Wednesday, March 4, 2020

AQEEQA (AQIQA)

عقیقہ مفصل و مدلل آرٹیکل

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ا̳و̳ ر̳ا̳س̳ ک̳ے̳ ا̳ح̳ک̳ا̳م̳
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ پ̳ر̳ س̳ل̳ف̳ و̳ ص̳ا̳ل̳ح̳ی̳ن̳ ک̳ا̳ ع̳م̳ل̳:̳
تمام مستند احادیث اور روایات کے مطالعہ سے یہ بات وثوق کی حد تک پہنچ جاتی ہےکہ عہد نبویؐ اور خلفائے راشدینؓ کے ادوار خلافت میں تمام صحابہؓ و تابعین [({اپنی اولاد کا عقیقہ کیا کرتے تھے۔'' اور مؤطا اما محمد کے حاشیہ پر یہ تصریح موجود ہے کہ: ''آنحضرتﷺ کے وصال کے بعص صحابہ کرامؓ عقیقہ کیا کرتے تھے۔''
(تعلیق الممجد حاشیہ مؤطا امام محمد، طبع کراچی صفحہ 291 حاشیہ نمبر 2)}] کا اس سنت پر عمل رہا ہے، بعد کے ادوار میں بھی تمام اہل علم او رعامل بالحدیث طبقہ میں اس سنت پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہا ہے، نیز اس پر خود رسولﷺ کا عمل کرنا اور آج تک اس پر تواتر کے ساتھ عمل ہوتے چلے آنا بذات خود اس کی مشروعیت کی واضح دلیل ہے۔
عقیقہ کی شرعی نوعیت پر فقہاء کی آراء :
اس امر میں فقہائے اسلام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ عقیقہ کی شرعی نوعیت یا حیثیت کیا ہے؟ مشہور مسالک سے اہل حدیث (سلفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مسلک کے پیرو عقیقہ کی مشروعیت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعض اس کی شرعی نوعیت کی تعیین میں اختلاف رکھتے ہیں۔
ائمہ مجتہدین کا ایک گروہ جو عقیقہ کے سنت اورمستحب ہونے کا قائل ہے، اس میں امام مالک، اہل مدینہ، امام شافعی اور ان کے اصحب ، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، علمائے اہلحدیث اور فقہ و علم و اجتہاد کے کبار علماء کی ایک بڑی جماعت شامل ہے۔(رحمهم اللہ تعالیٰ)
فقہاء کا ایک دوسرا گروہ جو عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کا قائل ہے، اس میں امام حسن بصری، امام لیث امام ابن سعد وغیرہ شامل ہیں او رامام ابن حزم تو عقیقہ کو فرض قرار دیتے ہیں۔ii
فقہاء کا ایک تیسرا گروہ وہ ہے جو سرے سے عقیقہ کی مشروعیت کا قائل ہی نہیں ہے۔ اس گروہ میں فقہائے حنفیہ کا شمار ہوتا ہے۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ س̳ن̳ت̳ ی̳ا̳ و̳ا̳ج̳ب̳ :̳
شرعئی نصوص سے عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ
( صحيح أبي داود / 2842)
جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
جمہور علماے کرام کا موقف بھی ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰
امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ
المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۰
"اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ ، فقہاے تابعین﷭ اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔"
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ الجوزیۃ کا بیان ہے :
«فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِﷺ
تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸
"جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہﷺکی سنت ہے۔"
ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: «لاَ یُحِبَّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ» وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ»
سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷
"نبیﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ عقوق کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے یہ نام ( عقیقہ) نا پسند کیا۔ پھر فرمایا : "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔"
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ
1. امام شوکانیؓ بیان کرتے ہیں: حدیث میں: «مَنْ أَحَبَّ» کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۴۴
2. حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: اس حدیث میں«مَنْ أَحَبَّ»کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔
التمہید لا بن عبد البر : ۴؍۳۱۱
3. امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا
موطا امام مالک: ۲۹۵
"عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔"
{ فاروق رفیع صاحب حفظہ اللہ }
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ س̳نّ̳̳ت̳ و̳ م̳س̳ت̳ح̳ب̳ ہ̳و̳ن̳ے̳ ک̳ے̳ ش̳ر̳ع̳ی̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳:̳
عقیقہ کے سنّت و مستحب ہونے پر بہت سی احادیث نبوی ﷺ شاہد ہیں، مثلاً
1۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہیے تو لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرے۔''
سنن أبي داود کتاب الأضاحي و سنن النسائي کتاب العقیقة و إسنادہ جید
2۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عن ولده فلیفعل''
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنےبچہ کی جانب سے ذبح کرنا چاہے تو کرے۔''
مؤطا امام مالک، کتاب العقیقة و إسنادہ، ضعیف
3۔ ''مع الغلام عقیقة فأھر یقوا عنه دما و أمیطوا عنه الأذٰی''
صحیح بخاری
4۔ ''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسمٰی''
سنن أبي داود وترمذي و نسائي و ابن ماجة و غیرها بالأسانید الصحیحة
ان تمام روایات سے عقیقہ کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ و̳ا̳ج̳ب̳ ہ̳و̳ن̳ے̳ ک̳ے̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ا̳و̳ر̳ ا̳ن̳ ک̳ا̳ ع̳ل̳م̳ی̳ ج̳ا̳ئ̳ز̳ہ̳ :̳
جو فقہاء عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کے قائل ہیں، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ بریدہ اسلمیؓ کی مذکورہ روایت کہ:
''إن الناس یعرضون یوم القیامة علی العقیقة کما یعرضون علی الصلوات الخمس''
لیکن یہ حدیث نبویؐ نہیں بلکہ قول صحابیؓ ہے او رپھر اس کی سند میں صالح بن حیان متروک الحدیث ہے
عقیقہ کے وجوب پر استدلال کرتی ہے۔
2۔ حضرت سمرہ بن جندبؓ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:
''کل غلام رھینة بعقیقته''
رواہ اصحاب السنن
اور بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں: ''الغلام مرتھن بعقیقته'' ان روایات کے الفاظ ''رھینة'' اور ''مرتھن'' عقیقہ کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔
3۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کے الفاط : ''مع الغلام عقیقة''
رواہ البخاری
بھی وجوب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
4۔ ''اگر والدین بچہ کی طرف سے عقیقہ کریں تو بچہ اپنے والدین کی شفاعت پر محبوس و مامور ہے۔'' یہ امر بھی عقیقہ کے وجوب کا متقاضی ہے۔
ج̳و̳ ف̳ق̳ہ̳ا̳ء̳ ک̳ر̳ا̳م̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ و̳ج̳و̳ب̳ ک̳ے̳ ق̳ا̳ئ̳ل̳ ن̳ہ̳ی̳ں̳ ہ̳ی̳ں̳،̳ و̳ہ̳ ا̳ن̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ک̳ے̳ ح̳س̳ب̳ ذ̳ی̳ل̳ ج̳و̳ا̳ب̳ د̳ی̳ت̳ے̳ ہ̳ی̳ں̳:̳
1۔ اگر عقیقہ کرنا واجب ہوتا تو اس کا وجوب دین و شریعت سے معلوم ہوتا۔
2۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے امت پراس کا وجوب کافی اور واضح طریقہ پر بیان کیا ہوتا۔
3۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو اس پر حجت قطعی موجود ہوتی او راس کا وجوب صرف عذر شرعی کی موجودگی میں منقطع ہوتا۔
4۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو عذر شرعی کی عدم موجودگی میں ترک کیا جانے والا عقیقہ گناہ کا سبب ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
5۔ رسول اللہ ﷺ کا خود عقیقہ کرنا اس کے وجوب کے بجائے استحباب پر دلالت کرتا ہے۔
6۔ احادیث نبویؐ کے الفاط '''رھینة''، ''مرتھن'' ، ''مع الغلام عقیقة'' اور ''الناس یعرضون یوم القیٰمة علی العقیقة'' وغیرہ عقیقہ کے وجوب کے بجائے اس کے استحباب پر دلالت کرتے ہیں۔
7۔ عقیقہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك الخ'' اور ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك فلیفعل'' کے یہ الفاظ بھی عقیقہ کے مستحب ہونے پر واضح دلیل ہیں۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ی̳ م̳ش̳ر̳و̳ع̳ی̳ت̳ ک̳ے̳ا̳ن̳ک̳ا̳ر̳ ک̳ی̳ ب̳ن̳ی̳ا̳د̳ا̳و̳ر̳ ا̳س̳ ک̳ا̳ ع̳ل̳م̳ی̳ ج̳ا̳ئ̳ز̳ہ̳:̳
جو فقہاء عقیقہ کی مشروعیت کے قائل نہیں ہیں، ان کی حجت و دلائل یہ ہیں:
1۔ عمرو بن شعیب کی حدیث، جسے انہوں نے اپنے والد سے او رانہوں نے ان کے دادا سے نقل کیا ہے کہ:
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''لاأحب العقوق'' 7
