Friday, July 24, 2020

Fazail Youm-E-Arfa


فضائل یوم عرفہ

یوم عرفہ روزہ اپنے ملک کی قمری تاریخ پر

یوم عرفہ جمعہ المبارک کو ہو تو جمعرات کو روزے کا حکم


بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
 تحریر : مسزانصاری
عرفہ کا دن اپنی کئی فضیلتوں کے اعتبار سے افضل ترین دن ہے ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ ".
سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد بھی (اسے نہیں پا سکتا) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور جان و مال دونوں ہی نہیں لوٹے “۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العیدین ۱۱ (۹۶۹)، سنن الترمذی/الصوم ۵۲ (۷۵۷)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۹ (۱۷۲۷)، (تحفة الأشراف: ۵۶۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۳۳۸، ۳۴۶)، سنن الدارمی/الصیام ۵۲ (۱۸۱۴) (صحیح)
 عرفہ کا دن وقوفِ عرفات والوں کے لیے یوم عید ہے:
۔
┄┅════════════════════════┅┄
نبی کریمﷺ نے فرمایا :
یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
- اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے ۔
 اس دن وقوفِ عرفات کرنے والوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور انہیں آگ سے آزادی ملتی ہے :
۔
┄┅════════════════════════┅┄
صحیح مسلم کی حدیث ہے ، سیدہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :
نبی کریمﷺ نے فرمایا :
اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا ، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہو
ۓ فرماتا ہے میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں )
مسند احمد علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
 عرفہ کا دن اسلام کی تکمیل کا دن ہے :
۔
┄┅════════════════════════┅┄
صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَتْ الْيَهُودُ لِعُمَرَ : إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ نَزَلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَاهَا عِيدًا ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ ، وَأَيْنَ أُنْزِلَتْ ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ ، وَإِنَّا وَاللَّهِ بِعَرَفَةَ ، قَالَ سُفْيَانُ : وَأَشُكُّ كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمْ لَا ، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ سورة المائدة آية 3
صحیح البخاری /باب : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کی تفسیر / رقم الحدیث :
۴٦٠٦
ایک یہودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یہودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟
اس نے کہا :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسل
ـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔
توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے ، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔
 اس دن اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم سے میثاق لیا :
۔
┄┅════════════════════════┅┄
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہو
ۓ فرمایا :
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خ
ـبر تھے ، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ ، توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( 172- 173 )
- مسند احمد ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
 اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے :
۔
┄┅════════════════════════┅┄
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا کہ آپ کیونکر رکھتے ہیں روزہ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِہم» ”راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔“ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھم گیا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔“ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی طاقت کس کو ہے۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا، پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو۔“ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے۔
صحیح المسلم / الصیام / رقم الحدیث :
٢٧۴٦
واضح ہو کہ عرفہ کا روزہ دنیا بھر میں اسی دن رکھا جائے جس دن میدان عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں ۔ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے کہ یوم عرفہ (جو 9 ذی الحجہ کو ہوتا ہے) کا روزہ دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے مقامی قمری تاریخ (9 ذی الحجہ) کے مطابق رکھیں یا اُسی دن رکھیں، جس دن میدانِ عرفات میں حاجی وقوف کرتے ہیں، خواہ مقامی قمری تاریخ آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
درست یہی ہے کہ یومِ عرفہ میں اور دوسرے تمام شرعی احکامات میں ہر علاقہ کی اپنی رؤیت معتبر ہوگی۔
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
چاندكا مطلع مختلف ہونے كي صورت ميں جب يوم عرفہ مختلف ہو جائے تو كيا ہم اپنےعلاقے كي رؤيت كےمطابق روزہ ركھيں يا كہ حرمين كي رؤيت كا اعتبار كيا جائےگا؟
شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:
يہ اہل علم كےاختلاف پر مبني ہے كہ: آياساري دنيا ميں چاندايك ہي ہے كہ مطلع مختلف ہونے كي بنا پر چاند بھي مختلف ہے؟
