Tuesday, January 5, 2021


السلام علیکم و رحمۃ اللہ
پیاری بہن.... مقتدی اگر کسی وجہ سے امام سے خوش نا ہوں یا اس کی امامت سے راضی نا ہوں تو ایسی صورت میں امام مسجد کے لیے کیا حکم ہے..... ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍تحریر : مسزانصاری
منصبِ امامت ایک اہم اور معتبر فریضہ ہے جس کا مستحق سب سے زیادہ وہ شخص ہے جو قرآن و حدیث کا زیادہ فہم رکھتا ہو ، ان پر عمل کرنے والا، متقی پرہیزگار، خوش خلق، شریف اور زیادہ عمر والا ہو۔
رسول اللہﷺنے فرمایا:
اجعلوائمتکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بین کم وبین ربکم
یعنی اپنے بہترین آدمیوں کو امام بنایا کرو کیوں کہ وہ تمہارے اور خدا کے درمیان وکیل اور تمہارے نمائندے ہوتے ہیں۔ (دارقطنی)
ان سرکم ان تقبل صلٰوتکم فلیومکم خیارکم۔ (طبرانی)
یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہو تو بہترین (پرہیزگار) آدمیوں کو امام بنایا کرو۔
بقول آپ کے ، اگر مقتدی امام کو نا پسند کرتے ہیں تو اس کا سبب جاننا ضروری ہے ۔ اگر سبب ذاتی دشمنی ہے تو بحیثیت ایک مسلمان کے دلوں کی کدورت اور باہمی کینہ اور بغض کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کیا جائے ۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ...﴿١٠﴾... سورة الحجرات
‘‘مومن توآپس میں بھائی بھائی ہیں۔’’
امام کی بات سنی جائے ، اپنی بات سنائی جائے ، یاد رکھیے دلوں کو کھول دینے سے رنجشوں کا غبار ایک ہی بار ماحول کو دھندلا کرتا ہے لیکن پھر دلوں کو اس طرح شفاف کر دیتا ہے جیسے بارش کے بعد شفاف فضا ۔ لیکن دلوں میں باتیں رکھ کر زبان کو قفل لگادینا شیطان کو باہمی بغض و کینہ میں اضافہ کرنے کی دعوت ہوتی ہے ۔ سو مقتدی امام کے ساتھ ایک نشست ترتیب دیں اور مسئلہ حل کریں ۔
اور اگر امام فاسق اور ناقص الایمان ہے ، دینی کوتاہی پر ہے ، اسکی دینی خرابی امامت کے رتبہ کے منافی ہے تب بھی پہلے اصلاح کا راستہ اپنایا جائے ، امام کی تصحیح کی جائے ، اسے دلائل شریعہ سے احسن اسلوب میں سمجھایا جائے کہ آپ سے یہ دینی کوتاہی سرزد ہورہی ہے اور اس کوتاہی کی یہ شرعئی وعید ہے ، امام کو صحیح راستے کی طرف رغبت دلائیے ، دینی راہ سے بھرپور کوشش کیجیے ۔ اگر امام حق بات ماننے سے انکار کر دے اور اپنی روش پر قائم رہے تو انتظامیہ دوسرے امام کا بندوبست کرے
اور اگر کذب بیانی ، وعدہ خلافی کرنا، الزام تراشی، غیبت،بہتان ، شرانگیزی، مسجد کے پیسے کی چوری ، سود کھانا اور رشوت وغیرہ جیسے کبائر اور نقائص اس شخص میں پائے جاتے ہیں تو یہ صاحب امامت جیسے جلیل القدر اور مہتمم بالشان منصب پر فائز رہنے کے ہرگز اہل نہیں ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (صحیح بخاری باب علامة النفاق ج۱ص۱۰ ومشکوة عن ابی ھریرة ص۱۷)
حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص میں مندرجہ ذیل چار ناپاک خصلتیں ہوں گی وہ خالص عملی منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی اور وہ یہ ہیں (۱) جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کا ارتکاب کرے (۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳) وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (۴) جب جھگڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے وفی روایۃ عنہ اذا وعد اخلف الجامع الصحیح ج۱ص۱۰ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے جب تک وہ ان کبائر سے توبہ نہ کرے گا وہ منافق عملی، یعنی پرلے درجے کا فاسق آدمی ہوگا اور فاسق امامت کے لائق نہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

ALQURAN O HADITHSWITH MRS. ANSARI

اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔

ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

 

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search