''عقیقہ مجھے پسند نہیں ہے۔''
رواہ البیہقی صفحہ 2
2۔ ابی رافع ؓ کی حدیث کہ جب حسن بن علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہؓ نے ان کا عقیقہ دو مینڈھوں سے کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه فتصد قي بوزنه من الورق ثم ولد حسین فصنعت مثل ذٰلك''
مسنداحمد صفحہ 6؍396
''عقیقہ نہ کرو مگر اس کا سرمونڈو اور اس کے بال کے وزن کی مقدار میں چاندی صدقہ دو۔ پھر جب حسینؓ کی ولادت ہوئی تو میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔''
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ی̳ م̳ش̳ر̳و̳ع̳ی̳ت̳ ک̳ے̳ م̳ن̳ک̳ر̳ی̳ن̳ ک̳ے̳ ا̳ن̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ک̳ا̳ ج̳و̳ا̳ب̳ م̳ح̳ق̳ق̳ی̳ن̳ ا̳س̳ ط̳ر̳ح̳ د̳ی̳ت̳ے̳ ہ̳ی̳ں̳ ک̳ہ̳:̳
''وہ احادیث جن سے عقیقہ کی مشروعیت کے انکار پر استدلال کیا جاتا ہے، ان کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس انکار کی کوئی دلیل بھی صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تمام دلیلیں اپنے ظواہر کے اعتبار سے عقیقہ کے سنت و مستحب ہونے کی تائید و تاکید ہی ثابت کرتی ہے لہٰذا فقہاء اور اکثر اہل علم و اجتہاد اسی طرف گئے ہیں۔''
جہاں تک عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ''لا أحب العقوق'' کا تعلق ہے تو اس حدیث کا سیاق اور اس کے درود کے اسباب اس امر پر دلالت کرتے ہین کہ عقیقہ قطعاً سنت و مستحب ہی ہے۔ حدیث کے سیاق و سباق کے الفاظ ملاحظہ ہوں جو اس طرح ہیں: ''عقیقہ کے متعلق جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ''مجھے عقوق پسند نہیں ہے۔'' آپؐ نے ایسا اس لیے فرمایا تھا کیونکہ آپؐ کو یہ نام ناپسند تھا (یعنی ذبیحہ کو عقیقہ کہناکیونکہ ''عقوق'' کا معنی ''نافرمانی'' بھی ہے) پھر لوگوں نے دریافت کیا کہ : ''یارسول اللہﷺ، ہم میں سے جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:
''من أحب منکم أن ینسك عن ولده فلیفعل عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریة شاة''
یعنی ''تم میں سے جو اپنے بچہ کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہے وہ لڑکے پر ایک جیسی دو بکریاں اور لڑکی پرایک بکری ذبح کرے۔''
اس حدیث کے ظواہر سے فقہاء کے ایک گروہ نے لفظ ''عقیقہ'' کا ''نسیکہ'' سے استبدال پر استدلال کیا ہے او ریہ بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو''عقیقہ'' نام ناپسند تھا۔ لیکن فقہاء کا ایک دوسرا گروہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا او راس نااتفاقی کی وجہ وہ بہت سی احادیث بتاتا ہے جن میں اس موقع کے ذبیحہ کا نام''عقیقہ'' خود رسول اللہ ﷺ سے بلا اظہار کراہت مروی ہے۔ علماء کاایک تیسرا گروہ ان دونوں آراء کے مابین اتحاد و اتفاق کی صورت یہ پیش کرتا ہے کہ اس موقع کے ذبیحہ کے لیے ''عقیقہ'' اور ''نسیکہ'' دونوں ناموں کااستعمال درست اور صحیح ہے لفظ ''نسیکہ'' استعمال کرنا اگرچہ بہتر ہے، لیکن حکم بیان کرنے یا وضاحت یا مراد و مقصد کے اظہار کے لیے ''عقیقہ'' کا لفظ استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور یہ طریقہ احادیت نبویؐ کے موافق بھی ہے۔ او رجہاں تک منکرین مشروعیت عقیقہ کی دوسری دلیل یعنی ابی رافع کی حدیث کے الفاظ ''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه.......... الخ'' کا تعلق ہے تو فی الحقیقت اس روایت سے بھی عقیقہ کی مشروعیت کے انکار یا ا س کی کراہت پر دلالت نہیں ہوتی۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں نواسوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کی جانب سے خود کرنا پسند فرمائے تھے (جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی)، چونکہ آپؐ نے ان حضرات کے عقیقے خود فرمائے تھے اس لیے مکرر عقیقے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ پس آپؐ نے حکم فرمایا کہ : ''ان کے عقیقے نہ کرو لیکن سر کے بال مونڈواؤ اور اس کے وزن کے مقدار میں چاند صدقہ دو۔''
ر̳س̳و̳ل̳ ا̳ل̳ل̳ہ̳ ﷺ̳ ک̳ا̳ خ̳و̳د̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ر̳ن̳ا̳:̳
رسول اللہ ؐ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے خود کئے تھے، اس بات کی تائید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں سے چند ذیل میں پیش خدمت ہیں:
1۔ حضرت ایوب نے عکرمہ او رانہوں نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا۔''
9. سنن ابی داؤد صفحہ 3؍66
2۔ حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کیا۔''
سنن نسائي ، کتاب العقیقة و إسنادہ جید
3۔ جریر بن حازم نے قتادہ سے او رانہوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے:
''أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشین''
''نبی ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ دو مینڈھوں سےکیا۔''
سنن البیہقی صفحہ 9؍299
4۔ یحییٰ بن سعیدنے عمرہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن و الحسین یوم السابع''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ساتویں دن فرمایا۔''
مستدرک حاکم صفحہ 4؍237
ک̳ی̳ا̳ م̳ذ̳کّ̳̳ر̳ ک̳ا̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ م̳ؤ̳ن̳ت̳ ک̳ے̳ م̳ث̳ل̳ ہ̳ے̳ :̳
تمام اہل علم و جمہور فقہاء و مجتہدین کے نزدیک متفقہ طور پر مؤنث اور مذکر دونوں پر عقیقہ کیا جانا یکساں طور پرمستحب سنت ہے او را س کی شرعی نوعیت میں مذکر و مونث کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ لیکن مونث و مذکر کی فضیلت و مراتب کے فرق کے اعتبار سے آیا مذکر و مونث دونوں پر ایک ایک بکری یا دونوں پر دو دو بکریاں یا ان میں سے کسی پر ایک اور کسی پر دو بکریاں ذبح کرنا مشروع ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی دو مختلف رائیں ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ، حضرت عائشہؓ ، اہل حدیث او راہل علم حضرات کی ایک بڑی جماعت کا مسلک یہ ہے کہ مونث و مذکر کی فضیلت او رمراتب کے فرق کے اعتبار سے مذکر کے لیے دو بکریاں اور مونث کے لیے ایک بکری ذبح کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔مثلاً:
1۔ اُم کرز کعبیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الأنثٰی واحدة''
''لڑکے پر دو بکریاں او رلڑکی پر ایک بکری ہے۔''
مسنداحمد صفحہ 6؍422 و سنن الترمذی مع التحفة صفحہ 2؍362
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
2۔''أمرنا علیه الصلوٰةوالسلام أن نعق عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
سنن ابن ماجہ ،صفحہ2؍281 طبع مصر
3۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
سنن ابی داؤد سنن نسائی
اس مسلک کے برخلاف امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ مذکر اور مونث دونوں پر یکساں طور پر ایک ایک بکری ہی ذبح کرنا مسنون ہے، اور ان کے مابین عقیقہ میں فضیلت مراتب کے فرق کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلک کی تائید میں امام مالکرحمہ اللہ خود رسول اللہﷺ کا فعل یعنی حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے والی مندرجہ ذیل روایات پیش کرتے ہیں:
1۔ ''عن ابن عباس رضی اللہ عنهما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا''
سنن ابی داؤد مع العون صفحہ 3؍66
2۔ ''ذکر جریر بن حازم عن قتادة عن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشین''
مجمع الزوائد صفحہ 4؍57
3۔ ''روی جعفر بن محمد عن أبيه أن فاطمة ذبحت عن حسن و حسین کبشا کبشا''
. تحفۃ المودود صفحہ47
''جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ پر ایک ایک بھیڑ ذبح کی۔''
4۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
''وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنهما یعق عن الغلمان والجواري من ولدہ شاة شاة''
تحفۃ المودود صفحہ 47
''اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے اپنی اولاد میں سے لڑکے او رلڑکیوں کی طرف سے ایک ایک بکری کا عقیقہ کیا۔''
بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ لڑکے او رلڑکی پر کتنے جانور ذبح کیے جائیں؟ تو آپرحمہ اللہ نے فرمایا:
''یذبح عن الغلام شاة واحدة و عن الجارية شاة''
محققین او راہل علم حضرات اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ''اگر اللہ تعالیٰ استطاعت دے تو لڑکے پر دو جانور او رلڑکی پر ایک جانور ذبح کیا جائے۔ اگرلڑکے کے عقیقہ پر دو جانور ذبح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک جانور ذبح کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح لڑکی کے عقیقہ پرایک سے زیادہ جانور ذبح کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔''
