٌ، فَلَا حَنَثَ عَلٰی صَاحِبِہٖ،وَإِنْکَانَغَیْرَمَوْصُولٍ،فَہُوَحَانِثٌ .
''قسم کےساتھ ہی انشاءاللہ کہہ دے،توکفارہ نہیں،لیکن قسم کےساتھ ان شاء اللہ نہ کہے، تو کفارہ ہو گا۔''
(السنن الکبری للبیہقي :10/47، وسندہ، حسنٌ)
مَنْ قَالَ : وَاللّٰہ! ثُمَّ قَالَ : إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، ثُمَّ لَمْ یَفْعَلِ الَّذِي حَلَفَ عَلَیْہِ، لَمْ یَحْنَثْ .
''جس نے یو ں قسم اٹھائی کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ میں یہ کام کروں گا، پھر وہ کام نہیں کیا، کفارہ نہیں ہو گا۔''
موطا الإمام مالک : 2/477، (وسندہ، صحیحٌ)
- نیز فرماتے ہیں؛
کُلُّ اسْتِثْنَاءٍ مَوْصُولٌ، فَلَا حَنَثَ عَلٰی صَاحِبِہٖ،وَإِنْکَانَغَیْرَمَوْصُولٍ،فَہُوَحَانِثٌ .
''قسم کےساتھ ہی انشاءاللہ کہہ دے،توکفارہ نہیں،لیکن قسم کےساتھ ان شاء اللہ نہ کہے، تو کفارہ ہو گا۔''
(السنن الکبری للبیہقي :10/47، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی اس حدیث کی وضاحت میں
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں
" اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت (ان شاء الله) کہہ لے پھر وہ قسم کو پورا نہ کر سکے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہ ہو گا، مثلا وہ یوں کہے: "اللہ کی قسم! میں ان شاءاللہ ایسا ضرور کروں گا" پھر وہ کام نہ کرے یا یوں کہے: اللہ کی قسم! میں ان شاءاللہ ایسا نہیں کروں گا۔ پھر وہ اسے کر گزرے تو اس طرح اس پر کفارہ قسم واجب نہیں ہو گا، لہذا قسم اٹھانے والے کو قسم اٹھاتے وقت "ان شاءاللہ" کہہ لینا چاہیے تاکہ اگر کسی وجہ سے قسم پوری نہ کر سکے تو کفارہ ادا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ قسم اٹھانے کے ساتھ ان شاءاللہ کہنے کا ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس طرح قسم پوری کرنے میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ إِنَّ اللَّهَ بـٰلِغُ أَمرِهِ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىءٍ قَدرًا ﴿٣﴾... سورة الطلاق
"اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام بہرحال پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔"
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ/فتاویٰ برائے خواتین/قسم کا کفارہ/صفحہ:251
" اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت (ان شاء الله) کہہ لے پھر وہ قسم کو پورا نہ کر سکے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہ ہو گا، مثلا وہ یوں کہے: "اللہ کی قسم! میں ان شاءاللہ ایسا ضرور کروں گا" پھر وہ کام نہ کرے یا یوں کہے: اللہ کی قسم! میں ان شاءاللہ ایسا نہیں کروں گا۔ پھر وہ اسے کر گزرے تو اس طرح اس پر کفارہ قسم واجب نہیں ہو گا، لہذا قسم اٹھانے والے کو قسم اٹھاتے وقت "ان شاءاللہ" کہہ لینا چاہیے تاکہ اگر کسی وجہ سے قسم پوری نہ کر سکے تو کفارہ ادا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ قسم اٹھانے کے ساتھ ان شاءاللہ کہنے کا ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس طرح قسم پوری کرنے میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ إِنَّ اللَّهَ بـٰلِغُ أَمرِهِ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىءٍ قَدرًا ﴿٣﴾... سورة الطلاق
"اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام بہرحال پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔"
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ/فتاویٰ برائے خواتین/قسم کا کفارہ/صفحہ:251
ابی داود کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَمُسَدَّدٌ، وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى، فَإِنْ شَاءَ رَجَعَ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ غَيْرَ حِنْثٍ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا تو وہ چاہے قسم کو پورا کرے چاہے نہ پورا کرے وہ حانث ( قسم توڑنے والا ) نہ ہو گا ۔
