بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
حضرت عمر فاروقؓ کے ایمان لانے کے بارے میں شیخ جرجیس انصاری جس واقعہ کو لہک لہک کر بیان فرما رہے ہیں میری نظر سے یہ واقعہ نھیں گزرا ۔ مجھے جہاں تک علم ہے اور جیسا کہ موٴرخین نے لکھا ھے حضرت عمرؓ الخطاب رسول اللہ ﷺ کی دعاء کے نتیجہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے،چنانچہ امام ترمذی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَ لّٰھُمَّ اَعِزَّ الاِسلاَمِ بِاَحَبِّ الَّجُلَینِ اِلَیکَ بعمر بن الخطاب اَو بِاَبِی جہل بن ہشام۔
ترجمہ: اے اللہ! عمر بن الخطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اسکے ذریعے سے اسلام کو قوّت پہنچا۔
اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے
اور تاریخ الخلفاء سیوطی میں صرف حضرت عمرفاروقؓ کا نام ہے اور الفاظ یہ ہیں 
اللهم اعز الاسلام بعمر بن خطاب خاصة او كما قال 
اور ان کے قبول اسلام کی عوام میں مشہور مفصل روایت اور اس کی اسنادی حالت جسے" شیخ جرجیس انصاری " نے بھی بیان کیا درج ذیل ہے :
قال الامام احمد بن حنبلؒ
وكان إسلام عمر بن الخطاب فيما بلغني أن أخته فاطمة بنت الخطاب، وكانت عند سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، كانت قد أسلمت وأسلم زوجها سعيد بن زيد معها، وهم يستخفون بإسلامهم من عمر، وكان نعيم بن عبد الله النحام رجلا من قومه من بني عدي بن كعب قد أسلم، وكان أيضا يستخفي بإسلامه فرقا من قومه، وكان خباب بن الأرت يختلف إلى فاطمة بنت الخطاب يقرئها القرآن، فخرج عمر يوما متوشحا سيفه يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم ورهطا من أصحابه، فذكر له أنهم قد اجتمعوا في بيت عند الصفا وهم قريب من أربعين من رجال ونساء، ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم عمه حمزة بن عبد المطلب، وعلي بن أبي طالب، وأبو بكر الصديق بن أبي قحافة، في رجال من المسلمين ممن كان أقام مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، ولم يخرج فيمن خرج إلى أرض الحبشة، فلقيه نعيم بن عبد الله فقال له: أين تريد؟ قال: أريد محمدا، هذا الصابيء الذي قد فرق أمر قريش، وسفه أحلامها، وعاب دينها، وسب آلهتها، فأقتله، فقال له نعيم: والله، لقد غرتك نفسك من نفسك يا عمر، أترى بني عبد مناف تاركيك تمشي على الأرض وقد قتلت محمدا؟ أفلا ترجع إلى أهل بيتك فتقيم أمرهم؟ قال: وأي أهل بيتي؟ قال: ختنك وابن عمك سعيد بن زيد، وأختك فاطمة بنت الخطاب، فقد أسلما وتابعا محمدا صلى الله عليه وسلم على دينه، فعليك بهما، فرجع عمر عامدا لختنه وأخته، وعندهما خباب بن الأرت معه صحيفة فيها طه يقرئهما إياها، فلما سمعوا حس عمر تغيب خباب بن الأرت في مخدع لعمر أو في بعض البيت، وأخذت فاطمة بنت الخطاب الصحيفة فجعلتها تحت فخذها، وقد سمع عمر حين دنا من البيت قراءته عليهما، فلما دخل قال: ما هذه الهينمة التي سمعتها؟ قالا: ما سمعت شيئا، قال: بلى والله لقد أخبرت عما تابعتما محمدا على دينه، وبطش بختنه سعيد بن زيد، وقامت إليه فاطمة أخته لتكفه عن زوجها، فضربها فشجها، فلما فعل ذلك قالت له أخته وختنه: نعم، قد أسلمنا وآمنا بالله ورسوله، فاصنع ما بدا لك. ولما رأى عمر ما بأخته من الدم ندم على ما صنع فارعوى وقال لأخته: أعطيني هذه الصحيفة التي سمعتكم تقرآن آنفا أنظر ما هذا الذي جاء به محمد؟ وكان عمر كاتبا، فلما قال ذلك قالت له أخته: إنا نخشاك عليها، قال: لا تخافي، وحلف لها بآلهته ليردنها إليها إذا قرأها، فلما قال لها ذلك طمعت في إسلامه، فقالت له: يا أخي، إنك نجس على شركك، وإنه لا يمسها إلا الطاهر، فقام عمر فاغتسل، ثم أعطته الصحيفة، وفيها طه، فقرأها، فلما قرأ صدرا منها قال: ما أحسن هذا الكلام وأكرمه فلما سمع خباب ذلك خرج إليه فقال له: يا عمر، والله إني لأرجو أن يكون الله قد خصك بدعوة نبيه صلى الله عليه وسلم، فإني سمعته وهو يقول: «اللهم [ص:281] أيد الإسلام بأبي الحكم بن هشام أو بعمر بن الخطاب» ، فالله الله يا عمر، فقال له عند ذلك: فادللني عليه يا خباب حتى آتيه فأسلم، فقال له خباب: هو في بيت عند الصفا، معه فئة، يعني من أصحابه، فأخذ عمر سيفه فتوشحه، ثم عمد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه فضرب عليهم الباب، فرآه متوشحا السيف، فرجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو فزع فقال: يا رسول الله، هذا عمر بن الخطاب متوشحا السيف، فقال حمزة بن عبد المطلب: فائذن له، فإن كان يريد خيرا بذلنا له، وإن كان يريد شرا قتلناه بسيفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ائذن له» ، فأذن له الرجل ونهض إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى لقيه في الحجرة، فأخذ بحجزته أو بجمع ردائه، ثم جبذه جبذة شديدة وقال: «ما جاء بك يا ابن الخطاب؟ والله ما أرى أن تنتهي حتى ينزل الله بك قارعة» ، فقال له عمر: يا رسول الله، جئتك أؤمن بالله وبرسوله وبما جئت به من عند الله، قال: فكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم تكبيرة عرف أهل البيت من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن عمر قد أسلم، فتفرق أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكانهم ذلك وقد عزوا في أنفسهم حين أسلم عمر مع إسلام حمزة بن عبد المطلب، وعرفوا أنهما سيمنعان رسول الله، وينتصفون بهما من عدوهم. فهذا حديث الرواة من أهل المدينة عن إسلام عمر بن الخطاب حين أسلم رضي الله عنه "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال الشيخ وصي الله عباس في تحقيقه لفضائل الصحابة- معلقا على هذا الحديث - :
منقطع ، وهو بهذا السياق في سيرة ابن هشام ، وأخرج ابن سعد نحوه عن القاسم ابن عثمان البصري عن أنس ، والقاسم ضعيف( ج1- ص 342- ط ابن الجوزي )
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام کے بارے میں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان کی بہن سیدہ فاطمہ بنت خطاب کی شادی سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی وہ اور ان کے شوہر دونوں مسلمان ہو چکے تھے مگر وہ اپنے اسلام کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مخفی رکھتے تھے۔ ان میں سے سید نانعیم بن عبد النحام رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر چکے تھے ان کا تعلق بنوعدی بن کعب سے تھا، اسی طرح انہوں نے بھی اپنی قوم کے ڈر کی وجہ سے اپنے اسلام کوئی رکھا ہوا تھا، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ مختلف اوقات میں سیدہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے۔ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی تلوار لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اور کچھ صحابہ کرام کو شہید کرنے کی غرض سے گھر سے نکلے، انہیں بتایا گیا کہ اس وقت صفا کے قریب ایک گھر میں چالیس کے قریب مرد اور عورتیں رسول الله علم کے ساتھ جمع ہیں، مردوں میں سے آپ کے ساتھ، آپ کے چچا سیدناحمزہ بن عبدالمطلب ، سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ یقین کے ساتھ مکہ مکرمہ ہی میں قیام پذیر ہیں، ان لوگوں کے ساتھ نہیں گئے جو حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔ وہاں جاتے ہوئے سیدنا عمر کو راستے میں سیدنا نعیم بن عبد الله رضی اللہ عنہ ملے۔ پوچھا: عمر! کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے: میں آج اس صابی(بے دین ) مدل
کو (نعوذ باللہ ) کرنے جارہا ہوں جس نے اہل قریش کے درمیان تفرقہ ڈالا ، ہمارے معبودوں کی توہین کی ہے۔ قریش کی عقل مندی کو بیوقوفی سمجھا اور ان کے دین میں عیب جوئی کی ہے۔ سید نانعیم بن عبداللہ
نے فرمایا تمھارا کیا خیال ہے، ان کے قتل کے بعد تجھے بنی ہاشم ایسے ہی چھوڑ دیں گے کہ تم زمین چلتے رہو گے حالانک تم نے محمد (ﷺ )کو (نعوذ باللہ) قتل کیا ہوگا۔ تمہاری خام خیالی ہے، بلکہ تم پہلے اپنے گھر یلو حالات کا بھی تو پتہ کرو تیری بہن فاطمہ اور تیرا بہنوئی (سیدنا سعید بن زید ) مسلمان ہو چکے ہیں اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار بن چکے ہیں، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہنوئی اور بہن کی طرف پلٹے جب ان کے گھر پہنچ تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کے پاس سیدنا خباب بن ارت نے بھی ہیں
جوان کو قرآن سے سورۃ طہٰ پڑھارہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں کی آواز سن کر سیدنا خباب بن ارت تو گھر کے ایک کونے میں چھپ گئے اور ان کی بہن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے سورة طہٰ کے صحیفہ کو چھپادیا۔ جب سیدناعمر نے گھر میں داخل ہو کر پوچھا: یہ کیا آواز تھی جو میں سن رہاتھا؟ ان دونوں نے کہا: کچھ ہی نہیں تھا۔ سیدناعمر نے کہا: ہاں کچھ تھا اللہ کی قسم ! تم دونوں محمد (ﷺ) پر ایمان لے آئے ہو؟ ( یہ کہ کر اپنے بہنوئی سیدنا سعید بن زید پر حملہ کیا تو ان کی بہن فاطمہ درمیان میں حائل ہوئیں تو ان کو مارا یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگئیں ان دونوں نے کہا: ہاں! ہم ایمان لا چکے ہیں، اب تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرلو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کے چہرے سے خون بہتا ہوا دیکھا تو ان کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور کہنے لگے : مجھے وہ ورق پڑھاؤ جس سے تم کچھ پڑھ رہے تھے تا کہ مجھے بھی تو پتا چلے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرکیا نازل ہوتا ہے؟
ان کی بہن نے کہا: ہمیں ڈر ہے کہ تم کچھ کرڈالو گے۔ سیدنا عمر نے کہا: الثہ کی قسم! کچھ بھی نہیں کروں گا، ان کی بہن فاطمہ نے کہا: تم مشرک ہو تم اسے نہیں چھو سکتے، جب تک غسل نہ کرلو۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا اور وہ ورق لیا جس پر سورة طہٰ لکھی ہوئی تھی ، وہ پڑھی اور ایمان لانے کی غرض سے نبی کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کی طرف روانہ ہونے کا قصد کیا تو سیدنا خباب بن ارت نے پردے سے نکلے اور کہا: عمر بن خطاب !يقیناً اللہ نے تمھیں اسلام کے لیے چن لیا ہے، میں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا: اے اللہ !دونوں عمر میں سے جس کو آپ پسند کرتے ہیں ہدایت عطا فرما۔ یہ سن کر سیدنا عمر فاروق نے کہا: خباب ! بتاؤ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں تا کہ میں اسلام قبول کروں۔ سیدنا خباب بن ارت نے کہا: وہ کوہ صفا کے پاس تقریبا ۲۰ صحابہ کرام کے ہمراہ ایک گھر (دارارقم) میں ہیں، جن میں کچھ عورتیں، سیدنا حمزہ، سیدناعلی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار اٹھائی اور اسی طرف چل دیئے، وہاں کر دروازہ کو دستک دی، کہنے لگے : یا رسول اللہ ! میں عمر ہوں ۔ سیدناحمزه رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے آنے دو اگر بھلائی چاہتا ہے تو ہم بھی اس کے ساتھ بھلائی کریں گے، اگر برائی چاہتا ہے تو ہم اسے قتل کر دیں گے۔تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اسے آنے دو۔ جب آئے تو آپ ان سے ملے ، اور گریبان سے پکڑا اور پوچھا: عمر! کیوں آئے ہو؟ باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالی تجھے عذاب دے گا۔ سیدنا عمر نے عرض کیا: میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم پر اور جو آپ پر نازل ہوتا ہے اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند اللہ اکبر کہا۔ اور اس طرح تکبیر کہنے سے وہاں موجود تمام صحابہ کرام کو پتا چلا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایمان لانے آئے ہیں ، تو وہاں جمع تمام صحابہ کرام متفرق ہوگئے ،ان
کے ایمان لانے سے صحابہ کرام کے حوصلے بڑھ گئے ، جبکہ ان سے پہلے سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ جو بھی مسلمان ہو چکے تھے اور ان کویقین ہوگیا، اب یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے دست و بازو بنیں گے اور دشمنوں کو زیر کریں گے۔)))
اس قصہ کی پانچ سندیں ہیں اور ان پانچ سندوں میں اس کے (مختلف) الفاظ ہیں اور پانچوں سندیں سخت ضعیف ہیں ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ :
اس روایت کو امام ابن سعدؒ نے طبقات میں (اسحاق بن یوسف ،قاسم بن عثمان البصری ، انس بن مالک ) کی سند سے روایت کیا ہے ،اس میں قاسم بن عثمان ضعیف ہے ،
قال ابن سعد في الطبقات (3- 203):
إسلام عمر. رحمة الله:
قال: أخبرنا إسحاق بن يوسف الأزرق قال: أخبرنا القاسم بن عثمان البصري عن أنس بن مالك
وأخرجها ابن الجوزي في " مناقب عمر " ( ص 15) ، وابن سعد في " الطبقات " (3/267) ، والبيهقي في " الدلائل " (2/219) ، و " السنن " (1/88) .
وفي سندها القاسم بن عثمان البصري .
قال الذهبي في " الميزان " (3/375) عند ترجمته : القاسم بن عثمان البصري عن أنس . قال البخاري : له أحاديث لا يتابع عليها 
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب 
 
                           
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Post a Comment