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ر̳ن̳ے̳ ک̳ا̳ م̳س̳ت̳ح̳ب̳ و̳ق̳ت̳:̳
بچہ کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کرنا افضل اور مسنون ہے۔ جیسا کہ حضرت سمرۃ بن جندبؓ کی حدیث میںمروی اور رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک سے ثابت ہے:
''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسقیٰ''
سنن أبي داود و ترمذي والنسائي و ابن ماجة وغیرها عن سمرة بن جندبؓ
نیز :
''عق ............. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن حسن و حسین یوم السابع و سماھما و أمر أن یماط عن رؤو سھما الأذٰی''
(رواہ تربیة الأولاد في الإسلام تالیف أستاد عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍94 مطبع دارالسلام حلب عبداللہ بن وہب عن عائشہؓ)
مندرجہ بالا دونوں احادیث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہیں، ان احادیث کی روشنی میں عقیقہ کے ذبیحہ کے لیے ولادت کا ساتواں دن بلا شک و شبہ مستحب قرار پاتا ہے۔ لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اگر ولادت کے ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکے تو چودہویں دن کیا جائے اور اگر چودہویں دن بھی نہ کیا جاسکے تو اکیسویں دن کیا جائے۔
حضرت بریدہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا:
''تذبح لسبع ولأ ربع عشرة ولإ حدیٰ و عشرین''
''ساتویں، چودہویں او راکیسویں دن ذبح کیا جائے گا۔''
. سنن بیہقی ج9 صفحہ303 و إسنادہ، ضعیف
حضرت اُم کرز اور ابوکرزؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے عقیقہ کےمتعلق فرمایا:
''......... ولکن ذاك یوم السابع فإن لم يکن ففي أربعة عشر فإن لم یکن ففي إحدیٰ عشرین''
''یہ (عقیقہ) ساتویں دن ہونا چاہیے اور اگر نہ ہوسکے تو چودہویں دن اور پھربھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن''
مستدرک حاکم ج4 صفحہ 238۔239
میمونی کا قول ہے : ''میں نے عبداللہ سے سوال کیا کہ لڑکے پر عقیقہ کب کیا جاتا ہے ؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
''(في) سبعة أیام و أربعة عشر ولأ حدو عشرین''
یعنی ''ساتویں دن، چودہویں دن اور اکیسویں دن۔''
صالح بن احمد فرماتے ہیں : ''میں نے اپنے والد سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
''تذبح یوم السابع وإن لم یفعل ففي أربعة عشر فإن لم یفعل ففي إحدیٰ و عشرین''
یعنی ''ساتویں دن ذبح کیا جائےگا پس اگر ایسا نہ کرسکے تو چودہویں دن اور اگر چودہویں دن بھی نہ کرسکے توپھر اکیسویں دن''
دن کی اس تعیین کے سلسلہ میں محققین کی رائے ہے کہ ''عقیقہ ساتویں دن کئے جانے کی قید لزوم کے باب سے نہیں بلکہ استحباب کی وجہ سے ہے۔ پس اگر ساتویں دن کے بجائے چودہویں اور اکیسویں دن اور بعض کے نزدیک چوتھے، آٹھویں ، دسویں یا اس کے بعد کبھی بھی کرلے تو عقیقہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ امام مالک  فرماتے ہیں:
''والظاھر أن التقید بالیوم السابع إنما ھو علیٰ وجه الاستحباب وإلا فلو ذبح عنه الیوم الرابع أو الثامن أو العاشر أو مابعدہ أجزأت العقیقة''
( تربیة الأولاد في الإسلام تألیف استاذ شیخ عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍93 طبع حلب)
''اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں دن کی قید محض استحباب کی وجہ سے ہے، اگر بچہ کی طرف سے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں یا اس کے بعد کسی اور دن ذبیحہ کیا جائے تو بھی عقیقہ ہوجاتا ہے۔''
خلاصہ کلام یہ ہےکہ اگر باپ اپنی اولاد کے ساتویں دن قدرت و استطاعت رکھتا ہو تو مستحب طریقہ پر ا س کا عقیقہ کرکے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو زندہ رکھے اور اس کی فضیلت و برکات نیز اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو۔ اگر کسی مجبوی کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکتا ہو تو چودہویں دن کرلے، اگر ایسا بھی کرنا ممکن نہ ہو تو اکیسویں دن کرلے۔ اگر اکیسویں دن کی استطاعت بھی نہ ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ استطاعت بخشے، بلاتاخیر عقیقہ کر ڈالے۔''يُرِ‌يدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ‌...﴿١٨٥﴾...سورۃ البقرۃ'' اور ''وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ...﴿٧٨﴾...سورۃ الحج'' کا یہی تقاضا ہے۔ ایسی صورت میں نفس عقیقہ تو ہوجائے گا، لیکن ساتویں یا چودہویں او راکیسویں دن، عقیقہ کرنے میں جو اجر و ثواب ہے ، وہ حاصل نہ ہوگا بلکہ سید قاسم محمود صاحب تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ''اگر والدین (عقیقہ) نہ دے سکیں تو بچہ جوان ہوکر خود کرے۔ ''
( شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا مرتبہ سید قاسم محمود صفحہ 1082 طبع شاہکار فاؤنڈیشن)
محترم جناب غازی عزیر
ع̳ی̳د̳ ک̳ی̳ ق̳ر̳ب̳ا̳ن̳ی̳ م̳ی̳ں̳ ب̳ی̳ٹ̳ے̳ ا̳و̳ر̳ ب̳ی̳ٹ̳ی̳ ک̳ے̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ے̳ ک̳ی̳ ن̳ی̳ت̳ س̳ے̳ ذ̳ب̳ح̳ ک̳ر̳ن̳ے̳ ک̳ا̳ ح̳ک̳م̳ :̳
راجح یہ ہے کہ عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے، ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے ، اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے، لہذا عقیقے میں مکمل گائے یا مکمل اونٹ یا مکمل بکری ہی ذبح کرنا کافی ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428) میں کہتے ہیں:
"اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلیے کافی ہوتے ہیں، لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا؛ کیونکہ عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے، لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے؛ کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے ، لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ : اونٹ کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے ، لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا؟! [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے کیلیے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے تو یہ کفایت نہیں کر ے گا۔
اس ضمن میں درست عمل یہ ہے کہ ایک جانور قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا کفایت نہیں کرے گا، اس لیے عقیقے کیلیے الگ بکری ذبح کریں یہ افضل ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424) میں کہتے ہیں:
"عقیقے میں بکری ذبح کرنا مکمل اونٹ ذبح کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرتے ہوئے احادیث میں صرف بکری کا ذکر ہی ملتا ہے، ا س لیے عقیقے میں بکری ذبح کرنا ہی افضل ہو گا" انتہی
اس لیے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور بیٹی کی جانب سے ایک بکری ذبح کی جائیں گی۔
جبکہ عید کی قربانی کے حوالے سے اختیار ہے کہ اونٹ، گائے، یا بکری ذبح کر لیں، عید کی قربانی میں مکمل اونٹ افضل ہے، اس کے بعد مکمل گائے اور پھر بکری ، اس بارے میں مکمل تفصیلات پہلے فتوی نمبر: (45767) میں موجود ہیں۔
فضیلةالشیخ محمد صالح المنجد حفظ اللہ
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ گ̳و̳ش̳ت̳ ک̳ا̳ م̳ص̳ر̳ف̳ :̳
عقیقے کے گوشت کے بارے میں تقسیم کرنے کی کیفیت شریعت میں بیان نہیں ہوئی، اور نہ ہی اس میں سے کھانے اور صدقہ کرنے کے متعلق کوئی حکم ہے۔
اس لئے انسان کسی بھی انداز کو عقیقہ کے گوشت کیلئے اپنا سکتا ہے، چاہے تو مکمل صدقہ کردے، اور چاہے تو مکمل ہی کھا لے، تاہم افضل یہی ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے بارے میں بھی وہی طریقہ کار اپنائے جو قربانی کے گوشت کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔
چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسے کیسے تقسیم کرے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جیسے چاہو تقسیم کرو" اور ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ: "اپنی مرضی سے جیسے چاہو کرو" انتہی
" تحفة المودود بأحكام المولود " (ص 55)
بعض فقھاء كہتے ہيں كہ:
عقيقہ بھى احكام و مصرف ميں قربانى كى طرح ہے، اس ليے اسے تين حصوں ميں تقسيم كرنا مستحب ہے، ايك حصہ اپنے ليے اور ايك دوست و احباب كے ليے، اور ايك فقراء كے ليے.
اور بعض كہتے ہيں كہ: عقيقہ قربانى كى طرح نہيں تو جس طرح وہ چاہے كر سكتا ہے، آپ سوال نمبر ( 8423 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
بہر حال اگر عقيقہ كے گوشت ميں سے كچھ بھى دوسروں كا نہ ديا جائے تو بھى كفائت كر جائيگا، ليكن قربانى كے متعلق يہ ہے كہ اگر كوئى شخص قربانى كا سارا گوشت خود ہى كھا جائے اور اس ميں سے كچھ بھى صدقہ نہ كرے تو وہ ضامن ہے، اور ايك اوقيہ گوشت خريد كر اسے صدقہ كرے "
ديكھيں: كشاف القناع ( 3 / 23 ).
اسے قربانى كے گوشت كى طرح ہى تقسيم كيا جائيگا، اور انہوں نے عقيقہ كے جانور كے ليے شروط بھى لگائى ہيں كہ وہ لنگڑى، كانى، اور اور واضح بيمار، اور شديد كمزور نہ ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور كھانے پينے اور ہديہ اور صدقہ كرنے ميں اس كا طريقہ اسى طرح ہے ـ يعنى عقيقہ كا طريقہ بھى قربانى كے طريقہ جيسا ہى ہے .. ـ امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے.
اور ابن سيرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے گوشت كا جو چاہو كرو، اور ابن جريج رحمہ اللہ كہتے ہيں: اسے پانى اور نمك ميں پكا كر پڑوسيوں اور دوست و احباب ميں تقسيم كرو، اور اس ميں سے صدقہ نہ كرو.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے ابن سيرين كا قول بيان كيا، جو اس بات كى دليل ہے كہ امام احمد بھى اسى كے قائل ہيں، اور ان سے سوال كيا گيا كہ كيا اس ميں سے خود بھى كھائے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: ميں يہ نہيں كہتا كہ وہ سارا خود ہى كھائے اور اسميں سے صدقہ كچھ بھى نہ كرے.
اور اسے قربانى پر قياس كرنا زيادہ مشابہ ہے كيونكہ يہ مشروع ہے اور واجب نہيں، تو يہ قربانى كےمشابہ ہوا، اور اس ليے بھى كہ يہ صفات اور عمر اور قدر و شروط وغيرہ ميں قربانى كے مشابہ ہے تو مصرف ميں بھى اس كے مشابہ ہو گا... "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 366 ).
اور شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آيا اس ميں وہى شروط ہونگى جو قربانى ميں پائى جاتى ہيں ؟
شافعيہ كے ہاں اس ميں دو طريقے ہيں، اور مطلقا دو بكريوں سے استدلال كيا جاتا ہے كہ اس ميں كوئى شرط نہيں، اور يہى حق ہے "
ديكھيں: نيل الاوطار ( 5 / 231 ).
قربانى اور عقيقہ ميں كچھ فرق بيان كيے گئے جو اس كى دليل ہيں كہ عقيقہ ہر چيز ميں قربانى كى طرح نہيں.
تو اسطرح يہ ثابت ہوا كہ سنت ميں عقيقہ كى تقسيم ميں كوئى معين طريقہ وارد نہيں، اور بچہ پيدا ہونے كى خوشى ميں اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے، اور اسے شيطان سے آزادى اور اس سے دور ركھنے كے ليے خون بہا كر اللہ كا قرب حاصل كرنا مراد ہے، جيسا كہ حديث سے استدلال ہوتا ہے: " ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے "
رہا اسكے گوشت كا حكم تو آپ كے ليے حلال ہے آپ جو چاہيں كريں، چاہيں تو خود بھى كھائيں اور اپنے اہل و عيال كو بھى كھلائيں، يا پھر اسے صدقہ كر ديں، يا كچھ كھا ليں، اور كچھ صدقہ كر ديں، ابن سيرين كا قول يہى ہے، اورامام احمد بھى اسى كا قائل ہيں.
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ا̳و̳ر̳ ا̳س̳ ک̳ے̳ ا̳ح̳ک̳ا̳م̳
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ پ̳ر̳ س̳ل̳ف̳ و̳ ص̳ا̳ل̳ح̳ی̳ن̳ ک̳ا̳ ع̳م̳ل̳:̳
تمام مستند احادیث اور روایات کے مطالعہ سے یہ بات وثوق کی حد تک پہنچ جاتی ہےکہ عہد نبویؐ اور خلفائے راشدینؓ کے ادوار خلافت میں تمام صحابہؓ و تابعین [({اپنی اولاد کا عقیقہ کیا کرتے تھے۔'' اور مؤطا اما محمد کے حاشیہ پر یہ تصریح موجود ہے کہ: ''آنحضرتﷺ کے وصال کے بعص صحابہ کرامؓ عقیقہ کیا کرتے تھے۔''
(تعلیق الممجد حاشیہ مؤطا امام محمد، طبع کراچی صفحہ 291 حاشیہ نمبر 2)}] کا اس سنت پر عمل رہا ہے، بعد کے ادوار میں بھی تمام اہل علم او رعامل بالحدیث طبقہ میں اس سنت پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہا ہے، نیز اس پر خود رسولﷺ کا عمل کرنا اور آج تک اس پر تواتر کے ساتھ عمل ہوتے چلے آنا بذات خود اس کی مشروعیت کی واضح دلیل ہے۔
عقیقہ کی شرعی نوعیت پر فقہاء کی آراء :
اس امر میں فقہائے اسلام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ عقیقہ کی شرعی نوعیت یا حیثیت کیا ہے؟ مشہور مسالک سے اہل حدیث (سلفی، شافعی، حنبلی او رمالکی مسلک کے پیرو عقیقہ کی مشروعیت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعض اس کی شرعی نوعیت کی تعیین میں اختلاف رکھتے ہیں۔
ائمہ مجتہدین کا ایک گروہ جو عقیقہ کے سنت اورمستحب ہونے کا قائل ہے، اس میں امام مالک، اہل مدینہ، امام شافعی اور ان کے اصحب ، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، علمائے اہلحدیث اور فقہ و علم و اجتہاد کے کبار علماء کی ایک بڑی جماعت شامل ہے۔(رحمهم اللہ تعالیٰ)
فقہاء کا ایک دوسرا گروہ جو عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کا قائل ہے، اس میں امام حسن بصری، امام لیث امام ابن سعد وغیرہ شامل ہیں او رامام ابن حزم تو عقیقہ کو فرض قرار دیتے ہیں۔ii
فقہاء کا ایک تیسرا گروہ وہ ہے جو سرے سے عقیقہ کی مشروعیت کا قائل ہی نہیں ہے۔ اس گروہ میں فقہائے حنفیہ کا شمار ہوتا ہے۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ س̳ن̳ت̳ ی̳ا̳ و̳ا̳ج̳ب̳ :̳
شرعئی نصوص سے عقیقہ کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ
( صحيح أبي داود / 2842)
جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
جمہور علماے کرام کا موقف بھی ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰
امام ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ
المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۰
"اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ ، فقہاے تابعین﷭ اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔"
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ الجوزیۃ کا بیان ہے :
«فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِﷺ
تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸
"جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہﷺکی سنت ہے۔"
ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: «لاَ یُحِبَّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ» وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ»
سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷
"نبیﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ عقوق کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے یہ نام ( عقیقہ) نا پسند کیا۔ پھر فرمایا : "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔"
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ
1. امام شوکانیؓ بیان کرتے ہیں: حدیث میں: «مَنْ أَحَبَّ» کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔
نیل الأوطار : ۵؍۴۴
2. حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: اس حدیث میں«مَنْ أَحَبَّ»کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔
التمہید لا بن عبد البر : ۴؍۳۱۱
3. امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: «وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا
موطا امام مالک: ۲۹۵
"عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔"
{ فاروق رفیع صاحب حفظہ اللہ }
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ س̳نّ̳̳ت̳ و̳ م̳س̳ت̳ح̳ب̳ ہ̳و̳ن̳ے̳ ک̳ے̳ ش̳ر̳ع̳ی̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳:̳
عقیقہ کے سنّت و مستحب ہونے پر بہت سی احادیث نبوی ﷺ شاہد ہیں، مثلاً
1۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہیے تو لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرے۔''
سنن أبي داود کتاب الأضاحي و سنن النسائي کتاب العقیقة و إسنادہ جید
2۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عن ولده فلیفعل''
''جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنےبچہ کی جانب سے ذبح کرنا چاہے تو کرے۔''
مؤطا امام مالک، کتاب العقیقة و إسنادہ، ضعیف
3۔ ''مع الغلام عقیقة فأھر یقوا عنه دما و أمیطوا عنه الأذٰی''
صحیح بخاری
4۔ ''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسمٰی''
سنن أبي داود وترمذي و نسائي و ابن ماجة و غیرها بالأسانید الصحیحة
ان تمام روایات سے عقیقہ کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ و̳ا̳ج̳ب̳ ہ̳و̳ن̳ے̳ ک̳ے̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ا̳و̳ر̳ ا̳ن̳ ک̳ا̳ ع̳ل̳م̳ی̳ ج̳ا̳ئ̳ز̳ہ̳ :̳
جو فقہاء عقیقہ کی تحتیم اور وجوب کے قائل ہیں، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ بریدہ اسلمیؓ کی مذکورہ روایت کہ:
''إن الناس یعرضون یوم القیامة علی العقیقة کما یعرضون علی الصلوات الخمس''
لیکن یہ حدیث نبویؐ نہیں بلکہ قول صحابیؓ ہے او رپھر اس کی سند میں صالح بن حیان متروک الحدیث ہے
عقیقہ کے وجوب پر استدلال کرتی ہے۔
2۔ حضرت سمرہ بن جندبؓ کی روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:
''کل غلام رھینة بعقیقته''
رواہ اصحاب السنن
او ربعض روایات میں یہ الفاظ ہیں: ''الغلام مرتھن بعقیقته'' ان روایات کے الفاظ ''رھینة'' اور ''مرتھن'' عقیقہ کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔
3۔ حضرت سلمان بن عامر الضبی کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کے الفاط : ''مع الغلام عقیقة''
رواہ البخاری
بھی وجوب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
4۔ ''اگر والدین بچہ کی طرف سے عقیقہ کریں تو بچہ اپنے والدین کی شفاعت پر محبوس و مامور ہے۔'' یہ امر بھی عقیقہ کے وجوب کا متقاضی ہے۔
ج̳و̳ ف̳ق̳ہ̳ا̳ء̳ ک̳ر̳ا̳م̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ و̳ج̳و̳ب̳ ک̳ے̳ ق̳ا̳ئ̳ل̳ ن̳ہ̳ی̳ں̳ ہ̳ی̳ں̳،̳ و̳ہ̳ ا̳ن̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ک̳ے̳ ح̳س̳ب̳ ذ̳ی̳ل̳ ج̳و̳ا̳ب̳ د̳ی̳ت̳ے̳ ہ̳ی̳ں̳:̳
1۔ اگر عقیقہ کرنا واجب ہوتا تو اس کا وجوب دین و شریعت سے معلوم ہوتا۔
2۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے امت پراس کا وجوب کافی اور واضح طریقہ پر بیان کیا ہوتا۔
3۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو اس پر حجت قطعی موجود ہوتی او راس کا وجوب صرف عذر شرعی کی موجودگی میں منقطع ہوتا۔
4۔ اگر عقیقہ واجب ہوتا تو عذر شرعی کی عدم موجودگی میں ترک کیا جانے والا عقیقہ گناہ کا سبب ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
5۔ رسول اللہ ﷺ کا خود عقیقہ کرنا اس کے وجوب کے بجائے استحباب پر دلالت کرتا ہے۔
6۔ احادیث نبویؐ کے الفاط '''رھینة''، ''مرتھن'' ، ''مع الغلام عقیقة'' اور ''الناس یعرضون یوم القیٰمة علی العقیقة'' وغیرہ عقیقہ کے وجوب کے بجائے اس کے استحباب پر دلالت کرتے ہیں۔
7۔ عقیقہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك الخ'' اور ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك فلیفعل'' کے یہ الفاظ بھی عقیقہ کے مستحب ہونے پر واضح دلیل ہیں۔