سنن أبي داود/قسم میں استثناء یعنی ان شاءاللہ کہدینے کا بیان/رقم الحدیث:3262( سندہ،صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَمُسَدَّدٌ، وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى، فَإِنْ شَاءَ رَجَعَ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ غَيْرَ حِنْثٍ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا تو وہ چاہے قسم کو پورا کرے چاہے نہ پورا کرے وہ حانث ( قسم توڑنے والا ) نہ ہو گا ۔
سنن أبي داود/قسم میں استثناء یعنی ان شاءاللہ کہدینے کا بیان/رقم الحدیث:3262( سندہ،صحیح)
↰اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں؛
- اس حدیث پر اکثر اہل علم اصحابِ رسولﷺ وغیرہ کا عمل ہے کہ اگر ان شاء اللہ کہہ کر قسم اٹھائی جائے تو اس قسم پر کفارہ نہیں ہو گا ۔
- یہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، اوزاعی رحمہ اللہ ، مالک بن انس رحمہ اللہ ، عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ اور اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔''
دیکھیے :سنن الترمذي / تحت الحدیث : 1531
- اس حدیث پر اکثر اہل علم اصحابِ رسولﷺ وغیرہ کا عمل ہے کہ اگر ان شاء اللہ کہہ کر قسم اٹھائی جائے تو اس قسم پر کفارہ نہیں ہو گا ۔
- یہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، اوزاعی رحمہ اللہ ، مالک بن انس رحمہ اللہ ، عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ اور اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔''
دیکھیے :سنن الترمذي / تحت الحدیث : 1531
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
''علماءکااجماع ہےکہ جوشخص یوں قسم اٹھائےکہ اللہ کی قسم !انشاءاللہ کل میں قرضہ یادیت اداکئےدوں گا،غصب شدہ چیزلوٹادوں گا،ظہریاعصرپڑھوں گایارمضان کےروزےرکھوں گاوغیرہ،اگروہ اس قسم کو پورا نہیں کر سکا تو کفارہ نہیں ہو گا کیوں کہ اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا تھا کہ اللہ چاہے گا تو کروں گا اور اللہ نے نہیں چاہا کہ وہ ایسا کرے۔''
دیکھیے : مجموعۃ الرسائل والمسائل :5/151
''علماءکااجماع ہےکہ جوشخص یوں قسم اٹھائےکہ اللہ کی قسم !انشاءاللہ کل میں قرضہ یادیت اداکئےدوں گا،غصب شدہ چیزلوٹادوں گا،ظہریاعصرپڑھوں گایارمضان کےروزےرکھوں گاوغیرہ،اگروہ اس قسم کو پورا نہیں کر سکا تو کفارہ نہیں ہو گا کیوں کہ اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا تھا کہ اللہ چاہے گا تو کروں گا اور اللہ نے نہیں چاہا کہ وہ ایسا کرے۔''
دیکھیے : مجموعۃ الرسائل والمسائل :5/151
علامہ امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''امت کا اجماع ہے کہ ان شاء اللہ کہہ کر کسی بھی کام پر قسم اٹھا لے، تو اختیار ہے کہ چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے،اس پر کفارہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اگر اللہ چاہتا تووہ کام ہو جاتا،فرمان باری تعالیٰ ہے :
''امت کا اجماع ہے کہ ان شاء اللہ کہہ کر کسی بھی کام پر قسم اٹھا لے، تو اختیار ہے کہ چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے،اس پر کفارہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اگر اللہ چاہتا تووہ کام ہو جاتا،فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ ﴿۲۴﴾
'ان شاء اللہ کہے بغیر کبھی نہ کہیں کہ میں کل یہ کام کر وں گا۔''( الکہف ٢٣/٢۴)
دیکھیے : الفِصَل في الملل والأہواء والنحل / 3/86
'ان شاء اللہ کہے بغیر کبھی نہ کہیں کہ میں کل یہ کام کر وں گا۔''( الکہف ٢٣/٢۴)
دیکھیے : الفِصَل في الملل والأہواء والنحل / 3/86
ابن حزم رحمہ اللہ اس کے بارے میں مزید ایک جگہ لکھتے ہیں؛
''کسی کام پر قسم اٹھانے کے بعد اگر کہے کہ میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں ان شاء اللہ میں کام کروں گا،یا ایسے کہے کہ اگر اللہ نے چاہا، تو یہ کام کروں گا،یا کہے اگر اللہ نے نہ چاہا تو نہیں کروں گا۔ ایسے الفاظ کا استعمال بھی درست ہے کہ اگر میں چاہوں گا کر دوں گا نہ چاہا تو نہیں کروں گا،یا یوں کہے کہ کام کروں گا اگر اللہ نے میرا ارادہ نہ بدل دیا یا مجھے کوئی اور کام نہ کرنا پڑا تو، اسی طرح قسم کو کسی ذات کے ساتھ معلق کردینا کہ اگر فلاں نے چاہا تو کروں گا ورنہ نہیں تو یہ سبھی صورتیں قسم کو بے اثر کر دیتی ہیں،اب اگر یہ قسم توڑ بھی دے تو اس پر کفارہ نہیں ہو گا۔''
