کیا جمہوریت ایک طاغوتی نظام ہے
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ ، الشیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ اور دیگر علماء کے قلم سے اس موضوع پر ایک فتوی حاضر ہے ۔ یہ فتویٰ اردن سے عربی میں شائع ہونے والے ایک سلفی ماہنامہ ’’الاصالۃ‘‘ کے شمارہ بابت جمادی الثانیۃ ۱۴۱۳ھ صفحہ ۱۶ تا ۲۴ سے لیا گیا ہے۔
" وہ حضرات جو انتخابی سیاست کے علاوہ کسی اور میدان میں ایک باطل نظام یا باطل قوت کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمت و نصرت کے قائل (وفاعل) ہیں اور دلیل میں رسول اللہﷺ کا یہود سے میثاق یا حلفِ خزاعہ یا مطعم بن عدی سے پناہ لینا یا صلح حدیبیہ وغیرہ ایسے واقعات پیش کرتے ہیں انکا مختصر مگر کافی اور شافی جواب بھی اسی فتویٰ میں موجود ہے۔
عالم اسلام کے متعدد ممالک میں اس وقت جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی نظام قائم ہے۔ شریعت کے حوالے سے ہمارے ملک میں بھی عرصۂ دراز سے اس پر لے دے ہو رہی ہے مگر اسکو کھل کر شرک اور طاغوت قرار دینا بہت واضح ہونے کے باوجود ایسا حق ہے جس پر لبوں کو جنبش دینا ہنوز مشکل ہے۔ گو جمہوریت کو کبھی کبھار شرک کہہ لینے والے طبقے کی بہت زیادہ کمی نہیں مگر اس پر قائم نظام سے دشمنی اور عداوت ، جو کہ اسے شرک کہنے کا حتمی اور لازمی تقاضا ہے، ہمارے یہاں تقریباً ناپید ہے۔
اس طبقے میں اگر ایک صِنف شرک اور اہل شرک سے عداوت اور بغض رکھنے کی فرضیت سے ناواقف ہے تو ایسی صنف کا وجود بھی خارج ازامکان نہیں جو اس فرض سے ’’ناواقف‘‘ نظر آنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہو ۔ بلکہ اسلام کی عافیت بھی اسی میں خیال کرتی ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت مغرب میں ہو یا مشرق میں، ایک نظام طاغوت ہے اور اس میں شرکت شرعاً حرام ہے، اتنی بات تو سمجھ آنا آسان ہے۔ مگر کچھ لوگ اس نظام شرک میں شمولیت اختیار کرنا اور مشرکانہ عقائد اور نظریات رکھنے والوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی خیرخواہی کرنا مقصود ہے۔ اگر وہ سمجھیں تو اسلام کی خیرخواہی یہی ہے کہ اسلام کو اور اسکے سب احکام کو اپنی اصل حالت میں رہنے دیا جائے اور مشرکوں سے اسلام کی ازلی دشمنی بحال رکھی جائے۔ بنا بریں عالم اسلام میں ایک عرصہ سے جو بحث چل رہی ہے وہ یہ نہیں کہ آیا سیکولر اور لا دین جماعتوں کی اس طاغوتی نظام میں شرکت یا تعاون جائز ہے یا ناجائز! بلکہ اصل جھگڑا یہ ہے کہ اسلامی جماعتیں ، اسلام کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے، کسی شرکیہ اکٹھ میں شمولیت یا اس سے تعاون کی شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟ "
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
’’الاصالۃ‘‘ / شمارہ بابت جمادی الثانیۃ ۱۴۱۳ھ /صفحہ ۱۶ تا ۲۴
’’الاصالۃ‘‘ / شمارہ بابت جمادی الثانیۃ ۱۴۱۳ھ /صفحہ ۱۶ تا ۲۴
Post a Comment