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ی̳ م̳ش̳ر̳و̳ع̳ی̳ت̳ ک̳ے̳ا̳ن̳ک̳ا̳ر̳ ک̳ی̳ ب̳ن̳ی̳ا̳د̳ا̳و̳ر̳ ا̳س̳ ک̳ا̳ ع̳ل̳م̳ی̳ ج̳ا̳ئ̳ز̳ہ̳:̳
جو فقہاء عقیقہ کی مشروعیت کے قائل نہیں ہیں، ان کی حجت و دلائل یہ ہیں:
1۔ عمرو بن شعیب کی حدیث، جسے انہوں نے اپنے والد سے او رانہوں نے ان کے دادا سے نقل کیا ہے کہ:
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''لاأحب العقوق'' 7
''عقیقہ مجھے پسند نہیں ہے۔''
رواہ البیہقی صفحہ 2
2۔ ابی رافع ؓ کی حدیث کہ جب حسن بن علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہؓ نے ان کا عقیقہ دو مینڈھوں سے کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه فتصد قي بوزنه من الورق ثم ولد حسین فصنعت مثل ذٰلك''
مسنداحمد صفحہ 6؍396
''عقیقہ نہ کرو مگر اس کا سرمونڈو او راس کے بال کے وزن کی مقدار میں چاندی صدقہ دو۔ پھر جب حسینؓ کی ولادت ہوئی تو میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔''
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ی̳ م̳ش̳ر̳و̳ع̳ی̳ت̳ ک̳ے̳ م̳ن̳ک̳ر̳ی̳ن̳ ک̳ے̳ ا̳ن̳ د̳ل̳ا̳ئ̳ل̳ ک̳ا̳ ج̳و̳ا̳ب̳ م̳ح̳ق̳ق̳ی̳ن̳ ا̳س̳ ط̳ر̳ح̳ د̳ی̳ت̳ے̳ ہ̳ی̳ں̳ ک̳ہ̳:̳
''وہ احادیث جن سے عقیقہ کی مشروعیت کے انکار پر استدلال کیا جاتا ہے، ان کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس انکار کی کوئی دلیل بھی صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تمام دلیلیں اپنے ظواہر کے اعتبار سے عقیقہ کے سنت و مستحب ہونے کی تائید و تاکید ہی ثابت کرتی ہے لہٰذا فقہاء اور اکثر اہل علم و اجتہاد اسی طرف گئے ہیں۔''
جہاں تک عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ''لا أحب العقوق'' کا تعلق ہے تو اس حدیث کا سیاق اور اس کے درود کے اسباب اس امر پر دلالت کرتے ہین کہ عقیقہ قطعاً سنت و مستحب ہی ہے۔ حدیث کے سیاق و سباق کے الفاظ ملاحظہ ہوں جو اس طرح ہیں: ''عقیقہ کے متعلق جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ''مجھے عقوق پسند نہیں ہے۔'' آپؐ نے ایسا اس لیے فرمایا تھا کیونکہ آپؐ کو یہ نام ناپسند تھا (یعنی ذبیحہ کو عقیقہ کہناکیونکہ ''عقوق'' کا معنی ''نافرمانی'' بھی ہے) پھر لوگوں نے دریافت کیا کہ : ''یارسول اللہﷺ، ہم میں سے جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:
''من أحب منکم أن ینسك عن ولده فلیفعل عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریة شاة''
یعنی ''تم میں سے جو اپنے بچہ کی طرف سے ذبیحہ کرنا چاہے وہ لڑکے پر ایک جیسی دو بکریاں اور لڑکی پرایک بکری ذبح کرے۔''
اس حدیث کے ظواہر سے فقہاء کے ایک گروہ نے لفظ ''عقیقہ'' کا ''نسیکہ'' سے استبدال پر استدلال کیا ہے او ریہ بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو''عقیقہ'' نام ناپسند تھا۔ لیکن فقہاء کا ایک دوسرا گروہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا او راس نااتفاقی کی وجہ وہ بہت سی احادیث بتاتا ہے جن میں اس موقع کے ذبیحہ کا نام''عقیقہ'' خود رسول اللہ ﷺ سے بلا اظہار کراہت مروی ہے۔ علماء کاایک تیسرا گروہ ان دونوں آراء کے مابین اتحاد و اتفاق کی صورت یہ پیش کرتا ہے کہ اس موقع کے ذبیحہ کے لیے ''عقیقہ'' اور ''نسیکہ'' دونوں ناموں کااستعمال درست اور صحیح ہے لفظ ''نسیکہ'' استعمال کرنا اگرچہ بہتر ہے، لیکن حکم بیان کرنے یا وضاحت یا مراد و مقصد کے اظہار کے لیے ''عقیقہ'' کا لفظ استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور یہ طریقہ احادیت نبویؐ کے موافق بھی ہے۔ او رجہاں تک منکرین مشروعیت عقیقہ کی دوسری دلیل یعنی ابی رافع کی حدیث کے الفاظ ''لا تعقي ولٰکن احلقي رأسه.......... الخ'' کا تعلق ہے تو فی الحقیقت اس روایت سے بھی عقیقہ کی مشروعیت کے انکار یا ا س کی کراہت پر دلالت نہیں ہوتی۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں نواسوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کی جانب سے خود کرنا پسند فرمائے تھے (جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی)، چونکہ آپؐ نے ان حضرات کے عقیقے خود فرمائے تھے اس لیے مکرر عقیقے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ پس آپؐ نے حکم فرمایا کہ : ''ان کے عقیقے نہ کرو لیکن سر کے بال مونڈواؤ اور اس کے وزن کے مقدار میں چاند صدقہ دو۔''
ر̳س̳و̳ل̳ ا̳ل̳ل̳ہ̳ ﷺ̳ ک̳ا̳ خ̳و̳د̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ر̳ن̳ا̳:̳
رسول اللہ ؐ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے خود کئے تھے، اس بات کی تائید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں سے چند ذیل میں پیش خدمت ہیں:
1۔ حضرت ایوب نے عکرمہ او رانہوں نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا۔''
9. سنن ابی داؤد صفحہ 3؍66
2۔ حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کیا۔''
سنن نسائي ، کتاب العقیقة و إسنادہ جید
3۔ جریر بن حازم نے قتادہ سے او رانہوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے:
''أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشین''
''نبی ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ دو مینڈھوں سےکیا۔''
سنن البیہقی صفحہ 9؍299
4۔ یحییٰ بن سعیدنے عمرہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کی ہے کہ:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن و الحسین یوم السابع''
''رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ساتویں دن فرمایا۔''
مستدرک حاکم صفحہ 4؍237
ک̳ی̳ا̳ م̳ذ̳کّ̳̳ر̳ ک̳ا̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ م̳ؤ̳ن̳ت̳ ک̳ے̳ م̳ث̳ل̳ ہ̳ے̳ :̳
تمام اہل علم و جمہور فقہاء و مجتہدین کے نزدیک متفقہ طور پر مؤنث او رمذکر دونوں پر عقیقہ کیا جانا یکساں طور پرمستحب سنت ہے او را س کی شرعی نوعیت میں مذکر و مونث کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے۔ لیکن مونث و مذکر کی فضیلت و مراتب کے فرق کے اعتبار سے آیا مذکر و مونث دونوں پر ایک ایک بکری یا دونوں پر دو دو بکریاں یا ان میں سے کسی پر ایک اور کسی پر دو بکریاں ذبح کرنا مشروع ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی دو مختلف رائیں ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ، حضرت عائشہؓ ، اہل حدیث او راہل علم حضرات کی ایک بڑی جماعت کا مسلک یہ ہے کہ مونث و مذکر کی فضیلت او رمراتب کے فرق کے اعتبار سے مذکر کے لیے دو بکریاں اور مونث کے لیے ایک بکری ذبح کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔مثلاً:
1۔ اُم کرز کعبیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الأنثٰی واحدة''
''لڑکے پر دو بکریاں او رلڑکی پر ایک بکری ہے۔''
مسنداحمد صفحہ 6؍422 و سنن الترمذی مع التحفة صفحہ 2؍362
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
2۔''أمرنا علیه الصلوٰةوالسلام أن نعق عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
سنن ابن ماجہ ،صفحہ2؍281 طبع مصر
3۔ ''من ولدله ولد فأحب أن ینسك عنه فلینسك عن الغلام شاتین و عن الجاریة شاة''
سنن ابی داؤد سنن نسائی
اس مسلک کے برخلاف امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ مذکر اور مونث دونوں پر یکساں طور پر ایک ایک بکری ہی ذبح کرنا مسنون ہے، اور ان کے مابین عقیقہ میں فضیلت مراتب کے فرق کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلک کی تائید میں امام مالکرحمہ اللہ خود رسول اللہﷺ کا فعل یعنی حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے والی مندرجہ ذیل روایات پیش کرتے ہیں:
1۔ ''عن ابن عباس رضی اللہ عنهما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن والحسین کبشا کبشا''
سنن ابی داؤد مع العون صفحہ 3؍66
2۔ ''ذکر جریر بن حازم عن قتادة عن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشین''
مجمع الزوائد صفحہ 4؍57
3۔ ''روی جعفر بن محمد عن أبيه أن فاطمة ذبحت عن حسن و حسین کبشا کبشا''
. تحفۃ المودود صفحہ47