دیکھیے : المُحلّٰی بالآثار :6/301
''کسی کام پر قسم اٹھانے کے بعد اگر کہے کہ میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں ان شاء اللہ میں کام کروں گا،یا ایسے کہے کہ اگر اللہ نے چاہا، تو یہ کام کروں گا،یا کہے اگر اللہ نے نہ چاہا تو نہیں کروں گا۔ ایسے الفاظ کا استعمال بھی درست ہے کہ اگر میں چاہوں گا کر دوں گا نہ چاہا تو نہیں کروں گا،یا یوں کہے کہ کام کروں گا اگر اللہ نے میرا ارادہ نہ بدل دیا یا مجھے کوئی اور کام نہ کرنا پڑا تو، اسی طرح قسم کو کسی ذات کے ساتھ معلق کردینا کہ اگر فلاں نے چاہا تو کروں گا ورنہ نہیں تو یہ سبھی صورتیں قسم کو بے اثر کر دیتی ہیں،اب اگر یہ قسم توڑ بھی دے تو اس پر کفارہ نہیں ہو گا۔''
دیکھیے : المُحلّٰی بالآثار :6/301
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''اس بات پر اجماع ہے کہ اگر ان شا ء اللہ کلام کے فورا بعد کہا جائے، اس طرح کہ کلام اور استثناء میں واضح انقطاع نہ ہو، تو یہ طریقہ جائز ہے۔''
دیکھیے : التَّمہید لما في المُؤَطّأ من المعاني والأسانید / 14/374
''اس بات پر اجماع ہے کہ اگر ان شا ء اللہ کلام کے فورا بعد کہا جائے، اس طرح کہ کلام اور استثناء میں واضح انقطاع نہ ہو، تو یہ طریقہ جائز ہے۔''
دیکھیے : التَّمہید لما في المُؤَطّأ من المعاني والأسانید / 14/374
استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) کہنے کی شرائط
١/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) کہنے کی نیت یہ ہو کہ یہ کام اللہ کی مشیت میں ہوا تو ہوگا ورنہ نہیں ۔
٢/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) کہنے کا مقام اسی وقت ہے جب قسم اٹھائی جائے ، یعنی جب قسم اٹھائے تو ان شاءاللہ بھی اسی وقت کہے ۔
٣/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) پوشیدہ نا ہو بلکہ بلکہ زبان سے ادا ہو ، یعنی محض دل میں ان شاءاللہ سوچ لینا کافی نہیں ہوگا ۔
١/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) کہنے کی نیت یہ ہو کہ یہ کام اللہ کی مشیت میں ہوا تو ہوگا ورنہ نہیں ۔
٢/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) کہنے کا مقام اسی وقت ہے جب قسم اٹھائی جائے ، یعنی جب قسم اٹھائے تو ان شاءاللہ بھی اسی وقت کہے ۔
٣/ استثناء ( اِن شٙاءاٙللہ ) پوشیدہ نا ہو بلکہ بلکہ زبان سے ادا ہو ، یعنی محض دل میں ان شاءاللہ سوچ لینا کافی نہیں ہوگا ۔
الشیخ غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کہتے ہیں
1 قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مقصد
یہ ہو کہ میں اللہ کی مشیت پر چھوڑ رہاں ہوں ،قسم فقط تبرک کے لئے نہ ہو۔
2 قسم جس وقت اٹھائی جائے ،ان شاء اللہ بھی اسی وقت کہا جائے،بعد میں کہنے کا فائدہ نہیں۔
3 صرف دل میں ان شاء اللہ کہنا کافی نہیں، بل کہ زبان سے بھی کہنا ہو گا۔
فائدہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے؛
إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ عَلٰی یَمِینٍ فَلَہ، أَنْ یَسْتَثْنِیَ وَلَوْ إِلٰی سَنَۃٍ .
''آپ قسم اٹھالیں تو سال بعد بھی ان شاء اللہ کہہ کر استثناء کر دینا چاہئے۔''
(المستدرک علی الصَّحیحین للحاکم : ح، 7833)
سند ضعیف ہے،اعمش ''مدلس ''ہیں سماع کی تصریح نہیں کی۔
2 قسم جس وقت اٹھائی جائے ،ان شاء اللہ بھی اسی وقت کہا جائے،بعد میں کہنے کا فائدہ نہیں۔
3 صرف دل میں ان شاء اللہ کہنا کافی نہیں، بل کہ زبان سے بھی کہنا ہو گا۔
فائدہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے؛
إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ عَلٰی یَمِینٍ فَلَہ، أَنْ یَسْتَثْنِیَ وَلَوْ إِلٰی سَنَۃٍ .
''آپ قسم اٹھالیں تو سال بعد بھی ان شاء اللہ کہہ کر استثناء کر دینا چاہئے۔''
(المستدرک علی الصَّحیحین للحاکم : ح، 7833)
سند ضعیف ہے،اعمش ''مدلس ''ہیں سماع کی تصریح نہیں کی۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا
تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم
وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment