بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
 تحریر مسزانصاری
تحریر مسزانصاری تصویر کشی اسلام میں حرام ہے ، اللہ عزوجل نے تصاویر کشی کو حرام قرار دیا ہے ۔ 
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالى نے فرمایا : 
أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ 
[صحيح بخاري كتاب اللباس باب ما وطئ من التصاوير (5954)] 
قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں ۔ 
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يوْمَ الْقِيامَةِ الْمُصَوِّرُونَ 
[صحيح بخاري كتاب اللباس باب عذاب المصورين يوم القيامة (5950)] 
الله کے ہاں قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویریں بنانے والوں کو ہوگا۔ 
احادیث کے دلائل سے تصاویر کی حرمت ثابت ہے اور اس حرمت پر امت متفق ہے ۔ لیکن موبائل سے لی گئی تصاویر میں علماء امت اختلاف رکھتے ہیں اور تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے
⓵- پہلے گروہ کے نزدیک یہ ایک عکس ہے جو تصویر کے حکم میں نہیں آتا لہٰذا یہ جائز ہے
⓶- دوسرے گروہ کے نزدیک یہ عکسی تصاویر ، تصویر کی ہی جدید شکل ہے اور تصویر کشی کے حکم میں ہی آتا ہے ۔ اور چونکہ تصویر کشی حرام ہے لہٰذا موبائلز سے بنی تصاویر اور وڈیوز حرام ہیں ۔
⓷- اہل علم کا تیسرا گروہ اسے تصویر ہی مانتا ہے اور اسکی حرمت کا قائل ہے ، نیز اس تیسرے گروہ کے نزدیک یہ مباح اور حلال نہیں ہے ، تاہم بحالتِ مجبوری دین کی تبلیغ و ترویج کے لیے دین ہی کے قاعدے " اضطراری کیفیت " کو ملحوظ رکھتے ہوئے  " الضرورات تبيح المحظورات " ( ضرورتیں ناجائز کاموں کو جائز بنا دیتی ہیں ) کے قاعدے کی رو سے جائز قرار دیتا ہے ۔
یعنی اصلاً یہ تیسرا گروہ بھی اسکی حرمت کا قائل ہے لیکن بہ امرِ مجبوری اسے جائز قرار دیتا ہے جہاں انسان بے بس ہو جیسے شناختی کارڈ یا تعلیمی و سرکاری کاغذات کے لیے تصاویر یا دینی ترویج کے لیے وڈیوز وغیرہ ۔
میرے رجحان کے مطابق تیسرے گروہ کا نظریہ درست ہے ۔ عکسی تصاویر کا جواز صرف اضطراری کیفیت میں ہی ہے جہاں انسان بے بس ہو جاتا ہے ، اور  " الضرورات تبيح المحظورات " کے قاعدے کے مطابق وہ بہ امر مجبوری تصاویر بنوا سکتا ہے لیکن محض تفریحًا تصاویر سے گریز کرنا ہی بہتر ہے ۔
سعودی عر ب کے علماء محققین نے علی الا طلا ق  فوٹو  کے جواز کا فتویٰ  قطعاً  نہیں دیا بلکہ علا مہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرح  وہ بھی  مخصوص حالات  میں جواز  کے قائل ہیں ، چنا نچہ ہیئت کبار علماء کی دا ئمی  کمیٹی  برا ئے  بحث  اور فتویٰ  نے فتویٰ  صا در  کیا ہے کہ زندہ  چیزوں  کی فو ٹو  لینی  حرا م  ہے مگر  جہاں  کوئی انتہا ئی ضرورت  ہو جس طرح  کہ تا بعیہ (رہائشی اجا زت نامہ )  پاسپورٹ  اور فاسق وفا جر اور لیٹروں  کی تصویریں  ہیں  تا کہ  ان پر کڑی  نگاہ رکھ کر جرا ئم  پر قابو پا یا جائے  اس کے علا وہ  اسی طرح کی تصویریں  لینے کا جواز ہے جس  کے بغیر چارہ کار نہیں 
(مجلۃ البحوث الاسلامیہ  الریا ض  عدد 19۔ص138)
فتوی کمیٹی سے سوال پوچھا گیا :
 ہمیں بعض  لوگوں نے  یہ بتایا ہے کہ تصویریں حرام ہیں اور فرشتے  اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس  تصویریں ہوں ،کیا بات  صحیح ہے؟ کیا ان حرام تصویروں  سے مقصود  ایسی تصویریں ہیں  جو انسانوں اور حیوانوں کی طرح  مجسم  ہوں یا  یہ حکم  ان تمام تصویروں  کے لیے  ہے جو شناختی کارڈ اور کرنسی  نوٹوں  وغیرہ  پر بھی بنی ہوتی ہیں۔اگر  یہ تمام تصویریں حرام ہیں تو پھر  راہنمائی فرمائیں  کہ  گھروں  کو تصویروں  سے کس  طرح  پاک  کیا جاسکتا  ہے؟