صحيح يہي ہے كہ: مطلع مختلف ہونےكي بنا پر چاند بھي مختلف ہيں، مثلا جب مكہ مكرمہ ميں چاند ديكھا گيا تو اس كےمطابق يہاں نوتاريخ ہو گي، اور كسي دوسرے ملك ميں مكہ سے ايك دن قبل چاند نظر آيا تو ان كےہاں دسواں دن يوم عرفہ ہوگا، لھذا ان كےليے اس دن روزہ ركھنا جائز نہيں كيونكہ يہ عيد كا دن ہے ، اور اسي طرح فرض كريں كہ رؤيت مكہ سے ليٹ ہو اور اور مكہ مكرمہ ميں نوتاريخ ہو تو ان كےہاں چاند كي آٹھ تاريخ ہوگي تو وہ اپنے ہاں نو تاريخ كےمطابق روزہ ركھيں گے جو كہ مكہ كےحساب سے دس تاريخ بنےگي،
راجح يہي ہے كہ يہ اہل معرفہ كي طرف لوٹتا ہے، اگر تو دوملكوں كے مطلع جات ايك ہي ہوں تو وہ ايك ملك كي طرح ہونگے، لھذا جب ايك ملك ميں چاند ديكھا گيا تو دوسرے كا بھي حكم ثابت ہوجائےگا، ليكن اگر مطلع مختلف ہے تو ہر ايك ملك كا حكم اس كےاپنےمطلع كےمطابق ہوگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نےيہي اختيار كيا ہے اور كتاب وسنت سےبھي يہي ظاہرہوتا ہے اور قياس بھي اسي كا متقاضي ہے.
ديكھيے : مجموع الفتاوي ( 19 )
واضح ہو کہ یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں ، کیونکہ نبی کریمﷺ نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
میمونہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرفہ کے دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے روزہ میں شک کیا تو انہوں (میمونہ رضی اللہ عنہما) نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس دودھ بھیجا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پیالہ سے دودھ پیا ۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم (میدانِ عرفات کے) موقف میں کھڑے تھے۔ اور لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے۔ (اس لیے حاجی صاحبان عرفات میں روزہ نہ رکھیں۔)
دیکھیے : مختصر صحیح مسلم للألبانی
؍ حدیث نمبر: ۵۷۸ ، ابو داؤد ، نسائی
 وقوفِ عرفہ جمعةالمبارک کو ہے تو جمعرات کا روزہ لازم ہے ؟
۔
┄┅════════════════════════┅┄
امسال پاک سرزمین " پاکستان " کے لوگ عرفہ کا دن جمعةالمبارک کے بابرکت دن منائیں گے ۔ اور جمعةالمبارکہ کے دن کا اکیلا روزہ روکھنے کی ممانعت وارد ہے ۔ چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ
ترجمہ: کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو.
(صحیح بخاری: 1985)
لہٰذا اس صریح نص میں ممانعت پر لوگوں میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نو ذوالحجہ یوم وقوف کو لوگ جمعةالمبارکہ کے روزے کے ساتھ جمعرات کا روزہ بھی لازمی رکھیں ؟؟
اس بارے میں عرض ہے کہ اگر وقوفِ عرفہ جمعہ کے دن ہو تو اس دن اکیلے جمعةالمبارکہ کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یومِ عرفہ کے روزے کی جس میں یہ استثناء نہیں پایا جاتا کہ اگر وقوفِ عرفہ جمعةالمبارکہ میں آئے تو اکیلا اس دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے ۔ نیز احادیث میں اکیلے جمعةالمبارکہ کے دن کو خاص کر کے روزے رکھنے کی ممانعت ہے جبکہ یوم عرفہ کے دن روزہ جمعةالمبارکہ کی تعظیم میں نہیں رکھا جاتا بلکہ یہ روزہ عرفہ کے دن کی فضیلت میں رکھا جاتا ہے ۔ لہٰذا حدیث کی ممانعت جمعةالمبارک میں روزہ رکھنے والے پر محمول ہوگی ، تاہم عرفہ کے دن کے روزے کی شریعت نے ترغیب اور تعلیم دی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ تن تنہا جمعہ کا روزہ رکھا جائے ۔ سلف صالحین سے بھی یہ ثابت نہیں کہ اگر جمعہ اور عرفہ ایک ہی دن جمع ہو جائیں تو ایسی صورت میں روزہ ایک دن پہلے یعنی جمعرات کے ساتھ مشروط ہوگا ۔
حافظ ابن حجر، ابن قدامہ ،شیخ ابن باز اور ابن عثیمین رحمہم اللہ وغیرہ اسی مئوقف کی طرف گئے ہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں
" تواس نہی سےیہ چیزمستثنی ہےکہ اس سے پہلےیابعدمیں ایک روزہ رکھ لیاجائے یا پھران روزوں کےدرمیان آجائےجوکہ عادتارکھےجاتےہوں ، مثلاجوکہ ایام بیض کےروزے رکھتاہےیاپھرکسی کی معین دن روزہ رکھنےکی عادت ہومثلایوم عرفہ تویہ دن جمعہ کے موافق ہوگیااوراسی صرح اس کےلئے بھی جائز ہے جس نےیہ نذ رمانی کہ جس دن زیدآئے گا روزہ رکھوں گاتووہ جمعہ کےدن آیایایہ کہ جس دن فلاں شخص شفایاب ہوگا توروزہ رکھوں گاتویہ جمعہ کادن ہو ۔ "
دیکھیے : کتاب : فتح الباری لابن حجررحمہ اللہ تعالی
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی جمعہ کے روزے کی استثناء کے بارے میں کہتےہیں کہ :
" اکیلاجمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہےالایہ کہ اگرکوئی روزہ رکھتاہو تویہ اس کےموافق آجائےمثلا : ایک شخص ایک دن روزہ رکھتا اورایک دن افطارکرتاہےتواس کاروزے والادن جمعہ کےموافق آجائے ۔
اوراسی طرح اگرکسی کی یہ عادت ہوکہ وہ ہرمہینےکے پہلےیاآخری دن اوریاپھر مہینےکےدرمیان میں روزہ رکھتاہو ۔
دیکھیے : مغنی ابن قدامہ جلد :
٣/صفحہ : ۵٣
اور فتاوی اللجنۃ الدائمۃ کا فتوی ہے کہ :
" جس کےذمہ رمضان کےروزوں کی قضاءہو، تومسلمان کےلئےجائز ہےکہ وہ جمعہ کےدن روزہ رکھےاگرچہ وہ اکیلاہی کیوں نہ ہو "
دیکھیے : فتوی اللجنۃ الدائمۃ جلد :
١٠ /صفحہ : ٣۴٧
لہٰذا اگر یوم عاشوراء یایوم عرفہ جمعہ کو آجائے تو اس کا اکیلے روزہ یعنی صرف جمعةالمبارک کا روزہ رکھاجائے گا کیونکہ اس کی نیت عاشوراء یا عرفہ کی ہے نا کہ جمعةالمبارکة کے روزے کی ۔

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه



Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search