''جعفر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ پر ایک ایک بھیڑ ذبح کی۔''
4۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
''وکان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنهما یعق عن الغلمان والجواري من ولدہ شاة شاة''
تحفۃ المودود صفحہ 47
''اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے اپنی اولاد میں سے لڑکے او رلڑکیوں کی طرف سے ایک ایک بکری کا عقیقہ کیا۔''
بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ لڑکے او رلڑکی پر کتنے جانور ذبح کیے جائیں؟ تو آپرحمہ اللہ نے فرمایا:
''یذبح عن الغلام شاة واحدة و عن الجارية شاة''
محققین او راہل علم حضرات اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ''اگر اللہ تعالیٰ استطاعت دے تو لڑکے پر دو جانور او رلڑکی پر ایک جانور ذبح کیا جائے۔ اگرلڑکے کے عقیقہ پر دو جانور ذبح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو ایک جانور ذبح کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح لڑکی کے عقیقہ پرایک سے زیادہ جانور ذبح کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔''
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ر̳ن̳ے̳ ک̳ا̳ م̳س̳ت̳ح̳ب̳ و̳ق̳ت̳:̳
بچہ کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کرنا افضل اور مسنون ہے۔ جیسا کہ حضرت سمرۃ بن جندبؓ کی حدیث میںمروی اور رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک سے ثابت ہے:
''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسقیٰ''
سنن أبي داود و ترمذي والنسائي و ابن ماجة وغیرها عن سمرة بن جندبؓ
نیز :
''عق ............. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن حسن و حسین یوم السابع و سماھما و أمر أن یماط عن رؤو سھما الأذٰی''
(رواہ تربیة الأولاد في الإسلام تالیف أستاد عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍94 مطبع دارالسلام حلب عبداللہ بن وہب عن عائشہؓ)
مندرجہ بالا دونوں احادیث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہیں، ان احادیث کی روشنی میں عقیقہ کے ذبیحہ کے لیے ولادت کا ساتواں دن بلا شک و شبہ مستحب قرار پاتا ہے۔ لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اگر ولادت کے ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکے تو چودہویں دن کیا جائے اور اگر چودہویں دن بھی نہ کیا جاسکے تو اکیسویں دن کیا جائے۔
حضرت بریدہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا:
''تذبح لسبع ولأ ربع عشرة ولإ حدیٰ و عشرین''
''ساتویں، چودہویں او راکیسویں دن ذبح کیا جائے گا۔''
. سنن بیہقی ج9 صفحہ303 و إسنادہ، ضعیف
حضرت اُم کرز اور ابوکرزؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے عقیقہ کےمتعلق فرمایا:
''......... ولکن ذاك یوم السابع فإن لم يکن ففي أربعة عشر فإن لم یکن ففي إحدیٰ عشرین''
''یہ (عقیقہ) ساتویں دن ہونا چاہیے اور اگر نہ ہوسکے تو چودہویں دن اور پھربھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن''
مستدرک حاکم ج4 صفحہ 238۔239
میمونی کا قول ہے : ''میں نے عبداللہ سے سوال کیا کہ لڑکے پر عقیقہ کب کیا جاتا ہے ؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
''(في) سبعة أیام و أربعة عشر ولأ حدو عشرین''
یعنی ''ساتویں دن، چودہویں دن اور اکیسویں دن۔''
صالح بن احمد فرماتے ہیں : ''میں نے اپنے والد سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
''تذبح یوم السابع وإن لم یفعل ففي أربعة عشر فإن لم یفعل ففي إحدیٰ و عشرین''
یعنی ''ساتویں دن ذبح کیا جائےگا پس اگر ایسا نہ کرسکے تو چودہویں دن اور اگر چودہویں دن بھی نہ کرسکے توپھر اکیسویں دن''
دن کی اس تعیین کے سلسلہ میں محققین کی رائے ہے کہ ''عقیقہ ساتویں دن کئے جانے کی قید لزوم کے باب سے نہیں بلکہ استحباب کی وجہ سے ہے۔ پس اگر ساتویں دن کے بجائے چودہویں او راکیسویں دن اور بعض کے نزدیک چوتھے، آٹھویں ، دسویں یا اس کے بعد کبھی بھی کرلے تو عقیقہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ امام مالک  فرماتے ہیں:
''والظاھر أن التقید بالیوم السابع إنما ھو علیٰ وجه الاستحباب وإلا فلو ذبح عنه الیوم الرابع أو الثامن أو العاشر أو مابعدہ أجزأت العقیقة''
( تربیة الأولاد في الإسلام تألیف استاذ شیخ عبداللہ ناصح علوان صفحہ 1؍93 طبع حلب)
''او ریہ ظاہر ہے کہ ساتویں دن کی قید محض استحباب کی وجہ سے ہے، اگر بچہ کی طرف سے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں یا اس کے بعد کسی اور دن ذبیحہ کیا جائے تو بھی عقیقہ ہوجاتا ہے۔''
خلاصہ کلام یہ ہےکہ اگرباب اپنی اولاد کے ساتویں دن قدرت و استطاعت رکھتا ہو تو مستحب طریقہ پر ا س کا عقیقہ کرکے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو زندہ رکھے اور اس کی فضیلت و برکات نیز اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو۔ اگر کسی مجبوی کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکتا ہو تو چودہویں دن کرلے، اگر ایسا بھی کرنا ممکن نہ ہو تو اکیسویں دن کرلے۔ اگر اکیسویں دن کی استطاعت بھی نہ ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ استطاعت بخشے، بلاتاخیر عقیقہ کر ڈالے۔''يُرِ‌يدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ‌...﴿١٨٥﴾...سورۃ البقرۃ'' اور ''وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ...﴿٧٨﴾...سورۃ الحج'' کا یہی تقاضا ہے۔ ایسی صورت میں نفس عقیقہ تو ہوجائے گا، لیکن ساتویں یا چودہویں او راکیسویں دن، عقیقہ کرنے میں جو اجر و ثواب ہے ، وہ حاصل نہ ہوگا بلکہ سید قاسم محمود صاحب تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ''اگر والدین (عقیقہ) نہ دے سکیں تو بچہ جوان ہوکر خود کرے۔ ''
( شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا مرتبہ سید قاسم محمود صفحہ 1082 طبع شاہکار فاؤنڈیشن)
محترم جناب غازی عزیر
ع̳ی̳د̳ ک̳ی̳ ق̳ر̳ب̳ا̳ن̳ی̳ م̳ی̳ں̳ ب̳ی̳ٹ̳ے̳ ا̳و̳ر̳ ب̳ی̳ٹ̳ی̳ ک̳ے̳ ع̳ق̳ی̳ق̳ے̳ ک̳ی̳ ن̳ی̳ت̳ س̳ے̳ ذ̳ب̳ح̳ ک̳ر̳ن̳ے̳ ک̳ا̳ ح̳ک̳م̳ :̳
راجح یہ ہے کہ عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے، ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے ، اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے، لہذا عقیقے میں مکمل گائے یا مکمل اونٹ یا مکمل بکری ہی ذبح کرنا کافی ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428) میں کہتے ہیں:
"اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلیے کافی ہوتے ہیں، لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا؛ کیونکہ عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے، لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے؛ کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے ، لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ : اونٹ کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے ، لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا؟! [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے کیلیے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے تو یہ کفایت نہیں کر ے گا۔
اس ضمن میں درست عمل یہ ہے کہ ایک جانور قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا کفایت نہیں کرے گا، اس لیے عقیقے کیلیے الگ بکری ذبح کریں یہ افضل ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424) میں کہتے ہیں:
"عقیقے میں بکری ذبح کرنا مکمل اونٹ ذبح کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرتے ہوئے احادیث میں صرف بکری کا ذکر ہی ملتا ہے، ا س لیے عقیقے میں بکری ذبح کرنا ہی افضل ہو گا" انتہی
اس لیے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور بیٹی کی جانب سے ایک بکری ذبح کی جائیں گی۔