تو فتوی کمیٹی کا جواب تھا :
جی ہاں تمام زندوں  کی تصویریں  خواہ آدمی  ہوں یا حیوان  حرام ہیں اور تصویریں  خواہ  جسم  صورت میں ہوں'یا نقش نگار  کی صورت میں ہوں  یا انہیں کپڑوں  پر بنایا  گیا ہو یا وہ شمسی  تصویریں ہوں ' سب حرام  ہیں اور صحیح  احادیث  کے عموم  کے پیش نظر فرشتے  ان گھروں  میں داخل  نہیں ہوتے  جن میں تصویریں  ہوں ۔ان میں  سے صرف  ان تصویروں  کی رخصت  ہے'جن کی ضرورت  ہو مثلاً مجرم  اور مشکوک  لوگوں کی تصویریں  تاکہ انہیں پہنچا جاسکے 'اسی  طرح پاسپورٹ اور شناختی  کارڈز  کی تصؤیروں کی بھی  رخصت  ہے اور امید  ہے  کہ یہ اوراس طرح  کی تصویریں جنہیں ضرورت  وحفاظت  کے  پیش نظر  رکھا جاتا  ہے"گھروں  میں فرشتوں  کے داخلے  سے مانع  نہیں ہونگی والله المستعان۔اسی طرح  وہ تصویریں جو بستروں  اور تکیوں  پر بنی  ہوں اور  انہیں پامال  کیا جاتا  ہو'مستثنیٰ  ہیں۔تصویروں کی حرمت  کے بارے  میں جو احادیث  وارد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے 'جس میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((ان اصحاب  هذه  الصور يعذبون  يوم القيامةّ يقال  لهم :احيوا ماخلفتم ) (صحيح البخاري ‘اللباس  ‘باب من كره القعود  علي الصور  ‘ ح:٥٩٥٧)
"ان تصویروں والوں کو قیامت  کے دن عذاب  دیاجائے گا اور کیا جائے گا کہ اسے زندہ  کرو'جسے تم نے پیدا کیا تھا۔"
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ  نبی ﷺ نے سود  کھانے  والے' کھلانے والے  اور مصور  پر لعنت  فرمائی ہے ۔ ( فتاوی کمیٹی )
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ۴/صفحہ :381
سماحةالشیخ بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں
زندوں کی تصویر حرام ہے الا یہ کہ کسی ناگزیر ضرورت  کا تقاضہ ہو مثلاً کسی ذمہ داری  یا پاسپورت کے لیے  ایسے مجرموں کی تصویر  جنہیں شناخت  کرکے  پکڑنا مقصود ہو اور وہ جرم  کے ارتکاب  کے بعد  فرار ہوگئے ہوں یا اس طرح  کے دیگر  ناگزیر مقاصد کے لیے ہو تو پھر تصویر  کی اجازت ہے۔
سماحةالشیخ بن باز رحمہ اللہ
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 4/صفحہ : 382
مزید اپنے ایک فتوے میں فتوی کمیٹی کہتی ہے :
جان دار  چیزوں کی تصویر  حرام ہے خواہ وہ کیمروں  کی تصویر ہو 'ہاتھ سے بنائی گئی  ہو یا کسی  آلہ وغیرہ  سے ۔اسی طرح  تصویر  کا جمع کرنا بھی حرام ہے 'البتہ اگر کوئی شخص مضطر   ہوجائے اور وہ بے اختیار  ہو مثلاًیہ کہ پاسپورٹ  کے لیے  یا ذمہ داری  سپرد  کرنے کے لیے  اس  سے تصویر  طلب کی جائے  تو اس کی  رخصت ہے  لیکن دل  سے تصویر  کو مکروہ  سمجھنا چاہیے ۔
دیکھیے : فتاویٰ اسلامیہ/جلد : 4/صفحہ :382
اگر تصویر کا شرعئی جواز نا ہو تو تصاویر بنوانے اور بنانے والے دونوں ہی گناہگار ہونگے ، کیونکہ دونوں پر ہی ممانعت کا حکم ہے۔ جس طرح دلائل تصویریں بنانے والوں پر لعنت اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کی وعید ہے بارے میں ہیں" اسی طرح یہ تمام دلائل  اس شخص کے لیے بھی  ہیں جو اپنے آپ کو  تصویر بنوانے کے لیے پیش کرے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ
وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ
بِالصّٙوٙاب
 
 
                           
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Post a Comment