السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
یہ دعا 【دعاءِ مستضعفین】کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ دعا آپ نبی علیہ السلام نے طائف میں فرمائی تھی ۔ یہ دعا الشیخ مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں موجود ہے جس کا مکمل حوالہ اختتام پر مذکور کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کو درج ذیل لنک پر ڈاونلوڈ کیا جاسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوال ۱۰ نبوت (اواخر مئی یا اوائل جون ۶۱۹ ء ) میں نبیﷺ طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکہ سے ایک سو تیس کلو میٹر سے زیادہ دور ہے۔ آپﷺ نے یہ مسافت آتے جاتے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپﷺ کے ہمراہ آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے۔ عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ، ان تینوں کے والد کا نام عمرو بن عُمیر ثَقَفی تھا۔آپﷺ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔【 1】دوسرے نے کہا : کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔ اگرتم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطر ناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہ جواب سن کر آپﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ، اور صرف اتنا فرمایا : تم لوگوں نے جوکچھ کیا کیا ، بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا۔
رسول اللہﷺ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔اس دوران آپﷺ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے ، اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی چلنے لگے۔ جس سے آپﷺ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہوگئے۔ ادھر حضرت زیدؓ بن حارثہ ڈھال بن کرچلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپ کو عتبہ اور شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ یہ باغ طائف
سے تین میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب آپﷺ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی اور آپﷺ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کے بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپﷺ کس قدر دل فگا رتھے اور آپﷺ کے احساسات پر حزن والم اور غم وافسوس کا کس قدر غلبہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :
( اللّٰہم إلیک أشکو ضعف قوتی وقلۃ حیلتی وہوانی علی الناس یا أرحم الراحمین أنت رب المستضعفین وأنت ربی ٗ إلی من تکلنی؟ إلی بعید یتجہمني ؟ أم إلی عدو ملکتہ أمری۔ إن لم یکن بک علی غضب فلا أبالی ٗ ولکن عافیتک ہی أوسع لی ٗ أعوذبنور وجہک الذی أشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ أمر الدنیا والآخرۃ من ان تنزل بی غضبک أو یحل علی سخطک ٗ لک العتبی حتی ترضی ٗ ولا حول ولا قوۃ إلا بک ۔)
''بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین۔ تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے جومیرے ساتھ تندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیر ے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پردنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔''
( اللّٰہم إلیک أشکو ضعف قوتی وقلۃ حیلتی وہوانی علی الناس یا أرحم الراحمین أنت رب المستضعفین وأنت ربی ٗ إلی من تکلنی؟ إلی بعید یتجہمني ؟ أم إلی عدو ملکتہ أمری۔ إن لم یکن بک علی غضب فلا أبالی ٗ ولکن عافیتک ہی أوسع لی ٗ أعوذبنور وجہک الذی أشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ أمر الدنیا والآخرۃ من ان تنزل بی غضبک أو یحل علی سخطک ٗ لک العتبی حتی ترضی ٗ ولا حول ولا قوۃ إلا بک ۔)
ترجمہ : ''بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین۔ تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے جومیرے ساتھ تندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیر ے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پردنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
【1】یہ اُردو کے اس محاوے سے ملتا جلتا ہوا ہے کہ ''اگر تم پیغمبر ہو تو اللہ مجھے غارت کرے۔'' مقصود اس یقین کا اظہار ہے کہ تمہارا پیغمبر ہونا ناممکن ہے جیسے کعبے کے پردے پر دست درازی کرنا ناممکن ہے۔
【الرحیق المختوم ( تالیف از : الشيخ صفي الرحمن المباركپوري) / بیرون مکہ دعوتِ اسلام / رسول اللہﷺ طائف میں / صفحہ : ١٨٠】
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
 
 
                           
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Post a Comment