جبکہ عید کی قربانی کے حوالے سے اختیار ہے کہ اونٹ، گائے، یا بکری ذبح کر لیں، عید کی قربانی میں مکمل اونٹ افضل ہے، اس کے بعد مکمل گائے اور پھر بکری ، اس بارے میں مکمل تفصیلات پہلے فتوی نمبر: (45767) میں موجود ہیں۔
فضیلةالشیخ محمد صالح المنجد حفظ اللہ
ع̳ق̳ی̳ق̳ے̳ ک̳ے̳ ج̳ا̳ن̳و̳ر̳ ک̳ی̳ ش̳ر̳ا̳ئ̳ط̳
عقیقہ کےلئے احادیث میں جو الفاظ وارد ہیں ان سے معلو م ہوتا ہے کہ عقیقہ کےجانور میں قربانی کی شرائط نہیں ، نیز کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کےجانور پر قربانی کی شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا اور جو لوگ یہ شرائط عائد کرتے ہیں ان کے پاس قیاس کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے، تاہم عقیقہ کےجانور میں متقارب اور مساوی کی قید اس بات کی متقاضی ہے کہ شریعت نے قربانی کےجانور میں جن عیوب ونقائص سے بچنے کا حکم دیا ہے انہیں عقیقہ کےجانور میں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں بھی ان عیوب سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے قربانی کے جانور میں احتراز کیا جاتا ہے۔
(مغنی الابن قدامہ ،ص:۳۹۹،ج ۱۳)
بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر مبنی برحقیقت ہے کہ عقیقہ کےجانور کا دودانتہ ہونا ضروری نہیں ہے لیکن موٹا تازہ ہوناچاہیے ، جسے بکرا یا مینڈھا کہا جاسکے۔
احادیث میں عقیقہ کےلئے جن جانوروں کی قربانی کا ثبوت ملتا ہے وہ بکری یا دنبہ ہے۔ حضرت ام کرزؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ‘‘لڑکے کی طرف سے دومساوی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جاتی ہے۔ ’’ (مسند امام احمد،ص:۳۸۱،ج ۶)
اس طرح دیگر روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کےلئے بکری یا دنبے کا ذکر ہی ملتا ہے، اس لئے عقیقہ میں صرف انہی جانوروں کو ذبح کیا جائے، نیز ان کے نزدیک نر یا مادہ سے ثواب میں کمی نہیں ہوگی، جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
(ابو داؤد،الاضاحی:۲۸۳۵)
اگر گائے کو عقیقہ میں ذبح کرنا ہے تو لڑکے کے لئے اس کےساتھ ایک اور جانور ملانا ہوگا لیکن سات حصے عقیقہ کےطور پر رکھنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ بلکہ حضرت عائشہؓ نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کرنے پر معاذ اللہ پڑھ کر اپنی خفگی کا اظہار کیا تھا۔
(بیہقی ص:۳۰۱،ج ۹)
اس بنا پر سنت پر عمل کرتے ہوئے صرف بکری یا دنبہ اور مینڈھے وغیرہ پر ہی اکتفا کیا جائے۔
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد 2 /صفحہ383
نومولود کا عقیقہ کرنا سنت ہے، نہ کہ واجب، عقیقے میں لڑکے کی طرف سے دو، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جاتی ہے، اور عقیقے کے جانور میں ان ہی شرائط کا اعتبار ہوگا جو قربانی کے جانور میں معتبر ہیں، ساتویں دن عقیقہ کرنا افضل ہے، اور اگر سات دن سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت عقیقہ کیا جائے، تو بھی کافی ہوجائے گا، اور جب کسی انسان کے والد نے اس کا عقیقہ نہ کیا ہے تو اگرچہ وہ ایک بڑی عمر کو ہی کیوں نہ پہنچ جائے، اس کا اپنا عقیقہ کر لینا بہتر ہے۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
عقیقہ کا حکم مثل قربانی کے ہے۔جتنی عمر کا جانور قربانی میں ہو سکتا ہے۔ اتنی ہی عمر کا عقیقہ میں جس طرح قربانی کی تقسیم ہے۔اسی طرح عقیقہ کی عقیقہ کا اصل وقت پیدائش سے ساتواں دن ہے۔اگر نہ ہو سکے تو بطور قضا کے چودہواں۔اکیسواں اقوال ہیں۔عقیقہ کا گوشت جو اپنے اور برادری کے حصے کا ہو اسکو پکا کر کھلا دے تو منع نہیں جائز ہے۔
(فتاوی ثنائیہ دہلی جلد 1 ص 566)
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 13 /ص 193
ع̳ق̳ی̳ق̳ہ̳ ک̳ے̳ گ̳و̳ش̳ت̳ ک̳ا̳ م̳ص̳ر̳ف̳ :̳
عقیقے کے گوشت کے بارے میں تقسیم کرنے کی کیفیت شریعت میں بیان نہیں ہوئی، اور نہ ہی اس میں سے کھانے اور صدقہ کرنے کے متعلق کوئی حکم ہے۔
اس لئے انسان کسی بھی انداز کو عقیقہ کے گوشت کیلئے اپنا سکتا ہے، چاہے تو مکمل صدقہ کردے، اور چاہے تو مکمل ہی کھا لے، تاہم افضل یہی ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے بارے میں بھی وہی طریقہ کار اپنائے جو قربانی کے گوشت کے ساتھ اپنایا جاتا ہے۔
چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ اسے کیسے تقسیم کرے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جیسے چاہو تقسیم کرو" اور ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ: "اپنی مرضی سے جیسے چاہو کرو" انتہی
" تحفة المودود بأحكام المولود " (ص 55)
بعض فقھاء كہتے ہيں كہ:
عقيقہ بھى احكام و مصرف ميں قربانى كى طرح ہے، اس ليے اسے تين حصوں ميں تقسيم كرنا مستحب ہے، ايك حصہ اپنے ليے اور ايك دوست و احباب كے ليے، اور ايك فقراء كے ليے.
اور بعض كہتے ہيں كہ: عقيقہ قربانى كى طرح نہيں تو جس طرح وہ چاہے كر سكتا ہے، آپ سوال نمبر ( 8423 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
بہر حال اگر عقيقہ كے گوشت ميں سے كچھ بھى دوسروں كا نہ ديا جائے تو بھى كفائت كر جائيگا، ليكن قربانى كے متعلق يہ ہے كہ اگر كوئى شخص قربانى كا سارا گوشت خود ہى كھا جائے اور اس ميں سے كچھ بھى صدقہ نہ كرے تو وہ ضامن ہے، اور ايك اوقيہ گوشت خريد كر اسے صدقہ كرے "
ديكھيں: كشاف القناع ( 3 / 23 ).
اسے قربانى كے گوشت كى طرح ہى تقسيم كيا جائيگا، اور انہوں نے عقيقہ كے جانور كے ليے شروط بھى لگائى ہيں كہ وہ لنگڑى، كانى، اور اور واضح بيمار، اور شديد كمزور نہ ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور كھانے پينے اور ہديہ اور صدقہ كرنے ميں اس كا طريقہ اسى طرح ہے ـ يعنى عقيقہ كا طريقہ بھى قربانى كے طريقہ جيسا ہى ہے .. ـ امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے.
اور ابن سيرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے گوشت كا جو چاہو كرو، اور ابن جريج رحمہ اللہ كہتے ہيں: اسے پانى اور نمك ميں پكا كر پڑوسيوں اور دوست و احباب ميں تقسيم كرو، اور اس ميں سے صدقہ نہ كرو.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے ابن سيرين كا قول بيان كيا، جو اس بات كى دليل ہے كہ امام احمد بھى اسى كے قائل ہيں، اور ان سے سوال كيا گيا كہ كيا اس ميں سے خود بھى كھائے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: ميں يہ نہيں كہتا كہ وہ سارا خود ہى كھائے اور اسميں سے صدقہ كچھ بھى نہ كرے.
اور اسے قربانى پر قياس كرنا زيادہ مشابہ ہے كيونكہ يہ مشروع ہے اور واجب نہيں، تو يہ قربانى كےمشابہ ہوا، اور اس ليے بھى كہ يہ صفات اور عمر اور قدر و شروط وغيرہ ميں قربانى كے مشابہ ہے تو مصرف ميں بھى اس كے مشابہ ہو گا... "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 366 ).
اور شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آيا اس ميں وہى شروط ہونگى جو قربانى ميں پائى جاتى ہيں ؟
شافعيہ كے ہاں اس ميں دو طريقے ہيں، اور مطلقا دو بكريوں سے استدلال كيا جاتا ہے كہ اس ميں كوئى شرط نہيں، اور يہى حق ہے "
ديكھيں: نيل الاوطار ( 5 / 231 ).
قربانى اور عقيقہ ميں كچھ فرق بيان كيے گئے جو اس كى دليل ہيں كہ عقيقہ ہر چيز ميں قربانى كى طرح نہيں.
تو اسطرح يہ ثابت ہوا كہ سنت ميں عقيقہ كى تقسيم ميں كوئى معين طريقہ وارد نہيں، اور بچہ پيدا ہونے كى خوشى ميں اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے، اور اسے شيطان سے آزادى اور اس سے دور ركھنے كے ليے خون بہا كر اللہ كا قرب حاصل كرنا مراد ہے، جيسا كہ حديث سے استدلال ہوتا ہے: " ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے "
رہا اسكے گوشت كا حكم تو آپ كے ليے حلال ہے آپ جو چاہيں كريں، چاہيں تو خود بھى كھائيں اور اپنے اہل و عيال كو بھى كھلائيں، يا پھر اسے صدقہ كر ديں، يا كچھ كھا ليں، اور كچھ صدقہ كر ديں، ابن سيرين كا قول يہى ہے، اورامام احمد بھى اسى كا قائل ہيں.
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Post a Comment

Whatsapp Button works on Mobile Device only

Start typing and press Enter to search